سیدنا شیخ عبد ا لقادرجیلانی اور داعیانہ زندگی

اﷲ رب ا لعزت جل مجدہ نے حضرت سیدنا آدم علہ ا لسلام سے لے کر آخری نبی ورسول حضرت محمد عربی ﷺ تک کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار انبیا کرام اس کائنات عالم کی بو قلمونیوں میں مبعوث فرمایا تاکہ یہ گروہ انبیا و رسل خدا کے بندوں کی ہدایت و کامرانی کا ذریعہ اور سبب بنیں ، ان کے رشتہ حیات( زندگی کے سرے) کو ان کے رب عز و جل سے جوڑنے کا مقدس فریضہ انجام دیں، خلق خدا میں پائی جانے والی غلط اور بری حرکتوں پر نکیر کریں اوران میں دعوت و تبلیغ کا مقدس اور اہم فریضہ انجام دے کر بندوں کو ان کے رب کی معرفت سے ہم آہنگ کریں۔ اسی مقدس فریضہ کو تمامی انبیا او ررسل نے اور خاتم ا لنبیےن حضرت محمد عربی ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ، تابعین عظام اور دیگر ائمہ و مجتہدین نے بحسن و خوبی پائے تکمیل کو پہونچایا اور مخلوق کے رشدو ہدایت کو اپنی داعیانہ زندگی کو اپنی زندگی کا نصب ا لعین متعین کیا۔

اس تناظر میں ہم جب قدوۃ ا لسالکین، محبوب ا لعارفین ،سلطان ا لاولیا سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی بغدادی رضی عنہ ا لباری (ولادت 470ھ بمقام گیلان وصال 561ھ بمقام بغداد ) کی انوار الٰہیہ سے معمور زندگی کا طائرانہ مشاہدہ کرتے ہیں تو جہاں آپ اپنے زمانے اور بعدکے تمام اولیا کاملین کے سردار اور منصب غوثیت کبریٰ پر فائز تھے ، علم و فضل ، زہد و تقویٰ خلوص و ﷲیت میں یکتائے روز گار تھے بلکہ آپ کی بارگاہ اقدس سے وابستہ ہونے والا آسمان علم و حکمت کا درخشندہ ستارہ بن کرافق عالم میں نمو دار ہوتا ، آپ صرف مہدی ہی نہیں بلکہ رب کی عطا ؤں سے اقوام عالم کے لئے مرجع ہدایت اور سر چشمہ خیر و برکت بھی ، جلیل ا لقدر علما اور مشائخ کے نزدیک آپ کی عظمت و رفعت ماضی کی طرح حال اور استقبال میں بھی مسلم ا لثبوت ہے ۔جن کی عظمت و جلال کے حضور بڑی بڑی کج کلاہیں خمیدہ سر نظر آتیں،جن کی عظمت و رفعت پر مبنی معیت کا اعلان اور مدح خوانی سرمایہ افتخار متصور کی جاتیں، جن کی بارگاہ ااقدس میں اولیا کرام اپنی گردنیں جھکا کر اکتساب فیوض و برکات حاصل کرتے، اور آپ کا غایت درجہ ادب و احترام بجالاتے گویا: یہ دل یہ جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے جہاں چاہو رکھو قدم غوث ا عظم وہیں آپ کی پاکیزہ زندگی سرچشمہ رشد و ہدایت ، منبع جود و سخا پیکر موعظت و نصیحت ، خوف خدا سے پر داعیانہ اسلوب اور علم و عمل، حکمت و دانائی سے لبریز دعوت و تبلیغ کا مقدس جلوہ اپنے دامن میں سمیٹے نظر آتی ہے۔ ذیل میں ہم آپ کی سیرت پر 950ھ میں علامہ اجل محمد بن یحیٰ تاذفی کی لکھی جانے والی مستند کتاب ’’قلائد ا لجواہر فی مناقب شیخ عبد ا لقادر ا لجیلانی مترجم غوث جیلان از :علامہ محمد عبد ا لستار قادری سے آپ کی داعیانہ زندگی سے معمور دعوت و تبلیغ کا مقدس عمل پیش کرنے کی سعادتیں حاصل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے بایں ہمہ کہ اﷲ تعالیٰ ان نیک بندوں کی داعیانہ زندگی کے صدقے ہمیں بھی اپنی زندگی کا درست اور بہتر نصب ا لعین متعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

سلطان ا لاولیا محی ا لدین سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی نے اپنی داعیانہ زندگی اور رشد و ہدایت کا یوں تو آغاز اپنے بچپن ہی سے کردیا تھا جب اپنی ماں سے اجازت لے کر حصول علم کے لئے بغداد جانے والے قافلے کے ہمراہ ہوئے ،مقام ہمدان سے گزر ہوا، ساٹھ سوار ڈاکووئں نے آپ کے قافلے پر حملہ کردیا اور قافلے والوں کو لوٹ لیااسی اثنا میں ایک ڈاکو آپ کے پاس آکر کہنے لگا کہ اے بچے کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟آپ نے فرمایا ہاں ؛میرے پاس چالیس دینار ہیں،اس نے کہا کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میری گدڑی کے نیچے میرے بغل میں سلے ہوئے ہیں اس نے جانا کہ آپ اس کے ساتھ ہنسی کررہے ہیں اور وہ آپ کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ دوسرا آیا سوال و جواب میں آپ نے اس سے وہی باتیں دوہرائیں اور وہ بھی واپس چلا گیا ۔جب ڈاکو لوٹ مار سے فارغ ہوئے تو ایک نے اپنے سردار سے بچے کا سارا ماجرا بیان کیا ۔ اس نے اس بچے کو بلایا اور حقیقت حال جاننے کی کوشش کی تو آپ نے اپنی سابقہ بیان کی ہوئی باتیں سچ سچ بیان کردیں اورآپ کی گدڑی ادھیڑی گئی تو واقعی اس میں سے چالیس دینار نکلے(یہ وہی چالیس دینار تھے جو انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کی میراث میں پایا تھا اور ان کی ماں نے اسے گدڑی میں سل دیا تھا ) اس نے حیرت زدہ ہو کر آپ سے عرض کیا کہ لوگ تو اپنے مال و اسباب کو رہزنوں اور ڈاکوؤں سے چھپاتے ہیں اور تم نے تو سچ سچ بیان کردیا اپنے مال و اسباب کی بھی فکر نہ کی کہ ڈاکو لوٹ لیں گیں ؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں جب حصول علم کے لئے جیلان سے بغداد کے لئے نکلا تو میری ماں نے مجھ سے راست گوئی (سچ بولنے )کا عہد و پیمان لیا تھا لہذا میں اپنی ماں کے ساتھ کیسے عہد شکنی کرسکتا تھا ؟۔آپ کی حقانیت سے معمور دعوت الی ا لخیر کا اسلوب ڈاکوؤں کے سردار کے دل میں ایسا اثر انداز ہوا کہ بولا کہ ’’تم اپنی ماں کے ساتھ عہد شکنی نہیں کرسکتے؟ لیکن ہائے افسوس کہ میں اپنے خالق و مالک رب ذ و لجلال جس نے ہمیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اس سے زندگی بھر عہد شکنی کرتا چلا آرہاہوں یہ کہ کر اس نے آپ کے دست اقدس پر توبہ کی اور ساتھ ہی اس کے تمام ڈاکو ساتھیوں نے بھی اپنے سردار کی متابعت(پیروی) میں توبہ کیاور قافلہ کا سارا لوٹاہوا مال و اسباب اہل قافلہ کو واپس کردیا ۔

اس طرح 18سال کی عمر میں 488میں بغداد تشریف لے گئے اور وہاں جاکر آپ نے علم فقہ اور اس کے جملہ اصول و فروع ،اخلاقیات پر عبور حاصل کر کے علم حدیث پڑھا ، اس کے بعد آپ وعظ و نصیحت میں مشغول ہوئے ، آپ نے اس میں نمایاں ترقی حاصل کی ، پھر آپ نے تنہائی ، خلوت سیاحت ، مجاہدہ ، محنت و مشقت، مخالفت نفس ، کم خوری ، کم خوابی ، ، جنگل و بیابان میں رہنا جیسے سخت امور اختیار کئے، عرصہ تک بغداد کے مشہور بزرگ شیخ حماد دباس الزاہد کی خدمت با برکت میں رہ کر ان سے علوم طریقت حاصل کیا پھر اﷲ کا خصوصی فضل و کرم آپ پر ہوا کہ اس نے مخلوق کے دلوں میں آپ کی عزت و عظمت اور شرف و بزرگی پیدا کردی جس سے آپ کو قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔آپ تمام فقہا و فقرا کے سردار اور تمامی اولیا کاملین کے پیشوا قرار پائے ۔ آپ کی ذات مجمع ا لفیوض و ا لبرکات سمجھی جاتی۔

ان فضائل و مناقب سے آراستہ ہونے کے باوجودسلطان ا لاولیا محی ا لدین سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی ابتدا میں کھلے عام دعوت و تبلیغ سے گریز کرتے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن ظہر سے پہلے میں نے خواب میں حضرت محمد عربی ﷺ کی زیارت کی تو آپ ﷺ نے از راہ شفقت ارشاد فرمایا کہ میرے فرزند (چونکہ آپ نجیب ا لطرفین سادات میں سے تھے )تم وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے ہو؟ تو آپ نے عرض کیا میرے بزرگوار والد ماجد: میں ایک عجمی شخص ہوں فصحائے بغداد کے سامنے کس طرح زبان کھولوں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منھ کھولو ، میں نے اپنا منھ کھولا آپ ﷺ نے سات دفعہ میرے منھ میں تھتکارا( تھتکار کہتے ہیں جس میں تھوک کے کچھ چھینٹے منھ سے نکلتے ہیں) پھر آپ نے فرمایا جاؤ تم وعظ و نصیحت کرو اور حکمت عملی سے لوگوں کو نیک بات کی جانب بلاؤ پھر میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھا تو خلق خدا کا میرے قریب ہجوم لگ گیا میں کچھ مرعوب سا ہوگیا اس کے بعد میں نے حضرت علی کرم ا ﷲ وجہہ کی زیارت کی انہوں نے میرے منھ میں چھ مرتبہ برکت کے لئے تھتکاراتو میں نے عرض کیا آپ نے رسول ا ﷲ کی متابعت (پیروی)میں سات مرتبہ کیوں نہیں تھتکارا ؟ تو حضرت علی رضی ا ﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں رسول ا ﷲ کا ادب کرتا ہوں اس لئے میں آنحضرت ﷺ کی برابری نہیں کرسکتا اس کے بعد وہ آپ کی نظروں سے پوشیدہ ہوگئے ، آپ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ غواص فکر، دل کے دریا میں غوطے لگا لگا کر حقائق و معارف کے موتی نکالنے لگا اور ساحل سینہ پر ڈال ڈال کر زبان مترجم و فسانہ گو کو پکارنے لگالو گ خدمت اقدس میں آکر طاعت و عبادت کے بے بہا گراں مایہ قیمتیں گزران کر انہیں خریدتے اور خدا کے گھروں کو ذکر الہی کے لاحوتی نغمے سے آباد کرتے ۔

اس کے بعد آپ بغداد تشریف لے گئے تو اکابر علما وصلحا سے ملا قات کی ان میں شیخ ابو سعید ا لمخرمی نے آپ کو بغدا کے محلہ باب ا لازج میں واقع مدرسہ ، تفویض کردیاجہاں آپ نے نہایت ہی فصاحت و بلاغت سے دعوت و تبلیغ کا مقدس فریضہ انجام دینا شروع کردیا جس سے بغداد سمیت دور دراز میں بھی آپ کا شہرہ ہوگیااور خلق خدا کا جم غفیر آپ کی بارگا ہ اقدس میں معرفت الہی سے فیضیاب ہونے لگی یہا نتک کہ مدرسہ کا صحن لوگوں کی کثرت سے تنگ پڑگیا تو لوگ باہر فصیل کے نزدیک سرائے کے دروازے پر بیٹھ کر آپ کا پیغام رشد و ہدایت سماعت کرتے روز بروزھتے ہوئے خلق خداکے ہجوم کے پیش نظر قرب و جوار کے مکانات شامل کر کے مدرسہ کو کشادہ کیا گیا جس میں اغنیا ء ،امرا نے کثیر مالی تعاون پیش کیا تو غربا اور فقرا نے اپنے ہاتھوں سے اسلام کے قصر (مدرسہ) کو تعمیر کرنے میں اہم رول ادا کیا۔528ھ میں وسیع و عریض تعمیر شدہ مدرسہ آپ کے نام سے منسوب ہوا جہاں آپ نے نہایت ہی جد و جہد اور خلوص و ﷲیت کے ساتھ درس و تدریس اور افتا کے کام کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا مقدس طرز عمل شروع کیا جیسا کہ شیخ موفق ا لدین فرماتے ہیں کہ’’ جب وہ 561ھ میں بغدا د پہونچے تو دیکھا کہ حضرت شیخ عبد ا لقادر جیلانی علمی اور عملی ریاست کے مرکز بنے ہوئے ہیں جب طلبہ آپ کی بارگاہ میں آجاتے تو پھر انہیں کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ آپ مجمع علوم و فنون تھے اور کثرت سے طلبہ کو پڑھایا کرتے ، نہایت ہی عالی ہمت اور سیر چشم تھے‘‘ اسی وجہ سے اطراف عالم سے مخلوق خدا آپ کی بارگاہ علم و فضل میں حاضری کی سعادتیں حاصل کرتی اور دیکھتے ہی دیکھتے علما و صلحا کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی اور آپ کی بارگاہ سے فیضیاب ہونے کے بعد اکناف عالم میں خدا و رسول کا آفاقی پیغام پہونچانے کے لئے اپنے اہل خانہ کی جانب کوچ کر گئی اور رفتہ رفتہ آپ کی عظمت و رفعت کے شادیانے عرب و عجم میں بجنے لگے ۔آپ کے فضائل جمیلہ و کمالات حسنہ ، اوصاف جمیلہ ، خصائل حمیدہ اور علوم و فنون کا چرچا لوگوں کی زبان زد ہوگیا ۔

آپ کی دعوت و تبلیغ کا یہ حال تھا کہ شیخ عبد ا ﷲ جبائی بیان کرتے ہیں کہ ان سے سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی نے فرمایا کہ بیداری کی طرح میں خواب میں بھی نیکی کی باتیں بتاتا اور برائیوں سے منع کرتا ۔ طاقت لسانی مجھ پر غالب تھی میرے دل میں پے درپے اس بات کا وقوع ہوتا کہ اگر میں اپنی زبان کو روکوں گا تو ابھی میرا گلا گھونٹ دیا جائے گا مجھے اپنی زبان پر قدرت نہ تھی، ابتدا ً میرے پاس دو تین افراد بیٹھتے رفتہ رفتہ جب لوگوں میں آپ کی دعوت و تبلیغ کا شہرہ ہوا تو خلقت کا ہجوم آپ کے ارد گرد جمع ہونے لگا تو آپ وعظ و نصیحت کے لئے بغداد کے محلہ حلبہ میں واقع عیدگاہ میں تخت پر متمکن ہو کر وعظ و نصیحت فرماتے اور جب وہ جگہ بھی اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی تو تو شہر سے باہر بڑی عیدگا ہ میں آپ کا تخت لگتا جہاں پر لوگ دور دراز سے خچر اور دیگر سواریوں پر چل کر آتے اس وقت ایک محفل میں قریب ستر ہزار کی تعداد میں لوگ آپ کا وعظ سن تے اور اپنے گناہوں سے تائب ہو کر خدا و رسول کی بارگاہ کے مقربین بننے کی کوشش کرتے ۔ آپ کی دعوت الی ا ﷲ میں وہ تاثیر من جانب ا ﷲ پیدا کردی گئی تھی کہ کثرت سے لوگوں کے ہونے کی صورت میں جس طرح آپ کی آواز قریب کے لوگ سنتے بعینہ وہی آواز دور بیٹھنے والے افراد کو بھی سنائی دیتی تھی، آپ اہل مجلس کے خطرات اور مافی ا لضمیر بیان کردیا کرتے تھے۔

محمد بن حسینی ا لموصلی اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی تیرہ علوم و فنون میں تقریر فرماتے ، آپ کے مدرسہ میں ایک درس فروعات مذہبی پر اور دوسرا اس کے مختلف فیہ مسائل پر ہوا کرتا تھا ہر روز دن میں اول و آخر تفسیر و حدیث اور اصول علم و نحو وغیرہ کا درس دیتے اور ترجمہ قرآن و تفسیر کا خصوصی درس بعد ظہر فرماتے ۔محمد بن ا لخضر الحسینی اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنی مجلس ذکر و خیر میں انواع و اقسام کے علوم و معارف بیان کرتے آپ کی مجلس میں لوگ نہایت ہی توجہ اور دلجمعی کے ساتھ آپ کی باتیں سماعت کرتے آپ کی ہیبت اور جلال کی وجہ سے کوئی بھی کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتا جب آپ فرماتے کہ مضی ا لقال و عطفنا با لحال یعنی ہم نے قال سے حال کی جانب رجوع کیا تو لوگ نہایت مضطرب ہوجاتے اور ان میں حال اور وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ۔شیخ ابو عمر و شیخ عثمان الصیرنی اور شیخ عبد ا لحق حریمی بیان کرتے ہیں کہ میرے شیخ عبد ا لقادر جیلانی وعظ و نصیحت کرنے کے مابین اور دیگر اوقات نہایت ہی آبدیدہ ہوکر فرمایا کرتے تھے اے پرور دگار : میں اپنی روح تیری بارگاہ میں کیوں کر نذر کروں حالانکہ جو کچھ ہے وہ سب کاسب تیرا ہی ہے ۔ ایک مرتبہ دوران دعوت وتبلیغ آپ نے محسوس کیا کہ لوگوں میں کچھ سستی پیدا ہوگئی ہے اسی وقت آپ نے دو اشعار پڑھے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ :تو مجھ اکیلے کو نہ پلا کیوں کہ تو نے مجھے عادی کردیا ہے کہ میں حریفوں کے ساتھ شراب پینے کا عادی ہوں ۔ اور تو تو کریم ہے اور کریم و سخی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ حریف بدو شراب پئے بغیر اٹھ جائیں ۔ آپ کے لبہائے نازنیں سے نکلے ہوئے پاکیزہ اشعار نے ان بندگان خدا کے دلوں میں ایسا اثر کیا کہ لوگوں کی روحیں بے چین و بے قرار ہوگئیں اور اور اسی جام لبا لب سے مخمور روحوں میں دوتین افراد کی روحیں قفس عنصری سے پرواز کرگئیں ۔ایک بزرگ شیخ عمر کیما بیان کرتے ہیں آپ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں اسلام دشمن یہودو نصاریٰ توبہ نہ قبول کرتے ہوں یا ڈاکو ، رہزن ، قاتل ، فاسق و فاجر ،بد اعتقاد لوگ آکر توبہ نہ کرتے ہوں۔

آپ کی مجلس وعظ و نصیحت میں حضرت انسان کی طرح رجال غیب بھی حاضری دیتے چنانچہ حافظ ابو زرعہ ظاہر بن محمد ظاہر المقدسی کہتے ہیں کہ ہم سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی کی مجلس دعوت و تبلیغ میں شریک تھے کہ آپ فرمارہے تھے کہ میرا کلام رجال غیےب (جنات )کے لئے بھی ہوتا ہے جو کوہ قاف سے چل کر میری بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، جن کے قدم ،ہوا میں اور دل حضرت ا لقدس میں ہوتے ہیں وہ اپنے رب تعالیٰ کا اس قدر اشتیاق رکھتے ہیں کہ آتش عشق سے ان کے سروں کی ٹوپیاں جلی جاتی ہیں اسی مجلس میں آپ کے صاحبزادے شیخ عبد ا لرزاق بھی موجود تھے جنہوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کی بھی ٹوپی جل اٹھی انہوں نے اسے پھاڑ دیا اسی اثنا میں سیدنا غوث اعظم اپنے تخت سے نیچے اتر کر ان کی جلتی ٹوپی سرد کی اور فرمایاکہ بیٹے تم بھی انہیں نیک لوگوں میں شامل ہو۔ شیخ عبدا لرزاق سے حافظ ابو زرعہ نے جب ٹوپی جلنے اور آسمانوں کی جانب تکتے رہنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’مجھے ہوا میں رجال غیب (جنات ) کی صفیں نظر آئیں تما م افق بھرا ہواتھا یہ لوگ اپنے سر جھکائے ہوئے نہایت خاموشی سے آپ (سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی )کا کلام سن رہے تھے بعض ا ن میں سے (خوف و خشیت الٰہی سے) چیخ اٹھے بعض (بے خود ہوکر ) دوڑنے لگتے اور بعض زمین پر گرپڑتے اور بعض لرز تے رہتے میں نے دیکھا کہ ان کے لباس میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبد ا لوہاب بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی ہفتے میں تین دفعہ وعظ و نصیحت فرماتے دو دفعہ اپنے مدرسے میں جمعہ کی صبح اور منگل کی شب کو اور ایک دفعہ اپنے مہمان خانہ میں بدھ کی صبح کو، جس مجلس وعظ و نصیحت میں علما و فقہا اور مشائخ و غیرہ بھی بکثرت شریک ہوتے آپ کے وعظ و نصیحت دعوت و تبلیغ کا سلسلہ 521ھ سے 561ھ تک چالیس سال کی مدت ہے ۔

آخری بات : کیا ہم مسلمانوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ ملی صلاح و فلاح پر توجہ دیں؟ ،اپنے طرز عمل سے اسلام کو فائدہ پہونچانے کے بجائے اسے بدنام کرنے کی کوششوں میں اپنی توانائی ضائع نہ کریں ؟ اور اس کے لئے اپنی زندگی میں داعیانہ کردار پیدا کرنے کی کوشش کریں؟ کیا بزرگوں سے عقیدت و محبت کا مطلب صرف یہی ہے کہا ن کے نام پر شکم پروری کی جائے ؟ یا ان کے طرز عمل کو بھی اپنا نا ضروری ہے ؟ رب تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ بطفیل مدنی سرکار ﷺہم سبھی لوگوں کو عقل سلیم کے ساتھ عمل صالح کی توفیق بخشے(آمین)
Muhammad Arif Hussain
About the Author: Muhammad Arif Hussain Read More Articles by Muhammad Arif Hussain: 32 Articles with 57293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.