عارف احمد صدیقی۔سیلف میڈ انسان

عارف احمد صدیقی جو میرے عارف بھائی تھے۸ فروری ۲۰۱۵ء کو ہم سے جدا ہوئے دو سال ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے جمعہ ۸ فروری ۲۰۱۳ء (۲۶ ربیع الاول۱۴۳۴ھ) کو اس دنیا کو خیر باد کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ حسب ذیل مضمون ہیچمدان کی جانب سے مرحوم کی دوسری برسی پر ایک نَذرانَہ ہے۔گر قبول افتد۔۔

جمعہ ۸ فروری ۲۰۱۳ء کی صبح پونے نو بجے سعودی ائرلائن سے جدہ کے لیے میری روانگی تھی۔اچانک جمعرات کی شام اطلاع ملی کہ میرے پھوپی زاد بھائی عارف احمد صدیقی اﷲکو پیارے ہوگئے۔ وہ کئی دنوں سے اسپتال میں زیر علاج تھے۔ میَں اور شہناز انہیں اسپتال میں دیکھنے بھی گئے تھے۔تکلیف میں تو وہ بہت عرصہ سے تھے لیکن اب جس بیماری نے انہیں آلیاتھا، ان کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھتے ہوئے سوچ کا دھارا اسی طرف جارہا تھا لیکن یہ خیال ہر گزنہ تھا کہ وہ اتنی جلدی ہم سے رخصت ہوجائیں گے۔ اﷲ تو تنکے میں جان ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے۔بے شمار لوگ ایسے ہیں جو کینسر جیسے موذی مرض میں گرفتار ہونے کے باوجود برس ہا برس سے جی رہے ہیں، اﷲ انہیں ہمیشہ زندہ رکھے۔ اصل بات بلاوے کی ہے جس کا بلاواآگیا اسے جانا ہوتا ہے۔پھر موت سے بھلا کون بچ سکتا ہے۔ اسے تو ایک نہ ایک دن آنا ہی ’اﷲ تعالیٰ کا فرمان سورہ الانبیاء آیت ۳۵ میں’ہر ذی روح موت کا ذائقہ چکھنے ولا ہے‘۔ کسی نے کہا کہ موت ایک ایسا پیالہ ہے جسے ہرشخص پی کر رہے گا اور قبر ایک ایسا دروازہ ہے جس میں ہر شخص داخل ہوکر رہے گا۔عبد الرحمٰن عاجزؔ نے اپنی کتاب ’موت کے سائے۔موت کہاں ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں‘ لکھا ’ موت سے قارون کو اس کی دولت ، فرعون کو اس کی بادشاہی ، نمرود کو اس کی سر کشی، رستم کو اس کی شہ زوری، جمشید کو اس کا جاہ وجلال، ارسطو کو اس کی دانش ، حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی درازیٔ عمر بھی نہ بچا سکی۔ موت سے اگر کوئی بچ سکتا تو انبیاء علیہ السلام کی جماعت اس کی مستحق تھی ۔ یہ ہر ایک کا مقدر ہے‘۔ بقول میر تقی میرؔ ؂
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
شوقؔ کا یہ شعر بھی موت کے حوالے سے بہت خوب ہے ؂
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

عارف بھائی میری حقیقی پھوپی انیسہ خاتون مرحومہ کے بڑے بیٹے تھے، ان کی پہلی شادی میرے حقیقی ماموں مطلوب احمد سبزواری مرحوم کی بیٹی رخسانہ سے ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے ان سے میرا دوہرا رشتہ اور خاصی قربت تھی پھر یہ بھی کہ جب رخسانہ اس دنیا سے جلدچلی گئی تو عارف بھائی کی دوسری شادی میرے ہی توسط سے شپ اونر گورنمنٹ کالج کے کیمسٹری کے پروفیسر خلیق علوی کی ہمشیرہ حاجرہ علوی سے ہوئی۔ قربت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں ہم اورعارف بھائی نذدیک نذدیک بہت عرصہ رہے۔ ہمارے درمیان محبت تھی، خلوص تھا، خیال کرنے والے ہمدرد انسان تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ ابھی میٹرک بھی پاس نہ کیا تھا کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ پانچ بہنیں تھیں زیادہ تربڑی تھیں ایک بھائی جو ان سے بھی چھوٹا تھا۔ کمانے والا کوئی نہ تھا۔ ملتان کے علاقے نوا شہر میں رہائش تھی۔ ان کی والدہ کی ہمت اور استقامت کو سلام کے انہوں نے ایک بڑے خاندان کو اپنے پروں میں سمیٹے رکھا، ان کی پرورش اور تربیت اس انداز سے کی کہ تمام کے تمام اپنے اپنے گھروں میں شاد و آباد ہوئے۔ عارف بھائی کو میٹرک کرتے ہی واپڈا میں ملازمت مل گئی جس کا اختتام ریٹائرمنٹ پر ہوا۔ ملتان سے ٹرانسفر کوئٹہ کا ہوگیا ۔ وہاں سے حیدر آباد ٹرانسفر ہوا۔وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ بہنوں کی شادیاں، بھائی کی شادی کے بعد اپنے بچوں کی پرورش خوش اسلوبی سے کی اور انہیں اپنے پیروں پر کھٹرا کیا۔ بڑی ہمت اور حوصلہ کی بات ہے۔ ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت نظر آتی ہے۔ اب جب کہ دونوں بیٹے اچھے روز گار پر پہنچے، آرام و سکون سے زندگی گزارنے کے دن آئے تو باغ باں کو یہ گوارہ نہ ہوا، اور باغ باں نے ملک ادم کے سفر کی راہ لی۔ اﷲ ان کی مغرفت کرے ؂
چراغ بجھتے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

میں متفکر تھااور سیٹ کینسل کرانے کی سوچ رہا تھا ، سفر کرنا میرے لیے دشوار ہورہا تھا لیکن اب اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ سیٹ کینسل کرائی جاتی۔ ان کی تدفین اگلے روز بعد نماز جمعہ طے پائی کیوں کہ ان کے بڑے بیٹے کاشف کوابو ظہبی سے رات میں کسی وقت کراچی پہنچنا تھا۔ میری سیٹ اسی روز صبح نو بجے کی تھی۔ اطلاع ملتے ہی میں سفر کے تمام معاملات کو چھوڑ چھاڑ ان کے گھر چلا گیا۔ جسد خاکی اسپتال سے گھر لایا جاچکا تھا۔ گھر پہنچتے ہی لپک کر اس کمرے میں گیا جہاں پر ان کا جسد خاکی موجود تھا۔ چہرے پر اطمینان اور سکون تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی مسافر تھک ہار کر سکون کے ساتھ ، بلا ڈر و خوف سورہا ہے۔ انہیں میں نے زندگی میں نمازی دیکھا۔ نیک انسان تھے۔ بچوں کی پرورش اور تربیت میں سخت گیر تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام بچے اعلیٰ تعلیم اور عمدہ اخلاق کا نمونہ ہیں۔بڑا بیٹا کاشف ابو ظہبی میں چھوٹا عاطف مصر میں ہے۔

بر سرِ روزگار اور بیوی بچوں والے ہیں۔بڑی بیٹی رومانہ ڈاکٹر ہے اور اپنے گھر میں خوش و خرم ہے، دردانہ نے ایم ایس سی کیا، میڈیکل کے کسی ذیلی پروفیشن سے منسلک ہے۔ فرحانہ نے بھی بہت کچھ کیا ہوگا اپنے شوہر اور بچوں میں خوش ہے۔ غرض اعلیٰ تعلیم اس گھرانے کی پہچان ہے۔ اس میں ان کی شریک حیات حاجرہ بھابی کا بھی برابر کا حصہ ہے جو پڑھی لکھی اور سمجھ دار خاتون ہیں۔ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں۔ گویا استاد ہیں۔ ریٹائر ہوچکی ہیں۔ بچوں میں اچھے اخلاق و نیک سیرت کی بنیاد ان کی حقیقی ماں رخسانہ مرحومہ نے ہی رکھ دی تھی وہ بھی سیدھی سادھی نیک سیرت تھی ۔پنجاب کے دیہات نما شہر میلسی جو میری جنم بھومی بھی ہے میں اُس کی پرورش اور تربیت ہوئی تھی۔بچے اپنی دونوں ماؤں اور اپنے باپ کی نگرانی اور تربیت سے معاشرہ میں باعزت مقام حاصل کرسکے۔عارف بھائی کا بڑا بیٹا نارمل نہیں وہ اس کی طرف سے متفکررہا کرتے تھے۔ اپنے ہی گھر میں چھوٹی سی دکان بنا دی تھی وہ ا س قابل ضرور ہے کہ اس دکان میں مصروف رہتا ہے۔ دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہوچکے تھے۔دنیا سے جانا سب ہی کو ہے پر وہ جلد چلے گئے۔ غالبؔ نے اپنی ایک غزل کے ایک شعر
میں لفظ’ عارف‘ کا استعمال کیا ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرع بہت مشہور ہے ۔’کیا تیرا بگڑتا ، جو نہ مَرتا کوئی دن اور‘ شعر کچھ اس طرح ہے ؂
ہاں ، اے فلک پیر !جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا ، جو نہ مَرتا کوئی دن اور

عارف بھائی کی تدفین بعد نماز جمعہ ہونا تھی، ان کے بے روح جسم کو گھر میں رکھا نہیں جاسکتا تھا چنانچہ غسل و کفن کے بعد ایدھی کے سرد خانے میں رکھنا طے ہوا، میں ان کے غسل میں شریک رہا اور ان کے بیٹے عاطف کو غسل میں پیش پیش رکھنے کی کوشش کی۔ میری سوچ اور تجربہ یہ رہا ہے کہ مرنے والے کو غسل اپنے قریبی عزیز یعنی بیٹا، بھائی یا کوئی اور قریبی رشتہ کا عزیز بہتر اور دل سے غسل کے امور انجام دیتا ہے۔اپنے والد مرحوم کو اپنے ہاتھوں غسل دینے کے عمل میں میَں نے جونے اطمینان اور سکون محسوس کیا تھا اسے کبھی نہیں بھولتا۔غسل دینے والوں میں اس مسجد کے پیش امام شامل تھے جس مسجد میں عارف بھائی نماز پڑھا کرتے تھے ان کے علاوہ عارف بھائی کا بیٹا عاطف، ان کے دونوں داماد شاہد اور کاشف بھی شامل تھے۔ ہم سب نے مل کر غسل دیا، نہا دھوکر، نئے صاف ستھرے اور سفید کپڑے پہن کر ان کا چہرہ اور بھی زیادہ نورانی ہوگیا تھا، چہرے پرخاموشی کے ساتھ ساتھ اطمینان اور سکون غالب تھا۔ موت کی جلا چہرہ پرنمایاں تھی اور رنگت میں کچھ عجیب سی طلسمی پیلاہٹ اپنا حسن دکھا رہی تھے ۔مجھے یہ معلوم تھا کہ میں صبح ان کے آخری سفرمیں ساتھ نہیں ہونگا، مجھے کاندھا دینے کی سعادت بھی حاصل نہ ہوسکے گی چنانچہ جی بھر کر ان کے چہرہ کو دیر تک تکتا رہا،اچھی طرح چھوا ،ان کے سر کے بالوں، ابروں اوران کی ریش مبارک کے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے سیدھا کیا اور خاموشی سے ان سے اجازت چاہی۔ انہیں تیار کرکے ایدھی کے سرد خانے میں پہنچا یا جانا تھا،اب یہی ان کے حق میں بہتر تھا۔گویا ان کے جسم نے دنیا میں آخری رات اپنے گھر میں نہیں بلکہ ایدھی کے سرد خانے میں گزارنا تھی۔خالد شریف کا شعر ؂؂
بچھڑا کُچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

اﷲ کا نظام بھی کیا خوب ہے کہ روح کے جسم سے جدا ہوتے ہی روح تو اپنے مقام پر پہنچ جاتی ہے لیکن بے روح جسم جب تک انسانی ہاتھوں میں رہتا ہے ’مردہ ‘ کہلاتا ہے۔احباب یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میت گھر کب لائی جائے گی ، میت کب اٹھائی جائے گی، میت کی نماز جنازہ کب ہوگی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقلی کی صورت میں تابوت coffin ہوائی جہاز میں ’’سفری سامان گاہ‘‘ luggageمیں رکھا جاتا ہے ، ریل سے منتقلی کی صورت میں بھی تابوت luggageہی میں رکھا جاتا ہے۔ تابوت کو مسافروں کے ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں یا روایت نہیں ۔ اس میں کیا حکمت اور کیا منطق ہے، کیا راز پوشیدہ ہے ، مجھے نہیں معلوم۔میت کی تعظیم کا پہلو اس عمل سے ظاہر نہیں ہوتا، ڈر و خوف دکھائی دیتا ہے جو ہر اعتبار سے بے معنی اور منطق سے عاری ہے۔ پھر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ امیر ؔمینائی خوبصورت شعر ؂
عزیز احباب ساتھی دم کے ہیں ، پھر چھوٹ جاتے ہیں
جہاں یہ تار ٹوٹا سارے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں

ہمارے ملک میں زیادہ تر مساجد میں نماز جنازہ مسجد سے باہرمیدان میں، لان میں، حتیٰ کے سڑک پڑھا نے کا رواج ہے۔ کیا مردہ نہا دھو کر بھی پاک صاف نہیں ہوتا کہ اسے مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجاذت ہو۔ البتہ اہلحدیث کی مساجد میں مرنے والے کے گہوارے یاتابوت کومسجد کے اندر لے جایا جاتا ہے گہوارہ(مہد) مسجد میں اگلی صف میں رکھ کر نمازِ جنازہ بہ آوازِ بلند پڑھائی جاتی ہے۔ میری رہائش گلشن اقبال بلا ۶ میں تھی اورمیں ہمیشہ جامعہ ستاریہ میں جمعہ کی نماز پڑھتا رہا ۔ جب بھی جنازہ آتا لوگ گہوارے کو مسجد میں لے آتے اور نمازِ جنازہ ادا کردی جاتی۔ مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے۔ مسجد حرام ،خانہ کعبہ میں بھی تو تابوت یا گہوارہ خانہ کعبہ کے نذدیک سامنے رکھا جاتا ہے ، نماز بھی مائیک پڑھائی جاتی ہے۔ دینی معاملہ ہے اس لیے زیادہ بات مناسب نہیں۔

عارف بھائی کا رشتہ دنیا سے ٹوٹ چکا تھا، ان کی روح پرواز کرچکی تھی، جسم خاکی کو اپنے مقام پر جانے کی جلدی تھی لیکن تدفین میں ان کے بیٹے کاشف کی شرکت کو لازمی بنانے کے لیے انہیں ایک رات دنیا میں گزارنا تھی اورانہوں نے یہ رات دینا میں ہی گزاری ۔رات گئے ان کے جسد خاکی کو گھر سے ایدھی سرد خانے منتقل کیا گیا ساتھ ہی میَں نے اور شہنازنے بھی احباب سے جن کو یہ علم تھا کہ میں صبح کی
فلائٹ سے جدّہ جارہا ہوں الوداعی ملاقات کی اور گھر واپس ہوا۔بقول شاعر ؂
و ہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف

میری فلائٹ سوا نو بجے صبح کی تھی ،فجر کی نماز پڑھ کر ہم صبح چھ بجے گھر سے نکل گئے، چھوٹا بیٹا ڈاکٹر نبیل اور بہو ڈاکٹر ثمرا ائر پورٹ چھوڑنے آئے۔ انہیں خدا حافظ کہا اور ائر پورٹ کے سفری لوازمات میں مصروف ہوگئے۔ سعودی ائر لائن کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ وقت مقررہ پر اپنے سفر کا آغاز کرتے ہے اور طے شدہ وقت پر منزل پر قدم رکھ دیتے ہے۔پینتالیس منٹ قبل اعلان کردیا گیا کہ سعودی عرب کی پرواز سے جدہ جانے والے مسافر ہوائی جہاز پر تشریف لے چلیں، ہم نے بھی اس اعلان پر لبیک کہا اور لائنج سے جہاز کی جانب روانہ ہوئے۔ کراچی ائر پورٹ پر لاؤنج سے ہوئی جہاز تک کا سفر بس میں کرنا نہیں پڑتا اور نہ ہی واپسی پر یہ صورت حال ہوتی ہے بلکہ یہاں جہاز ائر پورٹ پر بنی ہوئی ’’کیوب‘‘ میں لگ جاتا ہے اور مسافر جہاز میں لاؤنج سے ایک ’ٹنل‘ میں چلتے ہوئے جہاز میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک دیدہ ذیب اور خوشگوار مختصر سفر ہوتا ہے جو چلتے ہوئے مسافر کو فرحت بخش احساس سے دور چار کردیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں لاؤنج سے ہوائی جہاز تک کا سفر بس کے ذریعہ مسافرکو کوفت اور پریشانی سے دوچار کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کراچی میں W11میں سفر کررہے ہیں۔ شکر ہے کراچی ائر پورٹ اپنے مسافروں کو ڈبلیو گیارہ میں سفر کی کوفت سے محفوظ رکھتا ہے۔جہازمیں ہماری سیٹ شروع ہی میں تھی ۔ دستی سامان جس میں لیب ٹاپ بھی تھا جہاز کے اوپر خانے میں رکھا،اس میں رکھی ایک کتاب جو ایک معروف قلمکار مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامہ ’’غارِ حرا میں ایک رات‘‘ باہر نکال لی ۔دوران سفر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا منصوبہ میں نے پہلے ہی بنا لیا تھا۔ میں کنارہ والی سیٹ پر تھا میرے برابر شہناز تھیں اور ان کے برابر ونڈو سیٹ پر ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ جب ہم نے اپنی سیٹ سنبھالی تو یہ خاتون پہلے ہی سے اپنی ونڈو سیٹ پر براجمان کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھیں۔ دیکھنے میں برد بار، سنجیدہ اور پڑھی لکھی لگ رہیں تھیں ۔ دوران سفر شہناز سے گفتگو سے معلوم ہوا کہ وہ واقعی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ جدہ کے اسکول کے انتظامی امور کی نگرانی پر معمور ہیں ۔دورانِ سفر میں بظاہر کتاب پڑھنے میں مشغول رہا لیکن میری سوچ کا دھارے میں عارف بھائی تھے۔ ان کی زندگی کی ایک فلم چلی جاری تھی جو رکنے کانام ہی نہ لیتے تھے۔ ملتان میں نوا شہر کے چھوٹے سے مکان میں جانا ، کوئٹہ میں ان کے گھر جانا اس وقت رخسانہ حیات تھی پھر کراچی میں ان کے ساتھ وقت گزارنا تمام باتیں اور واقعات ایک ایک کرکے نظروں کے سامنے تھے۔ وہ میرے والد مرحوم اور والدہ مرحومہ جو ان کے بڑے ماموں اورممانی تھے بہت عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ عام طور پر ہر اتوار کی صبح ان کا ہمارے گھر آنا دراصل اپنے ماموں اور ممانی سے ملاقات کرنا اور خیرو عافیت معلوم کرنا ہوتا تھا۔ اسی سوچ میں اور مستنصر حسین تارڑ کی کتاب کے مطالعہ کے دوران وقت کیسے گزرگیا معلوم ہی نہ ہوسکا۔ جدہ ائر پورٹ پر عدیل اور صائم لینے آئے ہوئے تھے۔ گھر پہنچے مسجد سے جمعہ کے خطبے کی آواز آرہی تھی۔ فوری وضوع کیا اور مسجد چلے گئے۔ نماز جمعہ کے بعد دیگر دعاؤں کے علاوہ عارف بھائی کی مغفرت کی دعا کی ۔ سعودی عرب اور پاکستان میں دو گھنٹے کا فرق ہے ۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد میں مسجد میں بیٹھا تھا میرے خیالوں میں عارف بھائی تھے۔ جنہیں میں نے رات ہی کو اپنے ہاتھو غسل دیا تھا ۔ میں سوچ میں تھا کہ اب انہیں ایدھی کے سرد خانے سے گھر لایا گیا ہوگا ۔ لوگ ان کے سفر آخر میں شرکت کے لیے آنا شروع ہوگئے ہوں گے۔کچھ ہی دیر بعدوہ قبر کی گود میں ابدی نیند سوجائیں گے اوروہ وہاں چلے جائیں گے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ؂
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

دو دن بعد یعنی اتوار کے روز میں اور شہناز مکہ المکرمہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ ہمیں جدہ سے مکہ جانا ایسا ہی لگتا ہے جیسے ہم اپنے ہی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جارہے ہوں۔ نہ کوئی ڈر، نہ کوئی خوف ۔عدیل کے گھر سے ٹیکسی میں ’کلو عشرہ‘ جو مکہ جانے والی ٹیکسیوں کا اسٹینڈ ہے پہنچے وہاں سے کسی بھی ٹیکسی میں ۱۰ ریال فی سواری کے حساب سے حرم پہنچ گئے۔ اﷲ کے گھر پہنچ کر شکرانہ ادا کیا دعائیں کیں ۔ خاص طور پر عارف بھائی کے لیے دعاکی ۔ بعد ازاں عارف بھائی کے ایصال ثواب کے لیے طواف کعبہ ادا کیا ۔ اﷲ کے گھر کے سات پھیرے لیے اور مرحوم کی مغفرت کی دعاکی۔ اﷲ تعالیٰ عارف بھائی کی مغفرت فرمائے۔ ان کے بہن بھائی اور بچوں کو صبر جمیل عطا کرے آمین۔ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کوشش کی ہے کہ عارف بھائی کو خراج تحسین پیش کرسکوں ۔ پروردگار میری اس کوشش کو بھی قبول فرمائے آمین۔اپنے جد امجدشیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؂
ہم نشیں پوچھتے کیا ہو میرے دل کی حالت
صدمہ کیا دے گئے دنیا سے جانے والے

مَیں نے اپنے سفرِآخر کے ساتھیوں، مجھے لحد تک پہنچانے والوں ، میری قبر پر مٹھی بھر خاک ڈالنے والوں کا نظم میں پیشگی شکریہ ادا کیاہے۔ شکریے کے یہ نثری الفاظ عارف بھائی مرحوم کی جانب سے ان تمام احباب تک پہنچا رہا ہوں جنہوں نے ان کے سفر آخر میں شرکت کی ، چالیس قدم ان کے جنازے میں شریک رہے ، گہوارے کو کاندھا دیا اور مٹھی بھر خاک ان کی لحد پر نچھاور کی ؂
مرَقدَتک میرے ساتھ آنے والو تمہارا شکریہ
میری خاطر زحمت اٹھا نے والو تمہارا شکریہ
ہے اب جوسفر باقی کرلیں گے وہ تنہا ہی ہم
حوصلہ بڑھا کرلحد تک پہنچانے والو تمہار ا شکریہ
اگلا پَڑاؤ ہے کٹھن اوررستہ بھی ہے اڑچن اڑچن
مغفرت کی دعا دینے والو تمہارا شکریہ
بنا تھا جس خاک سے ر ئیسؔ آپہنچی ہے منزل پہ وہ
مٹھی بھر خاک نچھاور کرنے والو تمہارا شکریہ

یہاں آخری شعر کو اس طرح پڑھا جائے ؂
بنا تھا جس خاک سے عارف آپہنچی ہے منزل پہ وہ
مٹھی بھر خاک نچھاور کرنے والو تمہارا شکریہ
(۸ جنوری ۲۰۱۵ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285293 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More