ہمارے خشک ہوتے ہوئے دریا اور غذائی قلت

نظام قدرت میں ہر چیز بہتری سے ابتری کی طرف جارہی ہے ۔ زندگی کی الجھنوں میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ جہاں انسان نے چور دروازوں سے مصنوعی قلت پیدا کرنے کے گر سیکھ لیے ہیں وہاں قدرت کی طاقت حقیقی قلت کی صورت میں انسانی بداعمالیوں کا انتقام لے رہی ہے ۔ ایک طرف قدرت کی بیش بہا نعمت پانی سیلاب اور سونامی بن کر تباہی مچا رہاہے وہاں ہمارے دریا حیرت انگیز حد تک خشک ہوکر پانی کی بوند کو ترس رہے ہیں۔ وطن عزیز میں بعض دریا صحرا میں تبدیل ہوچکے ہیں اور انکا وجود تک ختم ہورہاہے ۔ دریاؤں سے نکلتی نہریں اس سے زیادہ دردناک تصویر پیش کررہی ہیں ۔ہمارے دریاؤں کی اس خشکی نے ضروریات زندگی اور غذا کے نرخ عام آدمی کی دستر س سے باہر کردیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ غذائی قلت میں سنگین اضافہ ہورہاہے بعض ماہرین کے مطابق اگر اسی رفتار سے ہمارے دریا خشک ہوتے رہے تو مستقبل قریب میں قحط کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتاہے ۔

ایک طرف ہمارے دریا خشک ہورہے ہیں تو دوسری طرف جن دریاؤں میں پانی کی کثرت ہے وہ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے سیلاب بن کرتباہی مچارہے ہیں ۔نئے ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے سے لاکھوں کیوسک پانی جو ہماری ہریالی کا باعث بن سکتاتھا اب بے قابو ہوکر گھر اجاڑ رہاہے ۔ پچھلے سال کے سیلاب کو اب تک کوئی نہیں بھولا۔ موسمی تبدیلیوں اور دریا میں جمتی ہوئی ریت کی وجہ سے ہمارے دریاؤں میں پانی کی سطح میں بتدریج کمی ہورہی ہے ۔ کراچی میں ملیر ندی اور لاہور میں دریا راوی دریا کم اور تالاب کا زیادہ منظر پیش کررہے ہیں۔

ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پہاڑوں کے درمیان میں بہنے والے دریا جیسا کہ دریا کنہارا اور دریا سوات میں بھی پانی کی سطح کم ہورہی ہے ۔ ہمارے بالائی اور زیریں دونوں علاقے جہاں فصلوں کی بہتر پیداوار کاا نحصار دریائی اور نہری پانی پر ہے وہاں پانی کی کمی سے فی ایکڑ کا شت او سطاََ کم ہورہی ہے ۔ ٹیوب ویل اور دوسرے مہنگے پانی کے ذرائع کسان کی برداشت سے باہر ہیں ۔ کپاس کی فصل کے متاثر ہونے سے کپڑے کی صنعت تنزلی کی طرف جارہی ہے ۔ گندم اور چاول جو بنیادی طور پر غذائی فصلیں ہیں انھیں پانی کی نسبتاََ زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور خشک ہوتے ہوئے دریا ان فصلوں کی تباہی کا پیش خیمہ بن رہے ہیں ۔ برآمدات کی سظح پر آجانیوالا ملک اب چاول اور گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے ۔ آخر کیوں ؟ مہنگی بجلی او ر سستے دریائی پانی کی عدم دستیابی ہی مرکزی وجوہات ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ماضی قریب میں ہماری زرعی زمین کا 85%حصہ دریائی پانی سے سیراب ہوتاتھا ۔ جبکہ 2011کے سروے کے مطابق اب 65%دریائی پانی اور 10%خودکار نظام سے سیراب ہوتاہے ۔ جبکہ 25%حصہ یاتو بنجر بنتا جارہا ہے یا پھر پانی کی کمی سے قابل کاشت نہیں رہا اور بعض اوقات اس 65%حصہ میں بھی بر وقت پانی نہ پہنچنے سے عموماََ قابل کاشت رقبہ اور کھڑی فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ جن دریاؤں میں پانی کی مناسب مقدار موجود ہے وہاں سیاسی اور جاگیر دارانہ چالیں جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں۔ دریائی اور نہری پشتوں سے پانی کی چوری نہ صرف پانی کے ضیاع کا باعث بن رہی ہے بلکہ حقیقی حقداروں کو ان کے حصے کے پانی سے بھی محروم کررہی ہیں۔

ہمارے موجودہ دریاؤں کی اس خستہ حالی اور غذائی قلت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت وقت نے گھر کے ساتھ یا صحن میں سبزیوں کو اگانے کیلئے جامع منصوبہ پر کام شروع کردیا ہے اور اس سلسلہ میں تشہیری آگاہی مہم شروع ہوچکی ہے اور اگر لوگوں نے اس کم خرچ بالا نشیں اصول پر عمل کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اس غذائی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

ہٹ دھرمی کی بجائے اگر افہام و تفہیم سے نئے ڈیم بروقت تعمیر ہوگئے تو بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک طرف بجلی کی کمی کے گھمبیر مسئلہ پر قابو پایا جاسکے گا تو دوسری طرف پانی کے ذخیرہ کا مناسب بندوبست بھی ہوجائیگا۔

آبی ماہرین کے مطابق اگر کھالے، نالے اور نہریں پختہ کردی جائیں تو پانی کی کمی کو کافی حدتک دور کیاجاسکتاہے ۔ نہروں اور دریاؤں کے پشتوں کو مضبوط کرکے اگر ان پر درخت لگا ئے جائیں تو پانی کا رسنہ بند ہوسکتاہے ۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کا نہر ی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتاتھا لیکن بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری کی بجائے ابتری آئی ۔ چند چیدہ چیدہ نہروں کو تو پختہ کردیا گیا مگر زیادہ تر کی حالت زار جوں کی توں ہے۔

آخر میں میں یہی کہنا چاہوں گا کہ جہاں قدرتی طور پر ہمارے دریاؤں میں پانی کی کمی ہورہی ہے اور غذائی قلت شدت اختیار کررہی ہے وہاں منصوبہ بندی کی کمی ، سیاسی فیصلے اور جاگیر دارانہ نظام اس مسئلے کے حل میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں ۔ بھارت کے سندھ طاس معاہدے سے انحراف کے بعد ہمارے حصے کے پانی کو روک دینے سے یہ مسئلہ اور سنگین ہوتاجارہاہے اس معاملہ کی طرف حکومت کی عدم توجہی سرسبز لہراتے کھیتوں کو بنجر میں تبدیل کررہی ہیں ۔تھر میں قیامت صغریٰ کا منظر ابھی کسی کو ہی نہیں بھولا ۔ رب کائنات سے دعا ہے کہ ہمیں پانی جیسی انمول نعمت سے کبھی محروم نہ کرنا اور وطن عزیز کو اس گھڑی سے بچانا جب ملک کے باسی دانے دانے اور گھونٹ گھونٹ اور کو ترسیں ۔ آمین
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105451 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More