معمہ

وطن عزیز میں آئے روز نِت نئے واقعات رو نما ہوتے رہتے ہیں۔جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔کبھی بم دھماکوں میں بچوں کی لاشیں بچھا دی جاتی ہیں تو کبھی جنسی زیادتی کے بعد معصوم پھولوں کو قتل کردیا جاتاہے۔انسانیت کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں یہ سُن کر ۔گزشتہ دنوں کی بات ہے لاہو ر میں ایک مسجد میں 6سالہ بچے کی لاش سیڑھیوں میں لٹکی ہوئی پائی گئی۔یہ مناظر دیکھنے والے زارو قطار روئے ۔اُس کا ماں کا سینہ غم سے چھلنی ہو گیا ۔ہر آنکھ یہ رقت آمیز مناظر دیکھ کر پشیمان انسانیت تھی ۔یہ کیسا معاشرہ دیکھ رہے ہیں، یہ کیسے مسلمان ہیں،یہ مسلمان تو دو رکی بات کیا یہ انسان ہیں؟جو یہ گھناؤنے کھیل کھیلتے ہیں ۔جنسی زیادتی کرنا پھر بچوں کوقتل کرنا ،کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ اس دنیا کے قانو ن سے بچ جائیں گے۔اگر وہ یہ سمجھتے ہیں تو غلط سو چتے ہیں ۔اپنی غلیظ سوچ کو غلاظت کا غلاف پہنا کر خود کو زمانے سے چھپا پائیں گے۔کیا یہ لوگ اپنی جنسی بھو ک میں اتنے بے لگام ہو جاتے ہیں کہ انسانیت کو بھی فراموش کر دیتے ہیں ۔کیا کیسے سفاک لوگ ہیں،اپنی غلاظت بھری بھوک مٹانے کے لیے چند سالوں کے بچوں کو چند سالوں کے معصوم پھولوں کو مسل ڈالتے ہیں۔یہ اہند وناک واقعات لکھتے ہوئے قلم کانپ اٹھتی ہے۔انسانیت کا سر جھک جاتا ہے۔اور یہ سفاک جنسی درندے یہ کیسے کر گزرتے ہیں۔جی تو میں بات کررہی تھی چھ سالہ معین کی ،جسے گرین ٹاؤن کی ایک مسجد میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیااور پھر اسے برہنہ کر کے سیڑھیوں پر لٹکا دیا گیا ۔یہ مناظر کیمرے کی آنکھ سے سوشل میڈیا پر تمام دنیا نے دکھائے ۔اور اسلام کے علمبردار ملک کہلانے والے اس وطن عزیز کا کیا تاثرگیا ہوگا ۔اسکا اندازہ آپ باخوبی لگاسکتے ہیں۔جس مسجد میں 6سالہ معین کی لاش لٹکتی ہوئی پائی گئی اسی مسجد کے امام کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا ۔اور چند لوگوں کو بھی شامل تفشیش کیا گیا ۔ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ اس کیس میں پولیس نے ایک نیا رخ دکھایا ۔ ایک نابالغ لڑکے کو دھر لیا ۔اس سارے واقعے میں تفشیش جا ٹھہری ایک 16سالہ لڑکے پر جو ایک حجام کی دوکان پر کام کرتاتھا۔پولیس نے اپنی روایتی پوچھ گوچھ میں اس لڑکے تک پہنچنے کا شاندار کام سر انجام دیا ۔بقول پولیس مسجد امام طارق کے بیان قلمبند کرنے کے بعد انہوں نے اپنی تفشیش کو دوسرے زاویے سے دیکھا ۔اور انہیں لگا کی یہ کام کسی اور دشمن کا ہوسکتاہے۔(کیونکہ پنجاب بھر کے ملاؤں کا گورنمنٹ پر پریشر تھا )اور پھر منظر عام یہ آیا ،ایک 16سالہ حجام جس نے بڑے دلیرانہ انداز میں اپنے جرم کا اعترا ف کیا ۔جسے ذہن ماننے کو تیار نہیں ۔بقول اس حجام لڑکے کے کہ 6سالہ معین اکثر دوکان سے گزرتاتھا ۔میں اسے پیا ر کرتا اور اسے پانچ دس روپے دے دیا کرتا تھا ۔اس شام معین نے مجھ سے پیسے مانگے میں نے اسے کہا کہ چلو آنا میں تمہیں 50روپے دیتاہوں۔یہ ساری باتیں اس حجام کی زبانی میں نے نجی چینل پر سُنیں۔سولہ سالہ حجام کہتاہے وہ بچہ میرے ساتھ ساتھ آیا ۔میرے نیت میں فتور آیا اور میں اسے بہلا پھسلا کر مسجد میں اوپری منزل میں لے گیا ۔جہاں ایک حجرہ تھا میں نے وہاں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا یا ۔اور وہ بچہ چیخا چلایا اسنے کہا میں سب کو بتادوں گا کہ اس نے میرے ساتھ یہ غلط کیا ہے۔حجام کہتاہے میں ڈرگیا ۔اور میں نے اسے گردن پر زور سے لات ماری اور وہ بچہ زمین پر گر گیا ۔اس کی گردن ٹوٹ گئی میں خوف میں تھا کیونکہ مسجد کے نیچے والی منزل پر عشاء کی نماز ہو رہی تھی ۔اور میں نے اس بچے کو اٹھایا اور اسے سیڑھیوں سے لٹکادیا تاکہ وہ بچہ مر جائے اور میرے متعلق کسی کو نہ بتائے ۔یہاں عقل سلیم یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ سولہ سالہ لڑکے نے یہ سب کیسے اکیلے کیا ہوگا۔رسی کہاں سے ملی اسے ،اس نے بچے کو سیڑھیوں پر برہنہ کیوں لٹکادیا ۔یہ بھی تو وہ کر سکتاتھا وہیں چھوڑ کر بھاگ سکتاتھا ۔کیونکہ بقول اس لڑکے کے مسجد میں عشاء کی نماز ہور ہی تھی۔تو کیا جب نماز ہور ہی تھی کسی نمازی نے 6سالہ معین کی آواز نہیں سنی ۔کیا سب کی کانوں میں سیسہ پڑگیا تھا ۔آخر وہ کونسا راستہ تھا جس سے وہ لڑکا اوپر گیا اور نیچے اترا۔ جب میں اس حجام کا انٹرویو دیکھ رہی تھی ایک نجی چینل پر تو وہ ایسے اعتراف کر رہاتھا جیسے وہ سبق پڑھ رہا ہو۔جیسے اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہو ۔جیسے کچھ لوگوں نے اسے یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا ہو ۔بھلا 16سالہ لڑکا اتنا دیدہ دلیر کہاں ہوتاہے۔کیا وہ اکیلا لڑکا ،ایک 6سالہ بچے کو سیڑھیوں پر دونوں جانب سے اکیلا باندھ سکتاہے۔کیا ڈی ۔این ۔اے رپورٹ میں ایک نابالغ لڑکے کی جنسی زیادتی ثابت ہوئی ۔اگر یہ ثابت ہو ا اور وہ مجرم تھا تو پھر اس نے اپنا اعتراف جرم کرنے کے بعد پولیس کی بھری نفری سے بھاگنے کی جراء ت کیوں کر رہا تھا ۔مولوی صاحب تو بری ہوگئے ۔اور 16سالہ حجام بھی بھاگنے پر بضد تھا ۔اور پولیس کے مطابق اس نے پولیس والوں سے اسلحہ چھین کر بھاگنے کی کوشش کی۔اور پولیس سے مقابلہ شروع کیا ۔فائرنگ شروع ہوئی اور وہ 16سولہ سالہ حجام اِن کائنٹر میں ماراگیا ۔پولیس نے پریس کانفرنس کرکے عوام کو مطمئن کردیا ۔کہ جناب ہم نے ایک کارخیر کام سر انجام دیا ہے۔اور 16سالہ بچہ ہم سے ہماری بندوق چھین کر ہمیں مار رہا تھا ۔او رپھر روایتی پولیس مقابلے میں وہ حجام مارا گیا ۔ذہن نہیں مانتا یہ کہانی ایک دم آکر اس بچے کا اعتراف جرم کرنا ۔پھر پولیس کی نفری سے بندوق چھین کر فائرنگ کرنا ،اور مارا جانا ۔یہ تو فلمی کہانی سی لگتی ہے۔میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہی کہ وہ لڑکا ملزم نہیں تھا ۔یا مجر م نہیں تھا ۔وہ جب اعتراف کر چکا تو پھر وہ مجرم تھا ۔مگر یہ اندہو ناک واقعہ بہت سے سوالات چھوڑگیا ۔6سالہ بچہ ماراگیا ۔پھر ملزم سولہ سالہ لڑکا پولیس مقابلے میں ماراگیا وہ لڑکا جس نے اعتراف جرم کیاتھا تو پھرایسا کیاتھا کہ وہ پولیس کی جان کا دشمن بن گیا اور پولیس کی بھارتی نفری اس سولہ سالہ لڑکے پر قابو نہ پاسکی ، آخر کیا ماجرا تھا کس کے کہنے پر مارا گیا اس بات کا جواب دینے کیلئے نہ تو چھ سالہ معین زندہ ہے اور نہ ہی وہ سفاک حجام زندہ ہے اپنی موت وہ خود مرچکا مگر چند سوال مسلسل ذہن میں گردش کرتے رہے میں بھی سوچتی رہی ، مولوی صاحب کا پکڑاجانا پھر باعزت بری ہونا، سولہ سالہ نابالغ کااعتراف جرم پھر اسی سولہ سالہ حجام کا ان کاؤنٹر ، یہ باتیں ذہن بالکل تسلیم نہیں کرتا سوالات ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے ، دکھ ہے کہ کم ہی نہیں ہوتا، دکھ معین کی ماں کا دکھ ، معین کی برہنہ لاش کا دکھ ، ایک زیادتی کاشکار ہونے والے چھ سالہ بچے کا اور خوشی ایک بالغ سولہ سالہ بچے کی ان کاؤنٹر موت کی ، آخر یہ ماجرا کیاہے؟ کاش ہمارے ملک میں انصاف ہوتا، کاش چھ سالہ بچے کی موت کا ذمہ دار ایک بچہ نہ ہوتا ، کاش مدرسے بدنام نہ ہوتے ، کاش مولوی صاحبان کا تقدس پامال نہ ہوتا، یہ کاش لفظ بڑا بے درد ہے ہونٹوں پر پھیل ہی جاتا ہے اور کاش کہ اس ملک میں قوانین کا اطلاق ہوتا، مجرم کو سزا ملتی ، انصاف کا بول بالا ہوتا، حکمران اپنی عیاشیوں سے فرصت پاتے ، ملک کے ان مسائل پر توجہ دیتے ، ہرشہری اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتا ، قانون کی بالادستی ہوتی تو آج یہ ملک جنت نہ سہی کم از کم امن کا گہوارہ ضرورہوتا، کاش حکمران ملک کیلئے لڑتے نہ کہ دھرنے دینے پر یا دھرنے ختم کرنے پر ، کاش کہ اس ملک کے بحرانوں پر حکمران توجہ دیتے کبھی بجلی کا بحران تو کبھی گیس کا ، کبھی پٹرول کا تو کبھی آئے دن کا، کبھی کسی کمسن کی موت پر ایسا سکوت نہ ہوتا کاش وطن عزیز کا کوئی مخلص انسان حکمران ہوتا تو آج یہ کاش نہ ہوتا، کاش کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی ، کمزور جمہوریت اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کیلئے پنپ رہی ہے تو کہیں انسانوں کے حقوق پر شب خون مارا جارا ہے کاش کہ میرے ملک کے حکمرانوں تک یہ صدائیں پہنچ پاتیں ، کاش کہ وہ ان ماؤں کی دہائیاں سن پائیں جن کے لعل کبھی دہشت گردی کی بھینٹ تو کبھی جنسی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں ، کاش اے کاش کوئی تو ہو جو انصاف دلائے اپنے مفاد سے ہٹ کر ملک کے مفاد کیلئے سوچے ، کاش۔۔۔۔۔۔۔اگر قانون کی بالادستی ہوتی تو کوئی بھی بچہ سیڑھیوں میں لٹکتا ہوا نہ پایاجاتا۔ اﷲ ہمارے بچوں کی حفاظت فرمائے ۔آمین
Mishi Malik
About the Author: Mishi Malik Read More Articles by Mishi Malik: 51 Articles with 42633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.