بارشوں کی تباہ کاریاں....حفاظتی انتظامات نا پید

ملک کے مختلف حصوں میں کئی روز سے موسلادھار بارشیں جاری ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کے اس سلسلے میں ابھی مزید کچھ طوالت اختیار کرنے کا امکان ہے۔ پنجاب و خیبرپختونخوا میں گزشتہ چند دنوں سے جاری بارشوں کی وجہ سے سردی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں۔ اتوار کے روز پنجاب و خیبرپختونخوا سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشیں اور شدید ژالہ باری ہوئی، جس کے نتیجے میں چار بچوں سمیت 11افراد جان بحق ہوگئے۔ لاہور، فیصل آباد،ننکانہ صاحب، شیخوپورہ، اسلام آباد، جہلم، سرگودھا، چنیوٹ، میانوالی سمیت کئی شہروں میں وقفے وقفے سے ہونے والی بارش اور ڑالہ باری کے باعث فصلوں کو شدید نقصان ہوا اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں ڈوب گئیں۔ درجنوں مکانات اور دیگر کئی عمارتیں بارشوں کی وجہ سے منہدم ہوگئیں۔ تیز ہوا اور آندھی کے باعث کئی درخت اور بجلی کے پول بھی گر گئے۔ بارش کے باعث گلیاں اور بازار کیچڑ سے بھر گئے اور صفائی ستھرائی کا کام نہ ہونے کی وجہ سے پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔ بارش کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں کی معروف شاہراہوں پر ٹریفک جام رہا، جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بارش اور تیز ہواﺅں کے باعث اسٹرےٹ لائٹس کے پول، بجلی کے کھمبے، درخت اور ہورڈنگ بورڈز اکھڑ گئے، جس کی وجہ سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوگےا اور بجلی کا نظام باربار متاثر ہوتا رہا اور کئی سڑکیں بند ہونے سے ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ بارشوں نے پنجاب میں انتظامیہ کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا۔ بارشوں کی وجہ سے پنجاب کا نظام درہم برہم ہونے سے پنجاب انتظامیہ کی انتظامی ”بہتری“ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اس کے ساتھ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشوں نے جہاں ایک طرف سردی میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے، وہیں خیبرپختونخوا میں بارشوں کی وجہ سے کافی زیادہ نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بھی بارش کی وجہ سے سڑکوں نے تالاب کا منظر پیش کر کے انتظامیہ کی ”عمدہ کارکردگی“ سب کے سامنے واضح کردی ہے۔ لواری ٹنل دیر اور چترال سائیڈ پر مختلف مقامات پر برفانی تودے گرنے سے متعدد گاڑیاں پھنس گئیں۔ پاراچنار سمیت کرم ایجنسی کے مختلف علاقوں میں تین روز سے جاری برفباری کے باعث راستے بند اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ ادھر مری اور گردنواح کے علاقوں میں خوب برفباری ہوئی۔ برفباری کے باعث کئی سڑکیں بند اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ موسم کی شدت کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر ایجنسی سمیت قریبی علاقوں میں وقفے وقفے سے موسلا دھار بارش کی وجہ سے سردی بڑھ گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں غذر اور استور میں وقفے وقفے سے ہونے والی برفباری کی وجہ سے بالائی علاقوں کی رابطہ سڑکیں بند ہوگئیں۔ واضح رہے کہ پنجاب و خیبرپختونخوا میں گزشتہ کئی روز سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے شدید بارشوں کی وجہ سے کئی مکانات گرنے کی وجہ سے ایک ہی دن میں ایف سی کے چار اہلکاروں سے سمیت 22افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی موسلادھار بارش سے راول ڈیم میں پانی کی سطح 6 انچ اضافہ کے ساتھ 1748 فٹ تک پہنچ گئی تھی اور نالہ لئی میں پانی کی سطح 14 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے ساتھ دریائے سندھ اور جہلم چڑھنے سے 30 دیہات زیرآب بھی آگئے تھے۔ ہیڈمرالہ میں نچلے درجے کا سیلاب، جبکہ پانی کا بہاؤ ایک لاکھ کیوسک سے بڑھ گیا تھا۔ بارش کے باعث بجلی گیس کی سپلائی بھی بری طرح متاثر ہوئی ، کاروبار اورتجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئیں تھیں۔

پنجاب و خیبرپختونخوا میں ہونے والی بارشوں کے دوران دونوں صوبوں کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاص حفاظتی انتظامات دیکھنے میں نہیں آئے، بلکہ ناقص انتظامات کی وجہ سے دونوں صوبوں میں نقصانات زیادہ ہوئے ہیں۔ پاکستان میں وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں بارش کے حوالے سے حفاظتی انتظامات کرنے میں انتہائی سستی سے کام لیتی ہیں۔ وقتاً فوقتاً بارشوں میں ہونے والی اموات بھی حکومت کی آنکھیں نہیں کھول پاتیں۔ پاکستان میں بارشوں سیلابوں اور قدرتی آفات کے حوالے سے حفاظتی انتظامات کرنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ موجود ہے۔ جس کا سالانہ بھاری بھرکم خرچہ بھی ہے، لیکن اس کے باوجود نہ تو بارشوں و سیلابوں کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات میں کمی آتی ہے اور نہ ہی یہ ادارہ کوئی بہتر منصوبہ بندی کرتا ہے۔ پاکستان میں بارشوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور تمام صوبائی حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو فعال کرے تاکہ بہتر سے بہتر منصوبہ بندی کرکے بارشوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکے۔ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں ہر سال بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے قیمتی جانوں کا کافی زیادہ نقصان ہوتا ہے اور فصلیں بھی تباہ ہوجاتی ہیں۔ لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔ شہروں میں بارشوں کے باعث معمولات زندگی معطل ہو جاتی ہے۔ گلیاں ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ سیوریج سسٹم بیٹھ جاتا ہے اور گندے نالے ابلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر لگے سائن بورڈ اور بجلی کے پول اکھڑ جاتے ہیں، جس سے جگہ جگہ بجلی کی تاروں کا جال بچھا دکھائی دیتا ہے اور اس سے بہت زیادہ جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ سب کچھ حکومتی نا اہلی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر حکومت عوامی اداروں کو مضبوط کرے اور انتظامیہ کو بہتر کارکردگی پیش کرنے پر دباﺅ بڑھائے اور اپنے بڑے بڑے محلات سے نکل کر غریب عوام کے جھونپڑیوں کا بھی خیال کرے تو ایسی صورت حال پیدا نہ ہو۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور پشاور جیسے شہروں میں لوگوں نے ایسی جگہ آبادیاں قائم کی ہوئی ہیں، جو نشیبی علاقے ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معمولی بارشوں سے بھی نشیبی آبادیاں پانی سے بھر جاتی ہیں۔ گندے نالوں کی صفائی کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ دیہات میں جو سیم نالے بنائے گئے تھے، انھیں بھی کبھی صاف نہیں کیا جاتا، جس سے ہوتا یہ ہے کہ بارشوں سے صرف غریبوں ہی متاثر ہوتے ہیں، اس لیے حکومت کو ان کی تباہی کا ادراک نہیں ہوتا۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بارش کی تباہ کاریاں اہل وطن کے لیے نئی بات نہیں ہے۔ ہر سال بارشوں میں بہت سے لوگ اور شہری و دیہی علاقے تباہی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مکانات منہدم، کھڑی فصلیں برباد اور لاکھوں ہم وطن بے گھر ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے والے اقدامات و انتظامات اور اس سے پیدا شدہ مکمل انتظامی ناکامی سے متعلقہ حکومتی محکموں، ریاستی اداروں، فلڈ ریلیف کمیشن، ماحولیاتی ایجنسی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کرتا دھرتاؤں کے ضمیر میں کوئی خلش تک پیدا نہیں ہوتی، جب کہ محکمہ موسمیات کی یومیہ پیش گوئیاں ہوتی ہیں، جن کا مقصد حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں کو خبردار کرنا ہوتا ہے، مگر پاکستان میں بارشیں اکثر باعث زحمت قرار دی جاتی ہیں۔ نہ فصلوں کے حیات نو اور زراعت کی بالیدگی کے لیے رین ایمرجنسی کام آتی ہے اور نہ سبزے، مویشیوں کے چارے، اجناس، پھل، پھول اور سبزیوں کی کاشت کے لیے فطرت کی فراخدلی اور برستے پانی سے استفادے کا کوئی مستقل میکنزم بنایا جاتا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں ہر چیز ہی سیاست زدہ ہو گئی، نہ ٹریفک اور مواصلات کا نظام معطل ہونے کی مضحکہ خیز صورتحال کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور نہ سیوریج، ڈرین سسٹم، برساتی نالوں کی بروقت صفائی اور نکاسی آب کی جدید خطوط پر ڈیزائننگ پر توجہ دی جاتی ہے۔ اگر ماسٹر پلان بنائے جائیں تو کہیں بھی سڑکیں تالاب اور نشیبی علاقے جھیلوں کا منظر پیش کرتے دکھائی نہ دیں۔ یہ کام گڈ گورننس ہو تبھی انجام پاتے ہیں۔ ساری دنیا میں بارشیں آتی ہیں، لیکن کہیں یوں تباہی نہیں مچتی جیسے پاکستان میں ہوتا ہے کہ بارشوں کی وجہ سے ایک ایک دن میں 20,25 افراد جاں بحق ہوجائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں پہلے سے ہی تمام حفاظتی انتظامات مکمل کر لیے جاتے ہیں اور جو منصوبے بنائے جاتے ہیں ان پر عمل درآمد کرنا ضروری قرار پاتا ہے۔ اپنے ذمے داری پوری کرنے میں سستی کرنے والے انتظامی اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے ،لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ حکومتی ارکان اپنے مفادات کی خاطر تو سارا سال متحرک دکھائی دیتے ہیں، لیکن اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے عوامی کام کرتے دکھائی نہیں دیتے اور نہ کبھی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں میں کمی لانے کے لیے کوئی مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 639994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.