مدارس امن کے گہوارے یا مدارس امن وآشتی کا سبق دیتی ہے

ویسے تو سطح زمین بہت پھیلی ہوئی ہے،لیکن ان میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ زمین کونسی ہے تو اس کے بارے میں آقائے نامدار ﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ زمین مساجد کی ہے اور مبغوض زمین بازاروں کی ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگ سارے کے سارے ان پڑھ تھے،جہالت کے اندھیروں میں دبے ہوئے تھے،تو اس وقت اﷲ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان کو پیدافرمایا ان کے پیدائش کے وقت ایک روشنی آئی کہ جس سے قیصروکسریٰ روشن ہوئے،اسی نبی نے لوگوں کے دلوں پر محنت کر لیااور لوگ جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہونے لگے ،نومسلم صحابہ اور بعض دیگر صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے تو نبی ﷺ نے ان کے لیے ایک چبوترا سا بنایااور پھر اس چبوترے کو ’’صفہ ‘‘ کے نام سے موسوم کر لیا گیا، بہت سے صحابہ کرام اس میں دن رات علوم دینیہ کے حصول میں مشغول ہوتے تھے ان صحابہ کرام کو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا،یہی سے مدرسہ کی ابتداء ہوئی یہاں پر معلم آقائے نامدار ﷺ اور شاگرد صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین تھے،انہی مدارس کی یہ کڑی آتی رہتی تھی یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی ایک دینی مرکز بنام ’’دارلعلوم دیوبند‘‘قائم ہوئی اس کی بنانے کا واقعہ بھی عجیب ہے کہ ایک رات قاسم العلوم والخیرات مولانا قاسم نانوتویؒ سو گئے تو خواب میں آقائے نامدار ﷺ کی زیارت ہوئی خواب میں حضور ﷺ نے قاسم نانوتویؒ کو غمگین دیکھا تو فرمایا کہ کیوں غمگین نظر آتے ہو؟ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک جگہ پر لے گئے اور وہاں پر حضور ﷺ نے عصاء مبارک سے ایک نشانی لگائی اور فرمایا کہ یہاں پر ایک دینی مدرسہ قائم کریں،صبح کو جب مولانا قاسم نانوتویؒ وہاں پر چلے گئے تو دیکھا کہ خواب میں حضورﷺ نے جس جگہ پر نشانات لگائے تھے وہ اسی طرح موجود تھے پھر نانوتویؒ نے وہاں پر مدرسہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ قائم کرلیا اس طور پر کہ ایک انار کے درخت کے نیچے ایک اوستاد اور ایک شاگرد بیٹھ گئے کتاب ہاتھ میں لے کر علوم دینیہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے، خدا کی کرشمہ دیکھئے کہ اوستاد اور شاگرد دونوں کا نام محمود تھا،پھر وہی شاگردبعد میں شیخ الہند کے لقب سے یاد کرنے لگے ،یہی سے مدارس کا یہ سلسلہ اور بھی مضبوط ہوتا گیا اورایک زنجیر سی بن گئی اسی زنجیر کی کڑیاں ہیں جو کہ پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اس زنجیر کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ہمارا مدرسہ ’’جامعہ علوم القرآن‘‘ بھی ہے،

میں نے جا معہ میں ۹ سال گزاردیے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ روئے زمین پر اگر امن و گہوارے کا درس دینے کی جگہ ہے تو وہ صرف مدارس ہی ہیں ،مدارس روئے زمین پرصرف ایک ایسی واحد درس گاہ ہے کہ جونئی نسل کوملک میں امن وآشتی کے گہوارے کا سبق دیتاہے۔اورمدارس کا نصاب تعلیم ایساجامع اور مانع ہے کہ اس سے کسی کاانکار نہیں کیونکہ یہ نصاب علمائے کرام نے اپنی کوششوں اور تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر مرتب کیاہے اور الحمداﷲ آج تک وہی نصاب تعلیم ہے جو ان علمائے کرام نے مرتب کیا تھا۔مدارس میں ہمیں جو درس دیاگیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،تو یہی وجہ ہے کہ تمام معاشرہ مدارس کے علاوہ اپنی زندگی بسرنہیں کر سکتی۔اگر نکاح پڑھانا ہے تو عالم کا محتاج،بچہ پیدا ہو جائے تو عالم کامحتاج،بیوی کو طلاق واقع ہوجائے توعالم کا محتاج،کوئی فوت ہوجائے توعالم کامحتاج،جنازہ پڑھانے میں عالم کامحتاج الغرض معاشرہ ہر چیز اور ہر کام میں علمائے کرام کا محتاج ہے حتیٰ کہ قیامت میں بھی لوگ علمائے کرام کے محتاج ہونگے اس طور پر کہ جنت میں جب ہر طرح کی نعمتوں سے لوگوں کو نوازا جائیگا تواﷲ رب العزت فرماینگے کہ کیا کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟تو سب لوگ ایک آواز سے کہینگے کہ نہیں ،تو اس وقت علمائے کرام کہینگے کہ اے اﷲ دنیا میں تو ہم اپنی کتابوں میں یہ پڑھتے تھے کہ جنت میں اﷲ تعالیٰ اپنا دیدار کرائینگے بس یہی نعمت باقی ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ اپنا دیدار بھی کرادینگے پھر سب لوگ علمائے کرام کی طرف متوجہ ہوجائینگے کہ آپ کی برکت سے آج ہمیں ایک نعمت عظمیٰ سے نوازاگیا۔
اپنے لیے سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

آجکل ہمارے بعض بھائی مدارس پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مدارس دنیا کی لب ولہجے سے ناآشنا ہے ۔ اگر اس اعتراض پر ہم غور کریں تو یہ اعتراض بے محل ہے کیو نکہ مدارس دنیا کے ساتھ چلنے کی سکت رکھتے ہیں اور ہمیشہ دنیا کے لوگوں کی خدمت کی ہے اور جب بھی اس قوم و ملت پر کوئی آفت ٹوٹی ہے تو مدارس کے غیور اور مخلص حضرات نے اس قوم و ملت کی ہر محاذ پر مدد و معاونت کی ہے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا مدارس نے ہمیشہ قوم و ملک کے لیے خدمات پیش کیے ہے اور جب بھی وطن عزیز پر کوئی سخت گھڑی آئی ہے تو مدارس نے کندھا دے کر ملک و قوم کو اس مصیبت سے نکالی ہے ۔ جب ملک میں سیلاب ، زلزلے اور قدرتی آفات آئی ہے تو اہل مدارس نے اس سخت آن میں مصیب زدہ لوگوں کی جانی و مالی خدمت کرکے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہے لیکن پھر بھی بعض نام نہاد لوگ مدار س کے نصاب و نظام پر انگلی اٹھاتے ہے اور مدارس کو دہشت گردی کے اڈے تصور کرتے ہیں، حالانکہ یہ بات غلط اور خلاف عقل ہے کیونکہ مدارس نے ہمیشہ معاشرے کو امن و آشتی ، اخوت و بھائی چارے کا درس دیا ہے اور پورے معاشرے کو ایک نقطے پر جمع کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اگر پھر بھی مدارس کے فعال کردار پر کسی کو اعتراض ہے تو یہ کم فہمی اسکی ذات تک محدود ہوگی جو اتنی بڑی نظام پر انگلی اٹھاتے ہیں ۔ اگر ہمارے ارباب اقتدار تھوڑا سوچھے کہ یہ مدارس تو ملی و قومی و حدت کے لیے کام کر رہے ہیں اور معاشرے کی دینی پیاس بجھانے کے لیے سر گرم عمل ہیں ،اگر مدارس کا وجود ختم کردیا گیا تو پھر معاشرہ بہت سی روحانی بیماریوں کا شکار ہو جائے گا۔
Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 190185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.