حقیقت میلاد النبی - تیسواں حصہ

میلاد نامہ اَنبیاء سے میلاد نامہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک:-

اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کا ذکر اس قدر اہتمام سے کیا ہے کہ انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے خیال تک کو بھی بیان کیا۔ میلاد نامہ یحییٰ علیہ السلام پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام مریم علیھا السلام کے حجرہ میں تشریف لے گئے اور ان کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو اسی جگہ اولاد کے لیے دعا مانگی، پھر جب ان کو خوش خبری ملی کہ بیٹا عطا ہوگا تو دل میں بشری تقاضے کے تحت ایک خیال پیدا ہوا کہ میں اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہو چکی ہے تو میرے ہاں بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ یہ خیال آتے ہی اللہ کی بارگاہ میں سوال کیا تو قرآن حکیم نے اس خیال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوال کا بھی ذکر کیا، پھر اﷲ تعالیٰ نے اس سوال کا جو جواب دیا اس کا ذکر بھی فرمایا۔

اسی طرح میلاد نامہ عیسیٰ علیہ السلام کا مطالعہ بھی بڑا ایمان افروز اور فکر انگیز ہے۔ اس کی بعض جزئیات پڑھ کر ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس قدر عام چیزیں بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی : جیسے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے لے کر ولادتِ عیسیٰ علیہ السلام تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کا ذکر، دردِ زہ کی تکلیف کا تذکرہ، اور یہ کہ حضرت مریم علیھا السلام نے پریشانی کے عالم میں کہا : ’’اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔‘‘ اس قسم کی باتیں ذکر کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو یہ شعور عطا کیا کہ جس طرح قرآن مجید دیگر انبیاء علیھم السلام کی ولادت کے باب میں بہت سے واقعات بیان کرتا ہے اُسی طرح جب حبیب کبریاء سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آئے اور ان کی ولادت کا ذکر چھڑے تو تم حضرت آدم علیہ السلام سے بات شروع کرتے ہوئے حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرو اور سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی گود سے لے کر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے گاؤں تک کے سارے واقعات بیان کرو اور جو کمالات و برکات مشاہدے میں آئے ان کا بھی ذکر کرو، یہی سنتِ الٰہیہ اور منشائے قرآن ہے۔ دیگر انبیاء علیھم السلام کا ذکر تو وحیء الٰہی کے ذریعے حضور علیہ السلام نے کیا اور ظاہر ہے کہ آپ علیہ السلام کا ذکر بعد میں آنے والوں نے ہی کرنا تھا۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور کوئی نبی نہیں آئے گا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آپ کی امت نے کرنا ہے۔

میلاد نامۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی واقعات کا بیان ہے جو آقا علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے قبل اور ولادت کے وقت ظہور میں آئے۔ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک کس طرح پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر کیا کیا احسانات فرمائے۔ عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں تو سارا سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے نغمے الاپتے رہتے ہیں لیکن جونہی ماہِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ر بیع الاوّل آتا ہے ان کی محبت شعلہ جوالہ بن جاتی ہے، وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ عظمیٰ کے حسین تذکروں سے اپنے قلوب و اَذہان منّور کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ ان محافل میں محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ یہ بڑا ایمان افروز سماں ہوتا ہے۔ اس موقع پر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زلف و رخسار کی بات کرتا ہے تو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار کی، کوئی گنبد خضراء کا حسین منظر بیان کرتا ہے تو کوئی روضہ اقدس کی سنہری جالیوں کی بات کرتا ہے، کوئی شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں کی تو کوئی اس شہرِ دل نواز کی روشنیوں اور رونقوں کی بات کرتا ہے، کوئی سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے گھر کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے آنے اور آقا علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی بات کرتا ہے، کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کی بات کرتا ہے تو کوئی لڑکپن کی اور کوئی چودہ سو سال پیچھے پلٹ کر شہر مکہ کی وادی میں آقا علیہ السلام کے خرامِ ناز کا حسین تذکرہ چھیڑ دیتا ہے، الغرض اس مہینے میں فقط محبت کے ترانے گونجتے ہیں، محبت کے تذکرے ہوتے ہیں، آقا علیہ السلام کی ولادت اور بچپن کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ عشق کے یہ ترانے سن کر اہلِ ایمان کے دلوں کے اندر موجود خوابیدہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ اٹھے۔

گزشتہ آرٹیکلز میں قرآن مجید کے حوالے سے انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں کے بیان سے اس سوال کا رَدّ ہوجاتا ہے کہ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان کے تحت یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کس طرح نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پشت میں آیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کس طرح ہوئی؟ وغیرہ۔ قرآن مجید میں مذکور انبیاء کرام علیھم السلام کے احوال و واقعاتِ میلاد پڑھ کر بھی اگر کوئی یہ سوچے اور سمجھے کہ ان چیزوں کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو یہ معترض کی قرآن حکیم کی صریح آیات سے ناواقفیت، محض ہٹ دھرمی اور کم علمی کی دلیل ہے۔

اِس پوری تفصیل کے ذریعے قرآن مجید کے حوالہ سے یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں، واقعاتِ ولادت، کمالات و برکات اور ان پر ہونے والی اُلوہی عنایات کا ذکر کرنا اللہ کی سنت ہے۔ انہیں خود قرآن مجید میں بارہا اللہ رب العزت نے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس حوالہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر کرنا بھی سنتِ الٰہیہ کے زمرے میں آتا ہے جسے قیامت تک آنے والے محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بجا لاتے رہیں گے۔ یہ ذکر کیسے ہوگا؟ اس ذکر کا طریقہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمجھا دیا ہے۔ جب ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ذکرِ میلاد کی طرح اللہ رب العزت کی سنت اور منشائے قرآن کے عین مطابق ہوتا ہے۔ گزشتہ آرٹیکلز میں ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرتے ہوئے معمولی اُمور بھی نظرانداز نہیں کیے۔ اسی طریقہ اور سنتِ اِلٰہیہ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آج ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت، نورانیت اور ولادت کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زرّیں سلسلۂ نسب بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اَجداد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت رُونما ہونے والے عجائب و غرائب اور ان خصائص و امتیازات کو بیان کرتے ہیں جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا ذکر آتا ہے تو واقعات کی کڑیاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاتے ہوئے حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے بات شروع کر کے مخدومۂ کائنات سیدہ آمنہ علیھا السلام کی آغوش اور حضرت حلیمہ سعدیہ علیھا السلام کی بستی تک پھیلاتے چلے جاتے ہیں تاکہ اس ذکرِ جمیل کی شیرینی اور حلاوت سے ہمارے قلوب و اَرواح بھی شاد کام ہوسکیں اور اس اَبدی داستانِ حسن و جمال کا پس منظر ہماری لوحِ تخیل پر نقشِ دوام ہو جائے۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں منعقد ہونے والی محافل میں بھی اِنہی تذکارِ رِسالت کا بیان ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ایسی محافل کا اِنعقاد (معاذ اﷲ) ناجائز ہے، درست نہیں۔

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93535 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.