زندہ والد کے یتیم بچے

والدین کا بچوں سے محبت ایک فطری چیز ہے بیٹا ہو یا بیٹی بوقت ولادت والدین کی خوشی دیدنی ہوتی ہے یہی محبت اولاد کو درس محبت دیتی ہے والدین کے اخلاق کا اثر براہ راست اولاد پر ہوتی ہے اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ کوئی رنجش ہو تو اولاد کے سامنے اس کا ذکر نہیں کریں کبھی بھی غلطی سے اولاد کے سامنے لڑنا بہت برا اثر اولاد پر اسکا ہوتا ہے۔

جب والدہ دودھ پلاتی تھی تو وضو کر کے ساتھ ساتھ قرآن کی تلاوت بھی کرتی جاتی تو کیا اثر ہوتا ایک بچہ ایسا ہی جب مکتب میں داخل ہوا تو قاری صاحب کے بسم اللہ کے ساتھ اس معصوم نے پندرہ سپارے سنادئے تو سامعین انگشت بدنداں رہ گئے اور آنکھیں تب چھلکیں جب بچہ گویا ہوا کاش امی جان کو تیس سپارے یاد ہوتے تو میں بھی تیس مکمل سنا دیتا-

باوضو ہو کر جب والدہ دودہ پلایا کرتی تو دودہ پینے والا بچہ بڑا ہوتا تو زمانہ اس کو ولی اللہ کہتا خدا اسکو مفسر محدث اور فقیہ اعظم بنا دیتا ایک نہیں سینکڑوں صفحات تاریخ کے اس پر گواہ ہیں ہزاروں ہستیاں ایسی گزر چکیں -

اب تو دودہ پلاتی ماں انڈین ڈرامہ دیکھتی ہے تو وہ بیٹا بڑا ہو کے باغی اور بیٹی نافرمان پھر وہ ماں کبھی دم تعویذ کبھی ایک در کبھی دربدر اولاد نافرمان سے نافرمان تر ہوتی چلی جاتی ہے -

یہ سب یاد آیا ایک دلخراش داستان سے والدہ فوت ہوئی تو تین بیٹے سوگوار والد نے دوسری شادی کردی یہ اس کا حق تھا شادی تک یہ سب درست اقدام ہے ایک مرد کا گھر عورت ہی سنبھال سکتی ہے مگر شادی کے بعد جو کیا وہ سب تین بیٹوں پر قیامت مگر بڑے بھائی نے والد کی خوشی کی خاطر اپنے بھائیوں کو لیکر الگ ہوگیا-

زندگی کا سفر رواں دواں تھا کہ عید کی رآت آئی اور ایکسیڈنٹ سے بڑا بھائی بھی چل بسا اور دو کلیاں اب کیسے کھلتی ہر آنکھ پر نم ہر زبان پر سوال مکان کا کرایہ گیس بجلی کا بل؟ مگر مرحوم کے باس نے جنازہ اٹھانے سے پہلے قرضہ ادا کردیا-

اب دو کی نظریں اپنے والد پر تھیں واحد سہارا ہی والد اور نئی امی تھیں مگر حسرت دل میں رہی اور بیوی کے سامنے بےبس شوہر نے اپنے جگر گوشوں کو بے آسرا چھوڑدیا مگر دوسری طرف محبت سے سرشار دل والد کی بےبسی اور خوشی کی خاطر اپنے مرحوم بھائی کے نقش قدم پر اور پر عزم دکھائی دے ریے تھے-

محلے میں ہر ایک کام آنے والے یہ دو بچے کرایہ دار بن کے زندگی گزار رہے ہیں ایسا کیوں ہے اگر والد کے پاس رہتے ہیں تو گھر کے کام کاج سے بازار تک کام ان کو کرنا پڑتا ہے اور مزید ظلم یہ کہ قرآن پڑھنے کے لئے مسجد جانا بند تو اسکول جانے پر پابندی-

یہی وجہ تھی کہ معصوم بچے کئی خطرات کے ہوتے بھی والد سے دور زندگی گزار رہے تھے اور بیوی کے ھاتھ بےبس بلکہ یرغمال غیرت سے عاری شخص کو حیا تک نہیں آتی کہ ان معصوم میرے جگر گوشوں کا آخر قصور کیا ہے کیا زندگی اور دنیا ہی میرا گھر ہے موت کو بھول گیا اور بروز محشر کی یاد نہیں ارے گھر کا بڑا حاکم ہوتا ہے اور ہر حاکم سے ماتحت کے بارے میں سوال کیا جائے گا حضرت عمر رضٰی اللہ عنہ فرماتے تھے اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر سے اس کا بھی پوچھا جائے گا-

نام ہم جن کا لیتے ہیں کام ان جیسا کرنے سے پھر کیوں کتراتے ہیں ارے کیا قصور ان معصوم کلیوں کا جن پر آج اپنے گھر کے باب بند ہیں ارے وہ تو کہتے ہیں پاپا پلیز ہمیں کچھ بھی مت دو مگر اس کرایہ کے گھر میں تو ہمیں آرام سے رہنے دو پاپا آپ یہاں آکر لڑتے ہیں تو سب کے سامنے سارا راز کھل جاتا ہے بےعزتی ہوتی ہے مگر یہ باتیں کہاں اثر کرتی ہے اس ظآلم پر -

جی ہاں منظور کالونی جونیجو ٹاؤن کے رہائشی ان بچوں کا اسکول فیس تو معاف ہے اور ٹٰیوشن والے بھی کچھ نہیں لیتے تھے مگر ٹیوشن بھی ظالم سوتیلی ماں کے ھاتھوں چھوٹ گیا ظالم باپ پوچھتا تک نہیں تو متعلقہ حکام بھی روایتی بےشرم اور ہٹ دھرم ارے وہ تو اس قدر فرض شناس بچیں اگر کسی نے کھانا زیادہ دیا تو اپنی ضروت کا لیکر جو زیادہ وہ کسی اور پڑوسی کو دےدیا-

میں اپیل کرتا ہوں حکمرانوں سے خدا را خواب خرگوش سے بیدار ہوجاؤ اور ان دو جیسے ہزراروں ستم خوردوں کے لئے مسیحا بن جاؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کی عدالت انصاف فراہم کر کے رہتی ہے-

نامعلوم ان جیسے کتنے معصوم والد کے ہوتے یتیم ہیں
M.ABID Ahsani
About the Author: M.ABID Ahsani Read More Articles by M.ABID Ahsani: 16 Articles with 14713 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.