کالا باغ ڈیم توانائی کے بحران کا حل؟

پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اندورنی و بیرونی طور پر بے پناہ مسائل بلکہ بحرانوں سے دوچارہے، ملک میں توانائی بحران ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ مزید مسائل جنم لے رہے ہیں یہاں تک کہ ترقی وخوشحالی کا عمل بھی تعطل پزیر ہوچکا ہے اور ملک کے طول و عرض میں بے پناہ صنعتیں ، کارخانے اور فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں جس کے سبب ملک میں بے روزگاری بھی بڑھتی جارہی ہے، تاریخ کا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ تقسیم برصغیر کے بعد ہمسایہ ملک بھارت نے آبائی ذخائر کے تحفظ کو مقدم رکھا جب کہ ہم نے اس حوالہ سے کوئی کام نہیں کیا، نئے ڈیموں کی تعمیر پر بھی مثبت پیش رفت ممکن نہ ہوسکی اور جاری منصوبہ جات بھی سرد خانے کی نذر ہوگئے اس کی سب سے بڑی مثال کالا باغ ڈیم ہے کہ جو سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ، کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بعض حقائق ایسے ہیں جن سے کسی فریق کو انکار نہیں ہوسکتا مثلاً یہ کہ ڈیم فطرت کا شاہکار ہے اسکی سائٹ مثالی ہے اسکے تین طرف پہاڑیاں ہیں اور صرف ایک طرف دیوار درکار ہے، پانی ذخیرہ کرنے کیلئے قدرتی طورپر ایک جھیل موجود ہے، اس کا سپل وے پیندے سے 50فٹ نیچے ہوگا لہٰذا ا س میں سلٹ جمع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسکی لائف لا محدود ہے اسکی تعمیر سے ملک میں سیلابوں کا خطرہ کم ہوسکتا ہے، اس ڈیم سے 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی جوتقریباً80 پیسے فی یونٹ دستیاب ہوگی بعد میں بجلی کی استعداد4500 میگا واٹ تک بڑھائی جاسکے گی ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم سے 25لاکھ ایکڑ بنجر اراضی سیراب کی جاسکے گی جس میں سندھ کی 8لاکھ ایکڑ،پنجاب کی 6 لاکھ 80 ہزار ایکڑ،سرحد کی 4لاکھ40 ہزار ایکڑ اور بلوچستان کی 5 لاکھ40 ہزار ایکڑ اراضی زیر کاشت آئیگی۔

اعداو شمار کا غیر جابندارانہ جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ اس ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری،سٹاف کالونیز، دفاتر،واپڈا لاجز ،سکول،ہسپتال، پاور ہاؤس، سڑکوں،ریلوے ٹریک کی تعمیر اور قیمتی مشینری پر کم و بیش 80 ارب کے اخراجات آچکے ہیں، ماہرین کے مطابق اگر یہ ڈیم بروقت تعمیر ہوجاتا تو اب تک ہم اس سے اندازاً 60کھرب کا منافع کما چکے ہوتے، اس سے بھی کوئی فریق انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کے تین صوبوں کی اسمبلیاں اسکی تعمیر کے خلاف قراردادیں منظور کرچکی ہیں اور تینوں صوبے بدستور اسکی مخالفت کر رہے ہیں اس سے بھی کوئی فریق انکار نہیں کرسکتا کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، مسلسل لوڈشیڈنگ کے باعث ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، صنعت ٹھپ ہے ،مزدور کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہے،زندگی عذاب ہے اور پانی کے بغیر لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر پڑی ہے، دوسری جانب بھاشا ڈیم کی منظوری کو 7 سال ہوگئے ہیں دو دفعہ افتتاح بھی ہوچکا ہے مگر ابھی تک ہم ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکے، فزیبلٹی رپورٹ تک تیار نہیں اس پر کام شروع بھیہوجائے تو کم از کم پندرہ سال تک انتظار کرنا پڑے گا، اس ڈیم میں بارشوں اور مون سون کے موسم کا پانی سٹور نہیں ہوگا صرف گلیشئرز کا ہوگا یعنی ڈیم سیلابوں میں رکاوٹ نہ ڈال سکے گا جہاں تک کالا باغ ڈیم کا تعلق ہے اس سے کسی فریق کو انکار نہیں ہوسکتا کہ کالا باغ ڈیم بارے فیصلہ ہوجائے تو کام دوسرے دن شروع ہوسکتا ہے یہ سستا ترین ڈیم ہے جو زیادہ سے زیادہ 6سال میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔

ڈیموں کی تعمیر پر سیاست کرنے والوں کااس امر پر اتفاق رائے بے شک نہ ہو مگر اس حقیقت سے کیسے انکار کریں کہ بھارت کشمیر میں ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا بنا کر ہمارا پانی روک رہا ہے، وہ پاکستان میں کالا باغ ڈیم بھی نہیں بننے دیناچاہتا اور اسے روکنے کیلئے باقاعدہ سرمایہ لگا رہا ہے، اس سے کسی فریق کو مجالِ انکار نہیں کہ مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) نے اپنے دو فیصلوں (16ستمبر 1991) اور (9مئی1998) میں وفاقی حکومت کو کالا باغ ڈیم کی تیاری کیلئے فوری اقدامات کرنے کو کہا مگر حکومت نے کوئی توجہ نہ دی جس کا حوالہ تاریخی فیصلے میں موجود ہے، اس سے کسی فریق کو انکار نہیں ہوسکتا کہ 1991ء کے واٹرایکارڈ( آبی معاہدہ) کے وقت چاروں صوبوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے کیا، تین صوبوں نے اپنے ہاں اسمبلیوں کی رسمی قراردادوں سے انحراف کیا اور اس معاہدہ کی رْو سے پنجاب کا اتنا زیادہ پانی دوسرے صوبوں بالخصوص سندھ کو دیدیا کہ اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیاڈیڈ لاک پیدا ہوگیا۔

اس وقت ملک میں یہ حالات ہیں کہ کالا باغ ڈیم مخالف چھوٹی پارٹیوں اور گروپوں نے ڈیم کی حامی بڑی جماعتوں کو یرغمال بنا رکھا ہے انہیں بلیک میل کر رہے ہیں کل کے زبردست حامی آج صوبوں کے اتفاق رائے کی آڑ میں مایوسی پھیلا رہے ہیں، بظاہر ماحول سازگار نہیں ایسے میں ایک اور تجویز سامنے آئی ہے، 20فروری2003ء کو واپڈا کے سابق چیئر مین جنرل (ر) زاہد علی اکبر سمیت متعدد آبی ماہرین نے تین صوبوں کے طرز عمل سے مایوس ہوکر کالا باغ ڈیم کے حوالے سے یہ نئی تجویز دی کہ صوبہ پنجاب دریائے سندھ سے اپنے حصے کا پانی سٹور کرنے کیلئے سائز چھوٹا رکھ کر کالا باغ ڈیم خود تعمیر کرلے، تینوں صوبوں کا پانی دریا میں رہنے دیں وہ سمندر میں پھینکیں یہ انکی صوابدید ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد تو صوبوں پر ویسے بھی اس طرح کے منصوبے شروع کرنے پر کوئی آئینی پابندی نہیں ہے اس پر تو 1991ء کے واٹر ایکارڈ میں سارے صوبوں کا اتفاق رائے موجود ہے سرحد کے مطالبے پر کالا باغ ڈیم کے پہلے ڈیزائن میں 10فٹ بلندی کم کردی گئی تھی مگر اے این پی کا پرنالہ وہیں رہا، صرف پنجاب کے ڈیم سے یہ بلندی مزید خاصی گھٹ جائیگی ان کا اعتراض ختم ہوا، سندھ کو دریا کا پانی سمندر میں گرانے کا شوق ہے وہ بھی اپنا شوق پورا کرلے تاہم ڈیزائن میں یہ گنجائش رکھی جائیگی کہ اگر دوسرے صوبے بھی اپنا پانی ڈیم میں سٹور کرناچاہیں تو ڈیم کی دیواریں اونچی کرکے اسے فل سائز پر لے جانا جائے پنجاب کی حد تک اسکی تعمیر میں تین چار سال سے زیادہ عرصہ درکار نہیں ہوگا، فنڈز کا کوئی مسئلہ نہیں، نہ صرف مالیاتی ادارے اس کیلئے شوق سے فنڈ دیں گے حکومت کالا باغ ڈیم کے نام سے بانڈ جاری کرے، تماشا دیکھیں کہ اندرون ملک اور بیرون ملک پنجابی کس شوق سے اس میں حصہ لیتے ہیں۔
Huma Bukhari
About the Author: Huma Bukhari Read More Articles by Huma Bukhari: 3 Articles with 1772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.