برڈ مین ڈاکٹر سالم علی

ڈاکٹرسالم معزالدین عبدالعلی کی پیدائش۱۲؍نومبر ۱۸۹۶؁ء کو سلیمانی بوہرہ مسلم خاندان میں ہوئی تھی۔ان کے والد کا نام معز الدین اور والدہ کا نام زینت النسا تھا۔ یہ اپنے ماں باپ کی نویں اولاد تھے۔ان کی عمر ایک سال کی ہی تھی کہ ان کے والدکا انتقال ہو گیا اور دو سال کے بعدیعنی تین سال کی عمر میں ان کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ان بچوں کی پرورش نانیہال میں ہوئی جو ایک درمیانی طبقہ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ چونکہ ان کے ماموں امیر الدین طیب جی کے کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے ان کی پرورش میں ماموں اورممانی دونوں کا پیار شامل رہا۔ان کے ایک اور ماموں عباس طیب جی جنگ آزادی کی مشہور سپاہی تھے۔ ان کے ماموں امیر الدین طیب جی ایک اچھے شکاری تھے اور قدرتی مناظر کے بہت دلدادہ تھے۔ماموں کی صحبت میں ان کو بھی شکار کا شوق پیدا ہوا اور اپنی ہوائی بندوق سے ایک چڑیا کاشکار کیا جو دوسری چڑیوں سے مختلف تھی۔انہیں وہ چڑیا بہت اچھی لگی۔انھوں نے اپنے ماموں سے اُس چڑیا کے بارے میں پوچھا۔ ان کے ماموں’ بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی (BNHS)‘ کے ممبر تھے لیکن چڑیا کے بارے میں کچھ بتا نہیں سکے مگر سالم علی کو ’سوسائٹی‘ کے عجائب گھر میں جانے مدد کی۔ وہاں انہیں طرح طرح کے پرندوں کے بارے میں جانکاری ملی۔ وہاں اپنے ساتھ اُس مری ہوئی چڑیا کو بھی کاغذ میں لپیٹ کر لے گئے تھے۔ وہاں اُس چڑیا کے بارے میں بھی جانکاری دی گئی۔یہیں سے ان کے دِل میں چڑیوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔

’ بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی (BNHS)‘ کے سکریٹری ڈبلو․ایس․ملائی تھے، انہیں کی دیکھ ریکھ میں سالم علی نے سنجیدگی سے چڑیوں کا مطالعہ شروع کیا۔’ملائی صاحب‘ نے سالم صاحب کوسوسائٹی میں موجود سبھی چڑیوں کا دکھایا ہی نہیں بلکہ انہیں چڑیوں کو جمع کرنے کی ترغیب بھی دی اور ہمت افزائی اور مطالعہ کے لیے کچھ کتابیں بھی دیں جس میں ’کامن برڈس آف ممبئی(Common Birds of Mumbai) بھی شامل تھی۔

سالم علی اپنی ابتدائی تعلیم کے سلسلہ میں گرگوم اور ممبئی کے مشن اسکولوں میں داخلہ لیا۔تیرہ سال کی عمر میں انہیں سر درد کا عارضہ ہواجس کی وجہ سے وہ درجہ سے اکثر باہر کر دیے جاتے تھے۔اپنی بیماری کے علاج کے سلسلہ میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے یہاں سندھ چلے گئے وہاں سے یہ ٹھیک ہو کر آئے اور۱۹۱۳ ء ؁ میں بڑی مشکلوں سے بامبے یونیورسٹی سے دسواں درجہ پاس کیا۔ملازمت کے سلسلہ میں یہ برما گئے۔ یہ علاقہ چاروں طرف جنگلوں سے گھرا تھاجو قدرتی مناظر اور شکار کے لیے بہت عمدہ جگہ تھی۔جنگل کے افسران سے تعلقات بڑھائے جو ان کو جنگلی ماحول کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوا۔ سات سال کے بعدیعنی ۱۹۱۷؁ءمیں جب وہ ہندوستان لوٹے تو پھر اپنی تعلیم مکمل کرنے میں لگ گئے اور یہیں اپنی رشتہ داری میں شادی کی۔ ان کی شادی دسمبر ۱۹۱۸؁ء میں ہوئی تھی اور ان کی بیوی کا نام تہمینہ تھا۔

۱۹۲۶؁ء میں ممبئی میں پرنس آف ویلس میوزئیم میں ان کو ایک چھوٹی موٹی ملازمت ساڑھے تین سو ماہوار کی مل جانے سے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے میں لگ گئے۔۱۹۲۸؁ء میں تعلیمی رخصت لیکرجرمنی چلے گئے۔ انہیں جرمنی یونیورسٹی میں کچھ دن کام کرنے کے بعد یہ برلن چلے گئے اور وہاں انھوں نے کافی تجربہ حاصل کیا۔ اور ۱۹۳۰؁ء میں یہ ہندوستان لوٹے تو پتہ چلا کہ ان کی ملازمت بجٹ کی کمی کی وجہ سے ختم کر دی گئی ہے۔

پورے ہندوستان میں طیوری خطے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں خاص طور سے یہ خطے نوابی ریاستوں کے قبضہ میں تھے جن کے سروے کا کام انھوں نے سنبھالاکیونکہ سربراہانِ ریاست پرندوں کی نسلوں کے لیے فکر مند تھے۔ اور یہیں سے انھوں نے گھوم گھوم کر تحقیق کا کام شروع کیا۔سالم علی نے برلن میں جو تحقیق سے متعلق تجربہ حاصل کیا تھا وہ یہاں کام آ رہا تھا۔کام سخت تھا لیکن ان کو کوئی ساتھی نہیں مل سکا۔بہر حال انھوں نے سخت محنت کر کے ملک کے کس خطہ میں کو طرح کے پرندے پائے جاتے ہیں،ان کی رہائش ، ان کا ماحول وغیرہ کا تجربہ فیلڈ میں رہ کر اور تجربہ گاہ دونوں جگہوں کے تجربہ حاصل کیا۔اس کام میں سلیم علی کے بیگم نے مشکل اور دشوار گزار راہوں میں بھی ساتھ نبھایا اور تجربہ گاہ میں بھی مدد کی۔ اگلی دو دہائیوں میں سالم علی نے برصغیر کے مختلف خطّوں سے طیور سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں سر گرداں رہے۔

۱۹۳۹؁ء میں ان کی بیگم تہمینہ کے انتقال نے ان کو توڑ کر رکھ دیا شاید یہی وجہ تھی کہ یہ پرندوں کی دنیا میں اور بھی ڈوب گئے۔ ڈاکٹر علی ’بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی(BNHS) سے منسلک ہو گئے۔ملک کی آزادی کے بعددو سو سال پرانی سوسائٹی ،فنڈ کی کمی کی وجہ سے بندی کے کگار پر آ گئی تھی۔ڈاکٹر سلیم نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل کوخط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کیاتو انھوں نے فوراً فنڈ کا انتظام کر دیا اس طرح سے ایک مشکل مرحلہ سے سوسائٹی نکل آئی۔

حالانکہ ان کے کاموں کی سراہنا کافی دیر سے ہوئی پھر بھی انھوں نے کافی انعامات، اعزازات و تمغے حاصل کیے۔ سب سے پہلے ۱۹۵۳؁ءمیں اشیاٹک سوسائٹی آف بنگال نے’طلائی تمغا‘ سے نوازا۔حا صل شدہ انعامات میں بین الاقوامی اوارڈ’جے پال گٹّی‘بھی شامل ہے۔۱۹۷۰؁ء میں ’انڈین نیشنل سائنس اکادمی کے سندر لال ہورا‘ مموریل مڈل حاصل کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(۱۹۵۸؁ء)، دہلی یونیورسٹی (۱۹۷۳؁ء) اور آندھرا پردیش یونیورسٹی (۱۹۷۸؁ء) آنریری ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل ہوئیں۔۱۹۶۷؁ء میں یہ ایک ایسے غیر برٹش شہری تھے جنہیں ’برٹش ماہرطیوریات یونئین کا طلائی تمغہ حاصل کیا۔اسی سال ڈاکٹرسالم علی نے ایک لاکھ ڈالروالا جے․پول گِٹّی وائلڈ لائف کنزرویشن انعام حاصل کیا۔۱۹۶۹؁ء میں’سی․فلپس مموریل مڈل‘ حاصل کیا۔۱۹۷۳؁ء میں یو․ایس․ایس․آر․اکاڈمی آف میڈکل سائنس نے انہیں ’پاؤلووسکی سینیٹری مموریل ‘ مڈل سے نوازا گیا اور اسی سال میں ہی نیدر لینڈکے’آرڈر آف دی گولڈن آرک کا کمانڈر‘ بنایا گیا تھا۔ہندوستان کی مرکزی حکومت نے ۱۹۵۸؁ء ’پدم بھوشن‘ اور ۱۹۷۶؁ء میں ’بدم وبھوشن‘ سے نوازا ۔۱۹۸۵؁ء میں راج سبھا کے لیے ان کی نام زدگی کی گئی تھی۔محکمہ ڈاک نے ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے۔

ڈاکٹرسالم علی صر ف چڑیوں پر تحقیق کا کام ہی نہیں کرتے رہے بلکہ انھوں نے مختلف رسالوں کے لیے مضامین بھی لکھے خاص طور سے ’جنرل آف دی بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی‘ کے لیے کافی کچھ لکھتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں کئی ابھی تک شائع بھی نہیں ہو سکی ہیں۔تصنیف کے کام میں ان کی بیگم تحمینہ نے کافی مدد کی، ان کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ لندن میں انھوں نے باقاعدہ انگریزی سیکھی تھی۔ان کی کتابیں بہت پسند کی جاتی تھیں۔ ان کی سب سے مشہور کتاب’دی بُک آف انڈین برڈس‘ تھی جس کاپہلا ایڈیشن ۱۹۴۱؁ء میں شائع ہوا اور اسکا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوا۔اس کے بارہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں پہلے دس ایڈیشن میں چھیالیس ہزارسے زیادہ کاپیان فروخت ہوئیں۔ان کے مراسلات اور مضامین کا مجموعہ دو والیوم میں۲۰۰۷؁ء میں شائع ہوا۔اس کا مدون ’تارا گاندھی‘ نے کیا تھا جو ان کے آخری شاگردوں میں سے ایک تھے۔

بچپن سے ہی چڑیوں کے شکا ر کے شوقین تھے اور شاید اسی شوق نے ان کو چڑیوں کے قریب کیا۔انھوں نے چڑیوں کے بارے میں کتابوں سے نہیں سیکھا بلکہ عملی طریقہ اپنا کر معلومات حاصل کیں اسکے لیے انھوں نے حیدرآباد، تریونکور،کوچین، افغانستان، کیلاش مانسرور، کچھ، میسور، سکّم، بھوٹان، اروناچل پردیش اور بھرتپور کا دورہ کیا اور مختلف پرندوں سے متعلق تحقیق کی۔

ایک تجربہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’چڑا کے ایک گھونسلہ میں مادہ چڑیاانڈوں پر بیٹھے تھی اور نر چڑاباہر پنجوں کی مدد سے لٹکا ہوا تھا۔ڈاکٹر سالم نے اس نر چڑے کو اپنی ہوائی بندوق سے مار دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں مادہ چڑیا ایک نر چڑے کو لے آئی اور وہ بھی اُسی طرح رکھوالی کے لیے لٹک گیا،اور وہ اندر انڈوں پربیٹھ گئی ۔اسی طرح سے انھوں نے سات دنوں میں آٹھ چڑے مارے اور ہر بار نیا چڑا اس کی زندگی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آجاتا تھا‘۔

آنے والے وقتوں میں سالم علی کو اس لیے نہیں یاد کیا جائیگا کہ وہ ایک سچے اور اپنے کام کے لیے ایماندار اور وفادارتھے یابدرالدین طیّب جی کے خاندان کے فرد تھے، پنڈت جواہر لال نہرو اور اندراگاندھی سے ذاتی تعلقات تھے،پدم بھوشن اور بدم وبھوشن سے سرفراز کیے گئے تھے، راجیہ سبھا کی ممبر شپ تھی، مختلف سائنس اکادمیوں سے تعلق تھا، متعددانعامات اور اعزازات حاصل کیے تھے بلکہ ان کو اس لیے یاد کیا جائے گا کہ پرندوں سے ان کو کس قدر محبت تھی۔ان کی اس فطری محبت پر کسی نے مزاق میں کہا تھا ’چلو اُڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر تھوڑا بھی اُڑ لیے تو ہمارے زندگی ڈاکٹر سالم کی دیکھ ریکھ میں گزر جائے گی‘۔

ڈاکٹر سالم علی ’پرند سائنٹسٹ ‘ کی حیثیت سے ساری دنیامیں مشہور ہیں۔زندگی کے آخری دنوں میں کافی بیمار رہے اور پروسٹیٹ کینسر سے ۲۹؍جون ۱۹۸۷؁ء کو ممبئی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ گوا میں۱۷۸؍ ہیکٹر میں’سالم علی بَرڈس سینکچری(Salim Ali Birds Sanctuary) پھیلی ہوئی ہے جو ان کے نام سے منسوب ہے۔

’برڈ مین(Bird Man)‘ کے نام سے مشہور ہندوستان کا ایک ایسا شخص جو ساری زندگی چڑیوں کے پیچھے بھاگتا رہا اور طرح طرح کی معلومات حاصل کر کے رقم رکتا رہا تاکہ آنے والی نسلیں استفادہ حاصل کر سکیں۔ کیاایسے شخص، جس نے ساری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہو اور اگلوں کے لیے ایک مضبوط ذخیرہ چھوڑا ہو،اس کے لیے مرکزی حکومت ’بھارت رتن‘ دیے جانے پر غور نہیں کر سکتی ہے؟
Shamim Eqbal Khan
About the Author: Shamim Eqbal Khan Read More Articles by Shamim Eqbal Khan: 72 Articles with 67342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.