عالمی یوم خواتین کے موقع پر ۰۰۰۰۰۰

۸مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے ۔ اسلام چوں کہ خواتین کے معاملہ میں بڑا متشدد سمجہا جاتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ چند باتیں موقع کے مناسبت سے عرض کر دی جائیں۔جن لوگوں کی عقلوں پر پردے نہ پڑے ہوں اور انہوں نے کسی حد تک تاریخ عالم کا مطالعہ بھی کیا ہو، وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ جس وقت خلاصہ کائنات کی بعثت ہوئی ، عورت کے وجود تک کے متعلق غور وفکر کیا جا رہا تھا کہ یہ انسان ہے بھی یا اسے صرف انسان [مرد]کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟داماد کے نخرے برداشت کرنے کے خوف سے بچی کے پیدا ہوتے ہی اس کا سگا باپ اسے زندہ درگور کر دیتا تھا۔اسلام نے اس انسان کو بتلایا کہ ایک بیٹی کی بھی صحیح پرورش کرنے پر اسے جنت میں حبیب خدا ، رسول اللہ ﷺکی معیت نصیب ہوگی،جو بھائی اپنی بہن کی پرورش وپرداخت میں حصہ لے گا ، اس کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ ماں کے تو قدموں کے نیچے جنت ہے۔اسلام ہی کی تعلیم ہے کہ بیوی کے منہ میں محبت کے ساتھ ، شوہر کا لقمہ رکھ دینا بھی دو رکعت نفل نماز کے برابر ہے۔ اسلام نے بیٹی کے اخراجات ، والد پر، بہن کے اخراجات بھائی پر ، بیوی کے اخراجات شوہر پر اور ماں کے اخراجات بیٹے پر ڈال کر نیز وراثت میں اس کا حصہ جاری کرکے عورت کومعاشی فکر سے بالکل آزاد کر دیا ہے۔ زندگی اجیرن ہونے کی صورت میں اس کے لیے طلاق و خلع کا راستہ کھلا رکھا۔ بیوہ کو ایک بارپھر زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا حوصلہ دیا اور اس کی اس بشری ضرورت کا لحاظ رکھنے کا اس کے اہل خانہ کو پابند بنایا۔ کہیں باہر آنے جانے کے لیے کسی نہ کسی محرم کو اس کی حفاظت کے لیے ساتھ جانے کو لازم قرار دیا ۔ ان سب کے با وجود خدا جانے وہ لوگ کیسے نابینا ہوتے ہیں جو اس قدر واضح تعلیمات کے بعد بھی حقوق نسواں کے نام پراسلام پر پھبتی کستے ہیں کہ اسلام نےعورت کو مقید کر دیا ، اس کی آزادی صلب کر لی ، اور اس کے حقوق کی پامالی کی ، وغیرہ وغیرہ۔

اسلام دین فطرت اور دین الٰہی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام کائنات کے خالق ہیں ۔اللہ تعالیٰ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سی باتیں اور کون سی چیزیں اس کی تخلیق کردہ مخلوق کے لیے نفع بخش ہیں اور کون سی چیزیں ضرر رسا ؟ اس لیے اس رب کائنات نے محض اپنے فضل و احسانسے ، حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے خطوط کو بھی واضح کر دیا ۔ اسلام وہ مذہب ہے جو عورت کو تمام مذاہب سے زیادہ حقوق دیتا ہے، ہاں انہیں مردوں کے برابر لاکر کھڑا نہیں کرتا بلکہ ان کے صنفی امتیاز کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں ان کے حقوق کا فائدہ پہنچاتا ہے، اور تمام عقلاء کے نزدیک یہی صحیح بھی ہے ۔ اس لیے کہ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا کہاں کا انصاف ہے ؟

اسلام سب کے ساتھ انصاف کا قائل ہے نہ کہ برابری کا ، اوراسی میں سب کے لیے عافیت بھی ہے ۔ بھلا کون عقل مند اس پر راضی ہو سکتا ہے کہ ماں اور بیوی کو یا بیوی اور بہن کو یکساں حقوق دیے جائیں ؟ ہاں سب کو ان کے حقوق دیے جانے چاہئیں ۔ اسلام بھی یہی چاہتا ہے ، اس لیے وہ سب کے مقام کا لحاظ کرتے ہوئے حقوق کی ادائیگی کی دعوت دیتا ہے ۔ اسلام کی نظر میں مرد ، مرد ہے اور عورت ، عورت ۔ دونوں آپس میں ایک دوسرے کا تکملہ اور تتمہ تو ہیں لیکن ایک دوسرے کا مثنیٰ اور نقل نہیں ۔ حقوق نسواں کا دم بھرنے والے بعض حضرات اپنے موقف کی دلیل دیتے ہیں کہ عورت و مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ، دونوں کی حیثیت برابر ہے، خدا جانے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ گاڑی کے دونوں پہیوں کی اپنی متعین جگہ ہوتی ہے ، اگر دونوں پہیے غلطی سی بھی ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو گاڑی ایک قدم بھی نہیں چل سکتی ، بلکہ فورا گرپڑے گی ۔ بس ایسے ہی عورت و مرد کا معاملہ ہے ، دونوں کے کچھ خصوصی امتیازات ، مناصب اور ذمہ داریاں ہیں ۔ جب تک یہ دونوں اپنے مناصب و ذمہ داریوں کا لحاظ رکھیں گےدنیا کا کاروبار بجا طور پر چلتا رہے گا اور جب اس حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی جائے گی توعدم توازن اوراس کے برے ثمرات کا وقوع پذیر ہونا لازمی ہے ۔عورت و مرد میں جس حد تک مساوات ممکن تھی اسلام نے اس سے ہرگز روگردانی نہیں کی ، لیکن جہاں یہ مساوات قانون فطرت اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون عدل کے معارض ہو ، اسلام اس کا قائل نہیں ۔ اب تو نفسیات اور حیاتیات وغیرہ کے ماہرین نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ عورتیں ، مرد کے مقابلہ میں فطری طور پر منفعل مزاج ، عجلت پسند اور اعصابی طور پر نازک واقع ہوئی ہیں ۔ اس حقیقت سے انحراف کرنے اور فطرت سے بغاوت کرنے کا خمیازہ انسان کو ہمیشہ بھگتنا پڑا ہے ۔آج دنیا میں ہرسُواسی غلو کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔

اس مضمون کو ہدیہ قارئین کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سماج میں مرد وعورت ، دونوں میں سے کسی کی صنفی خصوصیات کو مجروح نہ کیا جائے ، اور ہر دو کی مخصوص صلاحیتوں کو پوری طرح بہ روئے کار لانے کا پورا موقع فراہم کیا جائے ، تاکہ عورت و مرد دونوں پوری جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہیں ۔ کیوں کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ دونوں میں سے کوئی نہ احساس برتری کا شکار ہو اور نہ احساس کمتری کا ۔ واللہ ھو الموفق
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 310221 views (M.A., Journalist).. View More