اور آنا ہمارا ہوسٹل میں

اکثر بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
میں میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہو
ہم اپنی ناکارہ خواہشا ت میں اتنے ہی گم تھے کسی زمانے میں۔اب تو ہم پھر بھی ٹھیک ہو گئے ہیں۔

ذرا سو چیں کہ اگر کسی اندھے کو سوئی میں دھاگا ڈالنے کا کہا جائے تو وہ قیامت تک نہیں ڈال سکتا۔ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا، ہم بھی ’’اندھے ‘‘ واقع ہوئے۔لیکن افسوس ہماری نابینائی ہمیشہ ہم سے چھپی رہی۔اس سب کے باوجود اماں ابا کے بے شمار ڈنڈوں اور زور کے بعد ہم نے ہار مان لی اور ہم
Pakistan Institute of Community Ophthalmology(PICO) آگئے۔PICO میں ہمارا آنا بیک وقت ایک مزاحیہ اور دردناک المیہ تھا۔
درد ہو دل میں تو دوا کیجئے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجئے۔

میں آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ہم ایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے بعد PICO میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے اور جب ہم 27 جنوری کو پہلی بار ہلاکو خان کی فوجوں کی طرح وارد ہوئے۔ہتھیاروں کے طور پر ہمارے پاس بستر ، کپڑے اور برتن تھے۔ہم جیسوں کے پاس ایسے ہی ہتھیار ہو سکتے ہیں۔

جب ہم نے پہلی بار PICO GIRLS ہاسٹل کا دیدار کیا تو ہماری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی کیونکہ ہماری آنکھوں نے جو ہولناک مناظر دیکھے انھیں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ہم نے ’’ہاسٹل ‘‘ اور ’’ہاسٹل لائف‘‘کا جو خاکہ بنایا تھا وہ اتنا اچھا نہیں تو اتنا ـبرا بھی نہیں تھا۔ہم پہ یہ محاورہ صحیح ثابت ہوا ’’آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹکے‘‘۔

جب ہم ہاسٹل کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو تمام لڑکیوں نے ہمیں دیکھا کم اور گھورا زیادہ جیسے ہمارے سر پر دو سینگ نکل آئیں ہوں اور ہاتھی کی طرح ہماری ناک نے سونڈ کی شکل اختیار کر لی ہو۔ اگر ہم خدا ناخواستہ ایسے ہو جائیں تو ہم کون سا جانور بنیں گے شاید وہ جو کبھی دنیا میں پیدا نہ ہوا ہو۔

جب ہم نے اپنے رہنے کے کمرے کا نظارہ کیا تو ہمارا یہ حال ہوا۔
ہم وہاں ہیں جہاں پر ہمیں
کچھ اپنی بھی خبر نہیں آتی۔

اپنے کمرے کے اترے ہوئے پلستر کو دیکھ کر ہمارا دل خون کے آنسو رو دیا۔جیسے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ بدل کر ـ’’پاکستان سے زندہ بھاگ‘‘بن گیا ہے ایسے ہی ہمارے دل نے کہا ’’PICO سے زندہ بھاگ‘‘۔ پر ہم PICO میں رہنے پر مجبور اس لیے تھے کیونکہ ہمیں ڈاکٹری کے نام پر بہت بے وقوف بنا گیا اور نکلنے کی صورت میں ہماری انا ّ پر بھی ضرب لگتی تھی جو ہمیں منظور نہیں تھی
خود کو اپنا رقیب دیکھا ہے

خواب کتنا عجیب دیکھا ہے ہاسٹل لائف میں ہم پر پہلی تنقید سونے ہاسٹل لائف میں ہم پر پہلی تنقید سونے پر ہوئی شاید اس زمانے میں ہم سوئے بھی بہت ،پر ہم بھی کیا کریں ہماری نیند کا یہ حال ہے۔
نہیں آتی یاد اُن کی تو مہینوں نہیں آتی
اور جب یاد آتے ہیں تو اکژ ہی یاد آتے ہیں۔

اس کے بعدہم پر تنقید کی بوچھاڑ ہوئی اس کے بارے ہم یہی کہہ سکتے ہیں
میں وہ کس طرح سے کروں بیان جو کیے گئے ہیں ستم یہاں
سنے کون میری یہ داستان کوئی ہم نشین ہے نہ راز دان

PICO میں جب ہم نے کلاسس کا باقاعدہ آغاز کیا تو سب کچھ ہمارے سر کے اوپر سے گزر گیاخصوصا BIOCHEMISTRY ۔ یہ مضمون تو ہمارے سر سے ایسے گزرا جیسے آسمان سے شور کرتا ہوا ہوائی جہاز گزرتاہے۔جو پلک جھپکتے ہی آنکھ سے اوجھل ہوجاتاہے۔

لیکن ہم بھی بہت ڈھیٹ واقع ہوئے تھے۔ ہر روز خوب کریمیں لگا کر اور نئے نئے کپڑے بدل کر (کیوں کہ اس وقت یونیفارم نہیں تھا)ہم ہر روزPICO آجاتے۔ سب کچھ ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتا۔ہم ہاسٹل واپس آکر اماں کے دیے ہوئے بسکٹوں پر گزارا کرتے اور ایسے گھوڑے گدھے بیچ کر سو جاتے جیسے ہم نے’’ قلعہ خیبر‘‘ فتح کیا ہو۔
افسوس بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ۔ہم پڑھائی پر آخر کار صدقے واری ہو ہی گئے، پڑھائی کے معاملے میں اب ہمارا یہ حال ہے۔
میں جس دن بھلا دوں تیرا پیار دل سے
وہ دن آخری ہو میری زندگی کا۔

ہاسٹل لائف میں ہمیں بہت بے وقوف بھی بنایا گیا۔ہم چونکہ ’’مولوی‘‘ واقع ہوئے تھے اور ہمارے اردگرد کے لوگوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی، اسی لیے ایک بار ہماری دونوں ’’بدتہذیب‘‘ اور ’’بدتمیز‘‘ رومیٹس نے کہا کہ تمہیں ایک گانا سناتے ہیں ، اُس گانے کے بول تھے
’’آج پھر تم پہ پیار آیا ہے‘‘

ان دونوں نے مجھے کہا کہ اس گانے کی ویڈیو بہت صاف ستھری ہے کیونکہ اس میں ایک لڑکا ایک لڑکی کے ایمان سے متاثر ہے۔وہ لڑکی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے۔ا یسے کمال سے مجھ سے جھوٹ بولا گیا کہ میں اُن کی باتوں میں آ گئی۔جب ہم نے ویڈیو دیکھی تو ہم سرخ و سفید ہو گئے کیونکہ ہماری آنکھوں نے جو دیکھا وہ اس سے بالکل مختلف تھا جو ہمیں بتایا گیا۔اگلے کئی دن تک میری رومیٹس مجھ پر ہنستی رہیں اور میں کہتی رہی ’’استغفراﷲ‘‘ یہ کیا بے ہودگی ہے۔
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا
انھیں کوئی یہ بتا دے مقام اونچا ہے سادگی کا

اس کے علاوہ جو ہمارے ساتھ ہوا اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں۔
’’پردے رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ‘‘۔۔۔۔

ایک اہم بات یہ جو ہم ہمیشہ کی طرح بھول گئے کہ پاکستانیوں کو اردو نہیں آتی اور ہم اردو میں مضمون لکھنے کی حماقت کر چکے ہیں، ہمارے خاندان کے بہت سے افراد کو بھی اردو نہیں آتی۔ ایک بار اپنے خاندان کے ایک بچے کا اردو کا پرچہ دیکھنے کا ہمیں اتفاق ہوا تو اُس نے ’’بیوی‘‘ کو ایسے لکھا تھا ’’بی وی‘‘ اور ہم اردو کی اس تو ہین پر جل بھن کر رہ گئے تھے۔

PICO ہم نے کئی کم عقلیوں کا مظاہرہ کیا بہت سی تو اب ہمیں یاد بھی نہیں۔

ایک بات جو ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ انسان ساری زندگی سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے ۔ PICO اور ’’ ہاسٹل لائف ‘‘ہمارے لئے ایک تجربہ ہے اس تجربے سے ہم نے بہت کچھ سیکھا بھی اور اپنی زندگی کا بدترین اور بہترین وقت ہم نے ہاسٹل میں ہی گزارا۔ ہاسٹل میں گزارے گئے دن رات ہمیں انسانی نفسیات کا مزید باریکی سے مشاہدہ کرنے پر مجبور کر گئے اور ہمیں لوگوں کے ساتھ چلنا اور تحمل مزاج بنا گئے۔ باقی زندگی کا کھیل تو سارا یہی ہے۔
غم بھی جزو زندگی ہے لیکن
زندگی اشک و آہ نہیں

Khadija tul Qubra
About the Author: Khadija tul Qubra Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.