سماجی رویوں پر سوشل میڈیا کے اثرات

 جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دور حاضر انسانی زندگی کا ترقی یافتہ دور ہے۔ ماضی میں جن حیران کن ایجادات کو چشم تصور میں لانابھی ناممکن تھا، آج وہ حقیقت کا روپ دھار کر ہماری سماجی زندگی کا اہم ترین حصہ بن چکی ہیں۔ جدید اختراعات سے انسانی زندگی کو آسودگی، آرام اور بے پناہ فوائد حاصل ہوئے ہےں۔ دنوں اور مہینوں کے کام منٹوں اور گھنٹوں میں پایہ تکمیل تک پہنچنے لگے اور مشکل ترین کام بھی سہل ترین لگنے لگے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں پیدا کرکے ان کے دائرے کو وسیع تر کر دیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں آن لائن سوشل نیٹ ورکنگ بھی ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ نے انسانی زندگی کو بالکل اک نئی سمت دی ہے۔ آج سوشل میڈیا آپسی رابطے کا موثرترین ذریعہ بن گیا ہے اور جملہ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ کمپیوٹر، موبائل فون، ٹیبلٹ اور طرح طرح کی نئی ایجادات گویا بنیادی ضرورت بن چکی ہیں اور فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، وائبر اور متعدد ایپس نے اعزہ و اقارب اور حلقہ احباب سے رابطوں کو آسان سے آسان تر بنا دیا ہے۔ ایک بچے سے لے کر بوڑھے تک خاصی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا سے منسلک ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ کے استعمال نے ذاتی زندگی، معاشرتی روابط اور سیاسی و معاشرتی معاملات پر کافی زیادہ اثرات چھوڑے ہیں۔ آج دنیا بھر میں بہت ساری تحریکوں کی کامیابی بھی سوشل میڈیا کی ہی مرہون منت نظر آتی ہے۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی حال کچھ سوشل میڈیا کا بھی ہے، جہاں سوشل میڈیا انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ، اطلاعات اور خبروں کی آزادانہ ترسیل کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے، وہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔

پاکستان ایک ایسا سماج ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں اپنے نقوش زیادہ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یوزرز کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کو لوگوں کو بدنام کرنے، بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانے، حریفوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور بے ہودہ و نامناسب تصاویر و ویڈیوز کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔ مختلف جماعتوں سے وابستہ افراد مخالف جماعت کے رہنماﺅں کے لیے نہایت نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے پروپیگنڈا کرنے کی چونکہ مکمل آزادی ہے، اس لیے اس رجحان کے باعث مختلف سیاسی اور مذہبی مکاتب فکر کے درمیان کدورت اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اکثر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان سوشل میڈیا کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان کی سرگرمیاں اپنی جماعت کے نظریات اور پالیسیوں کی حمایت میں اور مخالفین پر اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے تنقید کرنے تک محدود ہوں تو درست کہا جاسکتا، لیکن یہ کارکن اپنے مخالفین کے خلاف نہایت نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں، جو کسی بھی طور پر ایک سنجیدہ معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ سماجی میڈیا اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا گلوبل ولیج سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اس کا مثبت استعمال کامیاب سماجی انقلاب برپا کر سکتا ہے، لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا منفی استعمال شروع کردیا ہے، جو جنسی تشدد، لڑائی جھگڑے اور اخلاقی و ثقافتی زوال کا سبب بن رہاہے، جس سے بے بہا مسائل سے دوچار معاشرے میں مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا بذات خود اچھا یا برا نہیں ہے، اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔ جس طرح استعمال کنندہ کی اخلاقی اور فکری کیفیت ہوگی، اسی طرح وہ استعمال کرے گا اور ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔

اگر سوشل میڈیا کو مذہبی رویوں کی تشکیل و تخریب کے تناظر میں سامنے رکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مذہبی رویوں کی تشکیل و تخریب میں سوشل میڈیا کافی زیادہ اثر انداز ہوا ہے۔ سوشل میڈیا نے معاشرے میں مذہبی رویوں کی تشکیل کے عمدہ مواقع فراہم کیے ہیں اور مختلف مذہبی نظریات اور مکاتب فکر کے لوگوں کاباہمی رابطہ اور انٹرایکشن ممکن بنا دیا ہے۔ مخالف سوچ و نظریات کے لوگوں کی باتوں کو پڑھنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن سوشل میڈیا کی بدولت علمی اختلاف کرنے والوں کی اس قسم کی باتوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے، جس کی بدولت مخالف نقطہ نظر کے لوگوں کی کتابوں کو شجر ممنوعہ قرار دیے جانے کی سوچ خود بخود مسترد ہوگئی اور کسی بھی مسئلے کو مختلف جہتوں سے سوچنے کا مواقع ملا، جس سے کسی ایک مسئلے پر مختلف نظریات اور آراءکر پڑھ کر علوم میں اضافہ ہوا اور آپسی مذہبی و مسلکی اختلافات کم ہونے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔ متضاد سوچ کے حامل وہ لوگ ،جو کبھی ایک محفل میں اکٹھے نہیں ہوسکتے، ان کے لیے مخالف کا نقطہ نظر سننا اور سمجھنا بھی ممکن نہیں، سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک نے ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مکالمے کی نئی راہیں کھول دی ہیں، جو معاشرے میں بڑھتے ہوئے مذہبی اختلافات کو کنٹرول کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف الخیال لوگوں کو ایک دوسرے سے براہ راست مکالمے کا موقع ملا ہے، جس سے بہت سے مذہبی مسائل میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر اس پر مختلف آراءکی جانکاری سے اپنی ایک نئی رائے قائم کرنا آسان ہوا ہے اور مختلف مذہبی نظریات کے حاملین کے درمیان پیدا شدہ دوریاں کم ہوکر نزدیکیوں میں بدلنا شروع ہو گئی ہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا نے مذہبی رویوں کی تخریب میں بھی کافی نمایاں کردار ادا کیا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر کسی قسم کی کوئی روک تھام کا نظام موجود نہیں ہے، ہر شخص سوشل میڈیا کے بازار میں اپنا منجن بیچنے میں آزاد ہے۔ اختلاف رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے کسی نظریے، رائے اور شخصیت پر تنقید کرنا غلط نہیں ہے، تاہم یہ سب تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے، لیکن سوشل میڈیا پر بہت سے بظاہر بڑے معقول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کسی بحث کے دوران مقابل پر ذاتی حملے کرتے ہوئے اس کی کردار کشی پر اتر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پر کیچڑ اچھال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند فتاویٰ جات کا پرچار کر کے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا جاتا ہے۔ دین ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر بعض عناصر کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو پھیلا کر کئی گناہوں کے مرتکب ہونے کے ساتھ معاشرے میں بے چینی و بدامنی کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ لہٰذا بے شمار مسائل سے دوچار معاشرے کو مشکلات سے چھٹکارہ دلانے کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہمیشہ مثبت ہی کیا جائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.