میری مسجد کو ہاتھ نہ لگائیں

فرانس میں متنازعہ ہفت روزہ جریدے ’ شارلی ہیبدو ‘ پر نقاب پوش حملہ آوروں نے اس مجلے کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کردی جس سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے جس میں ایک مسلمان پولیس اہلکار بھی شامل تھا۔اس حملے کو حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے ردعملقرار دیا گیا ہے ۔ جب کہ اس حملے سے ایک گھنٹہ پیشتر ’ شارلی ہیبدو ‘ نے اپنے ٹوئیٹر مائیکرو بلاگ جاری کیا تھا جس میں داعش کے رہنما البغدادی کا خاکہ تھا اور لکھا تھا "صحت مند رہو اور سب اچھا ہو "۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ دولت اسلامیہ (داعش) کے ریڈیو نے حملہ آوروں کو ہیرو قرار دیا ہے۔دفتر پر حملے کی مذمت اور اسلام فوبیا کی شکار مملکتوں نے ایک ایسی ریلی کا انعقاد کیا جس میں معصوم2500 مسلمانوں کے قاتل اسرائیلی وزیر اعظم نتن ہائیونے شریک ہوکر مسلم امہ کو ایک پیغام دیا کہ مسلم امہ کے خلاف ہر قسم کی کاروائی و ردعمل میں یہود و نصاری شانہ بہ شانہ ہیں۔ حیرانگی اس بات پر تھی کہ اس ریلی میں مسلم ملک سے تعلق رکھنے والے ترکی کے وزیر اعظم نے بھی شرکت کی اور اس وقت تو خاموش رہے لیکن بعد میں اسرائیل کی ریلی کی شمولیت پر بھڑکے اور یورپی ممالک کے متنازعہ کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مسلم امہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود حضرت محمد ﷺ سے یکساں اور بڑھ چڑھ کر محبت کرتے ہیں اور ناموس رسالت ﷺ کیلئے جان دینے سے لیکر لینے تک کسی سمجھوتے پر رضا مند نہیں ہوسکتے۔ اسلام فوبیا کے شکار ممالک اور ان کے عوام مسلمانوں کی حضرت محمد ﷺ سے مسلمانوں کی انسیت اور محبت کی تمام تر گہرائیوں کو سمجھنے کے باوجود ایسا عمل دانستہ کرجاتے ہیں جس سے دنیا بھر میں کونے کونے میں رہنے والے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ناموس رسالت ﷺ کے لئے ہر عمل کیلئے پہل کرنا اپنی لئے سعادت سمجھتے ہیں۔

مغرب مذہبی انتہا پسندی میں مسلمانوں کے نام پر انتہا پسندی کرنے والوں سے بڑھ کر شدت پسند واقع ہوا ہے ۔اقوام عالم کی توجہ کیلئے اس بات کا اظہاریہ ضروری ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اگر مغرب اسلام فوبیا کے خوف سے باہر نہیں نکل سکا ہے تو اس میں مسلمانوں سے زیادہ خود ان کے ردعمل اور پالیساں ہیں۔مثال کے طور پر سویڈن کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے مساجد پر ہونے والے حملوں کے خلاف پر امن مظاہرے کئے۔ سخت سردی کے باوجود ہزاروں افراد جن میں سویڈش خواتین اور بچے بھی شامل تھے مظاہروں میں شرکت ہوکر مساجد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔دارالحکومت سٹاک ہوم میں ہزاروں مظاہرین سویڈش پارلیمنٹ اور شاہی محل کے سامنے جمع ہوئے اور مظاہرہ کیا ۔ مظاہرین نے ایک بہت بڑا بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا "میری مسجد کو ہاتھ نہ لگائیں"

امریکہ کے گیارہ الیون کے واقعے کے بعد مسلمانوں کی ایک غلط تصویر اور منفی تاثر کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ مسلمان سخت گیر اور معتدل نہیں ہیں ۔ اس میں رنگ بھرنے کیلئے داعش کی جانب سے شام اور عراق میں حالیہ کاروائیاں اور نائیجریا ، پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند اور بوکو حرام جیسی تنظیموں کی جانب سے متشدد رجحان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سویڈن سے ڈیڑھ سو زائد مسلم نوجوان شام اور عراق کی جنگ میں حصہ لینے گئے اور ان میں پاکستانی نوجوان بھی شامل ہیں۔علاوہ ازیں اس خطے میں اسلامی ریاست کے قیام کے اعلان پر بھی مساجد پر حملوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔مساجد پر حملوں کا رجحان تشویش ناک حد تک بڑھتا جارہا ہے ۔ جیسے سویڈیش جریدے دی لوکل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ"سویڈن ’ اسلام فوبیا ‘ کی لپیٹ میں دکھائی دیتا ہے " 2014؁ء میں دارلحکومت سٹاک ہوم سمیت ملک بھر میں مساجد کو نشانہ بنانے کی 14وارداتیں ہوئیں۔جبکہ یکم جنوری سمیت امسال مساجد پر حملوں کے تین واقعات رونما ہوچکے ہیں۔مقامی پولیس کے مطابق مساجد کی دیواروں پر سویڈن میں مقیم مسلمانوں کو ملک چھوڑ کیلئے قتل کی دہمکیاں دی گئی ہیں ۔برطانیہ کے روزنامہ انڈیپنڈنٹ نے ایک خبر شائع کی کہ(2013؁ء تک) برطانیہ میں مسلمانوں اور مساجد پر140حملے کئے گئے ۔اس روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق شدت پسندوں نے 9 مساجد پر حملے کئے ہیں ، مسلمانوں کی توہین کی ہے اور انٹر نیٹ پر مسلمانوں کے خلاف لکھا ہے ۔یہ واقعات لندن میں ایک برطانوی شہری کے قتل کے بعد شروع ہوئے تھے جس میں نسل پرست تنظیم کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مظاہرے کئے گئے اور مساجد پر حملے بھی ہوئے۔فرانس کے مختلف شہروں میں انتہا پسندوں نے مساجد پر حملے کئے اور حالیہ جریدے حملہ واقعے کے بعد دو مساجد کو آگ لگا کر شہید کردیا گیا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیرس سے مغرب کی جانب شہر لامان میں واقع ایک مسجد پر بغیر بارود کے تین دستی بم پھینکے گئے اس کے علاوہ ایک دوسرے علاقے پورت لانوول میں شام کی نماز کے فوری بعد مسجد کے ہال کی جانب فائرنگ کئی گئی اس کے علاوہ ملک کے مشرقی شہر ویلنفرانش سر ساون میں ایک مسجد کے قریب واقع کباب کی دوکان میں دہماکہ ہوا۔اس سے پہلے فرانس کے ہمسایہ ملک کے جرمنی کے مختلف شہروں میں ’ مغرب کی اسلامائزیشن‘ کے خلاف اسلام مخالف یورپی تنظیم ’ پیگیڈا ‘ ( پیٹریاٹک یورپئینز اگینسٹ اسلامایز یشن ) اور اس تنظیم کے مخالفین نے جلوس نکالے ، پیگیڈا کا دعوی ہے کہ جرمنی پر ایک لحاظ سے مسلمانوں اور دیگر تارکین وطن سے قبضہ کرلیا ہے۔ترک وزیر اعظم نے ترکی کے سفارت خانے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ"ہم توقع کرتے ہیں کہ اسی طرح کی حسیاست کا مظاہرہ مسلمانوں کی مساجد پر حملوں اور اسلام فوبیا کے بارے میں بھی کیا جائے گا "۔فرانس کے صدر اولائد کا ماننا ہے کہ "جریدے آفس حملے میں ملوث حملہ آوروں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے "ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ "یہ دہشت گرد کسی مسلم ملک میں پروان نہیں چڑھے بلکہ فرانس پیرس کے اپنے ماحول کی پیداوار ہیں اس لئے اس ماحول کا جائزہ لینا چاہیے۔"اہم بات بھی یہی ہے کہ فلسطین ،شام اور عراق میں بھی دہشت گردی ہے ایسے بھی ایک نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس بات پر سب متفق ہیں لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے ساتھ پوری دنیا میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔امریکہ و افغانستان میں توہین قرآن کے واقعات ، ناروے ، فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ، بھارت سمیت دیگر ممالک میں مساجد پر حملے ، مسلمانوں کے شعار پر چین، فرانس میں پابندی ، حجاب اور دیگر اسلامی راویتوں پر غیر مسلم ممالک کی شدت پسندی کی ایک بڑی مثال چین سے لی جاسکتی ہے اس کے ایک شہر میں مسلمان خواتین کے برقعہ اوڑھنے پر اس لئے پابندی عائد کردی گئی کیونکہ اس سے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔

بھارت میں مذہب کے نام پر مساجد میں خنزیر پھینکے جانے کے واقعات اور یورپ میں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے مساجد کے حملوں میں کوئی فرق اس لئے نہیں ہے کیونکہ ان کا مائنڈ سیٹ ایک ہی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ مغرب اور اسلام مخالف قوتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جب ان سے اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت برداشت نہیں ہوتی اور مساجد سمیت بے گناہ مسلمانوں کو ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی اشتعال انگیزی کی تمام حدود کو پار کرجاتے ہیں تو کوئی مسلمان شخص اپنی مقدس ترین ہستی نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی توہین کو کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ لاکھ قانون بنا لئے جائیں اور لاکھ سختیاں کیں جائیں لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ جب بھی اپنے محبوب کے مخالف حرکتوں کو دیکھتا ہے تو اس کا اشتعال و غصے میں آجانا قدرتی ہے۔اگر آپ کا موقف درست ہے تو ایسی حرکتیں کیوں کی جاتی ہیں کہ اربوں انسانوں کے جذبات مشتعل ہوجائیں ۔کیا اسلام کے علاوہ کوئی مذہب اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے عبادت گاہوں اور اس کے ماننے والوں کو نقصان پہنچائیں۔اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب ، مسلک اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو کوئی گذد پہنچائے ۔اسلام تو خود سلامتی اور امن کا ایک دین ہے جس کی روح میں پیام امن ، محبت اور پیار ہے۔اس لئے برائے مہربانی ـ"میری مسجد کو ہاتھ نہ لگائیں"۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661579 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.