وفاق کے دیہی علاقوں میں بڑھتے ہوئے مسائل

وفاقی دارلحکومت کا ایریا ہونے کے ناطے روات نے گزشتہ ایک دہائی میں خوب ترقی کی ہے گردونواح میں ہاوسنگ سوسائٹیاں آباد ہونے کی وجہ سے ایک بڑا کاروباری مرکز بنتا جارہا ہے اور اچھے تعلیمی اداروں کے کمیپس بھی بنائے جارہے ہیں آئے روزبڑے بڑے پلازوں کی تعمیر میں اضافہ ہورہا ہے ہفت وار سبز منڈی میں ہزاروں افراد خرید وفروخت کے لیے روات کا رخ کرتے ہیں حکومت کے روات تا زیر وپوائنٹ پانچ رویہ سڑک بننے کے منصوبہ پر عمل درآمد ہونے کی وجہ سے علاقہ میں مذید ترقی کے دروازے کھل جائیں گے اور اس منصوبہ کے اعلان کے ساتھ ہی بڑے کاروباری حلقوں کی نظریں بھی روات پر گامزن ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے زمینوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں ہیں لیکن افسوس کن امر ہے کہ اہلیان روات آج بھی پریشان اورکمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں سوئی گیس کا افتتاح ہوئے دوسال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن تاحال کنکشن کی تعداد ایک سو کے لگ بگ بتائی جاتی ہے باقی سینکڑوں خاندان مہنگے داموں سلنڈر گیس‘ لکڑی اور گوبر کی سوڑیاں جلانے پر مجبور ہیں اگر گلیوں کا زکر کیا جائے تو روات کے محلوں سے گزرا جائے تو ا یسے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر سرے سے کوئی ترقیاتی کام ہوا ہی نہیں ہے کچی گلیوں میں گندا پانی جمع رہتا ہے جس کی بناء پر ایک طرف تو یہ متعدد بیماریوں کا باعث بن رہا ہے اور دوسری جانب گلیوں میں گاڑی بھی نہیں آسکتی ہیں مریض کو کندھوں پر اٹھا کر محلوں سے نکال کر گاڑی تک لایا جاتا ہے واٹر سپلائی سیکم بھی چند محلوں تک ہی محدود ہے بعض محلوں میں پائپ لائن تو بچھائی گئی ہے لیکن پانی کی فراہمی کی سہولت میسر نہ ہوسکی شہری آج بھی دور دور کے کنواں سے پانی لانے پر مجبور ہیں یونین کونسل کی سطح پر ٹنیکروں سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ بھی کامیاب نہیں دکھائی دے رہا ہے روات کے جاواروڈ بازار اور سروس روڈ پر کھوکھے بانوں کا مکمل قبضہ ہے اور تجاوزات مافیا بااثر ہوچکا ہے کہ شکایت کنندہ کو بھرے بازار میں بے عزت کردیا جاتا ہے اور اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دن کے اوقات میں بازار میں پیدل چلنا بھی محال ہوچکا ہے مقامی طو رپر قبضہ مافیا کے خلاف آواز بلند نہ کرنے کی وجہ سے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بھی آنکھیں بند کرکے مافیا کو کھلی چھٹی دیکر شہریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے ضلعی انتظامیہ کے بعد اگر یونین کونسل انتظامیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تواس پر بھی افسوس کیا جاسکتا ہے انتظامیہ نے شہر کے ہر کونے پر پرائیویٹ گاڑیوں کی آمد پر ٹیکس وصول کررہی ہے لیکن بازار میں سروس روڈ اور جی ٹی روڈ کے اطراف میں گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں جوکہ اہلیان روات کے لیے سیاہ دھبہ تصور کیاجارہا ہے گندگی کے ڈھیر دیکھ کر جی ٹی روڈ پر سفر کرنیوالے مسافرروات کے بارے میں کیا تصور لیکر گزرتے ہونگے؟

شاہی قلعہ ایک تاریخی مقام ہے جس کے ایک حصہ کو بطور مسجد استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے اس کی ایک خاص تک حفاظت کی جارہی ہے لیکن باقی حصہ ایک کھیل کا میدان تصور کیا جارہا ہے دن کے اوقات میں بچے کرکٹ کھیلتے ہوئے نظرآتے ہیں چوکیدارکا نظام فعال نہ ہونے کی وجہ سے جانور گکھڑ خاندان کے بادشاہ سارنگ خان اور اس کے سولہ بیٹوں کی قبروں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں کمیونٹی حال نہ ہو نے کی وجہ سے اہلیان روات شادی بیاہ اور سیاسی تقریبات کو بھی شاہی قلعہ کے احاطہ کے اندر ہی منعقد کرنے میں کوئی عیب تصور نہیں کرتے ہیں منڈی ‘کھوکھوں اور ٹرانسپورٹ اڈوں کی مد میں حاصل ہونیوالے ٹیکس پر اہلیان روات کا پورا حق ہے کہ ان کے محصول رقم شہریوں کی فلاح و بہبود پر خر چ کی جائے لیکن بدقسمتی سے شہریوں کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ رقم کون جمع کررہا اور کدھر جارہی ہے ایک بااثر مافیا شہریوں کے حقوق پر سانپ بنا بیٹھا ہے کسی مائی کے لعل کو جرات نہیں کہ وہ پوچھے روزانہ لاکھوں کی مد میں جمع ہونیوالی رقم کدھر جارہی ہے اگر لوکل سیاست کی بات کی جائے تو اکثریت کا محور پولیس چوکی روات ہے اور اسی پہ سیاست کی جارہی ہے سب انسپکٹر اورنگزیب اور اشفاق بھنڈر ہی ان کے پسندیدہ چوکی انچارج پولیس افسران ہیں یہی وجہ ہے گزشتہ کئی سالوں سے یہ دونوں ہی زیادہ عرصہ تک ایک دوسرے کے بعد انچارج تعینات ہوتے رہے ہیں لگتا اسطر ح ہے کہ اسلام آباد پولیس کے پاس ان کے سواء روات کے جرائم کو قابو کرنے کیلئے اہلکار ہی ختم ہوگئے ہیں روات کی تعمیر و ترقی کیلئے عابد مغل کا کردار ہردور میں مثالی رہا ہے جنہوں نے اپنی جیب سے لاکھوں روپے خرچ کرکے روات کو ماڈل سٹی بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں لیکن ان کی تمام کاوشیں بھی مافیا کے آگے ناکام ثابت ہوئیں انہوں نے واٹرسپلائی سیکم‘فلٹریشن پلانٹ سے لیکر سوئی گیس کے کنکشن کی فراہمی تک ضلعی انتظامیہ سے بھرپور رابطے کیے ہیں لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں برطانیہ میں مقیم چوہدری نذیر ایڈووکیٹ بھی روات کو ترقی یافتہ اور ماڈل گاؤں دیکھنا چاہتے ہیں وہ جب بھی پاکستان آئے انہوں نے عملی طور پر سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی کوششیں کی اور روات کے مسائل کو اجاگرکرنے کیلئے ہر فورم پر آواز آٹھائی لالہ اورنگریب شہریوں کے مسائل کے حل کا احساس رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے
مطالبات منوانے کیلئے انتظامیہ اور منتخب عوامی نمائندوں سے رابطہ کرنے کی بجائے جی ٹی روڈ پر احتجاج ہی کو اپنا پہلا اور آخری حربہ تصور کیا جس کی وجہ سے تاحال انکے احتجاج سے
عوام کو کوئی ریلیف نہ مل سکا‘ چوہدری آصف نواز ایک سیاسی ووکر کے طور سامنے آئے ہیں جو اہلیان روات کو ایک پلٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے کوشاں ہیں ان کی کاوشوں سے چند گلیات کی پختگی سامنے آئی ہے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیر ہ کے مترادف ہی خیال کی جاتی ہیں سیاسی و سماجی ووکر منظور احمد بھٹی جو خود غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن لگتا ہے لیکن مظلوم عوام کی خدمت کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بڑھا ہوا ہے انہوں نے انتظامیہ کی بجائے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے عدلیہ کی حکم پر جی ٹی روڈ پر اوورہیڈبرج کی تعمیران کی کاوشوں کا صلہ ہے تنظیم مخلوق خدا کے بانی و معروف سماجی ووکرقاضی محمد فیاض کا غرباء و مساکین کی مالی امداد اور ان کی بحالی کیلئے کردار قابل تعریف ہے اور وہ اپنے مضبوط نیٹ ورک کی وساطت سے خدمت خلق کا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں لیکن صد افسوس ہے کہ روات کی دھرتی نہ تو کوئی ایسا صحافی پیدا کرسکی ہے جوکہ اپنے علاقہ کے مسائل کو اجاگرنے کرنے کے ساتھ ساتھ علاقہ کے سیاسی و سماجی شخصیات کی آواز بن کر ان کو متحرک کرسکے اور نہ کوئی ایسے لیڈر کو سامنے لاسکی ہے جو اپنے مفادات کی بجائے شہریوں کے مسائل کے حل کیلئے دن رات ایک کردے ہیں جب تک یہاں عوام کا درد رکھنے والاباجرات عوامی لیڈر سامنے نہیں آئے گاکرپشن مافیا کا ختم نہیں ہوسکے گا روات کے شہری مسائل کے دلدل میں پھنس کر پریشان اورکمپرسی کی زندگی گزرانے پر ہی مجبور رہیں گے
Ch Abdul Khateeb
About the Author: Ch Abdul Khateeb Read More Articles by Ch Abdul Khateeb: 20 Articles with 14051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.