اپنوں سے شکوہ

رات کے ١٢ بجتے ہی میرے وطن کی فضآئیں فائرنگ سے گونج اٹھی عوامی تفریح گاھیں کھیل کے میدان تماش گاھ بنے نوجوان کرتب دکھاتے تو لڑکیاں ناچتی داد دیتی عوام ہر طرف ھنگامہ برپا تھا سر عام شراب و شباب کی محفلیں سر بازار ناچ گانا بے پردہ عورتیں حیا سوز حرکتیں کرتے نوجوان اپنی مستی میں مست تھی عوام میرے بڑ�ے چھوٹ�ے سب کے سب سب کچھ جیسے بھول گئے ھوں بمیں خدا بھی شاید تھا مگر احکام خدا تو یقینا بھول گئے تھے ھم پورے سال اتنے گناہ شاید نہ یوں جتنے اس ایک رات کے ایک پہر میں ھم کر گزرے تھے پورے سال اتنی شراب شاید نوش نہ ھوتی ھو جتنی مقدار اس رات پی جاتی ہے ملتان کے ھوٹل میں تو حد ہوگئی لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ ڈانس تو صوفے پر براجمان ایک جوڑا لب بر لب تھا اور اس گناہ کو براہ راست دکھایا ایک نیوز چینل نے یہ تھا سونے پر سہاگہ ہم اچھی توقع رکھ کے کہتے ہیں یہ رشتہ ازدواج میں منسلک تھے مگر تب تو یہ سب اور بھی غلظ ںظر آیا حکومت نے ڈبل سواری تو پابندی لگادی مگر سڑکوں پر نگہبانان وطن عید ھوگئی اور ان کے سفید جیب کالے ہوکر خوب گرم ہوگئے۔دوسری طرف موبائلز پر نیاسال مبارک کے پیغامات تو سوشل میڈیا اور الکٹرونک میڈیا پر ھنگامے برپا تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یکایک ایک آواز آتی ہے انکل آنٹی سنو ارے سن تو لو خدا را بات تو سنو مگر سنتا کون؟وہ تو تھے مدہوش اپنمستی میں مست ایک شور برپا کرتے انسان حسرت سے دیکھتا رہا احسنی اور وہ پرسوز آوازیں اچانک میرے کندھے پر کسی کا ھاتھ محسوس ہوا تو دیکھا معصوم چہرہ پرنورآنکھیں اور حسرت بھری آواز بھیا میں حافظ عزیر پھر کیا تھا ایک ایک کر کے اپنا نام لیتے وہ جنھیں آج ھم بھول گئے تھے جی ھاں عبداللہ شاہ حسین شاہ حمزہ وہ سیف جسکو پیار سے گھر سے اسکول اور محلےسےمےدان تک سب سیفی کہتے تھے آج ان کی روحیں پکار پکار کے کہ رہی تھیں یہ سب مت کرو مگر کچھ دن پہلے شمعیں روشن کرنے پھول رکھنے اور بلک ڈ��ے منانے والے آج اندھے بھرے تھے مگر افسوس کھ گونگے بی ہوتے مگر۔۔۔۔۔دلسوز صدائیں سنی نہیں یا سن کے ان سنی کر دی اور عمل پیرا ہوئے رات گئی بات گئی محاورے پر۔آوازوں کی دنیا میں گم تھا کہ آواز نے متوجہ اپنی جانب کردیا بھیا آُپ انکو منع کردو نا آبھی تو دن ھی گزرے ماہ و سال تو نہیں بیتے آُ بھول بھی گئے ھم کو خون میں لت پت وہ معصوم کہ رہا تھا میرےبابا میری امی جان کتنے غم زدہ بھیا میری آُٰپی یہ سب دیکھ کے مر جائے گی میرے بھیا کا کلیجہ پھٹ جائےگا میری دادی اب تک نڈھال میرے غم فرقت میں بھیا میں اللہ میاں کو بتاؤں گا اللہ میاں اللہ میاں میرے بابا لوگ غم زدہ میری باجی کا دل بھرا امی میری گم سم بھیا کو چپ لگی تھی اور یہ سب نیاسال ٢٠١٥ کھیل رہے تھے۔ اب اللہ آپ انسے پوچھ لو نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جواب دوستوں ہمیں دینا ھوگا خدا کے دربار میں۔۔۔۔۔۔۔یکایک تصورات کی دنیا سے واپسی ھوئی تو آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا مگر ماحول وطن اب تک گناہ آلود تھااور معارف القرآن کا سبق پڑھنے امریکہ سے آن لائن تھا حمزہ رد عیسائیت آج کا سبق اور ھم وطن نصارا کے نقش قدم پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچتا رھا کاش کہ یہ اسلحہ اور گولیاں دشمن کے خلاف استعمال ھوتی تو آج سرحد پار سے سمندر پار تک کا دشمن خاموش ھوتا اور پشاور کا حمزہ عبداللہ اور ان دوست اسکول سے جنت تک آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آرمی پبلک اسکول کے درسگاہوں میں۔۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس ہماری غلطیاں آج ھمیں لے ڈوب رہی ہیں اور ھم اپنی تباہی کو انجوائے کر رہے ہیں
M.ABID Ahsani
About the Author: M.ABID Ahsani Read More Articles by M.ABID Ahsani: 16 Articles with 14693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.