سانحہ شکار پور پاکستان کے خلاف سازش

شکار پور میں جمعہ کے دن شیعہ مذہب کی ایک عبادت گاہ امام بار گاہ کربلا معلیٰ میں اس وقت خود کش حملہ ہوا جب لوگ عبادت میں مصروف تھے جس کے نتیجے میں پچاس افراد کا قتل عام اور ساٹھ کے قریب زخمی ہوگئے اس افسوس ناک سانحہ نے قوم کو ایک بار پھر رنجیدہ کردیا ہے سانحہ راولپنڈی مدرسہ تعلیم القرآن کے بعد کسی بھی مذہبی عبادت گاہ میں یہ بڑا حملہ ہے اس سانحہ کے ملک پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے اس واقعہ کا مقصد پاکستان میں شیعہ سنی لڑائی کو منظم طریقے سے شروع کروانا ہے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتایہ سفاکانہ،فسطائیت پر مبنی واقعہ اہل تشیع کا قتل عام کھلی ،بربریت ہے اور پاکستان کو خطرے میں دھکیلنے کی گھناونی سازش ہے ایک عرصہ سے پاکستان میں مختلف طبقات کو آپس میں لڑانے کی سازشیں ہو رہی ہیں کبھی سیکولر سیاستدان مذہبی قائدین کے خلاف انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں تو کبھی شیعہ سنی لڑائی ملک میں کروانے کے لئے شیعہ کمیونٹی پر حملے ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو کبھی سپاہ صحابہؓ کے لیڈران کو شہید کرکے ملک میں انار کی پھیلانے کا ناپاک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو کبھی ملک میں مسلک اہلسنت والجماعت کی دو بڑی جماعتوں بریلوی اور دیوبندی لڑائی لے لئے ان کے جید علمائے کرام کو شہید کرکے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے قوم بھی بہت صابر ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنا ذاتی انفرادی نقصان برداشت کر رہی ہے اب سانحہ شکار پور رونما ہو چکا جومیرے نزدیک شیعہ مذہب کا قتل عام ہے جس کی کسی قیمت پر کوئی بھی مذہبی،دینی،مسلکی قوت حمایت نہیں کر سکتی یہ سراسر ظلم ،حیوانیت ہے کہ ایک مذہب کے لوگ اپنی عبادت میں مصروف ہیں تو ان بے گناہوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا یقینا یہ فعل قابل مذمت ہی نہیں بلکہ قابل گرفت بھی ہے حکومت کی طرف سے کسی بھی سانحہ پر چند دن افسوس، احتجاج کرکے اس پر مٹی ڈالنے کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا ناسور بڑھتا ہی جا رہا ہے اگر حکومت سنجیدگی سے سانحہ تعلیم القرآن پر ایکشن لیتی تو یقینا یہ سانحہ کرنے کی دشمن کو جرات نہ ہوتی حکومت اس وقت بھی زبانی جمع خرچ سے آگئے پیش رفت نہ کر سکی۔ہم تو کئی بار حکومت کی خدمت میں گزارش کر چکے ہیں کہ اصل دشمنوں کا تعین کیا جائے ہمارے اصل دشمن تو امریکہ ،اسرائیل اور بھارت ہیں جو ایسے واقعات میں ملوث ہیں ہر سانحہ،واقعہ کے تانے بانے وہیں جا کر ملتے ہیں لیکن حکومت اصل دشمنوں کا نام لینے سے نہ جانے کیوں گھبراتی ہے؟اب بھی ماضی کی طرح چند د ن احتجاج مذمت کے بعد سانحہ شکار پور کوبھی بھلا دیا گاتو سانحہ سے بڑھ کر سانحہ ہوگااس سانحہ کی آڑ میں صرف مخالف جماعت کے کارکنوں کو پکڑ لینا کوئی کام نہیں یہ روایتی کاروائیاں ہیں جس کا ملک وملت کو کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ الٹا نقصان ہوا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومت مسائل کے حل میں سنجیدہ ہر گز نہیں بلکہ ہر دور کے حکمرانوں نے ہر پیدا ہونے والے مسلے میں اتنی غفلت برتی کہ ہر مسلے کو غیر ملکی ایجنسیوں نے اپنے کنٹرول میں لے کر اسے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کیا اب بھی بہت سے مسائل کا تدارک ہو سکتا ہے اس کے لئے ہوش مندی نیک نیتی کی ضرورت ہے بغیر کسی بیرونی دباؤ کے حکومت کو اب بھی عملی اقدام کی طرف آکر معاملات کو سلجھا لینا چاہیے حکومت نے جو موجودہ اقدام کئے ہیں وہ ناکافی ہی نہیں بلکہ سرے سے ہی غلط ہیں یا ان میں ابہام بہت زیادہ پایا جاتا ہے اس سے منفی تاثر پیدا ہو رہا ہے مثال کے طور پر جب سپاہ صحابہ ؓ اور اہل تشیع مذہب کی آپس میں مخالف تحریکیں چلیں تو سپاہ صحابہ ؓ کا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کامطالبہ تھا کہ جو بھی صحابہ کرام ؓ اور اہل بیت عظامؓ کی شان اقدس میں توہین کرے اس کو غیر مسلم اقلیت اور سزائے موت کا حق دار قرار دیا جائے ملکی سطح پر ایسا قانون فوری بنایا جائے لیکن حکومت نے اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی میاں نواز شریف کے دور حکومت میں مولانا عبدالستار خان نیازی ؒکی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اس کا حل تلاش کرلیا ایک ضابطہ ٔ اخلاق بنایا گیا جس پر سب متفق تھے مگر اس پر عمل نہ کیا گیا جس کی وجہ سے تناؤ بڑھتا ہی چلا گیا اتنا بڑا کہ اب معاملہ سپاہ صحابہ ؓ اور اہل تشیع قائدین کے ہاتھوں میں بھی نہیں رہا بلکہ یہ معاملہ اب غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں دکھائی دیتا ہے حالیہ حملہ بھی انہی وطن دشمن ،مذہب دشمن قوتوں کا شاخسانہ ہے جو ملک میں کسی قیمت پر امن نہیں چاہتیں اسی طرح حکومت نے اب لاؤڈ سپیکر ایکٹ پرسختی سے عمل کروانا شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں علما کرام کو توہین آمیز طریقے سے گرفتار کیا جارہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ہماری اس سلسلے میں گذارش ہے کہ لاؤڈ سپیکر پر پابندی نہ لگائی جائے بلکہ ایسی فرقہ وارنہ تقاریر کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آنا چاہیے لاؤڈ سپیکر پر پابندی دین اسلام کی تبلیغ کاگلہ گھونٹنے کے مترادف ہے ،ایسے ہی حکومت نے فرقہ وارنہ لٹریچر پر پابند عائد کی ہے مگر فرقہ وارنہ لٹریچر کی تعریف ہی نہیں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی نتیجہ کیا نکلا کہ ختم نبوت جیسے مقدس مشن کے لٹریچر کو تقسیم کرنے والوں کو بھی گرفتار کرکے جیلوں میں بھیج دیا گیاجس سے مذہبی حلقوں میں گہری تشویش پائی جارہی ہے حکومت کوچاہیے کہ فرقہ وارنہ لٹریچر کا دائرہ کار مقرر کرکے اس کے خلاف کاروائی عمل میں لائے ۔حکومت کے ایسے اقدام سے وقتی طورپر تو اثرات ہو ں گے تادیر نہیں ۔پتہ نہیں حکومت کو ایسے غلط مشورے کون دیتا ہے؟ جن میں پائیداری کا سرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ جانے حکمران ایسے غلط مشوروں کو کیوں قبول کرلیتے ہیں ؟

مندرجہ بالا مثالیں اس امر کی طرف اشارہ ہیں کہ تمام معاملات سلجھانے میں حکومت ہمیشہ کاہلی سست روی کا شکار یا غلط طریقہ کار پر عمل پیرا رہی جس کے نتائج مثبت کی بجائے منفی مرتب ہوئے ۔حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے مذہبی،فرقہ وارنہ،سیاسی ،معاشرتی تعصب،تناؤ ،اختلافات کو ختم کرنے کے لئے درست سمت اختیار کرتے ہوئے میدان عمل میں اترے تاکہ دشمن کے عزائم کو خاک میں ملایا جا سکے۔اﷲ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس کے لئے ہمیں مخلصانہ جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے( امین)
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 247681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.