بھولا اور چارلی ایبڈو

بھولے کو تو آپ جانتے ہی ہیں یہ میرے کالم کا مستقل کردار اور میرا دانشور ہے۔میرے کالم میں اگر کبھی آپ کو کوئی عقل کی بات دکھائی پڑے تو اسے بھولے کی دین سمجھیں۔چارلی ایبڈو وہ منحوس اور لعنتی کردار ہے جس نے چاند پہ تھوکنے کی کوشش کی۔اس خبیث نے کائنات کی سب سے مقدس ہستی کے نعوذباﷲ کارٹون بنائے۔جس پہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں لیکن بد قسمتی سے اس واقعہ کے ذمہ داروں کا رویہ تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔وہ اسے آزادی اظہار کا نام دے کے بار بار دھرانے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔اس روئیے پہ سارے عالمِ اسلام کے ساتھ میں بھی دکھی ہوں اور بھولا بھی۔بھولا کوئی بہت مذہبی شخصیت نہیں۔نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کے بارے میں ادب سے گرا ایک حرف بھی اسے برداشت نہیں۔حرمتِ رسول ﷺ پہ اس کی جان بھی قربان۔اس کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ لفظِ رسالت کے ساتھ توہین کا لفظ بھی لکھا جائے۔حیرت ہے کہ میں آج اس سے اس موضوع پہ بات کرنا چاہتا ہوں اور وہ مجھے اپنے ابا کا ایک قصہ سنانے پہ مصر ہے۔آنکھوں میں آنسو ہیں لیکن وہ مسلمانوں کے لئے لمحہ موجود کے سب سے بڑے مسئلے پہ بات کرنے کو تیار نہیں۔آئیے بھولے کا قصہ ہی پہلے سن لیتے ہیں۔

بھولا کہتا ہے کہ ہم جب اپنا علاقہ چھوڑ کے ایک نئے گاؤں میں آباد ہوئے تو ہم خاندان کے کوئی سو ڈیڑھ سو آدمی تھے۔ہم نے گاؤں کی نکر پہ اپنے ایک جاننے والے سے تھوڑی سی زمین خریدی اور اس پہ اپنے گھر تعمیر کرنے شروع کئے تو ابا کو گاؤں کے چوہدری نے بلا لیا۔ اس نے ابا کو سخت سست کہا اور گاؤں سے نکل جانے کا حکم دیا۔چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کا رہن سہن ،طور طریقہ گاؤں سے مختلف ہے اور جب تم لوگ اس گاؤں میں بس جاؤ گے تو گاؤں کی ثقافت اور اس کے رسم ورواج پہ اثر پڑے گا۔گاؤں کی ثقافت کیا تھی چوہدری اور اس کے خاندان کے علاوہ ہر بندے کا توا لگ سکتا تھا۔ ڈانگ سوٹا ہو سکتا تھا۔کوئی بھی کسی دوسرے کو کچھ بھی کہہ سکتا تھا اور اس پہ کسی کو اعتراض کرنے کی اجازت نہ تھی۔چوہدری اور اس کا خاندان البتہ اس سے مستثنیٰ تھا۔ حالت یہ تھی کہ چوہدری کی بیٹھک میں گاؤں کے بھانڈ گاؤں کے معزز لوگوں کی پگڑیاں اچھالا کرتے لیکن مجال ہے جو کوئی ان کی زبان روک سکتا۔بھانڈوں کے چموٹے گاؤں کے معززین کی روح تک کو زخمی کرتے اور چوہدری نہ صرف خود اس سے محظوظ ہوتا بلکہ آس پڑوس کے چوہدریوں کو بلا کے ان کی تفنن طبع کا سامان بھی کیا کرتا۔گاؤں کے کمی کمین اس مہم میں بڑھ چڑھ کے چوہدری کی ہاں میں ہاں ملاتے۔

چوہدری امیر تھا اور ظالم بھی۔اس کا سارا زور اس کی زمینیں اور اس کی دولت تھی۔ہم غریب لوگ تھے اور ان پڑھ بھی۔اس پہ ہم لٹ پٹ کے یہاں آئے تھے۔ابا ان پڑھ ضرور تھا لیکن دانا آدمی تھا۔اس نے چوہدری سے متھا لگانے کی بجائے اس کا منت ترلہ کر کے گاؤں میں رہنے کی اجازت لے لی۔ابا روز رات کو چوہدری کی بیٹھک میں جاتا۔ بھانڈوں کو تو ایک نیا شکار ہاتھ آیا تھا۔وہ نہ صرف ابے کی بے عزتی کرتے بلکہ ہمارے خاندان کی عورتوں تک کے چلنے پھرنے ،ان کے پہناوے اور ان کے رہن سہن کو بھی طعن وطنزو تشنیع کا نشانہ بناتے۔ابا روز یہ ذلت برداشت کرتا۔ روز آکے ہمیں اپنی ذلت کا قصہ سناتا۔ ہم مجبور تھے کیا کرتے۔ابا جب مکانوں وغیرہ کی تعمیر سے فارغ ہو گیا تو اس نے خاندان کے سب لڑکے لڑکیوں کو سکول میں داخل کروا دیا۔چوہدری نے اس پہ بھی اعتراض کیا لیکن یہاں بھی ابا کا منت ترلہ کام آیا۔یوں ہمارے بچے سکول جانے لگے۔کچھ سالوں بعد ابا نے مجھے اور میری بیگم کو شہر بھجوا دیا۔اب خاندان کا جو بچہ گاؤں کے سکول سے فارغ ہوتا شہر آ جاتا۔یہاں میں اسے سکول میں داخل کرواتا اور ساتھ ہی اس کے لئے کوئی چھوٹا موٹا کام بھی تلاش کرتا۔بچے سکولوں سے نکل کے کالج اور وہاں سے یونیورسٹیوں میں گئے۔وہاں سے وہ گلف کی آئل کمپنیوں میں۔دولت آئی تو ہم نے گاؤں کی زمینیں خریدنا شروع کیں ۔پہلے ہم چوری چھپے پڑھا کرتے تھے اب ہم نے گاؤں میں اپنا سکول اور کالج بنوا لیا۔چوہدری صرف اپنے بچوں کو پڑھواتا تھا ۔ہم نے علم کے دروازے گاؤں کے سب بچوں پہ کھول دئیے تھے۔اب ہمارے بچے پاکستان ہی میں نوکریاں کرنے لگے تھے۔پہلے چھوٹی چھوٹی ملازمتیں اور پھر ہمارے بچے فوج اور بیورو کریسی میں جانے لگے۔اب وہ گاؤں ہمارا تھا۔کسی کی مجال تھی کہ وہ ہمارے ابا کے سامنے آنکھ اٹھا کے بات کر سکتا۔میرا ابا سمجھدار آدمی تھا۔اس نے دوسرے کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کی۔خود قربانی دی۔خاندان کے سب بچوں کو اپنا بچہ سمجھا۔انہیں تعلیم دلائی۔ان کی کمائی دولت کو مناسب طریقے سے استعمال کیا۔نیت ٹھیک رکھی اور بجائے تعصب اور نفرت کے مفاد عامہ کے بارے میں سوچا۔اپنے خاندان کے ساتھ اپنے گاؤں کی فلاح کو بھی ہمیشہ مدنظر رکھا۔ابا کو مرے اب دس سال بیت گئے لیکن ابا کا نظام چل رہا ہے۔ابا کا جلایا چراغ اب گاؤں سے نکل کے علاقے کو منور کر رہا ہے۔لوگ دور دور سے ابا کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے آتے ہیں۔

میں بھولے کا منہ دیکھ رہا تھا۔میں اس سے گستاخانہ خاکوں کی بات کر رہا تھا اور وہ بے حس آدمی مجھے اپنے ابا کی کامرانیوں کے قصے بیان کر رہا تھا۔بے وقوف اور بے حس آدمی۔۔۔میں نے سوچا اور ملامت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔بھولا زیادہ پڑھا لکھا نہیں لیکن بہت سارے پڑھے لکھوں کا سرپرست رہا ہے۔بات کو پا گیا اور کہنے لگا۔مائی باپ !آپ کی حضور ﷺ کے ساتھ محبت کے دعوے کھوکھلے ہیں۔آپ صرف نعرے لگاتے ہیں۔اپنے گھروں کو جلاتے ہیں۔اپنی سڑکیں بند کرتے ہیں۔اپنے بندے مرواتے ہیں۔اگر آپ کا عشق صادق ہوتاتو آپ ایسا انجینئر پیدا کرتے جو فیس بک اور یو ٹیوب کو دنیا بھر میں اس وقت تک چلنے ہی نہ دیتا جب تک وہ گستاخانہ مواد اپنی سائیٹس سے ہٹا نہ دیتے۔آپ انکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے تو اس ملک کے حکمران خود اس رسالے کو بند کر دیتے جس نے یہ ناپاک جسارت کی تھی۔آپ چاکلیٹ سے لے کے جہاز تک ان کا بنایا استعمال کرتے ہیں اور پھر اپنے کوچہ وبازار جلا کے احتجاج کرتے ہیں۔اس احتجاج سے حضور وہ اپنی حرکتوں سے کبھی باز نہ آئیں گے جب تک آپ اپنے آپ کو اس قدر مضبوط نہ بنا لیں کہ وہ آپ کی بات ماننے پہ مجبور ہوں۔

بھولا بے وقوف اور ان پڑھ آدمی ہے اور بے حس بھی۔غیرت ایمانی سے خالی۔میں نے اس پہ دوحرف بھیجے اور گھر سے خاکوں کے خلاف نکالے جانے والے اپنے مسلک کے جلوس میں شرکت کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ دوسرے مسلک والے اپنا علیحدہ جلوس نکالیں گے ہمارا آج فرانسیسی قونصلیٹ پہ چڑھائی کا پروگرام ہے۔پولیس راہ میں مزاحم ہوئی تو پھر ہم راہ میں آنے والی ہر شے کو جلا کے بھسم کر دیں گے خواہ وہ کسی غریب کی ریڑھی ہو یا کسی امیر کا طلسم ہوشربا۔حضورﷺ کی عزت وحرمت سے زیادہ تو کوئی شے نہیں حتی ٰ کہ میری جان بھی نہیں۔ حرمت رسول ﷺ پہ جان بھی قربان ہے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268562 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More