جیل ٹوٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔

 (شہید کشمیر مقبول بٹ ؒ کی زندگی کے گوشے وا کرتی تحریر)

"جج صاحب ابھی وہ رسی نہیں بنی جس سے مقبول بٹ کو پھانسی دی جاسکے" ابھی جج نے فیصلہ سنایا ہی تھا کہ ملزم نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔اس نے نڈر پن میں جج کو یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میرے گلے میں پھندا ڈال دینے سے تم کامیاب ہو جاؤ گے تو یہ تمہاری بھول ہے میرا مشن تو ا س وقت شروع ہو گا جب مجھے پھانسی پہ لٹکا دیا جائے گا۔یہ الفاظ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے اس دلیر سپوت کے ہیں جسے قابض بھارتی انتظامیہ نے مجرم قرار دے کر تختہ ٔدار پہ لٹکا دیا تھا مگر کشمیری قوم اسے اپنالیڈر اور بطل جلیل مانتی ہے۔

مقبول بٹ نے18فروری 1938؁ء کو اس وقت آنکھ کھولی جب جنت نظیر وادیٔ کشمیرڈوگرہ خاندان کی جیل بنی ہوئی تھی۔انگریز سامراج نے کشمیر کی پوری ریاست بمع کشمیری عوام کو صرف ۷۵ لاکھ نانک شاہی کے عوض اپنے وفاداروزر خرید ڈوگرہ خاندان کو فروخت کر دیاتھا۔ یہ عنایت ڈوگرہ خاندان پہ دھرتی سے غداری کرنے کے صلے میں کی گئی۔اس خاندان نے وادی کے چپے چپے میں ظلم و بربریت و سفاکی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ مقبول بٹ کی پیدائش کے وقت تک علامہ اقبال کی صدائے حریت کو عبد القدیر کی تقریر اوربعد ازاں ۲۲ افراد کی تکمیل اذان کے لیے شہادت کے واقعے نے مہمیز دے دی تھی اورکشمیری عوام تحریک آزادی کا ہر اول دستہ بن گئے تھے ۔ 1947 کوپاکستان آزاد ہوا تو کشمیر کے ایک حصے کی آبادی نے جیل توڑ ڈالی اور آزادی کاپھریرا لہرا دیا۔ جبکہ ایک بڑے حصے کو یہ نعمت میسر نہ آسکی اور وہاں جیل انتظامیہ ڈوگرہ راج سے بھارتی حکومت کو منتقل ہو گئی ۔اس جیل میں قید عوام کو اقوام عالم نے دلاسا جودیا تھا کہ رائے شماری کے ذریعے ان کی مرضی جانی جائے گی اورانہی کی مرضی کے مطابق ان کی تقدیر لکھی جائے گی مگر افسوس کہ یہ وعدہ بھی ایفاء نہ ہوا۔

دور طالب علمی میں مقبول بٹ نے سیاست میں قدم رکھ دیا تھا وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی کامتحرک کارکن بن گیا ۔ اسی دوران اس نے سینٹ جوزف کالج بارہ مولہ سے BA کر لیا۔ اسی کشمکش میں وہ اس جیل سے ہجرت کر کے آزاد کشمیر آن پہنچا۔یہاں اس نے پشاور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے صحافت کے پیشے کو اپنالیااور یہیں اس نے شادی بھی کر لی۔ کشمیر سے ہجرت کر کے آنے کے باوجود اس کادل کشمیر ہی کے لیے تڑپتا رہا۔ اس نے تحریک آزادی سے وابستگی برقرار رکھی ۔ساٹھ کی دہائی میں مقبول بٹ نے کچھ ہم خیال افراد سے مل کر ایک تنظیم نیشنل لبریشن فرنٹ NLFکے نام سے قائم کی(جو بعد میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ میں تبدیل ہو گئی) اور مقبوضہ وادی کے اندر بھارتی تسلط کے خلاف مسلح کاروائیاں کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔اسکے لیے اس نے ساتھیوں سمیت مقبوضہ وادی میں جاکر تنظیم سازی کا فیصلہ کیا ۔منصوبے کے تحت مقبول بٹ نے1966 میں اپنے ساتھیوں امان اﷲ خان ، اورنگزیب ، کالے خان اور میر احمد سمیت کنٹرول لائن کو روند ڈالااور مقبوضہ کشمیر میں تنظیم سازی شروع کر دی ۔ان دیوانوں نے لوہے پہ ضرب تو لگا دی مگر وہ ابھی اتنا گرم نہیں تھا کہ ان کی مرضی کے مطابق مڑ پاتا بس ایک شور مچ گیا۔مقبول بٹ اور اس کے ساتھیوں کی خفیہ کاروائیوں کا شور وادی میں سنائی دینے لگا۔مقبول بٹ نے ساتھیوں سمیت تھانے پہ حملہ کیا اور امر چند نامی اہلکار کو ہلاک کر دیااس معرکے میں اس کا قریبی ساتھی اورنگزیب بھی جام شہادت نوش کر گیا ۔بھارتی ایجنسیوں نے ان چھاپہ ماروں کا سراغ لگا لیا ۔ ان کے گروہ کے خلاف غیر قانوی طور پہ کنٹرول لائن عبور کرنے اور ریاست کے خلاف باغیانہ کاروائیوں کے جرم میں مقدمہ چلایاگیا۔مقبول بٹ نے صرف کنٹرول لائن عبور کرنے کے جرم کو تسلیم کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے کشمیریوں کو اپنے ہی وطن کے کسی بھی حصے میں آنے جانے کے لیے کسی دوسرے ملک سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔ یہی وہ مقدمہ تھا جس کے مکالمات ابتدا میں نذر قلم کیے ہیں۔مقبول بٹ اور اسکے ساتھیوں کو موت کی سزا سنا دی گئی اور انہیں سری نگر جیل میں منتقل کر دیا گیا ۔ مقبول بٹ آزادی کا متوالا تھا اس جیساآزاد پنچھی پنجرے کی قیدکو کہاں تسلیم کرنے والا تھا اس نے اپنے ساتھی میر احمدکے ساتھ مل کر جیل توڑنے کا منصوبہ بنایا۔

انہوں نے پہلے جیل کا جائزہ لیا ان کی کوٹھری کی عقبی دیوار میں سوراخ کر دیا جاتا تو وہ جیل سے باہر نکل سکتے تھے ۔مگرجیل میں وسائل نہیں ہوتے قیدیوں کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں تہی دست جیل کی دیواروں سے راستہ بنانا ناممکن کی حد تک دشوار ہوتا ہے ۔ لیکن جن لوگوں کے سامنے کوئی مقصد ہوتا ہے وہ اسکے حصول کے لیے وسائل کی دستیابی کا انتظار نہیں کرتے بلکہ وہ وسائل بھی خود ہی مہیا کرتے ہیں ۔ سری نگر کی خون جما دینے والی سردی میں قیدیوں کو زندہ رکھنے کے لیے انگیٹھیاں فراہم کی جاتی تھیں جن میں کوئلے دہکتے تھے ۔ انہوں نے انگیٹھی سے ایک سلاخ نکال لی اور اسے کھدائی کے اوزار کے طور پہ استعمال کرنے لگے۔منصوبے کے تحت مقبول بٹ شام کو اخبار پڑھنے کے بہانے باہر کی جانب بیٹھ جاتا کیونکہ وہاں روشنی ہوتی تھی جبکہ دوسرا ساتھی سلاخ سے دیوار میں چھید کرتا رہتا۔دن کے وقت دیوار پہ کمبل ٹنگا رہتا تھا۔ اس طرح معمولی سلاخ کو تیشہ ٔ فرہاد کے طور پہ کام میں لاتے رہے اور نہایت ہی صبر اور استقامت سے اپنے کام کو انجام دیتے رہے۔

آزادی کا راستہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے اس میں کئی بار ایسے موڑ آتے ہیں جہاں مایوسی بغلگیر ہو جاتی ہے اور ہمت جواب دے جاتی ہے کچھ ایسا ہی ان کے ساتھ بھی ہوا۔ جیل کی اندرونی دیوار مٹی سے بنی تھی جبکہ بیرونی جانب پتھرکا استعمال ہوا تھا ۔ جب تک لوہے کی سلاخ نرم مٹی پہ چلتی رہی تب تک تو منزل آئے روز قریب آتی دکھائی دیتی تھی مگر جب یہی سلاخ سنگریزوں سے ٹکرائی تب مقبول بٹ کے ساتھی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اور اس نے مقبول بٹ سے مایوسی کے عالم میں کہہ دیا کہ شاید ہمارے نصیب میں آزادی نہیں اور ساری صورتحال بیان کر دی۔ بلند حوصلہ مقبول بٹ نے اپنے شکستہ دل ساتھی کا حوصلہ بڑھایا اور اسے کام جاری رکھنے کو کہا۔اسکے ساتھی نے دوبارہ کام کا آغاز کر دیا اور یہ دونوں معمولی سی سلاخ کے ساتھ پتھر کی دیوار سے راستہ نکالتے رہے ۔ایک دن مقبول بٹ نے دیکھا کہ اس کے ساتھی کا چہرہ آنسؤوں میں بھیگا ہوا تھا ۔ اس نے یہی سمجھا کہ اس کا ساتھی ہمت ہار گیا ہے اور اب جیل کے اندھیروں سے لڑنا ہی قسمت میں ہے مگر آنسؤوں کی حقیقت دریافت کرنے پہ اسے معلوم ہوا کہ آزادی کی کرن جیل کی دیوار سے اندر داخل ہو چکی ہے ۔ ڈیڑھ ماہ کی جان گسل محنت کی بدولت بالآخر سنگی دیوار نے آزادی کے متوالوں کے لیے راستہ چھوڑ دیا انہوں نے جلد از جلد آزادی سے بغلگیر ہونے کی ٹھانی اور جیل سے فرار ہو گئے اوریوں جیل ٹوٹ گئی۔ یہ کٹھن راہوں سے ہوتے ہوئے آزاد کشمیر میں داخل ہو گئے ۔ مقبول بٹ نے اپنا یہ جملہ سچ کر دکھایا کہ ابھی وہ رسی نہیں بنی جس سے مقبول بٹ کو پھانسی دی جائے۔

مقبول بٹ نے واپس آکر اپنی تنظیم کو ازسر نومنظم کیا اس پہ کئی مشکل دور آئے اسے مختلف مصائب کا سامنا کرنا پڑا کبھی اپنوں کے گھاؤ برداشت کرنا پڑے کبھی سیاسی زندگی کی مشکلات کو جھیلنا پڑا مگر وہ اپنے مقصد کے لیے کام کرتا رہا اس نے قوم کو آزادی کے راستے پہ لگانے کا عزم جوکر رکھاتھا ۔ اسی مقصد کو ذہن میں لیے وہ 1976؁ میں دوبارہ کنٹرول لائن کو روند گیا۔وہ اور اسکے ساتھی کشمیر میں گھومتے اور قوم کو آزادی کا درس دیتے رہے راکھ میں دبی چنگاری کو ہوا دے کر الاؤ جلانے کی کوشش کرتے رہے ۔ گھر گھر میں چراغ حریت جلانے کی سعی کرتے رہے ۔اسی اثنا ء میں مقبوضہ ریاست کی کٹھ پتلی انتظامیہ کو اس کی آمد کی خبر ہو گئی اور جلد ہی اسے ایک بار پھرگرفتار کر لیا گیااور دوبارہ مقدمہ چلا ۔ قانونی طور پہ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ مقدمہ جیت لیا جائے مگر طاقت کے آگے دلیل کارگر نہیں ہوتی ۔ مقبول بٹ کو پرانی سزائے موت کے پیش نظردلی کی تہار جیل منتقل کر دیا گیا یہاں اس نے آٹھ برس گزارے۔ اب کی بار بھارتی انتظامیہ نے رسی تیار کر لی تھی مقبول بٹ کو تہار جیل میں ہی11فروری 1984کوپھانسی دے دی گئی ۔زندگی کی جیل ٹوٹ گئی اور مقبول بٹ کی روح قفس عنصری سے آزاد ہو گئی۔
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آگئی
وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دیے جلا گیا

مقبول بٹ کی موت نے کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی جان ڈال دی ۔ واقعی شہید کا مشن تو اسکے بقول اس کی موت کے بعد ہی شروع ہوا۔ کشمیری قوم میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف غیض وغضب میں شدید اضافہ ہوا اور کچھ عرصے بعد مقبوضہ وادی کے نوجوانوں نے عسکریت کی راہ اپنا لی ۔ وہ قوم جس نے تاریخ میں کبھی اسلحے سے کوئی یارانہ نہ رکھاتھا اس نے بندوق ہاتھوں میں اٹھالی اوربھارتی قابض افواج کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ۔ ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے ۔ جموں وکشمیر کی سرزمیں پہ قائم بھارتی حکمرانی کی جیل ابھی تک توڑی نہیں جاسکی مگر آزادی کے متوالے دیواروں میں شگاف ڈالنے کے لیے سربکف اور برسرپیکارہیں۔ ان شا ء اﷲ جلد ہی مقبول بٹ اور دیگر شہداء کی روحیں یہ خوشخبری سنیں گی کہ بھارتی جیل ٹوٹ گئی اور کشمیر آزاد ہو گیا ۔۔۔۔۔۔

نوٹ: اس تحریر کے لیے مصنف نے مقبول بٹ شہید کے فرزند جناب جاوید مقبول بٹ صاحب سے ملاقات کی ہے اور مزکورہ معلومات انہی سے حاصل کردہ ہیں ۔ مقبول بٹ کی سری نگر جیل سے فرار کی کہانی ایک اچھوتی اور خاص کہانی ہے ۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 84 Articles with 92114 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More