پاکستانی حکمرانوں کی ذمہ داریاں

پاکستان میں گزشتہ دنوں سے صحافتی اداروں میں بلیک واٹر نامی تنظیم کے پاکستان میں سرگرم ہونے کے بارے میں متعدد بار اطلاعات آرہی تھیں جس پر ہمارے حکمران بار با ر انکی غیر موجودگی کی تصدیق کر رہے تھے جب کبھی وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب سے اس تنظیم کے بارے میں پوچھا جاتا تو اس کے جواب میں اُن کا یہ کہنا تھا کہ اگر ایسی کسی تنظیم کی ملک میں موجودگی ثابت ہوئی تو میں فوری مستعفی جاﺅں گا۔ لیکن اس بار ہمارے حکمرانوں کے ہر دلعزیز امریکی نمائندے رابرٹ گیٹس نے نہ صرف حکومتی اراکین کو جھاڑ پلائی بلکہ پاکستان میں بلیک واٹر نامی تنظیم کی موجودگی کی بھی تصدیق کر دی۔ خیر بیان بدلنا تو ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے جیسے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی ہر مہینے نئی تاریخ دی جاتی ہے جس پر ہمارے عوام چند دن خاموش رہتے ہیں قارئین اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر پاکستان کس روش جا رہا ہے ہر روز نئے ایشو اُٹھتے نظر آرہے ہیں ہمارے دشمن ملک بھارت جو کہ آج کل بہت گھمنڈ میں ہے کہ میں پاکستان اور چین سے بیک وقت جنگ کرنے کے لیے تیار ہوں آخر اس کی کوئی تو وجہ ہے چلو پاکستان سے تو ایسی بات کرسکتا ہے لیکن چین جو کہ دنیا میں سپر پاور بننے کی راہ پر گامزن ہے ایسے ملک کو بھی للکارہ ہے دوسری طرف پاکستان جو کہ دہشتگردی کے خاتمے اور ملک معیشت کو مضبوط کرنے کے نام پر ہر وقت امداد مانگنے کے لیے تیار رہتا ہے اگر اپنے دشمن ملک بھارت کی طرف غور کرے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت نے بیرونی تعلقات کو امداد لینے کے لیے ہی وسعت نہیں دی بلکہ دیگر ممالک سے تجارتی پارٹنر شپ کر کے ملک میں جدید سرمایہ کاری کے نظام کو بھی تقویت دے رہا ہے بھارت جاپان کو اہم تجارتی پارٹنر بنانے میں کامیاب ہوگیا جبکہ پاکستان نے اس کے برعکس گزشتہ سال جاپان سے زیادہ سے زیادہ امداد حاصل کرنے کیلئے کوششیں جاری رکھیں اس لئے معاشی میدان میں دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری برقرار رہی اور نئے پاکستان حکمران جاپان سے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے زور بازو پر ترقی کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو قدرت اس کیلئے راہ ہموار کرتی ہے لیکن جب کوئی قوم یا فرد محض امداد کے سہارے جینے کا عزم کر لے تو مدد اسے بھی مل جاتی ہے مگر وہ قوم اپنی خود مختاری، قومی غیت اور خود فیصلے کرنے کے اختیار سے محروم کر دی جاتی ہے آزاد ہونے کے باوجود ایسی قومیں محکموم اور محتاج رہتی ہیں۔ ہمارا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ پاکستان اور جاپان کے درمیان گزشتہ سال کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی و مالی امداد کے شعبے میں دونوں نے پیش رفت کی۔

مگر سرمایہ کاری، تعلیم و صحت کے شعبوں اور معاشی تعلقات کا گراف گراوٹ کا شکار رہا۔ اگرچہ اسی سال جاپان نے فرینڈز آف پاکستان کی کانفرنس منعقد کرا کے ایک تاریخی اقدام کیا جس میں 50 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اور پاکستان کیلئے پانچ ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا جاپان نے ایک ارب ڈالر امداد کا یقین دلایا۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بھی جاپان نے پاکستان کی بھر پور حمائت کی۔ دوسری طرف 2009ء میں جاپانی وزیرا عظم دو مرتبہ بھارت کے دورہ پر گئے لیکن انہوں نے نئی دلی سے چند سو کلو میٹر کے فاصلہ پر اسلام آباد آنا مناسب نہ سمجھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں جاپان بھارت کو تجارتی پارٹنر بنانے کیلئے اہمیت دیتا ہے ان دوروں کے دوران جاپان اور بھارت میں اربوں ڈالر کے کاروباری منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ ماہرین کے مطابق ان دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات مسقبل میں پاکستان کی معاشی صورتحال کیلئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ قبل ازیں پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ سے جاپان نے سرمایہ کاری روک لی تھی مگر دونوں کا تجارتی حجم دو ارب ڈالر تھا جس میں پاکستان کا برآمدی حصہ صرف 20 کروڑ ڈالر تھا پاکستان حکمرانوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ کرنے کے بجائے امداد کے حصول پر توجہ مرکوز رکھی اس دوران جاپان کی جانب سے پاکستان سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمد پر عائد پابندی بھی برقرار رہی پاکستان سے افرادی قوت کی درآمد پر بھی پابندی رہی تعلیمی شعبہ میں ملنے والی سکالر شپس بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کم رہیں جس میں اضافہ کیلئے حکومت نے کوئی کوشش نہیں کی۔ جبکہ بھارت اور جاپان میں تجارتی حجم 10 ارب ڈالر ہے اور بھارت نے کبھی جاپان سے امداد نہیں مانگی۔ ہمیشہ تجارت، تعلیم اور صحت کے شعبے میں دو طرفہ تعاون کیلئے کوششں کی اور آج بھارت جاپان کا بہت بڑا تجارتی پارٹنر ہے لیکن پاکستان نے بیرونی تعلقات کو تو وسعت جو دینی تھی وہ الگ بات ہے ملک کے اندرونی حالات کو مستحکم کرنے میں بھی ناکام رہا ہے عالمی ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو کرپشن کے حوالے سے 42 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

2008ء میں پاکستان اس فہرست میں 47 ویں نمبر پر تھا۔ 2009ءمیں 180 ممالک سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر جاری اس رپورٹ میں صومالیہ، افغانستان اور میانمر زیادہ بدعنوان ممالک ہیں اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں ایک سال کے دوران 5 فیصد اضافہ ہوا ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال کرپشن کے چوہے 500 ارب روپے کھا گئے۔ معلوم نہیں یہ رپورٹ کس بنیاد پر تیار کی گئی ورنہ چیئرمین ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں ہرسال 800 ارب کا ٹیکس چوری ہوتا ہے اگر اس رقم کو بھی شامل کر لیا جائے تو پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہو گا اور اس میں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہم نے آہستہ آہستہ ہر میدان سے پسپائی اختیار کی ہے اور ملک کا نام مختلف فہرستوں میں آخری درجے پر چلا گیا ہے چلو خیر کرپشن میں ہی سہی مگر ہمارے پاس کوئی تو ورلڈ ریکارڈ ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ میں کرپشن کی شرح 9.4، ڈنمارک 9.3 اور ناروے میں 9.2 فیصد ہے جسے نہ ہونے کے برابر کہا جا سکتا ہے اگر کرنسی کی قدر کو پیمانہ بنایا جائے تو بھارت میں ڈالر کی شرح تبادلہ 46 روپے، بنگلہ دیش میں 70 ٹکے اور پاکستان میں 85 روپے ہے اس دو پڑوسی ممالک کی نسبت پاکستان کی معاشی بدحالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے حکومتی ذمہ داران نے اس رپورٹ کو حقائق کے منافی اور حکومت کیخلاف سازش قرار دیا ہے لیکن نیب کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق بدعنوانی کے بند ہونے والے مقدمات کا تخمینہ ایک ہزار ارب لگایا گیا ہے سیاست اور بیورو کریسی کے تین سو اہم افراد سمیت 5700 سے زائد افراد کے خلاف کرپشن، غبن، بدعنوانی کے مقدمات معاف کئے گئے وزیر خزانہ کے مطابق ریونیو بورڈ میں 500 ارب کی کرپشن ہے جس پر قابو پانے سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ این آر او کے ذریعے اپنے داغدار دامن دھونے والے صدر زرداری کے سہارے جب اقتدار کے ایوان میں پہنچ گئے تو عوام بے چاری نے سمجھا کہ اب یہ بھٹکے ہوئے لوگ جن کے پیٹ حلق اور تجوریاں چھت تک بھر چکی ہیں شائد ملک، قوم اور جمہوریت کیلئے قربانی دے سکیں گے۔ مگر پوتڑوں کے بگڑے کب سدھرتے ہیں اور لوٹ مار کا سلسلہ تاحال جاری ہے، کوٹہ، پرمٹ، پلاٹ، ٹھیکے، رشوت سرکاری فنڈز میں خورد برد آج بھی عروج پر ہے اور امان غالب ہے کہ آئندہ سال ہم کرپشن کے میدان کے عالمی چمپئین ہوں گے۔ پنجاب میں پولیس کو اربوں روپے کے فنڈز دینے کے باوجود جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیس اس وقت صرف دہشت گردوں کے پیچھے لگی ہے۔ 2009ء میں ڈکیتی کی وارداتوں میں 12فیصد‘ قتل کی وارداتوں میں 2فیصد‘ چوری میں 2فیصد‘ کرائمز اسٹیٹ پراپرٹی میں 5فیصد جبکہ دیگر جرائم کی مد میں 11فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پولیس ڈکیتی کے 44فیصد‘ قتل کے 31‘ چوری کے 51 اور اغوا برائے تاوان کے 30فیصد کیس عدالتوں میں نہیں بھجوا سکی۔

نومبر 2009ء تک کے اعداد و شمار پر مبنی وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی پولیس کارکردگی پر سالانہ رپورٹ کے مطابق رواں برس جرائم میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آخر اس کا ذمہ دارکون ہے جمہوریت کی خاطر جان قربا ن کرنے کے نعرے لگانے والے ہمارے حکمران نے ملک کو دو سالوں میں کس مقام پر پہنچایا ہے ملک کے اندر غیر ملکی بغیر ویزہ کے دھندناتے گھوم رہے ہیں کبھی صوبہ پنجاب سے شیر پاﺅ پل پر غیر ملکیوں کی گاڑی پکڑی جاتی ہے تو کبھی ائیرپورٹ پر کسٹم حکام سے تلخ رویہ سامنے آتا ہے پاکستان کے شورش زدہ علا قوں بلوچستان سے ملحقہ پاک افغان سرحد پر نیٹو فورسز کی کارروائیوں میں تیزی، صوبائی دارالحکومت امریکی سفارتخانے کے اعلیٰ حکام کی مسلسل آمدورفت اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں سیاستدانوں سے ملاقاتوں کے ساتھ ہی گوادر کے علاقہ میں بڑھتی ہوئی امریکی دلچسپی نے صوبے کے لوگوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے چند روز قبل گوادر کے حساس علاقے میں امریکی قونصلیٹ کراچی کے تین اہلکاروں کو پراسرار حالت میں علاقہ میں فنڈ لاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ حراست میں لئے جانے کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کر دیا تو پولیس نے سندھ پولیس کے اہلکار گن مین کو رہا کر دیا جبکہ دو امریکیوں کے خلاف جعلسازی کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ان اہلکاروں نے گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹ آویزاں کر رکھی تھی جبکہ اصل رجسٹریشن پلیٹ گاڑی کے اندر رکھی تھی یہ لوگ سفارتی ضوابط کے خلاف سندھ کی حدود سے بلوچستان میں داخل ہوئے تھے حالانکہ سفارتکار اور سفارتحانہ کے عملہ پر نقل و حمل کیلئے پابندی عائد ہے اور سکیورٹی کے حوالے سے ضروری ہے کہ وہ اپنی نقل و حرکت سے متعلق ہوم سیکرٹری کو اطلاع کر کے راہداری لیں۔ ایسے امور کو آخر کون کنٹرول کرے گا ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں ۔اب تو بلیک واٹر کی موجودگی کی امریکی حکام نے بھی تصدیق کر دی ہے اب پتہ نہیں وہ ہمارے ملک کو تباہی کے کس دہانے پر لیجانے کے لیے کوشاں ہیں ہمارے پیارے ملک کو بچانے کے لیے اب کون آئے گا میرے وطن کے حکمرانوں سیاست کو چھوڑو اور اس عظیم ملک کو دیکھو جو کتنی جانوں کے لہو سے بنایا گیا تھا کچھ تو خیال کرو۔ قارئین پاکستان کے لیے دعا کریں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے ملک کو اپنے فضل وکرم سے بچا لے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 85395 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.