اردو ادب کے چچا اور تایا

زمانہ ہوا اردو ادب والوں کو مرزا اسداﷲ خاں غالبؔ کی شکل میں چچا ملا ۔ اس چچا کا واقعی زمانے بھر میں کوئی جواب نہیں۔دنیا کا کوئی شاعر ہماری نظر میں غالبؔ سے ٹکرانا تو دور کی بات’ کھیہ‘ بھی نہیں سکتا۔اس پر کسی کو اعتراض یا تحفظات ہوں ہم ان کو چیلنج نہیں کرتے ،کیوں کہ یہ ہماری پسندیدگی کی جانبدار رائے ہے جس کا اظہار کرنے کا ہم اخلاقی جواز رکھتے ہیں کیوں کہ ہم کسی کو برا نہ کہتے ہوئے اپنی رائے کاحق رکھتے ہیں ۔ویسے بھی ہماری تائید کرنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں ہو گے جن کے ساتھ ہمیں اپنی رائے کے اظہار کااور بھی حوصلہ ملے گا۔

ہم بچپن سے چچا غالبؔ چچا غالبؔ سنتے آئے ہیں اور اب ہم بڑہاپے کی دہلیز کے اندر قدم ٹکانے کے قریب ہیں۔ ہمارے بال تو ہمیں دس سال پہلے ہی بڑھاپے کی وعید سن چکے ہیں لیکن ہم اس جیتی جاگتی حقیقت کو آسانی سے ماننے پر تیار نہیں ہیں۔ ویسے کوئی بھی ہمیں سختی سے کوئی بات منوائے تو ہم فوراً مان جاتے ہیں اور اگر کوئی منوانے کے لئے منتوں کا سہارا لے تو ہم کہاں ماننے والے ہیں۔ بالکل نہیں مانتے جیسے بالوں کی یہ بات۔ ہم کلر لگا کر بالوں کی بات بیس منٹ کے اندر اندر غلط ثابت کر دیتے ہیں، تو ہم کیوں مانیں۔ ہم بات کر رہے تھے کہ چچا غالبؔ کی ترکیب ہم بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں،اور شاید نہیں بلکہ یقیناً دمِ واپسیں تک بھی سنتے رہیں گے۔ ہر بار جب ہم یہ ترکیب سنتے ہیں تو ہمیں اور اور ترکیب بھی ذہن کی کھڑکی پر دستک دیتی ہوئی سنائی دیتی ہے اور وہ ہے کہ’ تایا‘ جی کہاں ہیں۔ اردو ادب کے محل میں اگر چچاغالبؔ ایک کمرے میں براجمان اپنا ہوکا شریف پی رہے ہیں تو پھر تایا جی کا کمرہ کیوں ویران پڑا ’ ہو‘ کا وظیفہ پڑھ رہا ہے آخر اس تایا جی کو تلاش کیا جائے۔ ہم تو باقی خاندان کی تلاش میں بھی سر گرداں ہونے کو تیار ہیں، لیکن پہلے ’چچا‘ سے بات کرنے والا ’تایا‘ تو تلاش کر لیا جائے تا کہ دونوں بیٹھے آپس میں کوئی دکھ سکھ ’پھرول‘ سکیں اور یوں بوریت سے بچے رہیں۔اگر ہم’ چچا‘کو اکیلا بھی چھوڑ دیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ وہ بجائے خود ایک محشر خیال ہیں، اور خلوت کو بھی جلوت سمجھ لیتے ہیں یا بنا لیتے ہیں۔ لیکن تایا کی تلاش اور جستجو بہت ضروری ہے۔

چچاغالبؔ کو چچا کہنا بہت ہی معقول ہے ، وہ جس قسم کے بندے ہیں ان کے لئے چچا سے بہتر استعارہ سمجھ نہیں آتا۔ ان کی شوخی، ظرافت، معرفت،جلال،کمال،گہرائی، پرواز،ندرت، سیادت، فصاحت وغیرہ ہر چیز کا مرقع چچا کے استعارے میں سرایت کر جاتا ہے۔ انہیں تایا کہنے کوجی نہیں چاہتا کہ تایا اتنا بے باک اور ظریف نہیں ہو سکتا۔ ان کی بابا، دادا کی طرح عزت کرنے کو جی بھی نہیں چاہتا کہ وہ تو ہم سے بھی زیادہ ظر یف اور شریر لگتے ہیں:
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے۔۔۔
سرمے سے تیز دشنہء مژگاں کئے ہوئے۔۔۔۔۔
ہم تمھیں ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا۔۔۔۔۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔۔۔۔۔
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔۔۔۔۔۔

وہ ہمارا ہم عصر بھی نہیں لگتا کہ کوئی ہم عصر اتنا با اثر کب ہوتا ہے وہ تو ہمارے تعصب کے نشانہ بنے بنا رہ ہی نہیں پاتا، ادھر غالبؔ سے تعصب کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔کیا بلا کا شاعر ہے کہ جس کو مانے نہ بنے!
یہ باتیں تو سارے ہی جانتے اور مانتے ہیں، ہمارا مسئلہ تو تایا کا ہے کہ اردو ادب کا ’تایا‘ بھی ہونا چاہئے۔اس سے کسی کو انکا ر یا اعتراض ہو اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ہم اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں آپ اپنی رائے محفوظ رکھیں۔

ہماری رائے نہیں پہلے ’تایا ‘ کا استعارہ تراش لینا چاہئے تا کہ پھر دیکھا جائے کہ یہ کس کس پر صادق آ سکتا ہے۔ تایا ایک سنجیدہ طبیعت کا نام ہے جو ہر وقت نصیحت وصیت میں لگا رہتا ہے۔ تایا ایک جہاں دیدہ شخصیت ہے جو زمانے کے رازو نیاز سے اچھی طرح واقفیت سے روشناس ہوتا ہے۔ تایا ایک ایسی ہستی ہے جس کے سامنے آتے ہی شوخی دبے پاؤں بھاگ جاتی ہے۔تایا ایک ایسا انسان ہے جو ہر وقت غیر مطمئن رویہ اپنا تا ہے۔ تایا کی ایک صفت حکمت بھی ہو سکتی ہے اکثر تائے بچوں کو صحت سے متعلق بھی ’مت‘ دیتے رہتے ہیں۔خیر اس میں اور باتیں بھی جمع کی جاسکتی ہیں۔

اگر ہم ’تایا ‘کا یہ استعارہ تراش کر اردو ادب پر سرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں کئی ایک تائے نظر آتے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہو سکتے ہیں، حتمی تایا کا انتخاب ہم بعد میں کریں گے۔ ایک تو میرؔ صاحب ہیں جن کی شاعری ہر زمانے میں’ آہ‘ سے لبریز رہی ہے، ایک میر دردؔ صاحب ہیں دنیا اور آخرت کی دانش سے بھرپور خیالات کا شاعرانہ اظہار رکھتے ہیں، ایک بڑا نام حکیم الامت علامہ محمداقبال کا ہے۔ آپ مجھ سے کہیں بہتر جانتے ہیں اور کئی اور شاعروں کو بھی تایا کا امیدوار بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ ہم چونکہ زیادہ نہیں جانتے اس لئے ہم نے انہی تین پر اکتفا کیا ہے۔

میرؔ تقی اور میردردؔ صاحبان تو دونوں پرانے ہو چکے ہیں۔ نئے لوگ ان کو زیادہ واقفیت میں نہیں رکھتے۔ لیکن اقبالؔ کو تو غالبؔ کی طرح ہر اچھا برا شخص اچھی طرح جانتا ہے۔اور ابھی ان دونوں کی زندگیاں بھی بہت پڑی ہیں۔غالب ؔ مشرق و مغرب پر محیط ہے تو اقبالؔ بھی کس سے کم ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اقبالؔ نے غالبؔ کی تعریف کی ہے۔ لیکن وہ خود بھی تو کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے۔اقبال ؔ نے سنجیدہ طبیعت اختیار کی ہے( شاعری کے حوالے سے)اور بچوں(قوم) کو حکمت بھی دی ہے کہ کس طرح اپنی صحت کو اچھا رکھا جا سکتا ہے۔اقبال ؔ کا خیال شوخی کے لئے لاحول۔۔ کا درجہ بھی رکھتا ہے۔

اقبالؔ نے دنیا بھی پھری ہے اور وہ جہاندیدہ بھی ہے۔ زمانے کی چالوں کا رمض شناس بھی ہے۔ہم اقبالؔ کو اردو ادب کا تایا بنانے پر مصر ہرگز نہیں ہیں لیکن کیا کریں قرعہ انہی کے نام نکل رہا ہے۔ ہاں اگر آپ کے پاس اقبالؔ سے بہتر تایا جی ہیں تو ہم انہیں بھی ماننے کو تیار ہیں شرط یہ کہ وہ تایا جی کے استعارے پر کماحقہٗ پورا بھی اترتے ہوں اور اگر نہیں ہیں تو اقبالؔ کو تایا جی ماننے میں ایسی کون سی رکاوٹ
حائل ہے۔ویسے اقبالؔ نے تایا بننے کے لئے کوئی کسر بھی تو اٹھا نہیں رکھی۔بات بات پر نصیحت۔
سبق پھر پڑھ۔۔۔۔۔۔
کبھی اے نو جواں مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔
پیوستہ رہ شجر سے۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ زمانے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خودی کو کر بلند۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقبالؔ ہر وقت ’تایاجی‘ کا رول پلے کرتے نظر آتے ہیں اس لئے ان کو ’ تایا‘ مان لینے میں کوئی ہرج نہیں۔
چچا اور تایا کے عہدے پر ہونے کے بعد ہی باقی خاندان کی تکمیل کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ بات بھی سنجیدگی سے کہنے والی ہے کہ خاندان صرف انسانوں کے ہی تو نہیں ہوتے۔ باقی مخلوقات کے بھی ہو سکتے ہیں۔جن میں سے زبان و ادب سرِ فہرست ہیں۔خیر ہم بحث کو اور کوئی رخ نہیں دینا چاہتے۔ اتنا ہی کافی ہے کہ اہلِ علم و ادب ہماری اس پھول جھڑی کو ادب کے چمنستان میں قبولیت سے نوازدیں۔

ایک بات اور کہ ہماری معلومات اور ہنر دونوں ہی مقامی سے ہیں اور ہمیں بین الاقوامی شہرت کا اتنا شوق بھی نہیں( جب تک وہ ملتی نہیں)۔ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کے علم میں ہو کہ ایسا پہلے ہی انتخاب ہو چکا ہے تو ہم اپنے الفاظ فوراً اور ایسے کے ایسے ہی واپس لینے کے لئے بھی تیار ہیں۔اور اگر
ایسا انتخاب پہلے نہیں ہوا تو ہمارا انتخاب قبول فرما کر شکر گزار فرمائیں!
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 286651 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More