ڈرائیور اناڑی، گاڑی بیچاری

ڈس اور چھن کی آواز ایک ساتھ آنے پر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا گاڑی ایک برگد کے درخت سے ٹکرا کر رُک چکی تھی۔ گاڑی کا بیک ونڈ سکرین کا شیشہ ٹوٹ کر بکھر چکا تھا صورتحال کو سمجھنے میں مجھے کُچھ سیکنڈ لگے میرے کانوں میں ملی جلی آوازیں آ رہیں تھیں۔ کمال ہے اتنا چوڑا درخت نظر نہیں آیا۔ سر آپ کو اتنا بڑا درخت نظر نہیں آیا؟ ایک حوالدار نے بے یقینی کے عالم میں پُوچھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں تھا۔ ہم نے جواب دیا ”سر زندگی میں کبھی کبھی پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لینا چاہیے”شکل سے فلسفی نظر آنے والے صوبیدار نے داڑھی کُھجا تے ہوئے فلسفہ بگھارا اگلے دن ایکسیڈنٹ کی خبر پوری یونٹ میں پھیل چُکی تھی۔ مجھ کو عادی مجرم سمجھتے ہوئے کسی نے مجھ سے ہمدردی ظاہر نہیں کی۔ ہر کوئی گاڑی کی مزاج پُرسی کو آرہا تھا۔

ہماری شامت اعمال کے اس دن سنٹرل ٹی بریک تھی (Central Tea Break)اور تمام آفیسرز بمعہ کمانڈنگ آفیسر موجود تھے۔ کیا خبریں ہیں؟ کمانڈنگ آفیسر نے حسب ِمعمول گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا سر خبریں بڑی گھمبیر ہیں کیپٹن جو کہ ایجوٹنٹ کی ڈیوٹی کر رہا تھا اس نے کہا کیا مطلب؟ کمانڈنگ آفیسر نے حیرانگی کا اظہار کیا سر میجر صاحب نے ایک بار پھر گاڑی درخت سے ٹکرا دی کمانڈنگ آفیسر نے حیرانگیر بھرے تاثرات لیے ہماری طرف دیکھا اور پوچھا درخت کو چوٹ تو نہیں آئی۔ پھر خود ہی کہنے لگے، ابھی پچھلے ہفتے ایک درخت کو آپ نے گاڑی ماری تھی۔ یہ آپ درختوں کو گاڑی مارتے ہیں یا درخت اتنے سٹوپڈ ہیں کہ آپ کی گاڑی کے راستے میں آ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیپٹن نے دوبارہ موشگافی کی سر آپ نے غور نہیں کیا، آجکل یونٹ (Unit)میں لگے درخت کتنے سہمے سہمے رہتے ہیں۔ سر اب تو یہ عالم ہے کہ میجر صاحب گاڑی سٹارٹ کرتے ہیں تو گاڑی کے پیچھے والے درخت دائیں بائیں ہونے لگتے ہیں، تاکہ اپنا بچاﺅ کرسکیں

آفیسرز کو تو موقع اور بندہ چاہیے مذاق اڑانے کیلئے۔ ہم سمجھ گئے آج ہماری باری ہے، خیر کوئی بات نہیں جب ہمیں موقع ملا تو ادھار بمعہ سود واپس کریں گے۔ ایک اور کیپٹن نے لقمہ دیا سر خُدا جھوٹ نہ بلوائے میں نے خود اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جیسے ہی سر گاڑی لے کر یونٹ سے باہر نکلے، تو یونٹ کے تمام درخت سجدے میں گر گئے کہ خدایا تیرا شُکر ہے آج تو بچ گئے کل کی کل دیکھی جائے گی۔مٰیجر جو کہ(2nd in command) کی ڈیوٹی کر رہے تھے بولے سر سُنا ہے ”خانم ڈرائیونگ اسکول“ والوں نے میجر صاحب کی خدمات ڈیمانسٹریٹر (Demonstrator) کے طور پر مستعار مانگی ہیں۔ کمانڈنگ آفیسر نے حیرانگی سے پُوچھا وہ کیوں ہمیں بھی اشتیاق پیدا ہوا شائد ہماری ڈرائیونگ کی چھُپی صلاحیتوں کو دیر سے مگر آخر کار پہچان لیا گیا ہے۔ 2IC نے کہا To give them very good example of ہم نے بیتابی سے کہا ۔ of کیا To give them very good example of very bad driving اس سے زیا دہ ریکارڈ لگوانے کی برداشت نہیں تھی،ہم بھی میدان میں کُود پڑے۔

سر کیپٹن یاسر پچھلے ہفتے میرے ساتھ میرے گھر گئے تھے، واپسی پر میں ان کو(see off)کرنے کیلئے ان کی گاڑی تک ان کے ساتھ چلا اچانک ان کو زمیں پر نہ جانے کیا نظر آیا یہ ایک دم جُھکے اور زمین سے کُچھ اُٹھالیا۔ ان کی مٹھی بند تھی ہم نے کہا دکھائیں کیا اُٹھایا ہے، کہنے لگے کُچھ نہیں کُچھ نہیں۔ مجھے شک ہوا، کوئی بہت قیمتی چیز ہاتھ لگ گئی ہے، اس لیے بتا نہیں رہے۔ پھر میری طرف پیٹھ کی اور رازدانہ انداز میں مُٹھی کھول کر دیکھا پھر لاحول ولا پڑھ کر جلدی سے مٹھی میں جو کُچھ تھا جھاڑ دیا میں بڑا حیران ہوا میں نے پُوچھا اتنے شوق سے تو اُٹھایا تھا کیا تھا، اب پھینکا کیوں، کہنے لگے کُچھ نہیں، کُچھ نہیں، میں نے حیرت سے لبریز ہوتے ہوئے بتانے کا اصرار کیا تو کہنے لگے ”سر آپ کے علاقے کے لوگ تھوکتے بھی ایسے ہیں لگتا ہے اٹھنی کا سکہ پڑا ہے“ پورا ٹی بار (Tea Bar)قہقہوں سے گونج اٹھا۔

اس سے پہلے میرے پاس جو گاڑی تھی وہ کافی ضعیف تھی اس کی حالت دیکھ کر خدا یاد آتا تھا یا پھر نیلامی کا وہ اشتہار جس میں لکھا ہوتا ہے ایک گاڑی جیسی ہے جہاں ہے کی بنیاد پر نیلام کی جائے گی “ ہماری گاڑی بھی ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے باوجود ویسی کی ویسی تھی، نہ اس کے رنگ و روپ میں کوئی فرق آیا تھا نہ چال چلن میں۔ ہمارے ایک پڑوسی آفس جاتے ہوئے کبھی کبھار لفٹ مانگ لیا کرتے تھے، ایک دن ان کو تیز قدموں سے آفس جاتے ہوئے دیکھا تو حسب معمول ان کے پاس جا کر گاڑی روکی اور کہا آئیں بیٹھیں میں چھوڑ دیتا ہوں کہنے لگے ”شکریہ آج آفس جلدی پہنچنا ہے، اس لیے میرا خیال ہے پیدل ہی بہتر رہے گا“ بہت غصًہ آیا، گاڑی اتنی بھی سست نہیں تھی۔ کچھ لوگ ہوتے ہی کم ظرف ہیں اور ان میں اکثر پڑوسی ہی ہوتے ہیں۔ ہماری رائے پڑوسیوں کے بارے میں اسلئے بھی اچھی نہیں تھی، کہ وہ بھی ہمارے بارے میں ایسی ہی رائے رکھتے تھے۔ دوسرا وہ ہمارے آفس جانے کا انتظار کر کے گھر سے نکلتے تھے کہ کہیں مروت میں گاڑی کو دھکاہ نہ لگانا پڑ جائے۔

ایک پڑوسی نے تو حد ہی کردی، رمضان کے دنوں میں ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے، بُرا نہ مانیں تو ایک عرض کرنی تھی ہم نے اخلاق کی حدوں کو پھلانگتے ہوئے کہا جی بالکل ضرور کہیں ہم تو آپ کے خادم ہیں انہوں نے بدتمیزی کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے جواباً کہا، کیا ایسا نہیں ہو سکتا آپ سحری کے ٹائم گاڑی تھوڑی دیر کیلئے اسٹارٹ کر دیا کیجئے، پورا محلہ جاگ جایا کرے گا۔ ثواب کا کام ہے۔ ہم نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے کہا یہ کام تو آپ کا بچہ جس کو محلے والے بھونپُو کہہ کر پُکارتے ہیں، بہتر کر سکتا ہے آپ روز سحری کے ٹائم پر اپنے بھونپو کو ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کردیا کریں، اس کی بھاں بھاں بھیں بھیں کی آواز پورے شہر کو جگانے کیلئے کافی ہے۔ الغرض ہماری گاڑی کی حالت اتنی خستہ ہو چکی تھی کہ کسی کو بتاتے ہوئے شرم آتی تھی کہ یہ ہماری گاڑی ہے اس لیے ہم اپنی گاڑی پڑوس کے گھر کے سامنے کھڑی کرتے تھے تاکہ ہمارے گھر آنے والے لوگ سمجھیں پڑوس والوں کی گاڑی ہے۔

ایک بار بس اسٹاپ پر کھڑے ایک صاحب نے لفٹ لینے کیلئے انگوٹھا اوپر کیا، ہمیں اپنی آنکھوں پر یقیں نہیں آیا، گاڑی قریب پہنچنے پر ان صاحب نے جب گاڑی کی خستہ حالت دیکھی تو ہاتھ تیزی سے پیچھے کھینچ لیا مگر اب دیر ہو چُکی تھی ہم گاڑی ان کے سامنے روک چُکے تھے انہیں بادل ِ نا خواستہ گاڑی میں بیٹھنا پڑ گیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی کی تعریفیں شروع کر دیں، واہ واہ کیا دوڑ رہی، حالانکہ اتنا پرانا ماڈل ہے۔ باہر سے دیکھنے میں نہیں لگتا کہ اتنا عمدہ دوڑتی ہوگی، میں تو خواہ مخواہ بیٹھتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ اس ماڈل میں اتنی ویل مینٹینڈ(well Maintained) گاڑی شاید ہی کسی کے پاس ہو، وہ گاڑی کی تعریفیں کرتے رہے جب تک کہ گاڑی نے ہچکیاں لینی شروع نہ کر دیں۔ چونکتے ہوئے پوچھا گاڑی کو کیا ہوا ہے میں کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ اپنی تعریفیں سن کر ہنس رہی ہے۔ لیکن کہا شاید پٹرول میں کچرا آگیا ہے۔ گاڑی نے حسب ِتوقع اپنی اوقات دکھا دی، اور تھوڑی دور جا کر رُک گئی۔ ہم نے ان صاحب کو کہا ذرا دھکا تو لگا دیں وہ برا سا منہ بناتے ہوئے اترے اور دھکا لگانا شروع کردیا ،جب کافی دیر دھکا لگا چکنے اور پسینے سے شرابور ہونے کے باوجود گاڑی نے اسٹارٹ ہونے سے انکار کردیا تو ان کے دماغ میں برائیٹ(bright) آئیڈیاز آنے شروع ہوگئے۔

فرمانے لگے۔ آپ ایسے کیوں نہیں کرلیتے؟ میں نے کہا۔ کیسے کیوں نہیں کرلیتے؟ کہنے لگے۔ آپ گاڑی کے فرش پر جہاں کلچ اور بریک پر پاﺅں رکھتے ہیں، وہاں دو بڑے بڑے سوراخ کرا لیں میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا وہ کیوں کہنے لگے تاکہ آپ ان سوراخ میں سے پاﺅں نکال کر سڑک پر رکھ سکیں اور ٹانگیں آگے پیچھے چلا کر گاڑ ی آگے دھکیل سکیں۔ میرا بچہ بھی ایسے ہی چلاتا ہے، اسطرح پٹرول کی بھی بچت ہوگی اور گاڑی کی رفتار پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپکی گاڑی ویسے بھی چلتے ہوئے ساؤنڈ بیریر(sound Barrier) توڑتی ہے۔ اس کی باتوں سے ہمیں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول یاد آگیا ”ڈرو اس شخص سے جس پر تم نے کبھی کوئی احسان کیا ہو “احسان فراموشی کی انتہا دیکھو ایک تو گاڑی میں لفٹ لی اور اوپر سے با تیں الگ سُنائیں کیا فرق پڑتا ہے اگر گاڑی میں بیٹھے کم ہیں اور دھکا زیادہ لگانا پڑا ہے۔ ویگن میں ٹکٹ دے کر مُرغا بن کر جاتے تو پتہ لگتا۔

ایک دفعہ ہمارے ایک جاننے والے جو اسپخول کا کاروبار کرتے تھے جن کا اصل نام تو انہیں خود بھی یاد نہیں رہا، محلے کے بچوں سے تعلقات کشیدہ ہونے کی بنا پر (تعلقات تو ان کے اپنے بچوں سے بھی کُچھ ایسے خوشگوار نہ تھے )حاجی اسپغول کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ یہ نام ان کی چڑ بن چکا تھا، محلے کے بچے ان کو دیکھتے ہی اسپغول اسپغول کہہ کر دوڑ لگا جایا کرتے۔ حاجی اسپغول چونکے سنتے اونچا تھے اس لیے سُناتے بھی اونچا ہی تھے۔ بچوں کو فل والیم (Full Volume) میں گالیاں نکالتے پیچھے دوڑ پڑتے۔ محلے کے کتے جو کہ صبح سے اس صحتمندانہ ایکٹیوٹی (Healthy Activity)کے انتظار میں بیٹھے ہوتے تھے، حاجی اسپغول کے گلی میں داخل ہوتے ہی اپنے کان کھڑے کر لیتے اوراپنے بدن سے سسُتی کو جھنجوڑ کر بھاگنے کی پوزیشن لے لیتے، جس طرح اتھلیٹ اولمپک میں فائر ہونے سے پہلے دوڑنے کی پوزیشن بناتے ہیں،۔ حاجی اسپغول جیسے ہی بچوں کے پیچھے دوڑتے یہ حاجی اسپغول کے پیچھے دوڑ لگا دیتے۔ کتوں کو پیچھے آتا دیکھ کر حاجی صاحب کمال مہارت سے اپنا بھاگنے کا رُخ تبدیل کر لیتے اور اچانک کسی گلی میں گُھس جاتے، اناڑی کتے سیدھا بچوں کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے اور حاجی اسپغول کے پیچھے وہی کتے رہ جاتے جو بہت ہی کتے ہوتے یعنی عمر اور تجربے کے لحاظ سے حاجی صاحب کے ہم پلہ ہوتے اور حاجی صاحب کی چال کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوتے۔ ان سے نبٹنے کیلئے حاجی اسپغول نے جیب میں پتھر ڈال رکھے ہوتے تھے۔

حاجی صاحب کی اس طرح محلے میں آمد سے سب سے زیادہ فائدہ ان کے گھر والوں کو ہوتا تھا۔ حاجی صاحب کی بڑی بیٹی جو کہ چھت پر چڑھ کر تاک جھانک کرنے اور اسی نوع کی دیگر غیر نصابی(Extra-curricular) سرگرمیوں میں مشغول ہوتی کتوں کی آواز سنتے ہی ”ہائے اللہ ابو آگئے“ کہہ کر نیچے بھاگ آتی اور چھوٹی بیٹی جلدی سے انڈٰین چینل چینج کر کے پاکستانی چینل لگا دیتی اور حاجی صاحب کی بیگم سر پر دوپٹہ باندھ کر بستر پر لیٹ کر ہائے ہائے کرنے لگتیں۔ اہل ِمحلہ نے کافی کوشش کی کہہ حاجی صاحب اور بچوں کے درمیان تعلقات معمول پر لائیں جائیں۔ لیکن کبھی ایک پارٹی اور کبھی دوسری پارٹی اڑ جاتی، خاص طور پر تھرڈ پارٹی یعنی کتے کسی طور اپنی یہ صحت مندانہ ایکٹیوٹی چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ ویسے کتے اگر ماننے والے ہوتے تو کتے ہی کیوں کہلاتے۔ حاجی صاحب نے آتے ہی اعلان کیا کہ انہوں نے ہسپتال جانا ہے اور اس راستے پر گامزن ہونے کیلئے مجھ ناچیز کو ہم رکابی کا شرف بخشنا چاہتے ہیں، انکار کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ انکار کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ خدا بھلا کرے میری گاڑی کا جسے میں گاڑی کہتے ہوئے نجانے کیوں جھجک جاتا ہوں اس گاڑی کی وجہ سے ان کا یہ سفر میرے ساتھ آخری سفر ثابت ہوا، کیونکہ اس سفر میں انہوں نے اتنا suffer کیا کہہ دوبارہ میری گاڑی میں بیٹھنا تو درکنار میری گاڑی پر نگاہ ِ غلط انداز بھی ڈالنے کی جرات نہ کی۔ میری گاڑی میں بیٹھتے ہی حاجی اسپغول نے زمانے کی ناہمواریوں کا ذکر شروع کر دیا اور اس وقت تک کرتے رہے جب تک سڑک کی ناہمواریوں نے ان کی توجہ اپنی جانب نہ کھینچ لی۔ گاڑی ایک اُچھلو ( Speed Breaker) پر اتنے زور سے اچھلی کہ حاجی صاحب کا سر گاڑی کی چھت سے جا ٹکرایا۔ حاجی صاحب نے گُھور کر ہمیں دیکھا اور فرمایا ”گاڑی میں بریک نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے“ ہم نے لاپرواہی سے کہا۔” اطلاع دینے کا شکریہ“ تھوڑی دیر بعد ایک اور اُچھلو گاڑی کی طرف بڑھتا نظر آیا۔ جوں جوں گاڑی اچھلو سے قریب ہو رہی تھی حاجی صاحب گاڑی کی رفتار میں کوئی فرق نہ پا کر مضطرب ہو رہے تھے، کبھی ڈیش بورڈ کو مضبوطی سے پکڑ لیتے اور کبھی دروازے کے ہینڈل کو، آخر رہا نہیں گیا اور پُوچھنے لگے کیا اس بار بھی بریک نہ لگائیے گا۔ ہم نے کہا ،”ہوتی تو پہلی بار ہی لگا لیتے“ انہوں نے بے یقینی کے عالم میں کہا”کیا بریک نہیں ہے؟، گاڑی کیسے روکو گے“ میں نے کہا ،وقت آنے پر دیکھیں گے۔ ہماری منزل قریب آچکی تھی۔ ہاسپٹل تقریباً دو سو میٹر رہ گیا تھا، سڑک ایک دیوار پر ختم ہو رہی تھی۔ جیسے جیسے دیوار قریب آرہی تھی، حاجی صاحب کا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا تھا۔ حاجی صاحب ”جل تو جلال تو“پڑھنا شروع ہو گئے۔ ہم نے گاڑی کو تیسرے گئیر میں ڈالا، رفتار تھوڑی کم ہوئی اور جب فاصلہ پچاس میٹر رہ گیا تو گاڑی کو پہلے گئیر میں لے آیا۔ گاڑی کی رفتار آہستہ ضرور ہوئی مگر ابھی بھی وہ رُکنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی تھی۔ ہم نے حاجی صاحب کے اطمینان کیلئے بریک پر پاﺅں مارنے شروع کر دیے۔ لیکن گاڑی نے ہماری اس حرکت کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اسی رفتار سے چلتی رہی۔ دیوار کو پندرہ میٹر کے فاصلے پر دیکھ کر حاجی صاحب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ان کا منہ کُھلا ہوا تھا اور آیتیں پڑھنے کی کوشش میں بے ہنگم آوازیں نکل رہی تھیں۔

میں نے اچانک گاڑی کا ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا اور باہر چھلانگ لگا دی، آخری لمحوں میں میں نے حاجی صاحب کی جو آخری جھلک دیکھی، وہ بے یقینی کے عالم میں مجھے چھلانگ لگاتے دیکھ رہے تھے اور خشک گلے سے چیخیں مارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گاڑی اب برائے نام سپیڈ سے چل رہی تھی۔ میں نے گاڑی کے ساتھ دوڑنا شروع کر دیا اور جب گاڑی دیوار سے پانچ میٹر رہ گئی، گاڑی سے آگے نکل کر گاڑی اور دیوار کے درمیان آکر دونو ہاتھ بونٹ پر رکھ کر گاڑی روکنے کی کوشش کرنے لگا، گاڑی مجھے دھکیلتے دھکیلتے دیوار تک لے گئی اور باآلاخر رُک گئی۔ حاجی صاحب پر نظر پڑی وہ سکتے کے عالم میں دونوں ہاتھ ہوا میں اس طرح اُٹھائے ہوئے تھے جیسے دیوار کو ہاتھوں سے روکنا چاہتے ہوں منہ سے چیخ مارنے کی کوشش میں خر خر کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہی سجدے میں گر پڑے۔ اور ہاسپٹل کے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی، میں آوازیں دیتا رہ گیا۔
Babar Nadeem Janjua
About the Author: Babar Nadeem Janjua Read More Articles by Babar Nadeem Janjua: 3 Articles with 4426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.