میری علمی و ادبی خدمات معاصرین کی نظر میں

مَیں گزشتہ چاردیہائیوں سے علم و ادب کے میدان میں مصروفِ عمل ہوں۔ خاندان کے احباب صاحب دیوان اور بے دیوان شاعر گزرے ہیں۔ میرے پردادا کا دیوان ’دیوانِ آزادؔ‘ 1923میں ہندوستان سے شائع ہوا تھا۔ میرے پرکھوں کی سرزمین پہلے راجستھان اور پھر یو پی کا ضلع مظفر نگر تھی۔ ہندوستان کا ضلع مظفر نگرنہایت مردم خیزخطے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس سر زمین نے علماء دین، صوفیا ئے اکرم اور فقہائے اسلام اور اہل دانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ، پائے کے سیاست ،اعلیٰ منتظمین، معلمین ، منصفین و مصنفین کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ہے ،ان اعلیٰ شخصیات کی علمی، ادبی ،سماجی اور سیاسی خدمات کو عالمی سطح پر معتبر حیثیت حاصل ہے ۔ بعض احباب میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی،پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیا قت علی خان ،حاجی ولی اﷲصاحب قدس سرہ، محمد احمد صاحب سراوے والے ، جناب زاہدحسین اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے گورنر، سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، زاہد حسین کے صاحبزادے جسٹس (ر)نا صر اسلم زاہد ، جناب محمد ابصار حسین قرنی، مفتی و محدث مولانا عبدلمالک ، مولانا عبد الخالق کاندھلہ والے ، معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد ، ڈاکٹرالطاف حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ ) ، شیخ محمد ابراہیم آزادسابق چیف جسٹس بیکانیر چیف کورٹ(میرے پردادا)، جناب مبشر احمد واحدی ، نعت گو شاعر تابشؔ صمدانی ،معروف ادیب ،افسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی ، صاحبزادہ عاشق کیروانوی مرحوم شامل ہیں۔ میَں نے کبھی اپنے وطن کے لیے کہا تھا ؂
مظفر نگر تری عظمت کو سلام
کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا کیے تونے

1972میں جامعہ کراچی سے پہلاماسٹر کرنے کے بعد کالج کی نوکری ملی گئی اور اپنی مستقل مزاجی کو سلام کہ بس اسی پر اکتفا کرتے ہوئے، پڑھنے، پڑھانے، پڑھنے والوں کی رہنمائی کرنے اور لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ پہلا مضمون 1975میں اور پہلی کتاب 1977میں شائع ہوئی تھی۔ ابتداء میں لائبریری و انفارمیشن سائنس میرا موضوع تھا چنانچہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور شائع بھی ہوا۔ اسی موضوع کے ایک ادارے اور اس کے تحت شائع ہونے والے رسالے سے منسلک ہوا اور اس کا ایسو سی ایٹ چیف ایڈیٹر37برس رہا۔ اپنی جوانی حتیٰ کے اپنا بڑھاپا بھی اس کی نظر کر دیا۔ 2012میں اس رسالے کے چیف ایڈیٹر سے اصولی اختلاف کے باعث خاموشی سے اپنی 37سالہ خدمات سے علیحدہ ہوگیا۔شخصیات میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے ۔ میں نے اب تک 50سے زیادہ شخصیات کو اپنا موضوع بنا یا ہے۔ شخصیات پر سوانحی مضامین اور خاکوں پر مشتمل میری کتب کی تفصیل نیچے درج ہے۔ مضامین بھی لکھے جو تعداد کے اعتبار سے اب 300سے زیادہ ہوچکے ہیں۔

یہ زمانہ انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کا ہے ۔ میری خوش قسمتی کے مجھے اردو کی ایک معروف اور سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب ’’ہماری ویب‘‘Hamari Web مل گئی اور میری تحریریں اس پر آن لائن ہونے لگیں۔ اس ہماری ویب نے مجھے کالم نگاری کی جانب بھی مائل کیا اور میں سیاسی اور نیم سیاسی موضوعات پر کالم بھی لکھنے لگا۔ ہماری ویب پر میرے مضامین و کالم کی تعداد 150سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ مضمون تعداد کے اعتبار سے ایک سو پچاسواں مضمون ہے۔ ہماری ویب کے تحت ایک ادارہ ’’رائیٹرز کلب‘‘ بھی تشکیل دیا گیا۔ احباب کی نظر مجھ ناچیز پر ایسی پڑی کے مجھے اس آن لائن لکھنے والوں کے پہلے کلب کا صدر بنا دیا گیا۔

ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے مقاصد میں آن لائن لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا، انہیں علمی اور فنی معاونت فراہم کرنا ہے۔ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ نے اب ’’ای بکس‘‘ کی تدوین و اشاعت کا پروگرام بھی تشکیل دیا ہے۔ جس میں ہماری ویب پر لکھنے والوں کی تحریروں پر مشتمل ای بکس تیار کی جائیں گی اور انہیں آن لائن کر دیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں دس ای کتب کی تیاری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ میری خوش نصیبی کے میرے 150مضامین پر مشتمل ’ای بک‘ تدوین کے آخری مراحل میں ہے ۔ زیر تحریر مضمون اسی ای بک کا آخری مضمون ہے۔ انشاء اﷲ ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ اپنے اس مقصد کے حصول میں آگے بڑھتا رہے گا۔

ذیل میں میری تصانیف و تالیفات کے حوالے سے میری محترم و کرم فرما علمی و ادبی شخصیات نے میرے بارے میں یا میری تصنیف و تالیف کے بارے میں جو کچھ اپنے خیالات کا اظہار کیا اسے اختصار کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔ مضمون کے دوسرے حصے میں میری تصانیف و تالیفات ہیں جن پرجو تبصراخبارات و رسائل میں کیے گئے انہیں متعلقہ کتاب کے نیچے درج کردیا گیا ہے۔ مضامین کی تعداد زیادہ ہے اس وجہ سے انہیں اس مضمون کا حصہ نہیں بنا یا گیا۔میرا ایک مضمون ’ہماری ویب‘ میں میرے مضامین کی سینچری‘ کے عنوان سے اس ای بک میں شامل ہے۔ جس میں سو مضامین کے عنوانات دیکھے جاسکتے ہیں عنوان کے ساتھ مضمون کا UROبھی درج ہے۔

علمی ادبی خدمات اہل علم کی نظر میں
پروفیسرڈاکٹر فرمان فتح پوری:
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی کتاب ’’یادوں کی ما لا ‘‘ کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار معروف دانش ور ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا ’’ کتاب بلحاظ زبان و بیان معتبر ہے اور مصنف نے جو کچھ لکھا ہے پورے غور و فکر کے بعد لکھا ہے۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ لکھا ہے اور مختصر نویسی کا حق ادا کیا ہے۔ یقین ہے کہ کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ رئیس احمد صمدانی کے نام اور کام کو بلند و بالا کرے گی۔ کتاب نہایت صاف ستھرے انداز میں شائع ہوئی ہے اور قاری کو متوجہ کرتی ہے ۔ مضامین کی فہرست میں کچھ تو مختصر خاکے ہیں کچھ تنقیدی جائزے ہیں اور کچھ مختصر تذکرے، مگر اختصا ر میں بھی وہ سب کچھ آگیا ہے جو موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے ضروری تھا۔مختصراً یوں کہنا چاہیے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر جامع کتاب ہے جس میں لائبریرین شپ کی تقریباً تمام ہی معروف اور اہم شخصیات کا قابل توجہ احاطہ کیا گیا۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب سارے علمی ادبی حلقوں میں مقبول ہوگی اور شخصیات پر لکھنے والوں کی رہنمائی کرے گی۔

ڈاکٹر صمدانی کی دوسری خاکوں کی کتاب ’’جھو لی میں ہیرے اور موتی‘‘ کا فلیپ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے تحریر کیا ۔آپ لکھتے ہیں’’ڈاکٹر رئیس صمدانی کا قلم کسی طویل تعارف کا محتاج نہیں، وہ ایک عرصہ سے لکھ رہے ہیں اور جو کچھ لکھ رہے ہیں نہایت کارآمد انداز میں لکھ رہے ہیں۔ان کے لکھے ہوئے خاکے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کی یادداشتیں بہت مضبوط ہیں، ان کی نگاہ حقائق اور واقعات پربڑی گہری رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی ایک باشعور صاحب قلم ہیں، مقبولیت و عدم مقبولیت یا کسی رسالے میں چھپنے نہ چھپنے پرذرا بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ ادب کی خدمت نہایت سلیقے اور لطیف پیرائے میں انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کی سادہ بیانی و حق گوئی میں ایسا جادو ہے کہ وہ اپنے قاری کو پوری طرح گرفت میں لے لیتی ہیں اور قاری کتاب ختم کیے بغیر اس کے سحر سے نہیں نکل سکتا۔مجھے یقین ہے کہ ان کا قلم اسی طرح چلتا رہے گا اور فکر و نظر پر قابلِ توجہ تاثر چھوڑتا رہے گا۔ جن شخصیات و موضوعات پر خاکے لکھے گئے ہیں وہ اگرچہ جانے پہچانے ہیں لیکن صاحب ِ کتاب یعنی ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے ان کی قدر و قیمت کو اتنا بلند و بالا کر دیا ہے کہ خاکہ نگاری کی خاص صنف میں رئیس احمد صمدانی کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ ہو گیا ہے‘‘(۱)۔

’’ڈاکٹر صمدانی اپنے موضوع پر بہت خوب لکھتے ہیں بلکہ ان کی حیثیت ایک صاحب نظر ادیب و محقق کی ہے۔ ایک اور خوبی جو میں نے ان میں محسوس کی کہ وہ صلہ و ستائش کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ ان لکھنے والو میں سے ہیں جنہوں نے سوانح نگاری اور خاکہ نویسی کواپنا موضوع بنا یا اور ایک سوانح نگار کے طور پر ادب کی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی ۔پیش نظر کتاب سے اندازہ ہوا کہ صمدانی صاحب ایک شاعر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے خاندان میں شعر و ادب کا مذاق کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ متعدد احباب ادیب و شاعر اور صاحب ِ دیوان شاعر ہیں ۔ خود صمدانی صاحب کے بعض اشعار اس کتاب میں کہیں کہیں نظر سے گزرے ۔امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ رسولِ اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کے لیے تسکین کا وسیلہ ہوگی۔ اہل ِ ذوق کو انبساطِ روح اور نشاطِ قلب کے اسباب فراہم کرے گی۔غورو فکر کی راہیں کھولے گی اور مصنف کے قلم کو مزیدمعتبر و محترم بنائے گی اور ہر اعتبار سے اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہوگی۔

ڈاکٹر سلیم اختر: ادیب و دانشور، لاہور
اردو ادب کے معروف محقق و نقاد ڈاکٹر سلیم اختر جنہوں نے ڈاکٹر صمدانی کی کتاب ’’جھولی میں ہیرے اور موتی کا فلیپ تحریر کیا ، ڈاکٹرصمدانی کی شخصیت اور کتاب میں شامل خاکوں کے حوالے سے ڈاکٹر صمدانی کو ایک درویش صفت انسان قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے باوجود ادب اور ادیبوں ، قلم اور اہل قلم، علم اور اہل علم سے رشتہ استوار رکھا اس کا اظہار دوستوں پر محبت کی روشنائی سے تحریر کردہ خاکوں سے ہوتا ہے۔’یادوں کی مالا‘ کے بعد اب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ خاکوں کا تازہ مجموعہ پیش ہے جو دس خاکوں ، اپنے بارے میں ایک مضمون ، ماضی کی یادوں کے حوالہ سے دو مضامین اور ایک رپوتاژ پر مشتمل ہے۔ یہ ہیں وہ ہیرے اور موتی جن سے اس درویش صفت انسان کی جھولی بھری ہے۔ اس میں میرے ان دو عزیز دوستوں ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوہاب خان سلیم کے خاکے بھی شامل ہیں۔ ان کی محبت سرمایہ حیات ہے(۲)۔

ڈاکٹر طاہر تونسوی: ڈین آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ وچیٔر مین۔ شعبہ اُردوگورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کا تعلق شاعرِ مزدوراحسان دانشؔ کے وطن مظفر نگر سے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ احسان دانشؔ کی طرح محنتی ، واقعات و مناظر کی تصویر کشی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے والے لکھاری ہیں۔ زبان شستہ اور پاکیزہ ہے ۔اپنے موضوع پر خوب لکھتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی حیثیت ایک صاحب نظر ادیب و محقق کی ہے۔ واقعہ نگاری اور واردات کے بیان کو خوبصورتی سے قلم بند کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ادب میں سوانح نگاری، خاکہ نویسی اور رپوتاژ ان کے خاص موضوعات ہیں۔سوانح نگار کی حیثیت سے انہوں نے بے شمار علمی و ادبی شخصیات پر مضامین ، خاکے اور تصانیف مرتب کیں۔ ادب کی دنیا میں انہوں نے سوانح نگاروں اور خاکے لکھنے والوں میں اپنی الگ شناخت قائم کی ۔ ڈاکٹر صمدانی کی تحریروں میں دھیما پن اور سادگی ہے وہ اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں شخصیت کا دلفریب اور مکمل نقشہ چھوڑنے میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد ندیم: اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، سرگودھا یونیورسٹی
ڈاکٹر خالد ندیم نے ڈاکٹر صمدانی کی کتاب ’’جھولی میں ہیرے اور موتی کا پیش لفظ تحریر کیا جس میں آپ نے لکھا ’’شیخوپورہ کی علمی و ادبی تنظیم ’دریچہ‘ کے دوستوں کے بعد سرگودھا میں اگر کسی ادبی شخصیت نے مجھے متاثر کیا تو وہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تھے۔ ان کی رفاقت میرے لیے اس قدر خوش گوار تھی کہ سرگودھا مجھے اپنے شہر کی طرح محسوس ہونے لگا۔ایک شریف النفس انسان سے مل کر مَیں نہ صرف خوش ہوا، بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا ، مَیں ایک مدتوں سے جس پُرخلوص انسان کی تلاش میں سرگرداں تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے توسط سے آج مجھے وہ مل گیا ہے‘‘۔

ڈاکٹر صمدانی کی خاکہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر خالد ندیم لکھتے ہیں’’ ڈاکٹر صمدانی نے اپنے تخلیقی سفر کو بد ریج طے کیا ہے اور اب وہ اس صنف کی اس منزل پر ہیں، جہاں خاکہ نگاری میں ان کا رنگ اپنی انفرادیت کا اظہار کرنے لگا ہے۔ وہ اپنی نستعلیق شخصیت کی بدولت شگفتہ سنجیدگی کو اپنانے پر مجبور تھے، چنانچہ ان کی تحریروں میں روانی، سادگی، بے ساختگی اور لطافت کا پایا جانا فطری امر ہے۔ ابھی ان کی صورت میں مشرق کی آنکھ میں کچھ روشنی باقی ہے۔ وہ اپنے موضوع سے متعلق بات کرتے ہوئے اپنی تہذیبی روایات کو نظر انداز نہیں کرتے‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صمدانی کے خاکوں میں سوانحی معلومات بھی ہیں اور خاکہ نگار کا تخلیقی لمس بھی۔ ان کے مطالعے سے قاری کو صرف شخصیت کے ماہ و سال سے آشنائی ہوتی ہے، بلکہ بعض مواقع پر خاکہ نگار کے لب و لہجے اور تاثرات کی مدد سے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہونے لگتا ہے۔ انھوں نے بڑی عام فہم اور آسان زبان میں اپنے ہر موضوع کے بارے میں وہ کچھ لکھ دیا ہے، جو حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے روزمرہ باتوں اور واقعات کو علمی و ادبی رنگ دینے اور محض اسلوب کا جادُو جگانے کے بجاے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ ان کی تحریر کی خصوصیت بھی ہے اور ہمارے بعض ادیبوں کے لیے باعثِ تقلید بھی‘‘(۳)۔

حکیم محمد سعیدشہید
تعلیم اورلائبریری کا باہم گہرا تعلق ہے اور لائبریری کی ترتیب و تنظیم ہمیشہ کی طرح آج بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ اسے اب سائنس کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ آپ نے طلبہ لائبریری سائنس کے لیے مبادیات لائبریری سائنس ایک اچھی اور مفید کتا ب مرتب فرمادی ہے۔ میرے طرف سے مبارک باد قبو ل فرما ئیے(۴)۔
پروفیسر محمد احمد ۔ سابق پرنسپل۔ اسلامیہ گورنمنٹ کالج سکھرو گورنمنٹ عبد اﷲ ہارون کالج کراچی

’’فاضل مصنف کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید واقفیت ، علمی تجربہ اور ادبی ذوق ، تقاد اور مورخ کی حقیقت پسندیدگی اور سنجیدگی، ادباء اور انشاپردازواں کی شگفتگی اور حلاوت اور فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت جمع ہو گئی ہیں جو شاذونادر جمع ہو تی ہیں۔ان کی تصانیف پر اجمالی نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ مصنف کا ذوق و مطالعہ، تحقیقی اور علمی میدان کس قدر وسیع ہے۔فاضل مصنف میں علمی کام کر نے کا بڑا ولولہ اور سلیقہ ہے۔ انہوں نے اپنے اپنے وسیع مطالعہ اور معلومات کو اپنی فطری انہماک و نشاط کے ساتھ قلم بند کیا ہے جو ان کی صلاحیت ، قوت عمل اور فکری ارتقاء کا نمونہ ہے۔

احقر فاضل مصنف سے ایک عرصہ سے واقف ہے اور بغیر تکلف کے کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ ان کی عملی گفتگو ، ذوق سلیم ، غیر معمولی حافظہ، تاریخی شعور سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی باغ و بہارشخصیت لائبریری سائنس کی اعلیٰ ترین ڈگری سے مزین ہے ۔ انہوں نے لائبریری کے علوم میں ایک ماہر فن کا درجہ حاصل کر لیا ہے‘‘(۵)۔

ڈا کٹر انیس خورشید۔سابق صدر ۔ شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، جامعہ کراچی۔
رئیس احمد صمدانی کی مر تب کر دہ کتاب (Akhtar H. Siddiqui: A bio-bibliographical Study) کے بارے میں ڈاکٹر انیس خورشیدنے ختر ایچ صدیقی کے نام اپنے تحریر کردہ خط میں کتاب کے بارے میں حسب ذیل رائے کا اظہار فر ما یا :
’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنے بارے میں شائع ہو نے والی Bio-Bibliographical Study کی ایک کاپی مجھے عنایت فر مائی ورنہ میں ایک اچھی کتاب سے شاید محروم رہتا۔ میں نے سر سری طور پرہی اسے دیکھا ہے مجھے کتاب اچھی لگی۔ Presentationبہت ہی اچھے طور پر کی گئی ہے اور نہایت عمدگی سے dataکو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب سے آپ کی بھر پور شخصیت اپنی طرحداری کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔تدوین اور تر تیب بھی اچھی ہوئی ہے یوں کہنا چاہئے کہ اختر ایچ صدیقی کی متنوع اور سدا بہار شخصیت اپنی پوری کتا بیاتی سر گرمیوں کے ساتھ اس کتاب کے ذریعہ بھر پور طور پر نمایاں ہو جاتی ہے‘‘(۶)۔قومی کتا بیات پاکستا ن (۱۹۴۷ء ۔۱۹۶۱ء) جلد سوم جو رئیس احمد صمدانی نے بطور چیف ایڈیٹر مر تب کی اور حکومت پاکستان کی وزارت تعلیم کے شعبہ لائبریریز نے ۱۹۹۹ء میں شائع کیا کے بارے میں ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط ۲۰ فروری ۲۰۰۰ء میں تحریرفرمایا: ’’تمہارے خط مورخہ ۱۳ فروری کے ساتھ PNB-47-61 (500-900)ملا ‘ بے حد شکریہ ۔ غالباً اس ببلوگرافی کے ساتھ باقی حصہ جو چھپنے سے رہ گیا تھا وہ بھی شامل ہو گیا ہے ‘ یہ کام قابل تعریف ہے۔ مبارکباد قبو کریں(۷)۔

رئیس احمد صدانی اور خالد محمود نے ۱۹۹۷ء میں پاکستان سے شائع ہو نے والے لائبریری و انفارمیشن سائنس کے رسائل و جرائد کا پچاس سال کا اشاریہ مرتب کیا ۔ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط مورخہ ۱۵ مارچ ۲۰۰۰ء میں تحریر فرمایا :’’تمہاری اور خالد محمود کی کتاب Periodical Literature in LISملی ‘ بے حد شکریہ۔ یہ کوشش قابل مبارک باد ہے۔ اس کام کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے لیکن اسے رسائل تک محدود رکھنا وہ بھی مقامی رسائل تک سودمند ہوگا۔میری دعائیں تم لوگوں کے ساتھ ہیں‘‘(۸)جناب محمد عادل عثمانی کی تصانیف و تالیفات اور ان کی پیشہ ورانہ خدمات پر مبنی سوانحی کتا بیات Muhammad Adil Usmani: A Bio-Bibliographical Study) جو رئیس احمد صمدانی نے مر تب کی کے بارے میں ڈاکٹر انیس خورشیداپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:’’تمہارا اکتوبر ۱۱ کا خط ملا، محمد عادل عثمانی (سرکار) کی سوانحی کتا بیاتی کتاب کی خوبصورت جلد ملی خوشی ہوئی ، پڑھ تو نہ سکا ہوں لیکن خوشی ہوئی تم سے دھن کے پکے لائبریرین نے مر تب کیا ہے‘‘(۹)۔

ڈاکٹر جمیل جالبی ۔ سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی
’’آپ کی ’’کتا بیات طب و صحت ‘‘ کا ایک نسخہ مو صول ہوا جس کے لیے شکر گزار ہوں ۔ آپ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے محنت سے ، یہ بکھرا ہوا مواد سلیقے سے جمع کر کے تر تیب دیا ہے(۱۰)۔

الحاج محمد زبیر ۔سابق لائبریرین ، علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی، ڈائریکٹر، اسکول آف لائبریرین شپ
’’میرے ہم پیشہ و ہم مشرب رئیس احمد صمدانی نے کتب خانوں پر کتب لکھ کر بڑی عمدہ مثال قائم کی ہے۔ یہ کام بڑی خوبی سے انجام دیا ہے میری یہ دعا ہے کہ خدا انہیں یہ سلسلہ قائم رکھنے کی توفیق دے ۔میری رائے میں یہ قابل قدر کتاب اس نوجوان نسل کے لیے خاص طورپر بڑی سود مند ہوگی جو کتب خانوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ میری یہ رائے محض رسمی رائے نہیں ہے بلکہ یہ اس شخص کی رائے ہے جو خود بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکا ہے اور جس نے اپنی عمر کے ۵۵ برس کتب خانوں اور فن کتب داری کی خدمت میں گذارے ہیں‘‘۔ (الحاج محمد زبیر۔ ۲۱ نومبر ۱۹۷۸ء)

فرخندہ لودھی۔ادیب و افسانہ نگار، گورنمنٹ کالج ، لاہور
آپ نے جس جذبے سے اس میدان میں کام کی پہل کی ہے میں اس سے پورا پورافائدہ اٹھارہی ہوں ۔ سوچئے اگر آپ کی کتاب نہ ہو تی تو طالبات کیا پڑھ تیں۔ اس وقت میری کلاس میں ۱۱۷ طالبات ہیں۔ کلاس شروع ہوئی تو پتہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ابتدائی اور مبادیات لائبریری سائنس کراچی میں بھی دستیاب نہیں۔ بڑی پریشانی ہوئی کریکلم ونگ لاہور کے رسرچ آفیسر (لائبریری سائنس) چوہدری نذیر احمد نے اس سلسلے میں بے حد مدد کی اور کہیں سے آپ کی کتاب حاصل کرکے فوٹوں کاپیاں تیارکر کے طالبات کو دیں۔ نیا مضمون ہو نے کی وجہ سے وہ بے حد پریشان تھیں(۱۱)۔

پروفیسر محمد واصل عثمانی
ڈاکٹر سبزواری کے ایک شاگرد جو ان کے بھتیجے بھی ہیں نیز اپنے چچا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تصنیف و تالیف کے میدان میں اُسی تیزی کے ساتھ رواں دواں ہیں ،میں صمدانی صاحب کی زیرِ نظر تصنیف کا خیر مقدم کرتاہوں ۔ انہوں نے ایک ایسی شخصیت کو اپنا موضوع بنا یا ہے جو ہر اعتبار سے اس لائق ہے کہ ان پر لکھا جائے ۔یہ مختصر سی کتاب سبزواری صاحب کی شخصیت اور علمی کارناموں کا ابتدائی تعارف ہے لیکن خوبصورت تصوریر پیش کرتی ہے۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ صمدانی صاحب کے اس عمل کو قبول فراواں عطا فر مائے اور مزید علمی خدمات کی توفیق ارزانی ہو(۱۲)۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان بلوچ:چیٔر مین۔ شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، منہاج یونیورسٹی، لاہور
مَیں ڈاکٹر رئیس صمدانی کو عرصہ دراز سے جانتا ہوں۔ وہ میرے ہم پیشہ اور قریبی ساتھیوں میں سے ہیں ۔ ان سے قربت اس وقت زیادہ ہوگئی تھی جب وہ اپنی کالج کی ملازمت سے ریٹائر ہوجانے کے بعد میرے مشورہ پر شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، جامعہ سرگودھا میں چلے آئے تھے جہاں پر میں اس وقت شعبہ کا چیرٔمین تھا۔ڈاکٹر صمدانی نے ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے شعبہ میں تدریس آغاز کیا اور تقریباً ایک سال وہ میرے کلیک اور ساتھی رہے۔ اس طرح وہ مَیں اور وہ زیادہ قریب آگئے اور مجھے ان کو اور انہیں مجھے جانئے ، سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ ان کی میرے بارے میں کیا رائے ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں البتہ میں نے انہیں بہت ہی نفیس انسان پایا، دھیمہ لہجہ اور شائستگی ان کی شخصیت کی پہچان ہے۔ اپنے مضمون پر مکمل عبور رکھتے ہیں محنت کے عادی ہے ، محنت اور تیاری کے ساتھ کلاس میں جاتے ہیں۔ طلباء میں مقبول استاد رہے۔ ان کے واپس کراچی چلے جانے کے بعد طلباء نے انہیں طویل عرصہ تک یاد رکھا اور وہ طالب علم جنہوں نے ڈاکٹر صمدانی سے پڑھا تھا آج بھی ان کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔

عبد الصمد انصاری
رئیس احمد صمدانی صاحب لکھنے کا فن خوب جانتے ہیں انہوں نے ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب پر یہ کتاب لکھ کر دنیائے لائبریری سائنس میں نئے آنے والوں پر ایک احسان کیا ہے جس طرح انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے ہر باب اور شخصیت کی ہر جہت کو ایک جگہ اکھٹا کرکے قارئین کے لیے پیش کیا ہے یہ وہی کر سکتے تھے۔یہ ڈاکٹر صاحب کے شاگرد ، رشتے کے بھتیجے اور پیروکار اور اگر میں کمانڈو کہوں تو غلط نہ ہوگا۔ یہ ان دو شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی لکھنے پڑھنے اور انتھک کام کرنے کی عادت کی نہ صرف تقلید کی بلکہ اس کو مستقل اپنا لیا اور ڈاکٹر صاحب کی ہدایات اور نگرانی میں اپنا پیشہ ورانہ سفر آگے بڑھایا اور ایک مقام حاصل کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خصو صیت جس کو صمدانی صاحب نے با لخصوص اپنا یا، یا وہ ان میں ڈاکٹر صاحب کا رشتہ دار ہونے کے سبب پہلے ہی سے موجود تھی ‘ وہ ہے ڈاکٹر صاحب کی وضع داری، ملنساری اور سب سے بڑھکر برداشت اور صبر اور صبر بھی کیا قیامت سا! میں نے خود ان کی برداشت اور خاموشی کے ایسے مظاہرے دیکھے ہیں جس نے کئی طوفانوں کے رُخ موڑ دیے اور بعد میں طوفان اٹھا نے والوں کو خود ہی اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا(۱۳)۔

اکرام الحق : لائبریرین ،آرمڈفورسز پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ،راولپنڈی
ڈاکٹررئیس احمد صمدانی صاحب دو درجن سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں بیشتر کا تعلق لائبریرین شپ سے ہیں ۔ ان کے ۸۰سے زیادہ مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔پاکستان لائبریری انفارمیشن سائنس جرنل کے ایسوی ایٹ چیف ایڈیٹر ہے۔ بے شمار پیشہ وار ،تعلیمی اور سماجی تنظیموں کے نہ صرف ممبررہے بلکہ ان میں انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں ۔پاکستان لائبریری ایسوی ایشن سندھ برانچ کے صدربھی رہ چکے ہیں ۔پروفیسرانیس خورشید نے صمدانی صاحب کو’’ دھن کے پکے لائبریرین ‘‘کے خوبصورت الفاظ سے نوازاہے(۱۴)۔

پروفیسر ڈاکٹرعبد الرشید رحمت:ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ، یونیورسٹی آف سرگودھا
محترم رئیس احمدصمدنای ‘ جن کا اصل فن لائبریری سائنس ہے ، لیکن اسلامی تعلیمات سے دلچسپی کی وجہ سے آپ نے اسلام کے مختصر موضوعات مثلاً دُعا کی اہمیت و فضیلت کے حعالے سے علمی میدان میں ان کا ایک عجالہ دوسری بات چھپ چکا ہے۔ اب کی دفعہ آپ نے ’سلام‘ کے حوالے سے ایک نہایت مفید و مختصر معلوماتی کتابچہ مرتب کیا ہے۔ میں نے اس کا بغور مطالعہ کیا ہے اس کی تمام معلومات قرآن و سنت کے عین مطابق ہیں ۔ چونکہ آپ کا مقصد عوام الناس کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ہے ، اس لیے اس کی زبان بھی عام فہم رکھی گئی ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ آپ کا یہ عجالہ نافعہ پہلے کام کی طرح قبولیت عامہ حاصل کرے گا۔

ڈاکٹر سردار احمد : پروفیسر اسلامیات، گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد ، کراچی
’’جناب رئیس احمد صمدانی جو لائبریری سائنس کی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور مختلف کتب کی مدد سے ایک عمدہ مجموعہ تیار کر دیا ہے ۔ زندگی میں مختلف مواقع پر اور مختلف اوقات میں کی جانے والی دعائیں تقریباً اس میں سب آگئی ہیں۔ یہ ایک اچھی کاوش ہے جو قارئین کے لیے انشاء اﷲ قابل قدر ، دلچسپی اور فائدہ کا باعث ہوگی ۔ اﷲ پاک مؤلف کی سعی قبول فرمائے اور قارئین کو اس سے استفادہ کی توفیق بخشے‘‘۔

Abdul Hafeez Akhtar: Ex, Director General, Department of Libraries, Government of Pakistan
Mr. Abdul Hafeez Akhtar, former Director General Department of Libraries, Government of Pakistan stated in his Forward " that the task was assigned to the Pakistan Bibliographical Working Group as the bibliographic entries were available with them. A great deal of labour has gone in the editing and compilation of this Fascicule for which the members of the Editorial Committee of the Pakistan Bibliographical Working Group headed by its Secretary Mr. Rais Ahmed Samdani deserve our special thanks. They have done a wonderful job in bridging the gap of bibliographic records".(15)

Muhammad Adil Usmani
Mr. Samdani is an important member of the editorial board of PLB whose written contributions are now well known in the library world of Pakistan. His books viz. Elementary Library Science (in Urdu) which is in its 9th edition, Introduction to Library Science (in Urdu) which is in its 6th edition are holders of rise distinction which none of the other books in the field have ever achieved in Pakistan. These books are prescribed in Intermediate and B. A. classes of library science courses. He has developed a good skill of writing books in the field of library science in Urdu which are very helpful to the students and equally used by library science teachers and librarians. He had remarked about Mr. Samdani's capabilities and devotion in the following words: "Truly speaking the Bulletin (Pakistan Library Bulletin) owes its life due to untiring efforts of these two devoted persons who have taken the entire burden of publication of PLB in absence of M
. Adil Usmani and G. A. Sabzwari".(16)

Prof. Dr. Syed Jalaluddin Haider
Prof. Dr. Syed Jalaluddin Haider, former Chairman, Department of Library and Information Science, University of Karachi and a prolific writer in library and information science stated of foreword of Mr. Samdani's books as ''He is one of the few young Librarians, I must add here, who is continually making
contribution to the limited literature of Pakistan Librarianship.(18)
''I would like to record my appreciation about all, to the editors, who are well known in the field for their writing skills and dedication to their works, for their cheerful acceptance of comments and suggestions
at all stages in the planning and preparation of the index''.(19)

Moinuddin Khan
In the Launching Ceremony of Mr. Samdani's book "Akhtar H. Siddiqui:a bio-bibliographical study" which was held on October 30, 1997 at UGC Auditorium, Liaquat Memorial Library Building, Karachi, organized by the Pakistan Library Association ( Sindh Branch). Mr. Moinuddin Khan as a key speaker had remarked about Mr. Samdani's capabilities in the following words:
"I shall be failing in my duty if I don't turn to the author of this exhaustive study. Mr. Rais Ahmed Samdani has done as equally scholarly work in gathering the prolific works of his outstanding biographies within the two covers of a slim book. It is often said, librarian do not write but they do take good care of other's writings, but in this case a librarian has volunteered to compile a fellow librarian's life-long output in profuse admiration and regard. Mr. Samdani struck me as a hard and meticulous worker. He is indefatigable and follows almost a punishing schedule. He has been the main prop of the only professional journal of Pakistan librarianship Pakistan Library Bulletin (Pakistan Library and Information Science Journal) which is coming out uninterruptedly for last 27 years. I wish more power to the elbows of Mr. R. A. Samdani, the bibliographer, and look forward to a few more products from their formidable efforts".

Mr. Khan in his foreword of Samdani's compilation work titled Cumulative Index of Pakistan Library Review (PLR) stated that "I felt greatly honoured when I was asked to write a foreword to this book, which is valuable clue to yet another untapped source of professional literature contained in the volumes of Pakistan Library Review encompassing those formative years (1958 -1969) of professionalization of librarianship in Pakistan. In to the lasting credit of Mr. Rais Ahmed Samdani that be has indexed these two leading national library journals. He compiled Index of PLB in 1995 and within the space of two years he has come up with this Cumulative Index of PLR. Mr. Samdani thus carries the day in chronicling history and growth of a discipline which, today enjoys university status. Indexing is a painstaking and back-breading task and at the same time demands precision to help search the needle in haystack. Mr. Samdani will be a more satisfied man than anyone else to have provided a finding tool for working librarians. Students and teachers of Library and Information Science for generations to come. He deserves our abiding gratitude".(20)

Prof. Dr. Rafia Ahmed Sheikh
Prof. Dr. Rafia Ahmed Sheikh has contributed in the foreword
of the book titled 'Akhtar H. Siddiqui: a bio-bibliographical Study'. In her words 'No such work existed prior to this (written by any other Pakistani writer), and thus I regard it as a pilot study and an original and comprehensive piece of work, where Mr. Siddiqui truly exhibits his competence. His expert handling of the progress made in the library scene in Pakistan deserves credit. It is one of my favorite books on
Pakistan librarianship.'(21)

M. Gulistan Khan : Senior Librarian
Dr. Samdani did serious research work on librarianship , editing bibliographic source material and indexing of several articles journals published during his life time single handedly. It was infect a job of a large institution. It may be said that he is a one man institution. He embarked on a one man mission to promote librarianship in Pakistan. His contribution have supported the life the Pakistan Bibliographical
Working Group.

Mr Samdani has the honour to compiled the National Bibliography of Pakistan 1947 to 1961, fascicule III (Pure Science to History) which has been published by the Government of Pakistan, Ministry of Education, Department of Libraries in 1999. This part of national bibliography was in the continuation of previously published Fascicule I (General Work to Islam ; 000 - 297) & II (Social Sciences to Languages; 300 - 400) published by National Book Council of Pakistan in 1972 and 1975 respectively. The gap in the National Bibliography of Pakistan has been filled by the publication of this fascicule. Now the Pakistan have a complete National Bibliography being right from the year 1947. Credit goes to Mr. R. A. Samdani, for completing this huge task in spite of several handicaps. The task has been done in the absence of the Copyright Act, or the Delivery of Books and Newspapers Act or similar legislation.

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم غوری وائس چانسلر، منہاج یونیورسٹی، لاہور
ڈاکٹر صمدانی کی علمی و ادبی کاوشوں پر مشتمل کتابیاتی جائزے کا جب میں نے سرسری مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، اردو ادب اور اسلامی موضوعات پر ان کی۳۳ تصانیف و تالیفات اورتین سوسے زیادہ مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ علمی خدمات کی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہے کہ انسان دنیاوی معاملات بھی سر انجام دیے ساتھ ہی قلم و قرطاس سے اپنے آپ کو مستقل طورپر وابستہ رکھے۔ ڈاکٹر صمدانی کا علمی سرمایا تعداد اور معیار کے اعتبار مثالی ہے ۔

محمود عزیز: محقق و مصنف
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کا تعلق لائبریری سائنس کے شعبہ سے ہے مگر ان میں علم و ادب ، شاعری رچی بسی ہے۔ ان کے خانوادہ میں اکثر افراد صاحب دیوان شاعر ہیں اور بے دیوان شاعروں میں بھی علم و ادب اور شاعری کی یہی چٹیک ان کو بھی لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ ۳۸ برسوں میں رئیس احمد صمدانی نے ۳۲ کتابیں اور ۲۵۰ مضامین تحریر کیے ہیں۔

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کو اﷲ نے توفیق دی کہ انہوں نے اپنے اجداد کی میراث کو ایک کتاب کی صورت میں محفوظ کریں چنانچہ شیخ محمد آزادؔ کی شخصیت اور شاعری پر کتاب وجود میں آئی۔ اس کتاب میں نہ صرف یہ کہ آزادؔ کی شخصیت اور شاعری ااور ان کی سرگرمیوں سے ان کے اہل وطن
اور اردو ادب پر خوش گوار اثرات مرتب ہونے کا پتا چلتا ہے بلکہ ان کے آبائی شہروں بیکانیر ، مظفر نگر ، حسین پور کی امتیازی خصو صیات کا بھی علم ہوتا ہے۔

سید محمد اصغر کاظمی :محقق و مصنف
پروفیسرڈاکٹررئیس احمد صمدانی ان ادیبوں اور محققین میں سے ہیں جو گزستہ چار دیہائیوں سے اپنی صلاحیتِ فکر، دانشوری، تخلیقی فکر، تصنیفی و تالیفی آگہی سے تحریر و فن کی دنیا کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ وہ ایک خوش فکر ادیب، خوش بیان مقرر، صحافی، محقق، اپنے موضوع کے معروف استاد، ۳۳ کتابوں اور۳۰۰ے زیادہ تحقیقی و ادبی مضامین کے خالق ہیں۔کراچی کے مختلف کالجوں میں تدریسی اور پیشہ ورانہ خدمات انجام دے کر ۲۰۰۹ء میں ریٹائر ہوئے اور جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنز میں بہ حیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر ایک سال خدمات انجام دیں۔ صحت کی خرابی کے باعٹ جامعہ سرگودھا کو خیر باد کہا اور چند ماہ مقدس سر زمین سعودی عرب میں قیام کیا۔ جنوری ۲۰۱۲ء سے آپ منہاج یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے صدر شعبہ (۲۰۱۲ء تا جنوری ۲۰۱۵) رہے ۔ اب پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔آپ کو منہاج یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے بانی سربراہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

کراچی کے ایک پیشہ ورانہ ادارے ’’اسکول آف لائبریرن شپ، پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹڑ صمدانی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم ایل آئی ایس کے ٹیوٹر بھی ہیں ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے آپ کو Best University Teacher 2013کا اعزاز عطا کیا ۔

ڈاکٹر صمدانی کے ۴۰ سالہ ادبی، تصنیفی و تالیفی اور تحقیقی سفر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مقصد کے حصول کی لگن کیا ہوتی ہے اور یہ کہ محنت ،لگن، متانت اورسنجیدگی سے کیا ہوا انسان کا عمل اُسے معاشرہ میں مُعتَبرَ کرتاہے۔ وہ طبعاً کم گو ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ ، انعام و اکرام کی خواہش سے مُبَرّا ہوکر اپنے کام میں لگے رہتے ہیں ، لکھتے رہتے ہیں اور چھپتے رہتے ہیں،یہی ان کی زندگی کی مَتاع اور انعام و اکرام ہے۔ یہ امر بھی قابل بیان ہے کہ انہوں نے اپنی قلمی کَدو کاوِش کو شہرت یا روٹی روزی کا ذریعہ نہیں بنایا۔اس طویل سفر میں جو ادب بھی انہوں نے تخلیق کیا وہ
معیار و مقدار کے اعتبار سے قابل قدر اور قابل ستائش ہے۔ان کی تصانیف و تالیفات کی تعداد۳۳ ہے جب کہ۲۰۰ سے زیادہ مضامین شائع ہوچکے ہیں۔

حوالہ جات
۱۔ فلیپ ’جھولی میں ہیرے اور موتی(شخصی خاکے)؍ رئیس احمد صمدانی․۔ کراچی: فضلی بک سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲،
۲۔ ایضاً،
۳۔ ایضاً، پیش لفظ
۴۔ حکیم محمد سعید ۔خط بنام رئیس احمد صمدانی۔حوالہ نمبر ھ؍ف؍پ؍۸۵؍۴۱۱۸، بتاریخ ۲۳ جولائی ۱۹۸۵ء
۵۔ رئیس احمد صمدانی ۔ابتدائی لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پرومو شن بیو رو، ۱۹۸۰ء، ص۵۔۶
۶۔ ڈاکٹر انیس خورشید ۔ خط بنام اختر ایچ صدیقی ۔ بتا ریخ ۱۸ مئی ۱۹۹۷ء ۔
۷۔ ڈاکٹر انیس خورشید ۔ خط بنام رئیس احمد صمدانی ، بتا ریخ۲۰ فروری ۲۰۰۰ء۔
۸۔ ڈاکٹر انیس خورشید ۔ خط بنام رئیس احمد صمدانی ، بتا ریخ۱۵ مارچ ۲۰۰۰ء۔
۹۔ ڈاکٹر انیس خورشید ۔ خط بنام رئیس احمد صمدانی ، بتا ریخ۱۹ اکتو بر ۲۰۰۴ء ۔
۱۰۔ ڈاکٹر جمیل جالبی۔ بنام رئیس احمد صمدانی۔حوالہ نمبر ذ۔۱۴۱۸، بتا ریخ۱۰ اکتو بر ۱۹۹۲ء
۱۱۔ فر خندہ لودھی ، لاہور خط بنام رئیس احمد صمدانی۔ تا ریخ درج نہیں، ۱۹۸۵ء
۱۲۔ تاثرات : عبد الصمد انصاری ، در، ڈاکٹر غنی لاکرم سبزواری : شخصیت و علمی خدمات از
رئیس احمد صمدانی؍ کراچی : بزم اکرم و لائبریری پروموشن بیورو، ۲۰۰۶، ص۔۹
۱۳۔ ایضاً۔ ص۔۲۰
۱۴۔ اکرام الحق۔ تبصرہ ’’یادوں کی مالا‘‘ از رئیس احمد صدمانی۔ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل،جلد ۴۲،شمارہ ۱، مارچ ۲۰۱۱ء
15) Abdul Hafeez Akhtar. Foreword in The National Bibliography of Pakistan: Volume III (Pure
Sciences Geography and History, (500 to 900)/ (Retrospective Pakistan National
Bibliography) Islamabad: Department of Libraries, Ministry of Education, Govt. of Pakistan, 1999, ؂
580p:
16) M. AdilUsmani . Pakistan Library Bulletin: Impact of its writings on Librarianship in Pakistan.
PLB. XXVI (3-4): September - December 1995. p:17, 22
17) Ghaniul Akram Sabzwari. Library Promotion Bureau. PLB. XXVI (3-4): Sept.- Dec. 1995. p: 47
18) Syed Jalaluddin Haider. Foreword inBibliographical Sources on Islam/by Rais Ahmed Samdani.-
Karachi: PBWG. 1993. p:3
19) Syed Jalaluddin Haider. Foreword in Periodical Literature in Library and Information Science:an
Index of 50 Years Works in Pakistan (1947-1997) /by Rais Ahmed Samdani and
Khalid Mahmood.- Karachi: Pakistan Bliographical Working Group, 1999, 182p:
20) Moinuddin Khan. Foreword in Cumulative Index of Pakistan Library Review (PLR)/by Rais
Ahmed Samdani.- Karachi: PBWG. 1998. pp: 9-10
21) Rafia Ahmed Sheikh. Foreword in Akhtar H. Siddiqui: A Bio- Bibliographical Stud/by Rais Ahmed
Samdani.- /Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group, 1995, 79p: (ISBN: 9969-8170-02-2)

تصانیف و تالیفات کا تَوضِیحی جائزہ
ا ردو ادب (سوانح ، خاکے، شاعری و شخصیات)
1۔ شیخ حمد ابراہیم آزادؔ:شاگردِ رشید استاذ الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی جانشیں فصیح الملک داغ ؔدہلوی۔شخصیت ؂وشاعری ؍ کراچی:صمدانی اکیڈمی ،2013
شیخ محمد ابراہیم آز ادؔ ہندوستان کے ایک قادر الکلام شاعر ہیں جن کا تعلق ہندوستان کے صوبے راجستھان کے معروف شہر بیکانیر سے تھا۔آپ کا نعتیہ دیوان ۱۹۲۳ء میں آگرہ سے شائع ہوا تھا ۔ اشاعت دوم ۲۰۰۵ء میں کراچی سے ہوئی۔کتاب کے مصنف ڈاکٹررئیس احمد صمدنی نے کتاب کے تعارف میں لکھا ہے کہ ’’ آزاد ؔصاحب کی شخصیت اور ان کی سخن فہمی ادبی تاریخ خصوصاً نعتیہ شاعر کی حیثیت سے اہم اورلائقِ توجہ ہے۔ ادبی حوالے سے یہ کتاب آزادؔ صاحب کی سوانح اور تخلیقی خدمات پر اہم دستاویز اور آئندہ کے محقق کے لیے مفید ماخذ ہوگی۔کتاب کا پہلا باب آزاد ؔصاحب کی شخصیت کونمایا کرتا ہے ۔ معلومات کا بنیادی ماخذ خود آزادؔ صاحب کا دیوان ہے ۔ اس کے علاوہ راقم الحروف نے جو باتیں اپنے والدِ بزرگوار قبلہ انیس احمد صمدانی مرحوم اور خاندان کے دیگر احباب سے سنیں انہیں اس باب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

باب دوم آزاد ؔصاحب کی نعتیہ شاعری پر مبنی ہے۔آپ بنیادی طور پر نعت گوشاعرہیں اردو شاعری کے دامن میں عشق مصطفی ﷺ کی شان اقدس میں صالح شعر و ادب کے بے مثال ہیرے اور موتی بکھیرے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اس باب میں آزادؔ صاحب کے ہمعصر شعراء اور اہل قلم نے آپ کی شخصیت اور کلام پر جو رائے پیش کی ان کا بھی احاطہ کیا گیا ہے ۔کتاب کا تیسرا باب آزاد ؔصاحب کے خاندان جو ’خاندان باری بخش ‘ بعد میں ’خاندان حسین پور‘ کہلایاکے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ باب چہارم میں آزادؔ صاحب کے آبائی شہروں بیکانیر، مظفر نگر اور حسین پور کا احاطہ کیا گیا ہے۔پانچواں باب ’دیوان آزادؔ طبع اول و دوم ، لاہور سے شائع ہونے والے ادبی رسالے ماہنامہ ’نعت‘ کے خاص نمبر’آزادؔ بیکانیری کی نعت‘ کا احاطہ کرتا ہے۔

اردو کے معروف دانشور ، استاد و محقق پروفیسر ڈاکٹرفرمان فتح پوری نے کتاب کا پیش لفظ تحریر فرمایا ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب مرحوم کا کسی بھی کتب کے لیے ان کی زندگی کا آخری دیباچہ ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری میں رسمی نعت گو شعرا سے قطع نظر، بے شمار ایسے شعرا موجود ہیں جن کی نعتیہ شاعری یکسر وجدانی اور رسمیات سے پاک ہے۔ ان شعرا کے نعتیہ کلام نے ہما ر ے معاشرے کی تہذیبی زندگی پر کم و بیش وہی اثر ڈالا ہے جو نعت گوئی کا مقصود اصلی تھا۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ بھی ان شعرا میں سے ہیں کہ جن کے نعتیہ کلام میں رسولِ اکرمﷺ کی ذات صفات سے والہانہ عشق صاف عیاں ہوتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنابِ آزاد ؔ قبلہ سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں جن کی شاعری کے بارے میں خود بیخودؔ دہلوی نے کہا کہ ’ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چندہ محتاج نہیں‘۔ بیخودؔ دہلوی جیسے استاذ الشعرا جانشین فصیح الملک داغؔ دہلوی کی اس رائے کے بعد گنجائش نہیں رہ جاتی کے آزادؔ صاحب کی شاعری پر کچھ کہا جائے ۔ پیش نظر کتاب سے میرے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ صمدانی صاحب ایک شاعر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے خاندان میں شعر و ادب کا مذاق کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ متعدد احباب ادیب و شاعر اور صاحب ِ دیوان شاعر ہیں ۔ خود صمدانی صاحب کے بعض اشعار اس کتاب میں کہیں کہیں نظر سے گزرے ۔امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ رسولِ اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کے لیے تسکین کا وسیلہ ہوگی۔ اہل ِ ذوق کو انبساطِ روح اور نشاطِ قلب کے اسباب فراہم کرے گی۔غورو فکر کی راہیں کھولے گی اور مصنف کے قلم کو مزیدمعتبر و محترم بنائے گی اور ہر اعتبار سے اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہوگی‘‘۔

کتاب کے فلیپ پر پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی(ڈین آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ وچیٔر مین۔ شعبہ اُردوگورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد) کی رائے ہے ۔ ڈاکٹر تونسوی کے خیال میں’’پیشِ نظر کتاب صمدانی صاحب کے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی سوانح اور شاعری سے متعلق ہے۔جہاں تک جنابِ آزادؔ کی شاعری کا تعلق ہے تو وہ اپنے شعری اظہار کے حوالے سے کلاسیکل لب و لہجے کو بڑی عمدگی اور فنی مہارت سے شعروں کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کا دیوان ۱۹۳۲ء میں آگرہ سے شائع ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ آزادؔ کو بیخودؔ دہلوی جیسے معروف اور پختہ فکر شاعر کی شاگردی کا بھی اعزاز حاصل ہے اور بیخودؔ حضرتِ داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے اس اعتبار سے ادب کی یہ تکون یعنی داغؔ، بیخودؔ اور آزادؔ اپنا ثانی نہیں رکھتی۔جو کتاب آزادؔ صاحب کی سوانح و شاعری پر روشنی ڈالتی ہے اور اس تناظر میں ایک ایسے شخص و شاعر کو منظر عام پر لاتی ہے جو اوراق کی تہہ میں محفوظ تھا ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رئیس صمدانی ہدیہ تکریم کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک باکمال شخص و شاعر کو ادبی دنیا میں روشناس کرانے کے لیے ایک اہم اقدام کیا ہے۔ میں یقین سے ہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر عمدہ کاوش ہے۔

2۔ جھولی میں ہیرے اور موتی:شخصی خاکے؍ کراچی: فضلی بک سپر مارکیٹ ، ،2012 ،
عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:978-969-441-164-7
کتاب کا فلیپ معروف استاد و ادیب پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر سلیم اختر صاحب نے تحریر کیا ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق’’ڈاکٹر رئیس صمدانی کا قلم کسی طویل تعارف کا محتاج نہیں، وہ ایک عرصہ سے لکھ رہے ہیں اور جو کچھ لکھ رہے ہیں نہایت کارآمد انداز میں لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر رئیس صمدانی کے لکھے ہوئے خاکے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کی یادداشتیں بہت مضبوط ہیں، ان کی نگاہ حقائق اور واقعات پربڑی گہری رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی ایک باشعور صاحب قلم ہیں، مقبولیت و عدم مقبولیت یا کسی رسالے میں چھپنے نہ چھپنے پرذرا بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ ادب کی خدمت نہایت سلیقے اور لطیف پیرائے میں انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کی سادہ بیانی و حق گوئی میں ایسا جادو ہے کہ وہ اپنے قاری کو پوری طرح گرفت میں لے لیتی ہیں اور قاری کتاب ختم کیے بغیر اس کے سحر سے نہیں نکل سکتا۔

معروف ادیب و استاد پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر نے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں اپنے فلیپ میں لکھا ــ’’اگر سوانح عمری آراستہ ڈرائنگ روم ہے تو خاکہ روزن در کہ کم سے کم الفاظ استعمال کرتے ہوئے اختصار کے اسلوب میں شخصیت سے متعارف کرادیا جاتا ہے یو یہ چند واقعات کچھ کوائف اورمجمل اشارات کی مدد سے شخصیت سے مصافحہ ہوجاتا ہے ۔ مصوری کی اصطلاح میں بات کریں تو خاکہ اسکیچ ہے پورٹریٹ نہیں۔ ڈاکٹر صمدانی نے ادب اور ادیبوں ، قلم اور اہل قلم، علم اور اہل علم سے رشتہ استوار رکھا اس کا اظہار دوستوں پر محبت کی روشنائی سے تحریر کردہ خاکوں سے ہوتا ہے۔ ـ’یادوں کی مالا‘ کے بعد اب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ خاکوں کا تازہ مجموعہ پیش ہے جو دس خاکوں ، اپنے بارے میں ایک مضمون ، ماضی کی یادوں کے حوالہ سے دو مضامین اور ایک رپوتاژ پر مشتمل ہے۔ یہ ہیں وہ ہیرے اور موتی جن سے اس درویش صفت انسان کی جھولی بھری ہے‘‘۔اس کتاب میں میری دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں میرے ان دو عزیز دوستوں ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوہاب خان سلیم کے خاکے بھی شامل ہیں۔ ان کی محبت سرمایہ حیات ہے۔ ان کے علاوہ فیض احمد فیضؔ داکٹر عبدالسلام، عبد الستار ایدھی کے خاکے بھی ہیں ۔ رئیس صمدانی صاحب نے والدہ محترمہ کا خاکہ بھی قلم بند کیا ہے ۔فرزندگی کے اسلوب میں۔

کتاب کا پیش لفظ ، شعبہ اردو ،جامعہ سرگودھاکے استاد ڈاکٹر خالد ندیم کا تحریر کردہ ہے انہوں نے لکھا ’’شیخوپورہ کی علمی و ادبی تنظیم ’دریچہ‘ کے دوستوں کے بعد سرگودھا میں اگر کسی ادبی شخصیت نے مجھے متاثر کیا تو وہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تھے۔ ان کی رفاقت میرے لیے اس قدر خوش گوار تھی کہ سرگودھا مجھے اپنے شہر کی طرح محسوس ہونے لگا۔ ڈاکٹر صمدانی نے اپنی ان تحریروں کو خاکہ نگاری سے متعلق نہیں کہا،بلکہ انھوں نے ان نگارشات کو سوانحی خاکے اور سوانحی مضامین کا نام دیا ہے، البتہ اس مجموعے کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ مصنف ان شخصیات سے جذباتی طور پر متاثر نہیں اور نہ ہی وہ ان کی قصیدہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے ان شخصیات کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو بھی ان میں شامل کر کے انھی واقعات کے بیان تک محدود نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے تخلیقی حرارت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

زیرِ نظر مجموعہ میں ان کے سوانحی خاکے اور مضامین شامل ہیں۔ یہ مجموعہ سابقہ مجموعے سے اگلی منزل کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صمدانی نے اپنے تخلیقی سفر کو بد ریج طے کیا ہے اور اب وہ اس صنف کی اس منزل پر ہیں، جہاں خاکہ نگاری میں ان کا رنگ اپنی انفرادیت کا اظہار کرنے لگا ہے۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ قریبی شخصیات پر لکھنے کے لیے خاکہ نگار کے پاس زیادہ مواد ہوتا ہے، اس لیے ایسے موضوعات پر وہ زیادہ سہولت سے لکھ سکتا ہے، لیکن یہ تصویر کا محض ایک رُخ ہے۔ شخصیت جتنی زیادہ قریب رہی ہو، اس پر طبع آزمائی کرنا اتنا ہی مشکل کام ہے اور پھر بعض لمحوں کو قلم بند کرنے میں بعض شخصیات کی تقدیس بھی حائل ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے والدہ محترمہ کے خاکے میں زیادہ فنی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس خاکے میں انھوں نے ایک بیٹے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ادیب کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ایسا خاکہ مصنف کے لیے بالعموم پل صراط پر چلنے سے کم دشوار نہیں ہوتا اور پھر صحیح سلامت منزلِ مراد تک پہنچ جاتا یقینا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ مقامِ مسرت ہے کہ ڈاکٹر صمدانی اس خاکے میں اپنی تمام تر تخلیقی توانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر صمدانی کسی شخصیت کی مضحکہ خیزی یا کرداری تضادات کے باعث اسے خاکے کا موضوع نہیں بناتے، بلکہ وہ مہرو وفا اور خلوص و مروّت کے رشتوں سے انھیں منتخب کرتے ہیں۔ وہ اپنے تعلقات کی بنیاد پر دھیمے سروں میں گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور کسی دعوے یا ادعا کے بغیر اپنی ملاقاتوں اور ممدوح کی فتوحات سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی شخصیت نہ تو فرشتہ ہے اور نہ ہی وہ مجسمہ شر؛ بلکہ وہ انسانوں سے ملواتے ہیں، جو خوبیوں اور خامیوں کا امتزاج ہوتے ہیں۔

بعض مقامات پر شاہد احمد دہلوی کی طرح ڈاکٹر صمدانی نے بھی حلیہ نگاری پر توجہ دی ہے۔ ایسے مقامات سے بخو بی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ میدان کی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ چوں کہ فی زمانہ نام نہاد ’حقیقت نگاری‘ کی آڑ میں گھٹیا سے گھٹیا حرکت کو آرٹ کا نام دیا جانے لگا ہے، چناں چہ جوش ملیح آبادی کی ’آپ بیتی‘ کے بعد کئی ایک ’پاپ بیتیاں‘ سامنے آئی ہیں، جن کے مصنف لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی ’حرکات‘ کا فخریہ اظہار کرتے ہیں؛ لیکن ڈاکٹر صمدانی کا خدا بھلا کرے، ابھی ان کی صورت میں مشرق کی آنکھ میں کچھ روشنی باقی ہے۔ وہ اپنے موضوع سے متعلق بات کرتے ہوئے اپنی تہذیبی روایات کو نظر انداز نہیں کرتے۔فیض احمد فیضؔ کے خاکے میں معلومات کی فراہمی کے لیے انھوں نے اپنی یادداشتوں کے ساتھ ساتھ دیگر منابع سے بھی استفادہ کیا، لیکن اپنی تحریر کو تخلیقی توانائی سے ادبی شہ پارہ بنا دیا۔ڈاکٹر طاہر تونسوی سے اپنے تعلق کو خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح فرخندہ لودھی کے خاکے میں بھی انھوں نے دیگر ذرائع سے معلومات یکجا کیں، لیکن ممدوح کی شخصیت کے جو نقش قلم بند کرنے میں وہ کامیاب ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ زیرِ نظر خاکوں میں سوانحی معلومات بھی ہیں اور خاکہ نگار کا تخلیقی لمس بھی۔ ان کے مطالعے سے قاری کو صرف شخصیت کے ماہ و سال سے آشنائی ہوتی ہے، بلکہ بعض مواقع پر خاکہ نگار کے لب و لہجے اور تاثرات کی مدد سے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہونے لگتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قبل یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے خاکہ نگار کو، اپنے قاری کو متاثر کرنے کی جلدی نہیں۔ وہ جملے بازی سے قاری کے لیے کوئی سامانِ ضیافت پیش نہیں کرنا چاہتے؛ انھیں شہرت کی احتیاج بھی نہیں، وہ تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے چند کرداروں کے ذریعے اُس تہذیبی روشنی کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، جو بتدر یج تاریکی کی نذر ہوتی جارہی ہے اور جس کے خاتمے کے بعد اگر انسان زندہ رہا بھی تو وہ شرفِ انسانیت سے ضرور محروم ہو جائے گا۔ انھوں نے بڑی عام فہم اور آسان زبان میں اپنے ہر موضوع کے بارے میں وہ کچھ لکھ دیا ہے، جو حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے روزمرہ باتوں اور واقعات کو علمی و ادبی رنگ دینے اور محض اسلوب کا جادُو جگانے کے بجاے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ ان کی تحریر کی خصوصیت بھی ہے اور ہمارے بعض ادیبوں کے لیے باعثِ تقلید بھی۔

روزنامہ جنگ کراچی نے اپنی اشاعت مورخہ ۶ جنوری ۲۰۱۳ء میں کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’اصناف ِ ادب میں خاکہ کسے کہتے ہیں؟ خاکہ نگاری کے اصول یا حدود و قیود کیا ہیں؟ کیا شخصیات کے بارے میں تعریفی توصیفی مضامین کو خاکہ کہا جائے گا؟ یا پھر عصمت چغتائی کا ’’دوزخی‘‘ خاکے کی تعریف میں آتا ہے؟ یہ ایک بحث طلب مثلہ ہے جس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔بہر صورت اردو ادب میں اکابرین نے بھی خاکے تحریر کیے ہیں اور موجودہ دور میں بھی بہت سے ادیب لکھ رہے ہیں۔یہ سلسلہ مولونا حسین آزاد کی ’’آبِ حیات‘‘ سے بھی بہت پہلے اردو کے قدیم تذکروں میں کسی نہ کسی صورت میں ملتا ہے۔ اس طرح اگر خاکہ نویسوں کی فہرست ترتیب کی جائے تو طویل ہوجائے کگی۔ در اصل ہمارے ہا ں خاکہ نویسی کا کوئی امتیاز نظر نہیں آتا، چنانچہ یادنگاری بھی اس میں شامل ہوگئی ہے۔سوانح نگاری بھی در آئی ہے، آراء نویسی بھی اس کا حصہ بن گئی ہے اور مصنف کے گزشتہ حالات و واقعات بھی اسی میں شریک ہوجاتے ہیں۔بہر صورت خاکوں پر مشتمل کئی کتابیں اردو کا سرمایہ بن گئی ہیں اور حوالے کے طور پر ان کا تذکرہ آتا ہے۔ ’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘ میں بھی شخصی خاکے شامل ہیں۔مصنف کا تعلق لائبریری سائنس سے ہے اور وہ پاکستان کی مختلف جامعات میں رہے ہیں، اس لیے ان کا مختلف علمی و ادبی شخصیات سے تعلق رہاہے، جن میں سے بعض کے انہوں نے خاکے تحریر کیے ہیں۔ان خاکوں میں سوانحی پہلو بھی ہیں اور خود مصنف کی اپنی یادداشتیں بھی شامل ہیں۔انہوں نے ان شخصیات کو یسے دیکھا، ان
کے مشاہدے میں کیا کیا باتیں آئیں؟ ان باتوں کا اظہار اس کتاب میں ہے۔ آخر میں جامعہ کراچی سے متعلق یادیں تحریر کی گئی ہیں ‘‘۔

کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں ۱۱ خاکے ہیں ان میں ڈاکٹر طاہر تونسو ی ۔ اردو ادب کا روشن ستارہ ،عبد الوہاب خان سلیم ۔ ایک کتاب دوست، فیض احمد فیض ؔ ۔ میرا پرنسپل،فر خندہ لودھی ۔ ایک ادیب ایک کتابدار ،پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام ۔ سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد،پروفیسر لطیف اﷲ ۔ سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد،پروفیسر محمد احمد ۔ سابق پرنسپل اسلامیہ کالج ، سکھر، حاجی عبداﷲ ہارون ،گورنمنٹ کالج کراچی عبد الستار ایدھی ۔ خدمت و عظمت کی لازوال مثال،عبد الصمد انصاری ۔ دھیما لہجہ،میری ماں۔ صفیہ سلطانہ (خاکہ)، اپنی تلاش(خاکہ)۔ رئیس احمد صمدانی شامل ہیں۔ کتاب کے دوسرے حصے میں مصنف نے اپنی یادوں کے دریچے کے تحت اپنی کچھ پرانی یادوں کو قلم بند کیا ہے ان میں جامعہ سرگودھا میں میرے شب و روز(کچھ یادیں کچھ باتیں)، جامعہ کراچی میں میرا زمانہ طالبِ علمی:گزرے دنوں کی کچھ یادیں ، میں نے موت کو قریب سے دیکھا: (رپور تاژ)، یادوں کی مالاپر پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے اور اکرام الحق کا تبصرہ شامل ہے۔معروف صحافی، ادیب و محقق محمد احمد سبزواری صاحب نے کتاب پر تبصرہ تحریر فرمایا جوماھنامہ ’قومی زبان‘ جولائی ۲۰۱۳ء جلد ۸۵، شمارہ ۷ میں شامل ہے۔

3۔ یادوں کی مالا:مختلف شخصیات کے بارے میں مصنف کے تاثرات، افکار اور انعکاسات؍ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، 2009، عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:969-503-763-1
آرمڈفورسز پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ،راولپنڈی کے لائبریرین اکرام الحق نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کہ ’’ڈاکٹررئیس احمد صمدانی کی کتاب’’ یادوں کی مالا‘‘مختلف شخصیات کے بارے میں ان کے تاثرات ،افکار اور انعکاسات کا مجموعہ ہے۔ کتاب پر۳۵۰روپے قیمت درج ہے۔کتاب میں ۲۵ شخصیات پر مشتمل ابواب ۲۴۴صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔پندرہ شخصیات کا تعلق براہ راست لائبریرین شپ کے پیشے سے ہیں۔جو اس مقدس پیشے کا قیمتی اثاثہ ہیں۔مصنف نے اعتراف کیا ہے کہ یہ مضامین گذشتہ تیس برس میں لکھے گئے اور وقتاً فوقتاً مختلف رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہے۔ مصنف ایک کہنہ مشق لائبریرین اور منجھاہوا لکھاری ہے ۔انہو ں نے اپنی یاد کے ایک ایک موتی کو لفظوں کی مالا میں پرو یاہے ۔

کتاب کا پہلا مضمون حکیم محمد سعید شہید کی قد آور شخصیت پر لکھاگیا ہے جنہیں مصنف کتاب اور کتب خانوں کا شیدائی قرار دیتے ہیں۔ دوسرا مضمون عالم اسلام کے نامور ماہرتعلیم ڈاکٹر طلحہ حسین پرہے ۔ جنہیوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجود تعلیم کے میدان میں عظیم کارنامے سرانجام دیئے ۔تیسرا مضمون حاجی سر عبداﷲ ہارون پر لکھا ہے،جو قائداعظم کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ سندھ کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ چوتھا مضمون شیح محمد ابراہیم آزاد کی محترم شخصیت پر ہے ۔اس مضمون میں آزاد کے سوانحی خاکے کے ساتھ ان کی نعتیہ شاعری پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ کتاب میں موجود تیرھواں مضمون آزادصاحب کے پوتے اور نعت گو شاعر تابش صمدانی صاحب پر لکھا گیاہے جس میں ان کے عشق رسول ﷺ اور نعتیہ شاعری کی تفصیل درج ہے مصنف نے کتاب میں اُن قابل توجہ مگر گمنام لوگوں کو اپنے قلم کی تحریرسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زند ہ کردیا ہے جنہوں نے مصنف کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا۔جس میں محبوب احمد سبزواری جو مصنف کے ماموں ہے ۔مشکور احمد صاحب ،یہ بھی مصنف کے رشتہ دار ہے مگر انتہائی خود دار اور ہمت والے انسان۔ایک درویش صفت اور ولی کامل سیدامام کا تذکرہ بھی موجود ہے جو عملیات کے ذریعے جنات کا توڑ کرتے تھے ۔، شیخ لئیق احمدمصنف کے قریبی رشتہ دار ہے جن کی زندگی نشیب وفراز کی داستان ہے۔ منظور احمد بٹ ،ایک مخلص سماجی کارکن،جن کی زندگی کا مقصد اوروں کے کا م آناہے۔ان شخصیات پرلکھے گئے یہ اولین مضامین ہیں۔ مصنف نے اپنے قلم کی طاقت اور جذبے کی حرارت سے ان شخصیات کوہمیشہ کے لئے زندہ کردیاہے۔ بحیثیت ایک شاگرد کے اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید کوزبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں دنیائے لائبریرین شپ کی ایک عہد ساز شخصیت کہاہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید ،صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے خطوط ، یاداشتیں اور تاثرات کو بھی کتاب کی زینت بنایا۔ نرم دل،ہمدرد اور صلہ رحمی کرنے والے کراچی یونیورسٹی کے سابق لائبریرین جناب عادل عثمانی سے اپنی محبت کا بھرپور اظہار کیاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری )مصنف کے چچا اور مصنف کو لائبریرین شپ میں لانے والے بھی (۔ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر ، جمیل نقوی صاحب جو علی گڑھ یونیورسٹی کی لٹن لائبریری اور امپیریل لائبریری کلکتہ میں اپنے پیشہ وارنہ فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں ،ڈاکٹر انیس خورشیدپر سوانحی مضامین ہیں۔

مصنف نے پنجاب لائبریری ایسوی ایشن کے باباجی میاں الطاف شوکت کو بھی نہایت خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیاہے ۔پاکستان میں لائبریری تحریک کے خاموش مجاہد ابن حسن قیصرسے اپنی محبت اور عقیدت کو بھی قلم بند کیا۔ پروفیسر اختر حنیف کا تذکرہ بھی ہے،مصنف نے محمد زبیر صاحب سے اپنی وابستگی اور رفاقت کو دلنشیں انداز میں پیش کیا۔ ۔علی گڑھ یونیورسٹی کے لائبریرین رہے ۔اسلامی کتب خانوں پر ان کی کتاب کسی اتھارٹی سے کم نہیں، مولانا محمد عارف الدین ، سید امتینان علی شاہ بخاری اور ہمدرد یونیورسٹی والے رشید الدین احمد سے صمدانی صاحب نے اپنی محبت اور رفاقت کا ذکر بڑے پیارے اندازمیں کیاہے۔

صمدانی صاحب کا اسلوب تحریر دلکش اورسلیس ہے ۔اشعار کا استعمال بھی شانداراور موقع کی مناسبت سے ہے۔ہر مضمون میں شخصیات کی مختصر سوانح عمری ،ان کے عادات اور خصائل اور مصنف کے ساتھ ان کا برتاؤخوبصورت انداز میں پیش کیا گیاہے۔ بہت سے مضامین کا آغاز بڑے ہی موثر اندازمیں کیا گیا ہے اور عموماً شعر پر مضمون ختم کیاگیاہے ۔ کتا ب کے آخر میں ایک رپورتاژ بھی شامل ہے جو مصنف نے اپنی ۳۹د ن کی بیٹی کے غم میں لکھی ۔ جس میں دل سوزی اور اداسی کی لہر چھائی ہوئی ہے ۔بڑے لوگوں کی زندگیا ں عام لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ ان کے کارنامے ہماری ہمت بڑھاتے ہیں اور ہمیں بے لوث خدمت کرنے پر ابھارتے ہیں ۔ عظیم لوگ خداکا عطیہ ہوتے ہیں ۔ انہیں لوگوں کی وجہ سے دنیا ترقی کی منازل تیزتر طے کرتی ہے ۔ صمدانی صاحب نے کتاب لکھ کر جہاں ان عظیم شخصیات سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا وہیں یہ بھی ثابت کردیا ہے آپ کہنہ مشق لائبریرین اور مشفق استاد ہی نہیں ایک اچھے ادیب بھی ہیں۔(شائع شدہ ، پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل،جلد ۴۲،شمارہ ۱، مارچ ۲۰۱۱ء )

معروف ادیب ،محقق و استاد پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کتاب اور صاحب ِکتاب کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بندکرتے ہوئے لکھا ’’یادوں کی ما لا‘‘ لفظی اور معنوی ہر اعتبار سے ایک قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ یہ کتاب مشہور قلم کار ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تصنیف ہے اور ان کے ذاتی تجربوں اور یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب صرف لائبریرین شپ سے متعلق حضرات کے لیے نہیں بلکہ استفادۂ عام کا حق ادا کرتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے تبصرہ نما اور خاکوں پر مشتمل ہے۔لیکن جو کچھ ہے وہ قدر و قیمت میں بلند پایہ ہے۔ صمدانی صاحب ایک مدت سے لکھ رہے ہیں اور اب بھی ان کا قلم رواں دواں ہے۔کتاب بلحاظ زبان و بیان معتبر ہے اور مصنف نے جو کچھ لکھا ہے پورے غور و فکر کے بعد لکھا ہے۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ لکھا ہے اور مختصر نویسی کا حق ادا کیا ہے۔ یقین ہے کہ کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ رئیس احمد صمدانی کے نام اور کام کو بلند و بالا کرے گی۔ کتاب نہایت صاف ستھرے انداز میں شائع ہوئی ہے اور قاری کو متوجہ کرتی ہے ۔ مضامین کی فہرست میں کچھ تو مختصر خاکے ہیں کچھ تنقیدی جائزے ہیں اور کچھ مختصر تذکرے، مگر اختصا ر میں بھی وہ سب کچھ آگیا ہے جو موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے ضروری تھا۔

مختصراً یوں کہنا چاہیے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر جامع کتاب ہے جس میں لائبریرین شپ کی تقریباً تمام ہی معروف اور اہم شخصیات کا قابل توجہ احاطہ کیا گیا۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب سارے علمی ادبی حلقوں میں مقبول ہوگی اور شخصیات پر لکھنے والوں کی رہنمائی کرے گی۔
4۔ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری : شخصیت و علمی خدمات؍؍کراچی: بزم اکرم و لائبریری پروموشن بیورو،2006 ۶، ۹۶ص،عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:97-969-459-035-3
پیش نظر کتاب پاکستان لائبریرین شپ کے استاد، مصنف و مو لف ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری کی شخصیت اور علمی کارناموں کا اجمالی جائزہ ہے۔ کتاب کا پیش لفظ معروف شاعر اور ادیب پرفیسر محمد واصل عثمانی نے تحیریر کیا ہے ۔
5۔ ڈاکٹر عبد المعید اور پاکستان لائبریرین شپ؍(مشترک مولٔف )کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، 1980ء، ۱۵۱ص

پاکستان میں لائبریرین شپ کے بانی پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید کی شخصیت ، خدمات اور کارناموں پر مشتمل کتاب ۱۹۸۱ء میں مرتب کی گئی اور شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس جامعہ کراچی کی پچیسویں سا لگرہ کے موقع پر لائبریری پروموشن بیو رو نے شائع کی۔معروف شاعر رئیس فروغ نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’اس مجموعہ میں ڈاکٹر عبدالمعید کوپاکستان لائبریرین شپ کا مینارہ نورکہا گیا ہے اور ان کے کارناموں کو ان اوراق میں محفوظ کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کانامے ہی دراصل پاکستان میں لائبریری سائنس کی تاریخ ہیں اس تاریخ کو بنانے میں ڈاکٹر صاحب کی مساعی ناقابل فراموش ہیں۔یہ کتاب ایک اہم شخصیت کا تفصیلی تعارف کراتی ہے، ایک ادارے کی بتدریج تر قی کی داستان سناتی ہے، قو می زندگی کے ایک شعبے کی بنتی ہوئی تاریخ کی مرحلہ وار عکاسی کرتی ہے اور کارکنوں کے ایک گروپ کے خلوص کار جنونی عمل اور باہمی تعاون کی دستاویز فرہم کرتی ہے۔(رئیس فروغ۔ پاکستان لائبریری بلیٹن، جلد ۱۲ شمارہ۳۔۴، ستمبر ۔ دسمبر ۱۹۸۱ء، ص۔۲۱۔۲۲)

کتاب کی تعارفی تقریب ۲۹ اگست ۱۹۸۱ء کو لیاقت میموریل لائبریری کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی ۔ تقریب مہمان خصوصی اس وقت کے وزیر تعلیم جسٹس سید غوث علی شاہ صاحب تھے ۔ ڈاکٹر عبد المعید صاحب اس وقت شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کی ۲۵ سالہ تقریبات میں شرکتب کے لیے خصو صی طو ر پر نائجیریا سے تشریف لائے تھے۔محترم حکیم محمد سعید شہید نے بھی اس تقریب میں خصو صی طو پر شرکتب فرمائی۔
6۔ محمد عادل عثمانی : کتابیاتی سوانحی جائزہ(انگریزی)
Muhammad Adil Usmani: A Bio-Bibliographical Study/ Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group
& Library Promotion Bureau, 2004. 117p. (ISBN: 969-8170-05-7)
The book is a humble tribute of a person who devoted his whole life in the profession of Librarianship and one of the founder's of Library Movement of Pakistan. Adil Usmani's name is regarded and respected among the great names of Library and Information Science profession. He possesses multifarious abilities and qualities, which raised him to a most honorable and respectable position.He contributed a good number of research publications. His publications are a great source of research in the field of Library and information Science. Mr. Usmani had a very brilliant academic and professional career. He graduated from Allahabad University (India), Post-Graduate Diploma in Library Science from University of Karachi and Master in Library Science from the State University of Rutgers (USA). He was awarded Fulbright and Asia Foundation scholarship to study in USA.

Dr. Ghanuul Akram Sabzwari who has written forward of this book stated "Mr. Rais Ahmed Samdani devoted extensive energy and time in compiling Bio-bibliography on Mr. Usmani. He has made available to the librarianship a wealth of information on the life and works of Mr. Adil Usmani. One could get an idea of Mr. Usmani's contribution and dedication in the profession. He has written and compiled several books on Library and Information Science specially text books in Urdu at Intermediate and Degree level which are prescribed in Library Science Courses. Mr. Samdani can safely be quoted as one of the outstanding figure of Pakistan Librarianship to whom goes the credit of compiling highest number of bio-bibliographies in the field of Library and Information Science in Pakistan. He has a number of bibliographical works to his credit. His most significant contribution in the field of National Bibliography appeared under the title The National Bibliography of Pakistan, from 1947 to 1961 (Social Sciences to History), Fascicule III published by the Government of Pakistan, Ministry of Education, Department of Libraries in 1999. He is actively engaged in running the Pakistan Bibliographical Working Group and its
Library School. He is associated with Library Promotion Bureau and Pakistan Library Association".

7۔ اختر ایچ صدیقی : کتابیاتی سوانحی جائزہ(انگریزی)
Akhtar H. Siddiqui: A Bio-Bibliographical Study/Karachi: Pakistan Bibliographica Working Group, 1995,
79p: ; (ISBN: 969-8170-02-2)
The book has foreword which has written by an eminent scholar Prof. Dr. Rafia Ahmed Sheikh now Pro-Vice Chancellor University of Sindh. She says 'no such work existed prior to this (written by any other Pakistani writer), and thus I regard it as a pilot study and an original and comprehensive piece of work, where Mr. Siddiqui truly exhibits his competence. His expert handling of the progress made in the library scene in Pakistan deserves credit. It is one of my favorite books on Pakistan Librarianship.

Mr. Moinuddin Khan's words:"I shall be failing in my duty if I don't turn to the author of this exhaustive study. Mr.Samdani has done as equally scholarly work in gathering the prolific works of his outstanding biographies within the two covers of a slim book. It is often said, librarian do not write but they do take good care of other's writings, but in this case a librarian has volunteered to compile a fellow librarian's life-long output in profuse admiration and regard.

M. Gulistran Khan's words, "the book is an excellent record of life and works of a person who held various positions in library profession starting as a librarian, later documentation offer, Director and advisor. He has been vary enthusiastic and zealous which later qualified him to hold senior position in various organizations. Mr. Samdani has taken painstaking efforts in tracing wide record of information on the life career of Mr. Siddiqui. There is a long career of his professional life and it is not easy to highlight various activities and achievements in such a useful manner. The whole book provides a fascinating record of informative material, which is of great value to the people engaged in research and person interested in published bibliographies. The book is of great interest to the book world at home and abroad. The publicationj would have been more useful if a complete index of the publication cited in the text had been provided at the end". (PLB: 30(1-2): March-June 1999, p. 36

لائبریری و انفارمیشن سائنس کے معروف استاد و مصنف پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید مرحوم نے اپنے ایک بنام اختر صدیقی اس کتاب کے بارے میں تحریر کیا:’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنے بارے میں شائع ہو نے والی Bio-Bibliographical Study کی ایک کاپی مجھے عنایت فر مائی ورنہ میں ایک اچھی کتاب سے شاید محروم رہتا۔ میں نے سر سری طور پرہی اسے دیکھا ہے مجھے کتاب اچھی لگی۔ Presentationبہت ہی اچھے طور پر کی گئی ہے اور نہایت عمدگی سے dataکو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب سے آپ کی بھر پور شخصیت اپنی طرحداری کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔تدوین اور تر تیب بھی اچھی ہوئی ہے یوں کہنا چاہئے کہ اختر ایچ صدیقی کی متنوع اور سدا بہار شخصیت اپنی پوری کتا بیاتی سر گرمیوں کے ساتھ اس کتاب کے ذریعہ بھر پور طور پر نمایاں ہو جاتی ہے۔

کتاب کی تعارفی تقریب ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو ایچ ای سی آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پو ری تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے جب کہ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی سید انظار حسین زیدی نے تقریب کی صدارت کی۔ مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر، پروفیسر لطیف احمد انور، معین الدین خان، پروفیسر سراج الدین قاضی شامل تھے۔

8۔ ادب و کتب خانہ ؍(مشترک مولٔف) کراچی:بزم اکرم۔ 1980ء، ۲۲۸ص
لائبریری سائنس کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کی ادبی انجمن ’’بزم اکرم ‘‘ کا قیام ۱۹۷۹ء میں عمل میں آیا ۔ یہ کتاب اس بزم کا دوسرا مجلہ ہے جو کتابی صورت میں شائع ہو ا اس میں لائبریرین ضرات اور دیگر اہل قلم حضرات کی نگارشات شامل ہیں۔

اسلامی موضوعات
9۔ دعا کی اہمیت و فضیلت اور ۱۰۱ قرآنی و مسنون دعائیں معہ ترجمہ؍ ؍کراچی: صمدانی اکیڈ می ، اشاعت اول ۲۰۰۸ء، اشاعت دوم 2011،۸۸ص۔عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:978-969-9267-00-0
کتاب کا موضوع دُعا ہے جس میں دُعا کے معنی اور تعریف،دُعا کی عظمت قر آن کریم کی روشنی میں،دُعا کی عظمت احادیث نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم کی روشنی میں،دُعا مانگنے کی ہدایت،دُعا کے آداب،دعا کے مخصوص احوال و اوقات، رو ح ِ دُعا ، دعا میں جلد بازی سے کام نہ لینا، دُ عا جس
کی ممانعت ہے وغیرہ کی تفصیل شامل ہے۔

کتاب کا دوسرا حصہ قرآنی ومسنون دعاؤں پر مشتمل ہے جن کی تعداد ۱۰۱ ہے۔ اس مجموعہ کی ایک خصو صیت یہ بھی ہے کہ اس میں ۱۰۱ قر آنی دعائیں اور رسول اکرم محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی دعائیں بھی شامل ہیں۔ ہر دعا کے آخر میں قرآن مجید کی سورۃ کانام و نمبر اور آیت کا نمبر درج کیا گیا ہے ساتھ ہی اس کا اردو تر جمہ بھی تحریر کیا گیا ہے۔احادیث مبارکہ میں جن دعاؤں کا ذکر آیا ہے ان دعاؤ ں کے آخر میں احادیث کی کتب کا حوالہ درج کر دیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں اردو میں دُعا بیان کی گئی ہے یعنی اگر کوئی عربی میں کسی وجہ سے دعا کا ماگنا ممکن نہ ہو یا مشکل ہو تو اردو زبان میں دعا مانگی جاسکتی ہے۔

کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر سردار احمد صاحب نے تحریرفرمایا ہے جو نہ صر ف اسلامیات کے پروفیسر ہیں ساتھ ہی وفاق المدارس العربیہ پاکستان ’’شہادۃ العالمیہ‘‘ (مساوی ایم اے ) کی سندبھی رکھتے ہیں ۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ ’’جناب رئیس احمد صمدانی جو لائبریری سائنس کی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور مختلف کتب کی مدد سے ایک عمدہ مجموعہ تیار کر دیا ہے ۔ زندگی میں مختلف مواقع پر اور مختلف اوقات میں کی جانے والی دعائیں تقریباً اس میں سب آگئی ہیں۔ یہ ایک اچھی کاوش ہے جو قارئین کے لیے انشاء اﷲ قابل قدر ، دلچسپی اور فائدہ کا باعث ہوگی ۔ اﷲ پاک مؤلف کی سعی قبول فرمائے اور قارئین کو اس سے استفادہ کی توفیق بخشے‘‘۔

10۔ سلام : (السلام علیکم )قرآن کی روشنی میں؍ کراچی: صمدانی اکیڈمی، 2002
عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:978-969-9267-01-7
یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں سلام کے معنی و تعریف،سلام کرنے کی ابتدا،سلام کا احسن طریقہ ، السلام علیکم کی فضیلت اور اہمیت،سلام کرنے کا اجر و ثواب،سلام میں سبقت،کون کس کو سلام کرے (احکام اور ضابطے)،سلام کرنے یا جواب دینے کی ممانعت ،سلام کرنے میں احتیاط سے کام لینا،غیر مسلموں کو سلام کا جواب،مصافحہ ، معانقہ(لپٹنا) اورتقبیل یعنی ( چومنا) اور کون کس سے مصافحہ کرے کی مختصر تفصیل قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کی گئی ہے۔

کتاب کا پیش لفظ پروفیسر ڈاکٹرعبد الرشید رحمت:ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ، یونیورسٹی آف سرگودھا نے تحریر فرمایا ہے ۔ کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں پروفیسر صاحب رقمطراز ہیں ’’محترم رئیس احمدصمدنای ‘ جن کا اصل فن لائبریری سائنس ہے ، لیکن اسلامی تعلیمات سے دلچسپی کی وجہ سے آپ نے اسلام کے مختصر موضوعات مثلاً دُعا کی اہمیت و فضیلت کے حعالے سے علمی میدان میں ان کا ایک عجالہ دوسری بات چھپ چکا ہے۔ اب کی دفعہ آپ نے ’سلام‘ کے حوالے سے ایک نہایت مفید و مختصر معلوماتی کتابچہ مرتب کیا ہے۔ میں نے اس کا بغور مطالعہ کیا ہے اس کی تمام معلومات قرآن و سنت کے عین مطابق ہیں ۔ چونکہ آپ کا مقصد عوام الناس کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ہے ، اس لیے اس کی زبان بھی عام فہم رکھی گئی ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ آپ کا یہ عجالہ نافعہ پہلے کام کی طرح قبولیت عامہ حاصل کرے گا۔

لائبریری و انفارمیشن سائنس
11۔ کتب خانے تاریخ کی روشنی میں؍ کراچی: قمر کتاب گھر، 1977 ،۱۱۱ص
ٍ ڈاکٹر صمدانی کی یہ دوسری تصنیف تھی جو ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی۔بنیادی طور پر یہ کتاب لائبریری سائنس کے نصاب کے مطابق تحریر کی گئی اور لائبریری سائنس کے مضمون ’کتب خانوں کی تاریخ ‘ کا احاطہ کرتی تھی۔ کتاب کا تعارف لائبریری سائنس کے استاد اور جامعہ کراچی کے لائبریرین جناب محمد عادل عثمانی نے تحریر کیا ۔ آپ نے لکھا’’ ’’فاضل مصنف کی یہ کتا ب اس اعتبا ر سے اہمیت کی حامل ہے کہ اسے ایک مقصد سے مر تب کر نے کی کوشش کی ہے اور وہ مقصد لائبریری سائنس کے موضوع پر نصابی کتب کے فقدان کو دور کر نا ہے‘‘ ۔ لائبریری سائنس کے ایک اور محترم استاد و مصنف ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے ایک مضمو ن میں اس کتاب کے بارے میں لکھا ’’ تاریخ کے موضوع پر ایک مختصر کتاب رئیس احمد صمدانی کی ہے جسے’’ کتب خانے تاریخ کی روشنی میں‘‘ کے نام سے ۱۹۷۷ء میں کراچی سے قمر کتا ب گھر نے شائع کیا ہے۔ یوں تو نام کے اعتبار سے اس کتاب میں کتب خانوں کی پوری تاریخ کو شامل ہونا تھا لیکن کتب صرف عہد قدیم اور بر صغیر پاک و ہند کے قدیم شاھان اودھ تک کے کتب خانوں کا احاطہ سر سری طور پر کر پائی ہے‘‘۔ڈاکٹر انیس خورشید کا یہ مضمون ماہنامہ کتا ب ، لاہور۔۱۵(۴) : ۷۰، فروری ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا تھا۔

لائبریری سائنس کے معروف مصنف الحاج محمد زبیر نے کتاب کے بارے میں تحریرفرمایا ’’میرے ہم پیشہ و ہم مشرب رئیس احمد صمدانی نے کتب خانوں پر کتب لکھ کر بڑی عمدہ مثال قائم کی ہے۔ یہ کام بڑی خوبی سے انجام دیا ہے میری یہ دعا ہے کہ خدا انہیں یہ سلسلہ قائم رکھنے کی توفیق دے ۔میری رائے میں یہ قابل قدر کتاب اس نوجوان نسل کے لیے خاص طورپر بڑی سود مند ہوگی جو کتب خانوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ میری یہ رائے محض رسمی رائے نہیں ہے بلکہ یہ اس شخص کی رائے ہے جو خود بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکا ہے اور جس نے اپنی عمر کے ۵۵ برس کتب خانوں اور فن کتب داری کی خدمت میں گذارے ہیں‘‘۔ (الحاج محمد زبیر۔ ۲۱ نومبر ۱۹۷۸ء)۔ پروفیسر سید لطف اﷲ سابق پرنسپل سراج الدولہ گورنمنٹ کالج و گورنمنٹ غزالی کالج حیدر آباد اپنی رائے کا اظہار کر تے ہوئے لکھا کہ ’’ میرے خیال میں یہ بات بلا خوف و تر دید کہی جاسکتی ہے کہ صمدانی صاحب کی یہ کتاب لائبریری اور لائبریری سائنس کے علم میں بہترین اضافہ ہے ‘‘۔ ( ۳۰ اپریل ۱۹۷۹ء)

اس کتاب پر ماہنامہ افکار، کراچی نے تبصرہ کر تے ہوئے لکھا ’’ کتابچہ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ تر تیب دیا گیاہے، زبان تحقیقی ہو نے کے علاوہ خاص رواں اور شگفتہ ہے اور قاری کو معلومات بھی بہم پہچاتی ہے اور اس کی دلچسپی بھی قائم رکھتی ہے‘‘۔ (ماھنامہ افکار، کراچی۔ ۳۴(۱۔۲) : ۷۱۔۷۲، ستمبر ۱۹۷۸ء)

ماہنامہ تخلیق لاہور نے لکھا ’’ کتاب لائبریری سائنس کے موضوع پر نصابی کتب کی کمیابی کو پورا کرتی ہے دوسرے حضرات جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے بھی ایک گرانقدر اضافہ ہے‘‘۔ (ماہنامہ تخلیق لاہورَ ۱۰ (۹۔۱۰) : ۱۳۲، ۱۹۷۹ء)

ماہنامہ قومی زبان کراچی نے تبصری کر تے ہوئے لکھا ’’ تاریخ اسلام کے کتب خانوں کے بارے میں جو معلومات یکجا کی جاسکتی تھیں مولف نے نہایت خوبی کے ساتھ جمع کر دی ہیں جن کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں‘‘۔ (ماہنامہ قومی زبان کراچی۔ ۴۷ (۱۲) : ۵۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء)

ہفت روزہ ادراک سیالکوٹ نے لکھا ’’فاضل مصنف نے کافی مواد قارئین کے لئے جمع کیا ہے اور عرق ریزی سے ایک ایسی دستاویز کتابی شکل میں پیش کی ہے جو وقت کی ایک ضرورت تھی ‘‘۔ ( ادراک، سیالکوٹ۔ ۱۰ )۵۔۶) : ۲۶ ، یکم تا ۱۵ فروری ۱۹۷۸ء)

معروف شاعر رئیس امروہوی مرحوم نے روزنامہ جنگ کراچی میں اس کتاب پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھا ’’ ابتدا سے اب تک اہم کتب خانوں کے بارے میں قابل قدر معلومات فراہم کی ہیں اور آشور بنی پال اور اسکندریہ سے لے کر خدابخش پٹنہ لائبریری اور شاہان اودھ کے کتب خانوں تک کا اجمالی مگر جامع جائزہ لیا گیا ہے‘‘۔ ( روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۹ مئی ۱۹۷۸ء)۔ روزنامہ جنگ نے اپنی اشاعت ۲۹ مئی ۱۹۷۸ء کر تے ہوئے کتاب کو اپنے موضوع پر مفید اور معلوماتی کتا ب قرار دیا۔ روزنا مہ نوائے وقت کراچی نے اپنی اشاعت ۱۵ جنوری ۱۹۷۸ء میں لکھا کہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو میں ایک منفرد کتاب ہے اور عہد در عہد تک کتب خانونے کس طرح اور کہا ں کہاں قائم ہوئے اور یہ جاننے کے لئے فاضل مصنف صمدانی صاحب نے بیش قیمت معلومات یکجا کی ہیں۔

روزنامہ حریت کراچی نے اپنی اشاعت ۹ ستمبر ۱۹۷۸ء میں کتا ب کے بارے میں لکھا ’’ جس موضوع پر رئیس احمد صمدانی نے قلم اٹھایا ہے وہ ایک عرصہ سے تشنہ تھا۔ مصنف نے برک محنت سے اسکتا ب میں مواد جمعہ کیا ہے۔ یہ کتا ب کتب خانو ں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک اچھی کوشش ہے‘‘۔

12۔ ابتدائی لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو،1980۔ ۲۲۸ص، ایڈیشن اول ۱۹۸۰ء، ایڈیشن 22،2012
اس کتاب کو پاکستان میں لائبریری سائنس کی سب سے زیادہ پڑھی اور شائع ہو نے والی کتا ب کا درجہ حاصل ہے۔اس کا اولین ایڈیشن ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا اور ۲۰۰۵ء میں اس کا اٹھارواں ایڈیشن منظر عام پر آیا جو ’’سلور جوبلی ایڈیشن تھا‘‘۔ ۲۰۱۲ ء میں اس کتاب کا ۲۲واں ایڈیشن شائع ہوا اس اعتبار سے یہ تصنیف گزستہ ۳۳ سال سے لائبریری سائنس کے طلبہ کی تدریسی ضروریات کی تکمیل کر رہی ہے۔کسی بھی کتاب کے مقبول اور معیاری ہو نے کی اس سے بڑ ھ کر دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ کتاب اپنی اشاعت کی چوتھی دھائی میں داخل ہوچکی ہے اور کتاب کی مانگ بدستور قائم ہے۔صرف کراچی اور سندھ ہی میں نہیں بلکہ پنجاب کے تمام شہروں، سرحد اور بلوچستان میں یہ نصابی کتاب طلبہ کی علمی ضروریات کی تکمیل احسن طریقے سے کر رہی ہے اور لائبریری سائنس کی مقبول کتاب تصور کی جاتی ہے۔

کتاب کا پیش لفظ پروفیسر محمد احمد سابق پرنسپل۔ اسلامیہ گورنمنٹ کالج سکھرو گورنمنٹ عبد اﷲ ہارون کالج کراچی نے تحریر فرمایا آپ نے تحریر کیا ’’فاضل مصنف کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید واقفیت ، علمی تجربہ اور ادبی ذوق ، تقاد اور مورخ کی حقیقت پسندیدگی اور سنجیدگی، ادباء اور انشاپردازواں کی شگفتگی اور حلاوت اور فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت جمع ہو گئی ہیں جو شاذونادر جمع ہو تی ہیں۔ان کی تصانیف پر اجمالی نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ مصنف کا ذوق و مطالعہ، تحقیقی اور علمی میدان کس قدر وسیع ہے۔فاضل مصنف میں علمی کام کر نے کا بڑا ولولہ اور سلیقہ ہے۔ انہوں نے اپنے اپنے وسیع مطالعہ اور معلومات کو اپنی فطری انہماک و نشاط کے ساتھ قلم بند کیا ہے جو ان کی صلاحیت ، قوت عمل اور فکری ارتقاء کا نمونہ ہے۔ احقر فاضل مصنف سے ایک عرصہ سے واقف ہے اور بغیر تکلف کے کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ ان کی عملی گفتگو ، ذوق سلیم ، غیر معمولی حافظہ، تاریخی شعور سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی باغ و بہارشخصیت لائبریری سائنس کی اعلیٰ ترین ڈگری سے مزین ہے ۔ انہوں نے لائبریری کے علوم میں ایک ماہر فن کا درجہ حاصل کر لیا ہے‘‘۔

معروف قلم کار فرخندہ لودھی نے اپنے ایک مکتوب میں صمدانی صاحب کو لکھا ’’آپ نے جس جذبے سے اس میدان میں کام کی پہل کی ہے میں اس سے پورا پورافائدہ اٹھارہی ہوں ۔ سوچئے اگر آپ کی کتاب نہ ہو تی تو طالبات کیا پڑھ تیں۔ اس وقت میری کلاس میں ۱۱۷ طالبات ہیں۔ کلاس شروع ہوئی تو پتہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ابتدائی اور مبادیات لائبریری سائنس کراچی میں بھی دستیاب نہیں۔ بڑی پریشانی ہوئی کریکلم ونگ لاہور کے رسرچ آفیسر (لائبریری سائنس) چوہدری نذیر احمد نے اس سلسلے میں بے حد مدد کی اور کہیں سے آپ کی کتاب حاصل کرکے فوٹوں کاپیاں تیارکر کے طالبات کو دیں۔ نیا مضمون ہو نے کی وجہ سے وہ بے حد پریشان تھیں‘‘۔

13۔ مبادیات لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو،1985، ۲۰۰ص،ایڈیشن اول ۱۹۸۰ء ایڈیشن ۲۱، ۲۰۱۲ء
۱۹۷۶ء میں انٹر میڈیٹ میں لائبریری سائنس بطور اختیاری مضمون متعارف ہو جانے کے بعد نصابی کتاب کی ضرورت سب سے اہم تھی ۔ڈاکٹر صمدانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے سال اول کے لیے ’’ابتدائی لائبریری سائنس‘‘ ۱۹۸۰ء میں اور سال دوم کے لیے ’’مبادیات لائبریری سائنس ‘‘ تحریرکی۔یہ دونوں نصابی کتب طلبہ میں یکساں مقبول ہیں اور ان کی اشاعت مسلسل جاری ہے۔ ۲۰۱۳ء میں اس کتا ب کا ۲۱واں ایڈیشن منظر عام پر آیا۔

۱۷ ویں ایڈیشن کے دیباچہ میں مصنف نے تحریر کیا کہ’’جو کتاب اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ آج سے ۲۰ سال قبل یعنی ۱۹۸۵ء میں پہلی بار شائع ہو ئی تھی ۔ الحمداﷲ اس کتاب کا۱۷ واں ایڈیشن شائع ہورہا ہے۔ یہ کتاب بھی سال اول کی کتاب ’’ابتدائی لائبریری سائنس ‘‘ کی طرح پاکستان میں لائبریری سائنس کی سب سے زیادہ چھپنے اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس دوران کراچی اور دیگر شہروں سے متعدد کتابیں اس کتاب کو بنیاد بنا کر لکھی گئیں اور یقینا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گالیکن اس کتاب کی طلب میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ۔ کراچی کے علاوہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے بے شمار کالجوں میں طلبہ اس سے مستفیذ ہو رہے ہیں۔ کسی بھی مصنف کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کے طالب علم اس کی کتاب سے استفادہ کر تے ہیں ۔ آپ کی محبت کاعملی ثبوت یہ ہے کہ اس کتاب کی مانگ بر قرار ہے اور کتاب شائع ہو رہی ہے۔ ابتدائی سالوں میں تو کوئی اور کتاب اس موضوع پر نہیں تھی لیکن اب توکئی سالوں سے متعدد کتا بیں مارکیٹ میں موجود ہیں اس کے باوجود اس کتاب کی اشاعت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب اپنے متن، زبان ، تر تیب اورنصابی ضرورت کو احسن طریقے سے پوری کررہی ہے اور طلبہ و قارئین کی ضروریات کے مطابق ہے‘‘۔

شہید حکیم محمد سعید نے اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا ’’تعلیم اورلائبریری کا باہم گہرا تعلق ہے اور لائبریری کی ترتیب و تنظیم ہمیشہ کی طرح آج بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ اسے اب سائنس کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ ّپ نے طلبہ لائبریری سائنس کے لیے مبادیات لائبریری سائنس ایک اچھی اور مفید کتا ب مرتب فرمادی ہے۔ میرے طرف سے مبارک باد قبو ل فرما ئیے‘‘۔

14۔ نظری لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو،1994۔ ۲۲۸ص،
ایڈیشن ۵، ۲۰۰۵ء۔ ISBN: 969-459-004-3
نظری لائبریری سائنس کے عنوان سے مصنف کی یہ کتاب بی اے سال اول کے لیے ہے جو ۱۹۹۴ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۷ء ، تیسرا ۲۰۰۰ء اور چوتھا ایڈیشن ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آیا۔ ہائر ایجو کیشن کمیشن (Higher Education Commission)کی قومی نصاب کمیٹی برائے لائبریری و انفارمیشن سائنس نے ۲۰۰۲ء میں بی اے سال اول و دوم کے نصاب سے بعض مو ضو عات کو خارج کر دیا گیا جب کہ بعض موضو عات کو سال اول سے دوم میں اور بعض کو سال دوم سے اول میں شامل کر دیا گیا۔ جیسے درجہ بندی اب صرف سال اول میں اور کیٹلاگ سازی اور حوالہ جاتی خدمات کے ابواب صرف سال دوم میں ہیں۔ اسی طرح بعض نئے موضوعات بھی نصاب میں شامل کیے گئے جن میں لا ئبریری مواد،کمپیو ٹر کا تعارف، کتب خانو ں میں کمپیو ٹر کا استعمال، بر قیا تی ذرائع (Electronic Source) وغیرہ شامل ہیں۔یہ کتاب نظر ثانی شدہ نصاب کے مطا بق ’’ نظری لائبریری سائنس‘‘ شائع ہے۔

15۔ تعلیمی لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو،1995۔ ۲۲۸ص،
بی اے سال دوم کے نصاب کے مطابق مصنف کی یہ کتاب ۱۹۹۵ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی ۔ دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۹ء اور تیسرا ایڈیشن ۲۰۰۵ء اور چوتھا ایڈیشن ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا۔مصنف نے اپنے دیباچہ میں طلبہ کو مخاطب کر تے ہوئے تحریر کیا کہ’’یہ بات آپ کے علم میں یقیناً ہو گی کہ بی اے سال اول و دوم کا نصاب تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ کتاب اسی نظر ثانی شدہ نصاب کے مطابق ہے۔ نصاب میں تبدیلی اور اسے جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کی ضرورت کئی سالوں سے محسوس کی جارہی تھی ۔ چناچہ ہائر ایجو کیشن کمیشن (Higher Education Commission)کی قومی نصاب کمیٹی برائے لائبریری و انفارمیشن سائنس نے ۲۰۰۲ء میں منظور کیا۔ بی اے سال اول و دوم کے نصاب سے بعض مو ضو عات کو خارج کر دیا گیا جب کہ بعض موضو عات کو سال اول سے دوم میں اور بعض کو سال دوم سے اول میں شامل کر دیا گیا۔ جیسے درجہ بندی اب صرف سال اول میں اور کیٹلاگ سازی اور حوالہ جاتی خدمات کے ابواب صرف سال دوم میں ہیں۔ اسی طرح بعض نئے موضوعات نصاب میں شامل کیے گئے جن میں لا ئبریری مواد،کمپیو ٹر کا تعارف، کتب خانو ں میں کمپیو ٹر کا استعمال، بر قیا تی ذرائع (Electronic Source) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ کتاب نظر ثانی شدہ نصاب کے مطابق ہے

16۔ جدید لائبریری و اطلاعاتی سائنس؍(مشترک مولٔف) کراچی: لائبریری پروموشن بیورو،1993
۱۹۹۳ء میں منظر عام پر آنے والی اکٹر صمدانی کی یہ کتاب لائبریری سائنس کے ان مضامین کا مجمو عہ جو مختلف رسائل میں شائع ہو ئے۔ یہ کتاب ایم ایل آئی ایس کے طلبہ کی نصابی ضروریات کے مطابق ہے۔ لائبریری سائنس کی تعلیم میں کمپیوٹر اور برقی خود کار مشینوں کے نظان نے خدمات کتب خانہ کوبجا طور پر متاثر کیا ہے۔ معلومات کے حصول ، تذخیر اور بازیافت کے عمل میں ان مشینی خود کار نظامات کے ذریعہ بحث ہوتی ہے، جدید طریقوں سے وسائل میں شرکت، دستاویزسازی ، لائبریری معمولات میں کمپیوٹر کااستعمال ناگزیر ہے۔ فی زمانہ کتب خانہ کی خدمات جدید تربیت کا اور تعلیم جدید نصابی ضروریات کا تقاصہ کرتی ہیں۔ یہ کتاب انہیں ضروریات کو مد، نظر رکھتے ہوئے مرتب کی ہے جو لائبریری سائنس کے طلبہ کی نصابی ضروریات کو پو را کرتی ہے۔ اس مجموعہ میں کل آٹھ مضامین شامل ہیں ان میں وسائل میں شرکت، دستاویزیت، نٹ ورک نظام، کمپیوٹر کے ذریعہ خدمات، قومی و بین الا قوامی کتابیای نظان، عالمی معیاری کتب نمبروں کے نظاماتنیز بچوں کے لیے کتب خانوی ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ مضامین ایم اے لائبریری و انفارمیشن سائنس کے مختلف موضوعات میں جزوی طور پر شامل ہیں۔

کتاب کا مقدمہ معروف محقق، ادیب و دانشور ڈاکٹر جمیل جالبی سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی نے تحریر کیا ہے ، جب کہ پیش لفظ لائبریری سائنس کے معروف استاد و محقق پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر نے تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں کہ ’’میرے لیے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کی فاضل استاد نے اپنے ایک فاضل رفیق کار جناب رئیس احمد صمدانی کے ساتھ مل کر، نصاب اور طلبہ کے پیش نظر یہ ایک ایسی کتاب مرتب کی ہے جس میں جدید معلومات ار تصورات پر مبنی معیاری مضامین شامل ہیں، مجھے امید ہے کہ طلبہ و اساتذہ میں یہ کتاب یکساں طو رپر مقبول ہوگی‘‘۔

17۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایم ایل آئی ایس کے کورس ’’سیریلز مینج منٹ ‘‘ کی اسٹڈی گائیڈ۔
17) Serials Management: A Study Guide for MLIS/ Islamabad: Allama Iqbal Open University. 2002.135p.
Serials Management is a full credit course of MLIS, Allama Iqbal Open University consists of eighteen units. The guide explain and discussed definition of serial and importance, origin and development of the serials. It also explain types of serials, their selection, evaluation and problems of handling them. It also enumerate acquisition and their bibliographical control. Describe the technique of in indexing, abstracting, classification and cataloguing of serials. The guide explain the method of retrieving electronic journals and discuss the process of serials' automation. It discuss the technique of union list/catalogue of serials' preparation, their binding, preservation and conservation of serials. It also discuss the procedure of vendors' selection and learn the skills of serials librarianship.
The Department of Library and Information Science, Allama Iqbal Open University, Islamabad has
published this book under its MLIS publication programme in 2002

کتابیات؍اشاریے؍کیٹلاگ
ْ18 کتابیات طب و صحت؍؍ کراچی: پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ، 1992
موضوعی کتابیات کی اہمیت مسلمہ ہے، یہ کسی بھی محقق کی تحقیق کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ مؤلف نے ’کتابیات طب و صحت ‘ کے عنوان سے جو کتابیات مرتب کی اس میں قیام پاکستان سے ۱۹۹۰ء تک طب و صحت کے موضوع پر اردو زبان میں شائع ہونے والی مطبوعات کا اندراج کیا گیا ہے۔اس میں طب یونانی، طب جدید، (ایلوپیتھی)، ہومیوپیتھک، آیوویدک اور صحت عامہ کے موضوعات شامل ہیں۔ کتابیات میں طب و صحت کے موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں کا سالانہ جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ جس کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ ۴۴ سالوں میں اس موضوع پر اردو زبان میں صرف ۹۱۳ کتب شائع ہوئیں یعنی ایک سال میں ۲۱ کتب ۔ کتابیات اس موضوع سے تعلق رکھنے والے طلبہ، اساتذہ اور محققین کے لیے معلوماتی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔

کتاب کے بارے میں معروف محقق، ادیب و دانشور ڈاکٹر جمیل جالبی سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی، کا کہنا ہے کہ ــ’’’’آپ کی ’’کتا بیات طب و صحت ‘‘ کا ایک نسخہ مو صول ہوا جس کے لیے شکر گزار ہوں ۔ آپ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے محنت سے ، یہ بکھرا ہوا مواد سلیقے سے جمع کر کے تر تیب دیا ہے‘‘۔

19۔ پاکستان کی قومی کتابیات :۱۹۴۷ء۔۱۹۶۱ء، جلد سوم
19) The National Bibliography of Pakistan: Volume III (Pure Sciences Geography and History, (500 to 900)/ (Retrospective Pakistan National Bibliography) Islamabad: Department of Libraries, Ministry of
Education, Government of Pakistan, 1999, 580p: ISBN:969-8170-05-7; ISNN:10190678
Dr. R. A Samdani has the honour to compiled the National Bibliography of Pakistan 1947 to 1961, fascicule III (Pure Science to History) which has been published by the Government of Pakistan, Ministry of Education, Department of Libraries in 1999. This part of national bibliography was in the continuation of previously published Fascicule I (General Work to Islam ; 000 - 297) & II (Social Sciences to Languages; 300 - 400) published by National Book Council of Pakistan in 1972 and 1975 respectively. The gap in the National Bibliography of Pakistan has been filled by the publication of this fascicule. Now the Pakistan have a complete National Bibliography being right from the year 1947. Credit goes to Mr. R. A. Samdani, Secretary General Pakistan Bibliographical Working Group (PBWG) for completing this huge task in spite of several handicaps.
The Department of Libraries, Government of Pakistan realized the necessity and importance of this publication and very kindly acceded to the request of the group. The credit goes to the than Director General Mr. Abdul Hafiz Akhtar and Mr. Asrar Ahmed Saiddiqui, the then Deputy Director of the Department of Libraries, Govt. of Pakistan. It was due to their deep interest and cooperation it has become possible to accept the responsibility of publication of the last volume of the Retrospective National Bibliography of Pakistan .
Mr. Abdul Hafeez Akhtar, former Director General Department of Libraries, Government of Pakistan stated in his Forward " that the task was assigned to the Pakistan Bibliographical Working Group as
the bibliographic entries were available with them. A great deal of labour has gone in the editing and compilation of this Fascicule for which the members of the Editorial Committee of the Pakistan Bibliographical Working Group headed by its Secretary Mr. Rais Ahmed Samdani deserve our special thanks. They have done a wonderful job in bridging the gap of bibliographic records".

20۔ لائبریری و انفارمیشن سائنس پر شائع ہونے والے رسائل و جرائد کے مضامین کا پچاس سالہ شاریہ۔
20) Periodical Literature in Library and Information Science:an Index of 50 Years Works in
Pakistan (1947-1997)/by Rais Ahmed Samdani and Khalid Mahmood.- Karachi: Pakistan Bibliographical
Working Group, 1999, 182p: ISBN:969-8170-04-9
Web Version available on: https://www.angelfire.com/ma3/mahmoodkhalid
The indexes published prior to this work are covering some particular period or a particular journal. This index is a comprehensive one and covers the period of 50 years from 1947 to 1997. It also cover all professional journals published in Pakistan. This index gives an overall picture of the library literature produced in Pakistan during the span of fifty years from the dawn of Pakistan to 1997. This is the only subject bibliography in Pakistan which is so complete and so up to date. This is the first book in the field of library and information science which is available on net with full text.
Prof. Dr. Syed Jalaluddin Haider in his foreword stated that the pattern adopted for the index represents the practice followed by leading indexing services. Indeed, this is an important reference source. I recommend this index to all librarians, teachers and students of Pakistan librarianship. I would like to record my appreciation, above all, to the editors, who are well known in the field for their writing skills and dedication to their work, for their cheerful acceptance of comments and suggestions at all stages in the planning and preparation of the index. Before concluding I wish the book and its editors. I am grateful for
having been chosen to write this foreword.
21پاکستان لائبریری بلیٹن کا اشاریہ
21) Index of Pakistan Library Bulletin: 1968 - 1994/ Karachi: Library Promotion Bureau,1996, 115p:
(ISBN: 969-459-012-4)
Indexing of journals is very important for research and planning for the present and future. Pakistan Library Bulletin, a quarterly journal in the field of library and information science published regularly since 1968. Now this journal is published under the title of "Pakistan Library and Information Science Journal". The index is a continuation of indexes published first in 1979 and than published in 1985. The present index cumulates the period of twenty six years from September 1968 to December 1994. In this period 25 volumes of the Bulletin were published.
پاکستان لائبریری ریویو کا اشاریہ
21) Cumulative Index of Pakistan Library Review (PLR) Karachi:
Pakistan Bibliographical Working Group, 1998, 40p: (ISBN: 969-8170-03-0
An index is a key reference source which reveals or point out the place where the required information or topics exist. It scarves as a finger-post or a bridge between the scholars and the source of information. PLR was Pakistani's first professional library journal started in 1957. It remained on the publishing scene for almost twelve years. It had noble objectives and created good scope for writing and reading. This journal provided a forum for expression of ideas and thoughts in the field of library and information science as well as Pakistan librarianship, particularly when there was no other media existing in the country. The basic purpose of this particular periodical index is to rejuvenate a professional journal of Pakistan librarianship and bring to li9ght the work contributed by eminent scholars of library and information science.
Senior library professional M. Moinuddin Khan in his foreword stated that "I felt greatly honored when I was asked to write a foreword to this book, which is valuable clue to yet another untapped source of professional literature contained in the volumes of Pakistan Library Review encompassing those formative years (1958 -1969) of professionalization of librarianship in Pakistan. In to the lasting credit of Mr. Rais Ahmed Samdani that be has indexed these two leading national library journals. He compiled Index of PLB in 1995 and within the space of two years he has come up with this Cumulative Index of PLR. Mr. Samdani thus carries the day in chronicling history and growth of a discipline which, today enjoys university status. Indexing is a painstaking and back-breading task and at the same time demands precision to help search the needle in haystack. Mr. Samdani will be a more satisfied man than anyone else to have provided a finding tool for working librarians. Students and teachers of Library and Information Science for generations to come. He deserves our abiding gratitude".
Mr. M. Gulistan Khan in his review on this index stated that "there are 219 entries. They are arranged by the names of the author and subject in alphabetical order. Any needed information or article can be located in the index with minimum effort. The compiler has taken great pain to record 110 articles, editorials and messages that have been contributed by 69 authors on 50 different topics".

اسلام پر کتابیاتی ماخذ
22) Bibliographical Sources on Islam / Karachi : Pakistan Bibliographical Working Group, 1993. 44p. ISBN: 969-8170-10-4
The bibliography of bibliography is a specific reference source on Islam. It contains bibliographies, catalogues, indexes, abstracts, concordances, glossaries, bibliographies of theses and other reference sources on Islam. It is an useful reference tools for the scholars of Islam as well as librarians, ublishers, booksellers, teachers and the students of library and information science.
The bibliography has foreword which has written by an eminent scholar Prof. Dr. Syed Jalaluddin Haider, Ex-Chairman Department of Library and Information Science , University of Karachi. He says that the importance of reference works, especially on a subject like Islam, cannot be over emphasized. Libraries, both
in Pakistan and elsewhere, are striving hard to develop their reference resources on Islam in order to meet the varying needs of researchers, scholars and students. To meet this objective the libraries have had to go through many sources for selection which are not usually available at one place. This problem has
been solved to a large etent by this compilation, for which Rais Ahmed Samdani deserves appreciation.
He is one of the few young librarians, I must add here, who is continually making contribution to the limited literature of Pakistan Librarianship. I congratulate Mr. Samdani for adding a useful publication to the literature of Pakistan Librarianship , I am sure that this book will find a place in reference collection of libraries in Pakistan and elsewhere. Apart from its usefulness to researchers and scholars it is as useful
reference source for students of librarianship".
حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج لائبریری میں پاکستان پر کتابیں
23) Books on Pakistan in Haji Abdullah Haroon Govt College Library (English and Urdu) / Karachi:
The College, 1993, 62p;
The book is a printed catalogue of a academic library(Haji Abdullah Haroon Government College, Karachi). It contain books on Pakistan. Bibliographies, Indexes, Catalogues and other reference tools are the sources through which the research scholars can get their required material. They can keep themselves informed and up-to-date in their specialized field only through these sources which are generally
made available by libraries.
The catalogue includes all books available in the Haji Abdullah Haroon Government College Library covering various aspects of Pakistan such as: Pakistan Movement, History of Pakistan from 1947 to-date, Politics of Pakistan including Foreign Policy, Economic History and condition of Pakistan, Cultural and Social aspects of Pakistan, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, father of the Nation, Our Freedom Fighters, Statesmen and Political Leaders of Pakistan, Educationists and Historians of Pakistan, Muslim League and other Political Parties of Pakistan.
The catalogue consists of books in three languages, i.e. English, Urdu and Sindhi. The catalogue is divided into three sections namely, i)Books in English, ii) Books in Urdu and iii) Books in Sindhi. The entries are arranged alphabetically under the surname or under that part of the name of the author by which he or she is commonly known. Each entry gives full bibliographical description of the work according to AARC-e.
ڈائریکٹری
24) First Famous Facts of Muslim World/Compiled by Dr. Ghaniul Akram Sabzwari and Dr. Rais Ahmed Samdani.- Karachi: Library Promotion Bureau, 2012, 122p. Price: 495/-,
ISBN:878-969-459-047-9
This book contain discoveries and inventions made by Muslims in past and near present in the field of Agriculture, Achitecture, Arts, Aviation, chemistry, Commerce, Engineering, Medicine, Milling, Military, Philosophy, Poetry, Sciences, etc. during their magnificent history. The arrangemnt of the book is alphabeticl.
It also provide an relativce index at the end of the book.
کتابچہ
25) Prospectus: School of Librarianship, P.B.W. G.:/ Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group, 1990. rev. ed. 2008.
This is an introductiion of the School of Librarianship, sponsored by Pakistan Bibliographical Working Group. It provide all information about the course and subjects.

رودادیں
26 روداد گولڈل جوبلی و اجلاس عام ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ۲۲۔۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء ؍؍ کراچی: ایسو سی ایشن، ۱۹۹۰ء، ۱۲۸ص
ڈاکٹر صمدانی مختلف نیم سیاسی ، سماجی ، ثقافتی اور ادبی تنظیموں سے وابستہ بھی رہے ، بعض اداروں میں اہم عہدوں پر رہتے ہوئے سماجی، ثقافتی اور تعلیمی خدمات بھی انجام دیں۔ ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ڈاکٹر صمدانی کے خاندانی احباب کی سماجی انجمن ہے۔ جس کے تحت خاندان کے احباب کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صمدانی اس انجمن کے رکن ہی نہیں بلکہ چند سال اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اس انجمن کے اجلاسوں کی روداد کی تدوین و اشاعت میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ زیر نظرکتابچہ’’ روداد گولڈل جوبلی و اجلاس عام ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ۲۲۔۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء پر مشتمل ہے۔ جس میں اجلاس عام کی تفصیل سادہ اور عام فہم زبان میں دی گئی ہے۔

27 روداد اجلاس عام ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ۲۶۔۲۷ دسمبر ۱۹۹۲ء، ۹۶ص
یہ کتابچہ بھی ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن کے اجلاس عام منعقدہ ۱۹۹۲ء کی روداد ہے۔ ۹۶ صفحات کے اس کتابچے میں اجلاس عام کی روداد سادہ الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

28 رپورٹ جنرل سیکریٹری، ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ، یکم جولائی ۱۹۹۰ء ۔ جون ۱۹۹۱ء، کراچی: ایسو سی ایشن، ۱۹۹۱ء، ۱۳ ص ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے مرتب گئی یہ رپورٹ چھ ماہ کے کارگزاری کی تفصیل بیان کرتی ہے۔

29۔ رپورٹ کارگزاری، ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ، ۱۹۹۰ء ۔ ۱۹۹۱ء، کراچی: ایسو سی ایشن، ۱۹۹۱ء، ۳۱ ص
ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن کے سیکڑیٹری کی حیثیت سے ایک سال کی کارکردگی کی رپورٹ اس کتابچے کا حصہ ہے۔

تحقیقی مقالات
پی ایچ ڈی :
۱۔ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کرادا۔ (پی ایچ ڈی مقالہ)ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء، xxi، ۶۳۹ص۔(غیر مطبوعہ)
ایم اے :
۲۔ اردو میں سائنسی و فنی ادب ؛ منتخبہ کتابیات ۱۹۴۷ء ۔ ۱۹۷۱ء (ایم اے مقالہ) ؍ شعبہ لائبریری سائنس ، جامعہ کراچی ، ۱۹۷۲ء،
۱۴۷ص(غیر مطبوعہ)
On-Line Publications : Dr. Rais Samdani
1) Periodical Literature in Library and Information Science: an Index of 50 Years
Works in Pakistan (1947-1997)/by Rais Ahmed Samdani and Khalid Mahmood Pakistan Bibliographical Working Group. 1999
Web Site https://www.angelfire.com/ma3/mahmoodkhalid
https://onlinebooks.library.upenn.edu/webbin/book/lookupname?key=Samdani%2C%20Rais%20Ahmed
2) On-Line Index of Pakistan Library Bulletin: Volume 1 - 33 (1968 - 2002)
Web Site: https://www.geocities.com/plbindex
https://onlinebooks.library.upenn.edu/webbin/book/lookupname?key=Samdani%2C%20Rais%20Ahmed
4) Muhammad Adil Usmani: an eminent Pakistani Librarian. Pakistan Library
Bulletin. XXIV(4), pp: 10-16, December 1993. Also on internet with photograph of Mr. M. Adil Usmani Web side "https://www.twsu.edu/-systems/adil.htm"
https://works.bepress.com/cgi/viewcontent.cgi?article=1002&context=drrais_samdani
https://www.academia.edu/3618437/Muhammad_Adil_Usmani_A_Bio-bibliographical_Study_by_Rais_Ahmed_Samdani
5) List of Urdu Writers and Poets/by Rais Ahmed Samdani. on the Wiki:
https://pakistan.wikia.com/wiki/List_of_Urdu_language_writers
6) Doctoral Research in Library and Information Science by Pakistani Professionals: An Analysis/by Dr. Rais Ahmed Samdani and Dr. Rubina Bhatti. Library Philosophy and Practice 2011.
https://www.webpages.uidaho.edu/~mbolin/samdani-bhatti.htm
7) SARGODHA UNIVERSITY LIBRARY: A CASE STUDY/by Dr. Rais Ahmed Samdani, Noor Mustufa Khan & Safia Kokab. URL: https://raissamdani.blogspot.com/
8) Articles and Columns on HAMARI WEB
https://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=11511
9) Johli meen Heree our Moti : Shakshi Khake (Biographical Articles/
https://www.academia.edu/3673956/Johli_meen_Heree_our_Moti_Shakshi_Khake_Biographical_articles_
10) Yadoon Ki Mala: (Biographical Articles
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281905 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More