بچوں سے جنسی زیادتی اور معاشرہ (حصہ اول)

بچوں و بچیوں کے ساتھ زیادتی و ہراساں کرنے کے مسلسل واقعات معاشرے کی اخلاقی انحطاط پزیری کی جانب نشان دہی کرتا ہے ۔ سب سے بڑ ا ظلم یہ ہوتا ہے کہ معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد اذیت ناک موت سے بھی ہمکنار کردیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے انسانیت شرما جائے۔حالیہ واقعات میں لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن کی بہاری مارکیٹ میں ایک سالہ بچے کو مسجد میں زیادتی کے بعد پھانسی دیکر قتل کردیا گیا۔جبکہ اس سے قبل ایک لڑکی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ اس کا باپ ایسے جنسی طور پر ہراساں کیا کرتا تھا جس کے بعد وہ تنگ آکر مدرسے میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئی۔اس لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ میں مقدمہ درج کیا ۔جبکہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر کچھ عناصر نے مدارس کے خلاف ایسا پروپیگنڈا شروع کیا کہ جیسے پاکستان کے تمام دینی مدارس ، مسجد ضرار ہیں ، اور انھیں گرا دینا چاہیے۔ برطانیہ کے اخبار ’دی میل ‘ میں ایک خبر رپورٹ شائع ہوئی برطانیہ میں 177ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی مجرموں کے لحاظ سے پہلے دس ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ برطانیہ میں 12000مجرموں میں 424کا تعلق پاکستان سے ہے ۔جبکہ غیر ملکی مجرموں میں775قاتل،587عصمت دری اور155بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرم اور 15سزا یافتہ دہشت گرد ہیں۔ہوم آفس نے پہلی بار ایسی فہرست جاری کی جس میں دنیا بھر سے برطانیہ میں موجود جرائم پیشہ افراد کے جرم اور ان کی قومیت کو شائع کیا ۔مجموعی مجرموں میں سے ہر دس میں ایک قاتل یا جنسی زیادتی میں ملوث ہے ۔

برطانیہ میں ہر 20بچوں میں سے ایک بچہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے ان بچوں کو عموما شراب اور نشے کی مدد سے پہلے اپنی طرف راغب کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے ۔برطانیہ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں شدت پائی جاتی ہے برطانوی قانون سازوں نے اپنے ملک میں بچوں کی حمایت کے حقوق کے قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانیہ کے دو رفاہی اداروں Ilzzy's Promiseاور Breaqk The Silenceنے اپنی حالیہ رپورٹوں میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے ساتھ ظلم کی رپورٹ جاری کی۔برطانیہ جیسے ملک میں بڑھتے واقعات کی بنیادی وجہ قانون کی کمزوری بتائی گئی کہ بچوں کی حمایت سے متعلق قوانین کے کمزور ہونے کی وجہ سے بچوں پر ڈھائے جانے والے بہت سے مظالم اور جرائم کی تفتیش نہیں ہوتی ہے۔برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے ایک ایسی رپورٹ بھی شائع کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس نے ایک کاروائی کرکے ایسی دستاویزات حاصل کی تھیں جن کے مطابق اس گھناؤنے اقدام میں اس ملکی کی بعض سیاسی شخصیات بھی ملوث تھیں ۔مذہبی اعتبار سے اگر ہم دیکھیں تو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی واقعات میں فرد کا انفردی قصور ہوتا ہے جیسے مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن حیرانگی ہوتی ہے جب کوئی مذہبی وابستگی رکھنے والی شخصیات ایسے قبیح فعل پر نرم رویہ اختیار کرلیں۔ جیسے کیتھولک چرچ کی طرف سے ہم جنسی رویوں اور حمل کو ساقط یا روکنے کے حوالے سے جو نکتہ نظر رکھا گیا وہ اقوام متحدہ کی جانب سے تنقید کی زد میں آیا اور اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے اطفال نے ویٹیکنسے ایک بار پھر کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے پادریوں کے بارے میں شواہد اکھٹے کا بند عمل دوبارہ شروع کیا جائے اور ذمے دار پادریوں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے اطفال کی سربراہ کرسٹن سینڈبرگ کا کہنا تھا کہ بچوں کے استحصال میں ملوث پادریوں کے بارے میں سخت رویہ اپنانے کا ویٹیکن سے کئی بار کہا گیا ہے لیکن کوئی مناسب ایکشن ابھی تک سامنے نہیں آسکا اور یہ بچوں کے حقوق کے بارے میں 1989؁ ء میں منظور ہونے والے عالمی کنویشن کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ویٹیکن نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو روکنے کے حوالے سے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا جاچکا ہے سابقہ پوپ نینیڈکٹ شانزدہم نے 2005؁ء سے لیکر 2013؁ ء کے درمیان متعدد بار بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں پر معذرت پیش کی تھیں ۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے اطفال کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق سابقہ پوپ نینیڈکٹ شانزدہم نے تقریبا 400پادریوں کو ان الزمات کی روشنی میں فارغ کردیا تھا ۔ موجودہ پوپ فرانسس نے بھی اس حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ہم اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو تعلیم و شعور کی کمی کے باوجود تعلیمی درس گاہوں میں بچوں کے ساتھ جنسی واقعات میں کمی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے ، چونکہ پاکستان ایک مسلم ملک کی حیثیت سے ایک شناخت رکھتا ہے اور یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم زیادہ تر اپنایا جاتا ہے اس لئے یہاں اس قسم کے قبیح واقعات معاشرے کے ہر فرد کو دہلا دیتے ہیں، جبکہ جنسی زیادتی کے واقعات پاکستان نژاد کیمونٹی سے جنسی زیادتی کے کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں ، ہم عام طور پر مغرب کو تعلیم یافتہ اور باشعور سمجھتے ہیں لیکن دوسری جانب دیکھتے ہیں کہ مغربی ماحول میں ایسے واقعات متواتر ہوتے ہیں اور بعض واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے ، ایک عالمی شہرت یافتہ باکسر نے حالیہ انکشاف کیا تھا کہ اس کے ساتھ بھی بچپن میں جنسی زیادتی کی گئی تھی ، لیکن اس نے اس واقعے کو چھپایا۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مشرقی ماحوال میں ، خاص طور پر پاکستان کے مسلم اور خاندانوں کے باہمی جڑے معاشرے کے باوجود ایسے واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟۔ حکمران ، والدین ، مذہبی راہنما ، قانون کے رکھوالے ، معاشرہ ، سب ذمے دار جو فحاشی کی روانی کو نہیں روک سکے ۔ اﷲ تعالی نے سورۃ نور کی آیت 19میں فرمایا ہے ، ـجو لوگ بے حیائی پھیلانے کے آزرو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا ور آخرت میں درد ناک عذاب ہیں اﷲ سب کچھ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔" بخاری شریف میں روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک راعی (ذمہ دار) ہے اور ہر ایک اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس کی جائے گی۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تم ضرور بالضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہنا ( اگر تم اس فریضے میں کو تاہی کے مرتکب قرار پائے) تو اﷲ کا عذاب تمہیں اپنی لیپٹ میں لے لیگا ،پھر تم دعائیں ہی مانگتے رہو گے اور وہ قبول نہیں کرے گا ۔"

سینٹرل ایشیا آن لائن نے چند ماہ قبل شدت پسندوں کے جنسی حملوں کے حوالے سے انکشاف کیا تھا اس کے بعد پاکستانی اور افغان حکام کو دیگر عسکریت پسند گروپوں میں اس طرح کی زیادتیوں کے واقعات کا پتہ چلا ۔ افغان قومی نظامت برائے سلامتی کی جانب سے 2013میں حقانی گروپ کے حوالے سے ایک لڑکے کی مبینہ ویڈیو منظر عام پر آئی تھی کہ ایسے لڑکیوں کا لباس پہنا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز احمد کے بتایا کہ1990؁ء کے عشرے میں طالبان پر الزام لگتا تھا کہ وہ لڑکوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں ۔ اس عمل کی جڑیں کافی گہری ہیں ۔ پاک ، افغان قبائلی پٹی میں جاری جنگ میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ .پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقومی تعلقات کے پرفیسر اعجاز خان نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ" یہ معاشرے میں جرائم سیٹ کرجانے کا نتیجہ ہے کہ مذہبی شدت پسند مذہب کے نام پر کھیل رہے تھے اور اس طرح کے قبیح افعال میں بھی ملوث تھے "۔

افغان قومی نظامت برائے سلامتی کی جانب سے متعدد واقعات کے بارے مبینہ زیادتیوں کی تفصیلات جاری کیں گئیں ، جس پر پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز احمد کے مطابق ایسا تصور کہ یہ مسئلہ سالوں پرانا ہے اور نوجوانوں کی جنسی زیادتی کے ایک دیرینہ مسئلہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی مذمت نہ جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی تصور کا یہ تصور کافی عام ہے اور اسے عا "لڑکوں سے حظ اٹھانا بھی کہا جاتا ہے".۔
(جاری ہے )
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661464 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.