جاگیر دار طبقہ علم کی راہ میں رکاوٹ

اسلام میں علم اور حصول علم کو خصوصی اہمیت سے سرفراز کیا گیا ہے، وحی رسول ﷺ کا آغاز ہی ’’تعلیم‘‘ سے ہوااور قرآن پاک واحادیث میں جگہ جگہ ماں کی گود سے قبر تک تعلیم حاصل کرنے کاسختی سے حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے اس کیلئے تمہیں چین بھی جانا پڑے، 1947ء میں ساکنان برصغیر نے فرنگی سرکار سے تو نجات حاصل کرلی مگر افسوس کہ ہم آزادی کے بعد انتا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک انگریز کی ذہنی غلامی سے نہیں نکل پائے یہی وجہ ہے کہ ہمارے دیگر شعبہ جات کی طرح شعبہ تعلیم بھی تقسیم برصغیر سے پہلے کا نقشہ کھینچتا نظر آتا ہے اور اس میں وقت اور حالات کی ضرورت کے مطابق کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی گئی بلکہ اکثر تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دیگر شعبہ جات کی طرح محکمہ تعلیم میں بھی غیر تعلیم یافتہ افراد کی عملدار ی کے باعث صورحال بہتری کی جانب گامزن ہونے کی بجائے ابتر ہی ہوتی چلی گئی، یہی وجہ ہے کہ ایک صدی پہلے کی طرح ہمیں آج بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے دیگر ممالک کے طواف کرنے پڑتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک میں ہمارے تعلیمی اداروں کی اسناد و ڈگریوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی میدان میں اقوام عالم سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے آج ہم جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پائے اور کوئی مانے یا نی مانے ترقی و خوشحالی کے میدان میں ہمارے پیچھے رہ جانے کی وجہ بھی یہی ہے، بلاشبہ ہمارے ملک کی ترقی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک یہاں تعلیم کو اولین ترجیح کے طور پر نہیں لیا جاتا، یہاں ہر حکومت میں صرف اور صرف دکھاوے کے اقدامات کئے جاتے ہیں اور ان کی تشہیر کرکے عوام سے ووٹ بٹورنا مقصود ہوتا ہے کبھی بھی یہ ٹارگٹ نہیں رکھا گیا کہ ہم 100% آبادی کو روایتی اور تکنیکی تعلیم سے آراستہ کریں حالانکہ موجودہ تعلیمی بجٹ میں ہی اس ٹارگٹ کا 80-85% مکمل کیا جاسکتا ہے۔

حالات حاضرہ کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی 75%آبادی دیہات پر مشتمل ہے جن میں سے اکثریت زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے اور اکثریت نے گھروں میں مویشی بھی رکھے ہوتے ہیں، دیہی آبادیوں میں تو انگر یزی یا ریاضی ، الجبرا کی وجہ سے کئی بچے مڈل میں فیل ہوجاتے ہیں اوروالدین ان کے مڈل میں فیل ہونے کو غنیمت جان کر تعلیم سے ہٹاکر زراعت اور مال مویشی کی دیکھ بھال کے لئے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں جس سے ایک نوجوان جس نے مستقبل میں ملک کی خدمت کرنی ہوتی ہے وہ تعلیم سے مکمل دور کردیا جاتا ہے جس میں والدین قصوروار تو ہوتے ہی ہیں مگر اس میں سب سے زیادہ قصور حکومت اور محکمہ تعلیم کا ہے، ہماری قوم کی فطرت ہے کہ کسی بھی بچے کے والدین سے پوچھیں تو وہ اپنی اولاد کو یہی دعا دے گا کہ ’’میرا بچہ ڈاکٹر بنے گا‘‘ یا ’’میرا بچہ نجینئربنے گا‘‘ اور جب مڈل میں انہیں بچے کے ایک آدھ مرتبہ فیل ہونے سے دھچکا پہنچتا ہے تو وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب نہ تو یہ ڈاکٹر بن سکے گا اور نہ ہی انجنیئر، اسلئے وہ بچے کو تعلیم سے دور کردیتے ہیں حالانکہ تعلیم صرف روزگار کے لئے نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنا فرض ہے جس سے انسان کو عقل و شعور ملتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ دنیا سے ہم قدم رہ سکتا ہے، تعلیم کے بجٹ کو دانش سکولوں پر خرچ کرنے والے اگر یہی رقم دیہی آبادیوں میں موجود سکولوں میں 2-3 نئے کمروں پر مشتمل ٹیکنیکل لیبارٹری بنانے پر خرچ کرتے تو اسی بجٹ سے ہمارے ملک کی 75% آبادی کے طلباء روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل تعلیم سے آراستہ ہوسکتے تھے۔

دنیا بھر میں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عرصہ دراز سے ٹیکنیکل تعلیم بھی لازمی قرار دی جارہی ہے اور انہی سکولوں میں 6th کلاس سے 8th تک لازمی ٹیکنیکل تعلیم رائج کرکے ہی ہنرمنداور تعلیم یافتہ قوم بنائی جاسکتی ہے جس کے لئے میرے خیال میں موجودہ تعلیمی بجٹ سے ہی اچھے نتائج مل سکتے ہیں، جو بچہ انگریزی یا ریاضی کی وجہ سے روایتی تعلیم میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا وہ کم از کم ایک ہنرمند نوجوان توبن جائے گا، پرائمری کے بعد تمام سکولوں میں روایتی تعلیم کیساتھ ساتھ اگر ایئرکنڈیشنڈ ریفریجریشن‘ مکینیکل‘ پلمبنگ‘ سول‘ الیکٹریکل‘ الیکٹرونکس‘ ٹیکسٹائل وغیرہ پڑھائے جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ والدین کا یہ رویہ بتدریج ختم ہوجائے گا کہ وہ مڈل میں فیل ہونے والوں کوتعلیم سے بالکل دور کردیں، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ہمارے ملک کا ہر نوجوان ہنرمندبن جائے گا، اسوقت ہمارے ملک میں بھی ہنرمند افراد کی کمی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مختلف تکنیکی شعبوں میں دنیا بھرمیں ملازمتوں کے بہترین مواقع موجود ہیں، اس سلسلے میں حکومت اور محکمہ تعلیم کو ہنگامی بنیادوں پر بتدریج تمام سکولوں میں ٹیکنیکل تعلیم کے شعبے قائم کرکے پرائمری کے بعد 3 سال کیلئے ٹیکنیکل تعلیم کو لازمی قرار دینا چاہئے۔ہمارے دیہی علاقوں میں سکولوں کی حالت زار تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آئے روز اس بارے میں رپورٹیں سامنے آتی ہیں کہ فلاں سکول میں جانور بندھے ہوئے تھے یا فلاں سکول کو کسی جاگیردار نے اپنی اوطاق بنارکھا ہے، کراچی شہر میں بھی کئی سکول ایسے ہیں جہاں کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور عملہ گھر بیٹھے تنخواہیں بٹور رہا ہے، گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کے لئے باقاعدہ طریقہ کار رائج ہے جس میں متعلقہ محکمہ تعلیم کے عملے اورڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو تنخواہ کا معقول حصہ باقاعدگی سے بطور رشوت دینا پڑتا ہے اور یہ طر یقہ قیام پاکستان سے اب تک رائج ہے۔

سکولوں میں جانور باندھنا یا بطور اوطاق استعمال کے سب سے زیادہ ذمہ دار اس علاقے کے سیاستدان اور جاگیردار ہیں جنہیں نہ تو تعلیم کی اہمیت کا احساس ہے اور نہ ہی قوم کے مستقبل اورخزانے کا، دیہی علاقوں میں مقامی جاگیردار ہی تعلیم کے قاتل ہیں مگرمتعلقہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر اور حکومتی مشینری کیوں ان کے ہاتھوں یرغمال ہے؟ اس بارے میں انقلابی اقدامات چاہئیں اور صرف دانش سکولوں کی تشہیر کرنے سے کسی بھی طرح سے تعلیم کی خدمت نہیں کی جارہی۔یہاں تو اساتذہ کی تقرری‘ترقی اور تبادلے بھی سیاستدانوں اور جاگیرداروں کی مرضی سے ہوتے ہیں اوریہی سیاستدان اور جاگیردار ان اساتذہ کو استعمال کرکے سکول کواپنی جاگیرسمجھ لیتے ہیں اورنوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سکول بند ہی ہوجاتا ہے مگر ٹیچر کی تنخواہ جاری رہتی ہے۔
Huma Bukhari
About the Author: Huma Bukhari Read More Articles by Huma Bukhari: 3 Articles with 1771 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.