زندگی اے زندگی!

زندگی نام ہی سامنا کرنے کا ہے،خوشی کا بھی اور غم کا بھی، آسانی کا بھی مشکلات کا بھی۔یہ آسان بھی ہے اور پیچیدہ بھی، زندگی بھول بھلیاں ہے۔تیر کی طرح سیدھی نہیں ہے یہ، عجیب رنگ ہیں اس کے ۔آپ چاہیں نہ چاہیں،اس سرنگ سے گزرنا پڑتا ہے۔آپ سرسبز شاداب کھیتوں سے گزرتے ہیںاور تپتے صحراؤں اور ریگستانوں سے بھی۔ایسا ہو تا ہے ناںکہ آپ ایک کشادہ شاہراہ سے جس کے دونوں طرف گھنے درختوں کی قطارہو،گنگناتے ہوئے گزرتے ہیں اورپھراچانک ایک چوراہا آجاتا ہے اورآپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں، اب کہاں جاؤں؟ اگر آپ کو اپنی منزل کا پتہ معلوم ہے پھر تو ٹھیک،ورنہ آپ کو رک کر کسی دوسرے سے پوچھنا پڑتا ہے کہ جناب!میں فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں،کون سا راستہ جاتا ہے وہاں تک؟پھر وہ آپ کو دو راستے بتاتا ہے کہ آپ یوں سیدھا چلتے جائیں یا فلاں سڑک سے بائی پاس کر لیں.......انتخاب آپ پر چھوڑ کر وہ چل پڑتا ہے اور آپ پھر کچھ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔

زندگی ایک گیت ہے،سنگیت ہے،ایک گیت میں بہت سے ساز بج رہے ہوتے ہیں۔ٹھیک ہے آپ نہیں سنتے،لیکن آپ کو اس کا تجربہ تو ہے ناں.......آپ نہیں سنتے تو آپ کے پڑوس میں سے آواز آرہی ہوتی ہے ۔ اگر بسوں اور ویگنوں میں سفر کریں تو مجبوراًآپ کو اس بے ہنگم موسیقی کا شور سننا تو پڑتاہی ہے ناں...... تو بہت سے ساز ہوتے ہیںاور اپنی اپنی آوازیں،لیکن وہ گائیک کی آواز کو سنبھال رہے ہوتے ہیں۔یہ سب مل کر ایک نغمہ بن جاتا ہے۔زندگی بھی ایک نغمہ ہے۔اسے ذرا اس طرح سے بھی دیکھنا چاہئے۔زندگی کا ساز ہیں ساری آسانیاں اور مشکلیں۔نائٹس برج کے اس کئی منزلہ شاپنگ پلازہ میں داخل ہوا تو پیچھے سے کسی نے آکر میری آنکھوں پر اپنے نرم و گدازہاتھوں سے ان کو بند کر دیا۔ میری چند لمحوں کی پریشانی وہ برداشت نہ کر سکا اور فوری سامنے آکر مسکرانے لگا۔وہی پرانا حلیہ،ذرہ بھربھی تبدیل نہیں ہواوہ،مصورہے،فلاسفرہے، گائیک ہے اوراداکاربھی ہے۔برطانیہ کی معروف یونیورسٹی سے کئی مضامین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لے رکھی ہیں ۔ یونیورسٹی میں استاد ہے۔اس کی بنائی ہوئی تصاویر ہاتھوں ہاتھ منہ مانگے داموں فروخت ہوجاتی ہیں۔لیکن یہ سب اسے نہیں بدل سکے،ہروقت مسکرانے والالیکن آج کچھ افسردہ اور پریشان نظر آرہاتھا۔پوچھنے پرمسکرانا شروع کردیالیکن زیادہ دیرچھپا نہ سکا۔ ''آؤ سامنے کافی ہاؤس میں چلتے ہیں،اچانک سردی نے بھی دھاوابول دیاہے ۔میں عجلت کے باوجود اس کو انکار نہ کرسکا۔

تھوڑی دیر میں ایک ٹرے میں کافی کے دو بڑے کپ اور کچھ خاص بسکٹ میرے سامنے لا کر رکھ دیئے۔''ہاں بھئی!آج تو نئے کپڑے،کیا کہنے،واہ کیا بات ہے تیری ''۔اس نے فوری مسکراتے ہوئے مجھے بتانا شروع کر دیا کہ برسوں بعد پہلی مرتبہ اتنے اچھے اور نئے کپڑے اس سامنے والی دوکان سے ملے ہیں۔یاد رہے کہ برسوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ہمیشہ اپنے کپڑے خیراتی ادارے کی ایک دوکان سے خریدتا ہے جہاں بہت سستے دام ہر چیز مل جاتی ہے۔''دو پاؤنڈ کی یہ شرٹ،چار پاؤنڈ کی پتلون،ایک پاؤنڈ کا سویٹراور تین پاؤنڈ کی یہ جیکٹ،کل ملا کے ہوئے دس پاؤنڈکا آدمی تمہارے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔''اور پھر فضا میں اس کا قہقہہ گونجا۔ایسا نہیں کہ وہ مہنگی چیزیں خرید نہیں سکتا۔بس نہیں خریدتا۔اسے اگر کوئی قیمتی تحفہ مل جائے تو وہ اگلے ہی لمحے اپنے کسی دوست کو دے دیتا ہے۔مجھے بھی اس نے بڑی محبت اور اصرارسے کئی تحائف دیئے ہیں۔زندگی کو صحیح انجوائے کرتا ہے۔

ہنستا کھیلتا ہے اور پھر عجیب عجیب سی باتیں۔زندگی کے بارے میں اس کا اپنا ہی سوچنے کا انداز ہے اور صرف سوچتا ہی نہیں،اس پر عمل پیرا بھی۔گھر کی صفائی ضروری ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ آپ اپنے آپ کو بھول جائیں۔عجیب منطق ہے اس کی۔اس گھر میں سب سے زیادہ قیمتی آپ خود ہیں،اپنا خیال رکھیں،ہر وقت کام کرتے رہنا اچھی بات نہیں،کبھی کبھی کچھ بھی نہیں کرنا چاہئے۔یہ دیکھو!پھول کھلے ہیں،بادل آئے ہیں........''انہیں دیکھو،رب کے نظارے دیکھو، سامنے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔اس نے کیا خوبصورت مگر مختصربات کہی،سیرو فی الارض''دنیا میں گھوم پھرکر دیکھو ۔میں تمہیں ہر جگہ نظر آؤں گا۔آؤ ان قدرتی نظاروں کے سنگ خوشیاں منائیں،یہ ہمیں اپنی طرف بلا رہے ہیں ،اپنے خالق کی خوبصورت تخلیق کی گواہی دے رہے ہیں۔بس دکھ کو سکھ بنا لو،زندگی آسان ہو جائے گی۔ٹی وی دیکھو،ضرور دیکھو لیکن اس کے غلام نہ بن جاؤ،جو لمحہ گزر گیا سو گزر گیا۔یہ کیا ترقی ہے ۔پہلے ایک چینل تھا تو سب گھر والے شام کو اکھٹے بیٹھ کر چائے پیتے تھے،کھانا کھاتے تھے،گپ شب کرتے تھے۔اب سو سے زائد چینل ہیں اور گھر والے بھی سو سے زیادہ خانوں میں بٹ گئے ہیں۔یہ تو اچھا نہیں ہوا۔ بالکل یہ تو اچھا نہیں ہوا۔

’’مجھے یہ تمام باتیں کیوں بتا رہے ہو؟شائد تمہارے اندرکا فلاسفر باہر آنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود تمہارے چہرہ کی یہ افسردگی جس کو تم چھپانے کی کوشش کر رہے ہو،تمہاری مسحور کن زبان کا ساتھ نہیں دے رہی۔'' کچھ دیر خاموش رہا جیسے اس کے اندر کا چور پکڑا گیا ہو۔ ''میرے عزیز دوست!تم میں یہ بہت خرابی ہے کہ تم اندر کی باتیں اگلوالیتے ہو،تو سنو،یہ تو تم جانتے ہو کہ میرے ماں باپ دونوں کالج اور یونیورسٹی کے استاد تھے۔ساری زندگی وہ درس و تدریس میں مشغول رہے لیکن میرے لئے وہ ورثہ میں اس فانی دنیا کی اتنی دولت چھوڑ گئے کہ مجھے کسی اور چیز کی حاجت نہیں رہی اور میں خود بھی اپنے مضامین میں کسی سے کم نہیں رہا۔لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود ایک تشنگی موجود رہی جو میری سمجھ سے بالا تر رہی۔میں ان کو اپنے رنگوںو برش سے کینوس پر ڈھالتا رہا لیکن ہر تصویر نامکمل رہی۔چند سال پہلے پاکستان اورآزاد کشمیر میں ایک قیامت خیز زلزلہ کیا آیا کہ اس نے میرے اندر کے تمام بت چکنا چو رکر دیئے اورمیرے کینوس پر انسانی خون کی لا لی بکھیر دی ۔ میری تمام تصاویر اس تازہ انسانی خون میں لت پت ہوگئیں۔

آپ کا تعلق بھی تو کشمیر سے ہے ۔اچانک پاکستان اور آزاد کشمیر میں زلزلہ کے مناظر نے مجھے پاکستان جانے پر مجبورکردیا۔ایک خیراتی ادارے کے ساتھ میں بھی سب سے پہلے اسلام آباد پہنچاتو سب سے پہلے اسلام آباد کی ان فلک بوس عمارتوں کودیکھاجواس قیامت خیزالزلے میں زمین بوس ہوچکی تھیں۔متاثرین سے ملاقات ہوئی جو حکومت سے اس بات کا شکوہ اورگلہ کررہے تھے کہ ان کو ان کیمپوں میں بھیج دیاگیا ہے جہاں زندگی کی کوئی سہولت نہیں۔کم ازکم ہمیں ہماری شایانِ شان کے مطابق کسی ہوٹل میں یا حکومت کی کسی ایسی عمارت میں تو ٹھہرایا جاتا؟ان خیموں سے دور ایک چھوٹی سی جھونپڑی نظر آئی اور میں اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس کے مکیں ایک بوڑھے کے چہرے پرمجھے ویسی پریشانی اوردکھ نظر نہیں آیا۔

میں نے اس کی مدد کرنا چاہی تواس نے کچھ لینے سے انکار کردیا۔اس نے کہا کہ خداکاشکرہے کہ میں ان فلک بوس عمارتوں کا مکین نہیں تھا۔میرے مالک کاشکرہے کہ میں اس جھونپڑی میں رہتاہوں اوریہ زلزلہ میراکچھ نہیں بگاڑسکا۔پھر اتناسامان کیوں جمع کیا جائے کہ جس کے کھونے کے ڈر سے نیند بھی نہ آئے۔کار چمکانے سے زیادہ اہم خود کو چمکانا ہے ، دوسروں کو ہنساؤ گے تو خود ہنسو گے،گڑھا کھوداتو خود گرو گے۔''پہلے آپ''کہنا سیکھو،بہت مزا آئے گا۔کوئی زبان نہیں سیکھ سکے تو کیا ہوا،مسکرانا سیکھو،سکھ آیا تھا تو مسکرائے تھے، وہ بھی گزر گیا،اب دکھ میں بھی مسکراؤ یہ بھی گزر جائے گا۔

یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتیں وہ بوڑھا جھونپڑی کا مکیں بڑے یقین کے ساتھ کہہ رہا تھا اور میرے اندر کے سارے بت اس کے قدموں میں چکنا چور ہورہے تھے۔ مجھے اپنی ساری اعلیٰ تعلیم،اپنی ساری ڈگریاں جن کوحاصل کرنے کیلئے زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ میں نے صرف کردیا تھا ،ہیچ نظرآئیں۔ میں نے اسی دن فیصلہ کر لیاکہ اب صرف ضروریات زندگی کے علاوہ کچھ جمع نہ کروں گا۔اس دن لیکرآج تک متاثرین لوگوں کے مصائب کواپنی تصاویر کاعنوان بنالیا۔ان تصاویر کی سینکڑوں مرتبہ نمائش ہوچکی۔کوئی بھی تصویر گیلری میں باقی نہیں بچتی،ہرتصویرکامنہ بولا معاوضہ ملتاہے جوانہی متاثرین پرصر ف ہوجاتاہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جتنا وہاں بھیجتاہوں اس سے کہیں زیادہ پھرواپس لوٹ آتا ہے،ایک ایسامنافع بخش کاروبارشروع ہوگیا ہے جس کوکسی کساد بازاری کا خدشہ نہیں۔

میرے اس سوال پر کہ اس موضوع پر تم اب تک کتنی تصاویر بنا چکے ہو ؟تعداد تو مجھے یاد نہیں لیکن نجانے کیوںاب میرا دل اس کام سے سہم سا گیا ہے۔پہلے میری تصاویر مجھ سے باتیں کرتی تھیں اورمیرے دل میں ان تصاویر کی قدرو منزلت بڑھتی تھی اورمجھے اورتصاویر بنانے پراکساتی تھیں لیکن اب کچھ عرصے سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ جب کسی مصور کی تصویر کی قدرو منزلت کھو جائے تو مصوران تصاویر کوگیلری سے اٹھا کرکسی تہہ خانے میں بند کردیتا ہے حالانکہ مصورکو سب سے زیادہ اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی تصاویرسے محبت ہوتی ہے۔یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں پشاوریونیورسٹی میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ تصاویرکی نمائش کیلئے موجودتھاکہ پبلک آرمی اسکول میں معصوم بچوں پر سنگدلانہ حملہ ہوگیا۔ ماں باپ اپنے دل کے ٹکڑوں کو اسکول روانہ کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ پڑھ لکھ کرمستقبل کے معماربنیں گے لیکن اچانک نجانے کس کی نظر لگ گئی کہ محبت کی بولی میں بارود کو شامل کر دیا گیا اور ١٤٦بچوں کوآن کی آن میں اجل اچک کرلے گئی ۔تم ہی بتاؤ کہ اگر کسی گھر سے ایک بچہ چلا جائے تو آدمی ساری عمر اس کا دکھ بھول نہیں پاتا یہاں تواتنی بڑی تعدادمیں بچوں سے یکایک ہاتھ دھونا پڑے.........!!!میں نے بہت قریب سے ان بچوں کے لاشے دیکھے اورہرچہرہ پرمجھے یہ لکھانظرآیا کہ’’مجھے مارنے سے قبل میرا کوئی قصور بھی تو بتاؤ‘‘؟

نجانے وہ کیا کیا کہتا رہا لیکن مجھے رمضان المبارک کی وہ مبارک شب جس رات کو قرآن کریم نازل ہوا'جس کو لیلتہ القدر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔دنیا بھر کے مسلمان اس رات کو پانے کیلئے مساجد میں اعتکاف میں چلے جاتے ہیں۔مساجد کی رونقیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں گویا سارا عالم اپنے رب کی اس نعمت کو پانے کی فکر میں رکوع و سجود میں چلا جاتا ہے۔ اسی رات میرے رب نے جس کی تعریف اس قرآن نے اس طرح فرمائی کہ ''ھُوَالْلّٰہُ الْخَالِقْ الْبَارِیُ الْمَصَوَّرُ لَہُ الْاَسْمَائُ الْحُسْنَیٰٰ ''وہی ہے اللہ پیدا کرنے والا، ٹھیک ٹھاک بنانے والا،صورت دینے والا (مصور) 'اس کے اچھے اچھے نام ہیں.............اس رات کو ہمارے مصور رب نے پاکستان جیسی تصویر بنائی اور اس تصویر کو ہمارے حوالے کر دیا ۔ہم نے اس تصویر کی کیا حالت بنا ڈالی ہے؟ان خوبصورت تصاویر کے رنگوں میں انسانی خون کو اس بیدردی سے شامل کیا جارہا ہے کہ رب کائنات کی بخشی ہوئی تصویربھی اپنے خالق کی پناہ مانگ رہی ہے۔ باقی ماندہ پاکستان کی تصویر میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ایک طرف ظالم دہشت گردشکاریوں نے شکارپورپرکامیاب حملے کے بعد حیات آباد پشاورمیں حیات کوموت کاجام پلادیااوردوسری طرف ہمارے سیاستدانوں میں کسی کے ہاتھ میں سیکولر رنگ ہے،کوئی اکیسویں آئینی ترمیم کا رنگ لئے اس تصویر کا رنگ بگاڑنے کیلئے سازشوں میں مصروف ہے ،کوئی اب بھی دھرنوں کی دہمکیوں کے برش تھامے اپنے آقاؤں کی مرضی کے رنگوں سے اس تصویرکاحسن بگاڑنے پرتلابیٹھا ہے ''کہاں گم ہو گئے آپ؟''اس کی آواز مجھے واپس لے آئی۔ زندگی یہ بھی ہے ،آپ اسے ذرا اس طرح بھی تودیکھیں۔جملے بہت معمولی ہیں لیکن گہرے کتنے ہیں۔ بس دو پل بیٹھ کر سوچئے ۔زندگی آسان ہو جائے گی۔

آج ہی ٹی وی پراسی کشمیر جنتِ نظیرکی ایک ڈاکومنٹری دیکھ رہا تھا ۔ ایک چشمے کے کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اورمیں دیر تک ان کو دیکھتا رہااور دیر تک سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کیلئے جھکنا پڑتا ہے اوررکوع میں جائے بغیر گھاگھر میں پانی بھرا نہیں جاسکتا۔ہرشخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح آناچاہئے تاکہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے اورخوب سیر ہو سکے........لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان جھکنے کا،خم کھانے کاآرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اوراس کی زبردست طاقتور'' انا''اس کو یہ کام کرنے نہیں دیتی ۔یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادات اکارت جارہی ہیں اور انسان اکھڑا اکھڑا سا ہوگیا ہے۔اصل میں زندگی ایک کشمکش اورجدوجہد بن کررہ گئی ہے اوراس میں وہ مٹھاس،وہ ٹھنڈک اورشیرینی باقی نہیں رہی جو حسنِ توازن اور خوشی کی جان تھی۔اس وقت زندگی سے جھکنے اور رکوع کرنے کا پراسراررازرخصت ہوچکا ہے اوراس کی جگہ محض جد و جہدباقی رہ گئی ہے۔لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ جھکنے اوررکوع میں جانے کا آرٹ بلاارادہ ہو،ورنہ یہ بھی تصنع اورریاکاری بن جائے گا اوریہ جھکنا بھی انا کی ایک شان کہلائے گا........بس آج اتنا ہی.......آپ سدا خوش رہیں ......آباد رہیں......دل شاد رہیں......کچھ بھی تو نہیں رہے گا 'بس نام رہے گا میرے رب کا!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.