تعصب نہیں ! ہر گز نہیں

پاکستان ربِ کریم کی عطا سے ان شاء اﷲ جلد سرفراز ہوگا۔یہ ہماری امید اور آس ہی نہیں بہت سے اولیاء اﷲ کی پیش گوئی بھی ہے۔پاکستان قوموں کی برادری میں ممتاز ہوگا۔ دنیا کے ممالک کی قسمتوں کے فیصلے پاکستان کی ہاں اور ناں میں ہوں گے۔پاکستان دنیا کی سپر پاور ہوگا۔آج بلا شبہ یہ باتیں دیوانے کی بڑ اور فرزانے کا خواب لگتی ہیں۔مگر یہ ہونا ہے بلکہ اب تو مجھ جیسوں کو بھی صبح صادق طلوع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔بلادِ ہند ہی دراصل اسلام کی سرفرازی کی زمین ہے تبھی تو آقائے ِ کائنات ﷺ کو اس خطے سے ٹھنڈی ہوائیں آیا کرتی تھیں۔دوست سوال کرتے ہیں کون سا اسلام۔بریلوی ،دیوبندی ،شیعہ یا اہلِ حدیث۔مختصراََ یہ کہ آقائے دوجہاںﷺ کا سکھلایا اور بتایا ہوا اسلام۔اس ملک کے بانی کا اختیار کردہ اسلام۔ڈیڑھ اینٹ کی مساجدِ ضرار جنہوں نے مسلمانوں کے دل تقسیم کر رکھے ہیں عنقریب گرنے والی ہیں۔وہ بھی جو گلی گلی محلے محلے نفاق نفرت اور تعصب کے بیج بوتے نظر آتے ہیں پیار اور محبت کی،رواداری اور برداشت کی تلقین کرتے نظر آئیں گے۔ورنہ انہیں لا تعلق کر دیا جائے گا۔ حرفِ غلط کی طرح مٹنا ان کا مقدر ہوگا۔

پاکستان کے دشمنوں پہ اب زمین تنگ کر دی جائے گی۔انہی پہ نہیں جو دشمن کے اشارے پہ لاشوں کا کاروبار کرتے ہیں۔جو کلمہ گوؤں کو بارود کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ ہر وہ شخص جو پاکستان کے مفادات پہ اپنے مفادات کو ترجیع دے گا۔جو اسے کسی بھی صورت نقصان پہنچانے کا سوچے گا ۔آنے والے موسم میں انجام کو پہنچے گا۔وہ حکمران ہو،سیاستدان ہو،فوجی ہو ،عالم ہو یا تاجر۔پاکستان کے دشمن اپنے انجام کو پہنچیں گے۔فوجی عدالتوں کے توسط سے نہیں۔یہ تو صفائی کی جانب پہلا قدم ہے۔قوم کے اس اتفاقِ رائے کی بنیاد پہ ،اس قومی یکجہتی اور یکسوئی کی بنیاد پہ جو اﷲ کریم کی مہربانی سے اس کے اندر پیدا ہو چکی ہے اور جو ان شاء اﷲ مکمل تبدیلی تک قائم رہے گی۔اب پیروجواں نگران ہو گا ۔لوگ اپنے ملک کے لئے اپنے حقوق کے لئے خود جدوجہد کریں گے۔ اس کا پہرہ دیں گے اور جو نا اہل ہوگا یا متامل اس کا خود بخود صفایا ہو جائے گا۔فسادی تباہ وبرباد ہوں گے اور امید امن آشتی اور یگانگت کا ایک نیا سورج اس حرماں نصیب قوم پہ طلوع ہوگا۔

قومیں ملک اور معاشرے لیکن تعصب پہ آباد نہیں ہوتے۔ مذہبی،مسلکی،علاقائی ،لسانی،ہر طرح کا تعصبْ ۔ترقی کے، امن کے، برداشت کے سفر میں آپ کو اپنے سے زیادہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دل شکنی، دلآزاری اور محرومی کا۔ وہ آزادی جس کی آپ توقع رکھتے ہیں اسے دوسروں تک ارزانی کرنے کے لئے آپ کو کوشش کرنا پڑتی ہے۔حقوق کی طلبی سے پہلے فرائض کی ادائیگی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔کیا ہم بھول گئے کہ ہمارے آقا ومولاﷺ کیسے بھوکے رہ کے سائلین کی دادرسی کیا کرتے تھے؟کیسے بابِ مدینہ رضی اﷲ عنہ کا پورا خاندان سائلین کی ضرورتیں پورا کرنے کو تین تین دن تک اپنی بھوک پہ ترجیع دیا کرتا تھا؟حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کیسے اپنے کندھوں پہ راشن ڈھویا کرتے اور کبھی جو کوئی بوجھ اٹھانے کو آگے بڑھتا تو فرمایا کرتے کہ کیا قیامت کو بھی تم میرا بوجھ اٹھانے کی حامی بھرتے ہو؟ہمارا دین یہ تھا اور یہ تھے ہمارے اسلاف۔ہم آج کیا ان کی پیروی کر رہے ہیں؟ یا وہ جنہیں ہم کافر کہتے ہیں،بے دین سمجھتے ہیں۔وہ عمر رضی اﷲ عنہ کے قوانین کو اپنے اپنے معاشرے میں لاگو کر کے بلا امتیاز عوام تک پہنچاتے ہیں اور ہم ہیں کہ چن چن کے ہر اس آدمی کو ذبح کرتے ہیں جسے اﷲ کے نبی ﷺ نے جنت کی بشارت دے رکھی ہے۔جو کلمہ پڑھ کے ایک بار دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے بھلے وہ جان بچانے کو ہی ہوا ہو۔اس کے قتل پہ رحمتِ کائنات ﷺ اپنے چہیتے اور لاڈلے صحابی کا مواخذہ کرتے ہیں اور یہاں ان معصوموں کے سروں اور چہروں پہ گولیاں مار کے شہید کر دیا جاتا ہے جو ابھی بریلویت، دیوبندیت اور شیعت کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوئے ہوتے۔قدرت کا خود کار نظام زمین پہ پڑے گند کو برداشت نہیں کرتا ۔بارش برس کے سارا کچرا بہا لے جاتی ہے چہ جائیکہ کہ زمین ظلم سے بھر جائے اور قانونِ قدرت خاموش رہے ۔ نہیں جنابِ والا ! ایسا ممکن نہیں۔

ہر متعصب کو سزا ملے گی۔ہر ظالم کی گردن ناپی جائے گی اور ہر قاتل کو پھانسی کے پھندے پہ لٹکنا ہوگا۔ شاید پاکستان میں ابھی سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوا۔ ابھی بھی در توبہ کھلا ہے۔حر لشکرِ یزید میں تھا لیکن اس نے توبہ کی ۔آج بھی مسلمان جہاں یزید اور آلِ یزید پہ لعنت بھیجتے ہیں وہیں حضرت حر کی لازوال توبہ اور قربانی کا بھی ذکر کرتے ہیں۔یہ در ہر دور میں ایک معین وقت تک کھلا رہتا ہے۔خوش نصیب اس کے بند ہونے سے پہلے امن و آشتی کا ہاتھ تھام لیتے ہیں اور محروم رہ جانے والوں کو کارپردازانِ قدرت اچک کے ان کے انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔اب حکمران رعایا کے لئے سایہ نہیں بنے گا تو حکمران نہیں رہے گا۔منصف انصاف نہیں کرے گا تو منصبِ عدالت سے ہٹا دیا جائے گا اور محافظ حفاظت کے فرض سے غافل ہوگا تو اس کے تیروتفنگ کسی دوسرے کے حوالے کر دئیے جائیں گے۔عالم اپنے علم کو مسلکی یا مالی مفاد کی بھینٹ چڑھائے گا تو غیر متعلق ہو جائے گا۔پاکستان میں اب خلق خدا کی حکم رانی کا زمانہ آیا چاہتا ہے۔فقیر کی ندا ہے کہ لوگو! زمانے تعصب سے نہیں، محبت امن رواداری برداشت اور ایثار سے یادگار بنتے ہیں۔آؤ انہی جذبوں کی ایک زنجیر بنائیں اور اﷲ کے حضور یکمشت اور یک جان ہو کے پیش ہوں کہ وہ ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالنے کا۔کیاابھی وقت نہیں آیا کہ ہم سلامتی کے دین میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں؟
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268471 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More