خواتین کا عالمی دن اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی

خواتین کا عالمی دن ان بے شمار دنوں کی طرح بڑے جوش و خروش سے منایاجاتاہے جو امریکہ میں موجود اقوام عالم کے ادارے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جاتے ہیں۔سال کے 365 دنوں کو اس ادارے نے کسی نہ کسی مناسبت سے منانے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ ایک چارٹر مرتب کیا گیا ہے جس کااطلاق تمام ممالک پر ہوتا ہے لہذا اس چارٹر پر عملدرآمد ہر رکن ملک کو کرنا ہے۔ ان ایام کومنانے کا مقصد اس روز اس مضمون کو خصوصیت کے ساتھ اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کثیر رقم بھی خرچ کرتی ہے۔

تاہم یہ امر قابل افسوس ہے کہ اقوام متحدہ ان ایام کو تو منواتی ہے لیکن اس روز ان تقریبات کے دوران پیش کی جانے والی باتوں اور قرار دادوں پر کوئی عملرآمد نہیں کراتی۔ ایسے کئی حل طلب معاملات ہیں جو کہ اقوام متحدہ حل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس تناظر میں اگر اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے قیام کے مقاصد میں ناکام ہوگئی ہے۔ آج کے دور میں اقوام متحدہ مخص چند ممالک کے باندھی بن کر رہ گئی ہے۔ اسی تناظر میں بات کو آگے بڑھایاجائے تو یہ نقطہ سامنے آتاہے کہ اقوام متحدہ کی ناکامی میں سب سے زیادہ کردار امریکہ کا ہے ۔ اقوام متحدہ کے قریبا سبھی دفاتر امریکہ کے مختلف شہروں میں ہیں۔ جب اقوام متحدہ کے کسی بھی قرار داد کا اثر امریکہ میں نہیں ہوپاتا تو باقی دنیا کے ممالک میں کیسے ممکن ہو گا َ؟

اس وقت عالمی سطح پر امریکہ خود ساختہ سپر پاور بنا بیٹھا ہے جہاں اس کی مرضی ہوتی ہے اسی طرح کے فیصلے نہ صرف اقوام متحدہ سے کراتا اوران پر عمل بھی کراتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ خود امریکہ بہادر ان فیصلوں پر عمل نہیں کرتابلکہ وہ ان تمام اصولوں اور فیصلوں سے خود کو ماورا سمجتھا ہے۔ جس کا خمیازہ ترقی پذیر اور غیرب ممالک کو سہنا پڑتا ہے۔

آج اقوام متحدہ کے زیر اہتمام امریکہ سیمت تمام اقوام عالم میں عورتوں کا عالمی دن منایاجارہاہے۔ اس حوالے سے امریکہ اور دیگر سبھی ممالک میں عورتوں کے حقوق کی نام نہاد این جی اووز بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام کرکے خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر تلخ حقیقت اور کیا ہوگی کہ آج امریکہ جو خود کو انسانی حقوق کا سرخیل سمجتھا ہے آج اسی کے ملک میں گذشتہ کئی برسوں دختر امت مسلمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پابند سلاسل ہے۔ اسے ایسے جرائم کی سزا سنائی اور دی جارہی ہے جو اس پر ثابت نہیں ہوئے ۔

کف ہے ان تمام انسانی حقوق کی تنظیموں پر جو ایک مظلوم عورت کو ظالم اور جابر امریکہ سے چھڑا نہیں سکتے۔ اس سے بڑھ کر شرم کا مقام ہے ان تمام اسلامی ممالک کے سربراہان پر جو طاقتور ہونے کے باوجود امریکہ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں۔ انہیں اپنے اسلاف کے کارنامے کیونکر بھول گئے ہیں ؟ اور اس سے بھی بڑھ کر شرم ہی نہیں قابل مذمت ہے پاکستان کے حکمرانوں کا کردار جو واحد ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اپنی ایک شہری کو جو بے گناہ بھی اور مظلوم بھی اسے امریکہ کی قید سے رہانہیں کرواسکی ہے۔ خود امریکہ کا تو یہ عالم ہے کہ اس کا شہری اگر دن دھاڑے تین افراد کو قتل بھی کردے تب بھی اسے وٹوکول کے کے ساتھ اپنے ملک واپس لے جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر نہیں معلوم انسانی حقوق والے کہاں چلے جاتے ہیں؟حکمرانوں کی منافقت کا معاملہ تو یہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف امریکہ جانے سے پہلے عافیہ کے اہل خانہ سے ملتے ہیں اور انکی بوڑھی ماں سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ امریکی صدر اوبامہ سے عافیہ کے حوالے سے بات کرینگے اور جب وہ اوبامہ کے سامنے جاتے ہیں تو عافیہ کی رہائی کی بات کرنا درکنار ان کے حوالے سے کوئی بات تک نہیں کرتے۔ ایسے ملک کے سربراہ سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ آج چند لمحوں کیلئے ہی سہی اگر یہ گمان کرلیں کہ عافیہ کی جگہ ان کی اپنی بیٹی مریم ہوتی ، تو ان کا رویہ کیسا ہوتا؟ خود مریم نواز کا معاملہ ہے یہ کہ گذشتہ برس لاپتہ افراد کے متاثرین اسلام آباد میں محو احتجاج تھے ، ان میں بچے بوڑھے ، جوان اور خواتین سبھی شامل تھے ، پر امن اختجاج پر انتظامیہ ایسے ٹوٹ پڑی جیسے دشمن پر حملہ آور ہواجاتا ہے۔ مریم نواز ، زخمی امنہ مسعود جنجوعہ سے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں اور ان سے وعدہ کرتی ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف ایکشن ہوگا۔ احتجاج کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی تھی تاہم کوئی بھی خواتین کی این جی ان کے حق میں آواز بلند کرنے کیلئے میدان میں نہیں آئیں۔ رہا مریم نواز کا وعدہ تو وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں جس طرح نواز شریف نے عافیہ کی والدہ سے کیا گیا وعدہ پورانہیں کیا اسی طرح مریم نے بھی امنہ مسعود جنجوعہ سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا۔

گذشتہ ماہ ۸ فروری کو جب مزار قائد پر عافیہ موومنٹ کے زیر اہتمام پہلا قومی جرگہ ہوا ، اس جرگہ میں قریبا سبھی سیاسی ، مذہبی ، سماجی جماعتوں نے شرکت کر کے عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تو دوران جرگہ ہی وزیر اعظم ہاؤس سے عافیہ کے اہل خانہ کے پاس فون آیا جس میں انہیں تسلی مائی سین کا انجیکشن لگاتے ہوئے یہ کہا گیا کہ میاں صاحب عافیہ کو بھولے نہیں ہیں۔ بہرحال وزیر اعظم ہوں یا صدر ، یا اس ملک کے عوام، یا امت مسلمہ کے حکمران ہوں یا پھر دنیا بھر کے تمام مسلمان سبھی عافیہ کے معاملے پر خدا کے خضور جوابدہ ہوں گے۔ عافیہ کی رہائی ان سب کیلئے فرض بھی اور اک قرض بھی۔

اور رہی عافیہ صدیقی تو وہ آج کے دن سراپا سوال ہے اقوام متحدہ سے ، انسانی حقوق کی نمائندہ تنظیموں سے ، عالمی اقوام سے ، امت مسلمہ سے کہ آج جوخواتین کا عالمی دن منارہے ہیں ، حقوق کی بات کررہے ہیں ، تو کیا میں (عافیہ ) ایک عورت نہیں ہوں؟ ایک ماں ، ایک بیٹی ، ایک بہن نہیں۔اگر ان سب سوالوں کا جوا ب ا ثبات میں ہے تو پھر میں پس زنداں کیوں ؟ مجھے کس جرم میں ۸۶ برسوں کی سزا دی جارہی ہے؟ مجھے عورت کے ناطے کیوں کر وہ سب حقوق حاصل نہیں جن کیلئے آج کا دن منایاجارہاہے؟ کیوں کر مجھے میری بوڑھی ماں ، اور معصوم بچوں سے دور اس کال کوٹھری میں رکھا گیا ہے؟ یہ سوالات اور ایسے ہی ان گنت سوال آج کے دن ہر اس مرد و زن سے ہیں جو آج عورتوں کے عالمی دن کو منارہے ہیں، کوئی جواب۔۔۔۔۔
Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 164035 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More