انٹری ٹیسٹ

بچوں کا کالج میں پہلا دن تھا۔ استادمحترم پہلے دن تعارف اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ عام طور پر پہلے دن پڑھایا نہیں جاتا۔ اس لیے کہ کلاس ہی پوری نہیں ہوتی۔ بچوں کو کلاس روم تلاش کرنے، نئی جگہ اور نئے ماحول سے مانوس ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اچانک استاد محترم نے سوال کیا، بیٹا آپ لوگ تو کالج میں داخل ہو گئے ہو ایک ہاتھی بھی داخل ہونا چاہتا تھا۔ بتاؤ کہ کیوں نہیں ہو سکا؟اسے داخلہ کیوں نہیں دیا گیا؟ جواب میں کلاس میں بھانت بھانت کے جوابات شروع ہو گئے کہ جانور ہے، میرٹ پر نہیں آیا۔ بہت سے جوابات تھے مگر کوئی بھی ٹھیک نہیں تھا۔ استاد نے مسکرا کر کہا بھائی سیدھی سی بات ہے کہ ہاتھی میٹرک پاس نہیں ہوتا، اس لیے کالج میں داخلہ نہیں لے سکتا۔

آج کے رسمی نظام تعلیم میں کسی شخص کی قابلیت اور استعداد کو دیکھنے ،جاننے اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ اگلے مرحلے میں داخل ہونے کا حقدار ہے یا نہیں امتحانات کا نظام نافذ ہے۔ اس امتحان میں کامیابی آپ کو اگلے مرحلے میں داخل ہونے کے قابل بناتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر امتحان آپ کے اگلے مرحلے کا انٹری ٹیسٹ ہے۔ میٹرک کا امتحان ایف اے اور ایف ایس سی کے لیے اور ایف اے، ایف ایس سی کا امتحان بی۔اے، بی ایس سی یا پروفیشنل کلاسوں کے لیے انٹری ٹیسٹ ہوتا ہے۔ آپ کامیاب ہو گئے تو اگلے مرحلے کا دروازہ آپ کے لیے کھل گیا۔

آج سے صدیوں پہلے جو غیر رسمی نظام تعلیم تھا جس نظام تعلیم میں کوئی باقاعدہ سکول نہیں ہوتا تھا بلکہ کوئی ایک استاد کسی جگہ موجود ہوتا تھا اور لوگ دور دراز سے اپنے بچوں کو علم حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس بھیجتے تھے۔ استاد بچے کی ذہانت اور قابلت کے مطابق اسے زیور تعلیم سے آراستہ کرتا۔ بچے کو تعلیم دینے سے پہلے اس کی ذہانت اور قابلیت کا اندازہ لگانے کے لیے ان اساتذہ کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا تھا جو یقینا آپ کے اہل علم کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ اس وقت نہ تو ایسا امتحانی نظام تھا اور نہ ہی کسی کمپیوٹر یا اس جیسی کوئی جدید چیزموجود تھی۔

شمالی ہندوستان کے علاقے میں صوفیوں کاایک سلسلہ جسے شطا ری کہتے ہیں بہت مقبول تھا۔ شطاری کا مطلب ہے سرگرم۔ چونکہ یہ لوگ اپنے مسلک کے حوالے سے بہت سرگرم تھے اس لیے انہیں شطاری کہا جاتا ہے۔شمالی ہندوستان میں جس شخص نے سب سے پہلے اس طریقے کو جاری کیا وہ شیخ عبداﷲ شطاری تھے۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ان کے پاس مرید ہونے آتا تو اسے روٹی اور سالن کھانے کو دیتے اور پھر دیکھتے کہ وہ روٹی اور سالن دو نوں کو ایک ساتھ ختم کرتا ہے یا ان میں سے کوئی ایک چیز روٹی یا سالن بچ جاتی ہے۔ اگر وہ دونوں کو ساتھ ساتھ ختم کرتا تو اسے قابل بھروسہ اور قابل اعتماد جان کر مریدوں میں شامل کرتے اور اسے ظاہری اور باطنی دونوں علوم کی تعلیم دیتے۔ اگر وہ دونوں چیزیں برابر ختم نہ کرتا۔ سالن اور روٹی میں سے کوئی ایک بچ جاتی تو سمجھ جاتے کہ اس شخص کو اپنے اوپر ضبط نہیں وہ قابل بھروسہ نہیں کہ چیزوں کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اسے مریدوں میں باقاعدہ شامل نہ کرتے۔ فقط کچھ ظاہری باتیں بتا کر فارغ کر دیتے۔ یہ شیخ عبداﷲ شطاری کا انٹری ٹیسٹ تھا۔

آج سے دو دہائی قبل سیاسی مداخلت کی وجہ سے بوٹی مافیہ بہت مضبوط اور امتحانی نظام مکمل تباہی سے دو چار تھا۔ اس وقت ضرورت محسوس کی گئی کہ امتحانی نظام کی اصلاح کی جائے۔ بوٹی مافیا اور کرپٹ امتحانی عملے سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نپٹا جائے اور اس کے باوجود اگر کچھ طلباء ان غلط لوگوں کے تعاون سے کامیابی حاصل کر لیں تو ان کی تطہیر کی جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مشکوک امتحانی نتائج کی بنا پرانٹری ٹیسٹ متعارف کرایا گیا۔ اب پچھلے کئی سالوں سے امتحانی نظام میں کبھی کوئی خاص خامی نظر نہیں آئی۔ امتحان میں کسی بھی طرح کا غیرقانونی حربہ استعمال کرنے والے شخص کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج بھی شروع ہو چکا۔ مگر اس کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ ہر چیز شفاف اور صاف ستھرے انداز میں چل رہی ہے۔ اب ایف ایس سی کے امتحان کے بعد ا نٹری ٹیسٹ کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اب یہ طلبا پر ایک غیر ضروری بوجھ ہے۔ اسے ختم کر دینا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

ہمارے سیاسی نظام کے پروردہ لوگ کرپشن میں صف اوّل میں نظر آتے ہیں۔ مگر انہیں نہ تو کسی چیز کی پرواہ ہے اور نہ ڈر۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو شخص جس قدر کرپٹ ہوتا ہے وہ اپنی بات تو نہیں کرتا مگر دنیا جہاں کے لوگوں کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسے دوسروں کی آنکھ کے تنکے بھی بڑے واضح نظر آتے ہیں مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ ہمارے سیاستدان اپنی سیاہ کاریوں کی طرف دیکھتے بھی نہیں مگر امتحانی نظام کو بطور فیشن کرپٹ قرار دے کر معاشرے کے کمزور ترین طبقے یعنی اساتذہ کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یہ حرکت ہمارے اخلاقی نظام کی زبوں حالی کی مظہر ہے۔ کسی بھی معاشرے کے لیے اس سے زیادہ شرمناک کچھ نہیں کہ وہ اپنے اساتذہ کو ان کا صحیح مقام نہیں دیتا اور یہ سچ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس لحاظ سے شرمناک حد تک اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔

سیاسی لوگ بھی عجیب ہیں۔ گردن تک کرپشن میں ڈوبے ہیں مگر انہیں یقین ہے کہ ان کی کرپشن کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ ہمارے ایک دوست جب کسی ہوٹل میں بفیکھانے جاتے تو کھانے کا وہ حشر کرتے کہ الامان۔ لوگ باتیں کرتے تو ہنس دیتے۔ ایک دفعہ انہوں نے ہوٹل میں بفے پر اپناطریقہ کار بدل لیا۔ ڈشوں کے پاس ہی لوگوں کی نظروں سے بچ کر کھڑے ہو گئے۔ بجائے ایک دفعہ ہی بہت زیادہ ڈالنے کے بار بار ڈالتے رہے تا کہ پلیٹ بہت زیادہ بھری ہوئی محسوس نہ ہو اور بس کھاتے گئے۔ اگلی صبح ملاقات ہوئی تو ایک دوست نے ان سے کہا بھائی رات آپ نے کمال کھایا۔ پچھلے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ کہنے لگے بہت غلط ہو مجھے نوٹ کرتے رہے ہو۔ حالانکہ میں نے تھوڑا تھوڑا ڈالا تھا تا کہ کسی کو محسوس نہ ہو۔ دوست نے جواب دیا آپ کا خیال ہے کہ آپ نے کم ڈالا اور کسی کو محسوس نہیں ہوا؟ مگر میں نے ہوٹل والوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ ہمارے سیاستدان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی کرپشن کسی کو محسوس نہیں ہو رہی مگر میں نے عوام کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں اور روز دیکھتا ہوں اور انتظار میں ہوں کہ کب ان آنسوؤں کا سیلاب اس کرپٹ مافیا کو بہا لے جائے گا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 451303 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More