گوادرایک مرتبہ پھرزیربحث

گوادر بحیرہ عرب میں اپنے بے مثال محل وقوع کی وجہ سے منفرد مقام رکھتا ہے ۔یہ ایک ایسی آبی گزرگاہ ہے جس سے گزر کر قدرتی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیائی ریاستوں ، مشرقی وسطی ، خلیجی ریاستوں اورمغربی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہےکیونکہ یہ ایک مختصر روٹ ہے۔ پاکستان نے جب اس بے مثال محل وقوع پر پورٹ بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کا ٹھیکہ چین کو دیا جس کی وجہ سے اسے شروع ہی بعض طبقات کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس پورٹ سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا ملک بھی چین ہی کو تصور کیا جاتا ہے جسکی کی وجہ سے بعض سپر طاقتیں یہ نہیں چاہتی کہ پورٹ فنکشنل ہو ۔ 2002 میں پورٹ کے کام کا آغاز ہوا اور 2007میں پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا جس کا افتتاح پرویز مشرف نے کیا اور چین کے وزیر مواصلات بھی اس تقریب میں شامل تھے بعد ازاں یہ پورٹ 40سال کے لیئے معاہدے پر پورٹ آف سنگا پور کو دے دیا گیا لیکن پھر بھی گوادر پورٹ فنکشنل نہ ہو سکا ۔ 2008میں نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزیر پورٹ اینڈ شپنگ سردار نبیل گبول نے افتتاح کیا اور کھاد سے لدا ہوا پہلا جہاز پورٹ پر لنگر انداز ہوا اور یہ تجارتی مقاصد کے لیئے لنگر انداز ہونے والا پہلا جہاز تھااس طرح یوریا اور گندم کے کئی جہاز حکومت کے فیصلے کے تحت گوادر پورٹ پر لنگر انداز ہوئے اور گوادر پورٹ ایک ایسی دوکان پر گیا جس پر دوکاندار بھی حکومت ہے اور خریدار بھی حکومت ہے۔ 2009میں گوادر کو ٹکیس فری زون قرار دیا گیا اورسرمایہ کاروں کو دعوت دی گئی کہ وہ آئیں اور 10سال تک ٹیکس کی چھوٹ سے مستفید ہوں لیکن پھربھی نتائج حاصل نہ ہوسکے ۔ سابقہ حکومت میں پورٹ آف سنگا پور سے پورٹ لے لیا گیا۔موجودہ حکومت چین کے ساتھ مل کر پھر گوادر پورٹ کو فنکشنل کرنے کی باتیں کررہی ہے لیکن جب بھی گوادر پورٹ کے حوالے سے کوئی بات سامنے آتی ہے کوئی فیصلے ہوتے ہیں گوادر پورٹ زیر بحث بن جاتا ہے حال ہی میں چین کےصدر کے دورہ پاکستان اور متوقع چینی سرمایہ کاری کے معاہدوں نے ایک بحث کا آغاز کردیا ہے۔گوادر پورٹ ایک مرتبہ پھر زیر بحث بن گیا ہے ۔ چین کی سرمایہ کاری میں سب سے اہم گوادر پورٹ ہے جس کے خلاف ہونے والی سازشوں سے بھی انکار ممکن نہیں کیونکہ گوادر پورٹ کے فنکشن ہونے سے سب سے زیادہ نقصان خلیجی مملک کا ہوگا۔ گذشتہ روز ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ کچھ عرب ممالک گوادر پورٹ کے خلاف سازش کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ منصوبہ التوا کا شکار ہو جائے ۔ دبئی اپنے نئے پورٹ کی کامیابی کے لیئے گوادر منصوبے کے درپے ہو چکا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ گوادر پورٹ فنکشنل ہو۔ انھوں نے کہا کہ پاک چاہینہ راہداری منصوبہ میں روٹ کی تبدیلی اور معاملے کو متنازعہ بنانا اسی کی کڑی ہے۔اجلاس میں روٹ میں تبدیلی کے مسئلے کوسیاسی سطح پر اُٹھائیں گے وفاقی وزیر ترقیات ومنصوبہ بندی ترقیات احسن اقبال کو طلب کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اگرمسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا تو وزیراعظم سے رابطہ کریں گے۔چین کے سفارت خانےسے بھی رابطہپ کریں گے۔اجلاس میں سیکریٹری منصوبہ بندی حسن نواز تارڑ اور چیئرمین نیشنل ہائی ویزشاہد اشرف تارڑ بھی شریک تھے۔ سیکریٹری منصوبہ بندی نے بتایا کہ خنجراب سے گوادر تک روٹ 2442کلومیٹر ہوگا جس پر7 ۔ 11بلین ڈالر لاگت آئے گی اور دس سال سے زائد عرصہ لگے گا۔این ایچ اے کے چیئرمین نے کہا کہ حکومت کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہورہا سارا کام نجی شعبہ کررہا ہے انھوں نے کہا کہ اصل روٹ حسن ابدال ، میانوالی ، ڈی جی خان ، خضدار ، ڈیرہ مراد جمالی، پنجگور ، گوادر تک ہے۔حاجی عدیل نے کہا کہ حکومت سارے منصوبوں کولاہور سے گزارنا چاہتی ہےاور جان بوجھ کر فیصلوں کو متنازعہ بنارہی ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے جوابی پریس کانفرنس میں کہا کہ ملک دشمن قوتیں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام بنانا چاہتی ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف ایک سڑک کا منصوبہ نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان 45ارب روپے کی سرمایہ کاری ہےجس سے توانائی سمیت مختلف منصوبوں کا آغاز ہوگا۔16ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبےپر 34ارب ڈالر خرچ ہوں گے گوادر کو مختلف صوبوں کے ساتھ ملایا جائے گا ۔روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی مختلف سڑکیں ہیں جن میں گوادر سے کوئٹہ ، پنجگور،ژوب ، ڈی آئی خان ، دوسرا روٹ گوادر سے رتو ڈیرو اور سکھر جبکہ تیسرا روٹ رتوڈیرو سکھر کے راستے پنجاب میں داخل ہوگا ۔اان تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ کچھ نیلا ، پیلا ،کالا ضرور ہے جسکی وجہ سے حکومت اعتماد میں لیئے بغیر فیصلے کررہی ہے کئیں ایسا تو نہیں کہ واقعی حکومت گوادر پورٹ کے حوالے سے سنجیدہ نہیں اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے حکومت صوبائی حکومت ، اپوزیشن ، بلوچستان کے قوم پرست حلقوں کو اعتماد میں لیکر فیصلے کرے تاکہ ایک مرتبہ پھر گوادر پورٹ کا کام کھٹائی میں پڑنے سے بچ جائے ۔
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 17 Articles with 13779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.