لباس النبی ﷺ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

پہلا باب : لباس :
یہ مضمون سید الانبیاء وسید البشر حضرت محمد مصطفی اکے لباس کے بیان میں ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا اہم مقصد وغرض یہ ہے کہ ہم اپنے لباس میں حتی الامکان نبی اکرم اکے طریقہ کو اختیار کریں اور وہ لباس جس کی وضع وقطع اور پہننا غیر مسنون ہے اس سے پرہیز کریں۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم اکے طریقہ کو کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نمونہ بنایا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: لَقَدْ کَانَ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَ (سورۂ الاحزاب ۲۱) تم سب کے لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بہترین نمونہ ہے۔

لباس مصدر ہے بمعنی ملبوس (یعنی پوشاک) کے جیساکہ کتاب بمعنی مکتوب۔ لباس کا لفظ عمامہ، ٹوپی، قمیص، جبہ، چادر، تہبند،پاجامہ اور جو کچھ پہننے میں آئے سب کو شامل ہے۔

اﷲ تبارک وتعالیٰ نے لباس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: یَا بَنِی آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذٰلِکَ خَیْر(سورۂ الاعراف ۲۶) اے آدم علیہ السلام کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس بنایا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور بہترین لباس تقوی کا لبا س ہے۔ لِبَاسُ التقوی سے مراد وہ لباس ہے جس میں حیا ہو۔ دوسرے مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ (سورۂ النحل ۸۱) اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں ۔

قرآن وسنت کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے لحاظ سے چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے کیونکہ لباس میں اصل جواز ہے جیساکہ سورۂ الاعراف آیت نمبر ۳۲ میں اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لباس اور کھانے کی چیزوں میں وہی چیز حرام ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔

دوسرا باب : شرعی لباس کے چند بنیادی شرائط :
نبی اکرم اکے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام نے لباس کے بعض حسب ذیل شرائط تحریر کئے ہیں:
۱) مرد حضرات کے لئے ایسا لباس پہننا فرض ہے ،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لئے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ (نوٹ: یہاں لباس کا بیان ہے نہ کہ پردے کا، غرضیکہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔ )
۲) لباس نبی اکرم ا کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ (مثلاً مرد حضرات کیلئے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس)
۳) ایسا تنگ یا خفیف لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں۔
۴) مردوں کا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
۵) مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوشبو والا نہ ہو۔
۶) مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپر جبکہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔
۷) کفار ومشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔

تیسرا باب: آپ ﷺ کا پسندیدہ لباس "سفید پوشاک" :
امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم ا سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں اختصار کی وجہ سے صرف ۲حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
٭ حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کروکیونکہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (ترمذی / الجنائز ۹۹۴، ابو داؤد/ اللباس ۴۰۶۱، ابن ماجہ/ باب ماجاء فی الجنائز، مسند احمد ۲۴۷/۱، صحیح ابن حبان)
٭ حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو کیونکہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (النسائی ۔ الامر بلبس البیض من الثیاب، ترمذی، ابن ماجہ)

زیادہ پاکیزہ اس لئے کہ وہ بہت جلدی میلے ہوجاتے ہیں اسی لئے زیادہ دھوئے جاتے ہیں برخلاف رنگین کپڑوں کے کیونکہ دیر سے دھوئے جانے کی وجہ سے ان میں زیادہ گندگی ہوتی ہے۔ اچھے اس لئے کہ طبیعت سلیمہ ان کی طرف میلان کرتی ہے۔ (اشعۃ اللمعات ۔ کتاب اللباس) شیخ فقیہ ابو اللیث سمرقندی ؒ(متوفی ۳۷۳ھ) نے اپنی کتاب "بستان العارفین" میں اور فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب "رد المختار" کے مصنف علامہ شامی ؒنے تحریر کیا ہے کہ رنگوں میں پسندیدہ رنگ سفید ہے اور سفید لباس پہننا سنت ہے۔

چوتھا باب : رنگین لباس کے متعلق آپ ﷺ کے ارشادات وعمل :
نبی اکرم ا زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپ انے استعمال کئے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا کیونکہ آپ اکی قمیص اور تہبند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔
٭ حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم انے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے اس کو نہ پہنو۔ (مسلم ۲۰۷۷) ایک روایت میں ہے کہ آپ انے فرمایا کہ ان کو جلا ڈالو۔
٭ حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم انے فرمایا: نہ تو میں ارغوانی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور نہ پیلے رنگ کے کپڑے پہنوں گا جوریشمی حاشیہ والے ہوں اور فرمایا کہ خبردار رہو کہ مردوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں خوشبو نہ ہو رنگ ہو۔ (مشکوۃ ص ۳۷۵) ارغوان ایک سرخ رنگ کا پھو ل ہے، اب ہر سرخ رنگ کو ارغوانی کہا جاتا ہے، وہی یہاں مراد ہے۔
٭ حضرت ابی رِمثہ رفاعہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ا کو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ (ابو داؤد ۴۰۶۵، ترمذی ۲۸۱۳)
٭ حضرت براء ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ا کا قد درمیانی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ ا کو سرخ دھاریوں والی چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوبصورت منظر نہیں دیکھا۔ (بخاری ۲۵۸/۱۰ ومسلم۲۳۳۷)
٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ا سرخ دھاریوں والی یمنی چادر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ (بخاری ومسلم)
﴿وضاحت﴾: بعض روایات میں وارد ہے کہ آپ انے سرخ پوشاک استعمال کی ہے، جبکہ دیگر احادیث میں مردوں کو سرخ اور پیلے کپڑے پہننے سے نبی اکرم انے منع فرمایا ہے۔ اس بظاہر تضاد کی محدثین وعلماء نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خالص سرخ یا خالص پیلے کپڑے نہیں پہننے چاہئے، البتہ سرخ یا پیلے رنگ کی دھاریوں والے (یعنی ڈیزائن والے) کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔

پانچواں باب : آپ ﷺ کی قمیص :
٭ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ا کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔ (ترمذی ۱۷۶۲، ابو داؤد ۴۰۲۵)
آپ اکی قمیص کے جو اوصاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :
……٭ آپ اکی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد، صحیح ابن حبان وغیرہ)
……٭ آپ اکی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)
……٭ آپ اکی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داؤد ج۲ص۲۰۳، ترمذی) کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔
……٭ آپ اکی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔

چھٹا باب : آپ ﷺ کا عمامہ :
آپ ا کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتاتھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپ ا کا عمامہ عموماً ۶۔۷ ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔
٭ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم اجب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ شریف کا "شملہ" دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ (مشکوۃ ص ۳۷۴)
٭ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم ا اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپ ا کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مسلم، ترمذی)
٭ حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ ا کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔ (ترمذی)
نوٹ: شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی کم از کم مقدار چار انگل ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ ہے۔

ساتواں باب : آپ ﷺ کی ٹوپی :
حضور اکرم ا عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ ا سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے، البتہ آپ اکے سفر کی ٹوپی اٹھی ہوئی ہوتی تھی۔ علامہ ابن القیم ؒ اپنی بلند پایہ کتاب "زاد المعاد فی ہدی خیر العباد" میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ ا عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ ا عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ ا ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم ا کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورہ الاعراف ۳۱) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے لہذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے محدث شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے بھی اپنی کتاب" تمام المنۃ" کے صفحہ ۱۶۴ پر تحریر کیا ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

آٹھواں باب :آپ ﷺ کا جبہ :
٭ حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا جس کا گریبان ریشم کا تھااور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے، اور فرمایا کہ یہ اﷲ کے رسول ا کا جبہ ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھا جب وہ وفات پاگئیں تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرم ا اسے پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے بیماریوں کے لئے دھوتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مشکوۃ ص ۳۷۴) ٭ آپ انے رومی اور شامی اونی جبوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ (بخاری ومسلم)

نواں باب : آپ ﷺ کا ازار (یعنی تہنبد وپائجامہ وغیرہ) :
ازار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ عموماً نبی اکرم ا تہبند کا استعمال فرماتے تھے، کبھی کبھی آپ انے پائجامہ بھی استعمال کیا ہے۔ آپ ا کا تہبند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابۂ کرام بھی عموماً تہبند استعمال کرتے تھے اور آپ اکی اجازت سے پائجامہ بھی پہنتے تھے۔
٭ حضرت ابو سعید الخدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہئے۔ نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان اجازت ہے۔ لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)
٭ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر عنایت نہیں فرمائے گا۔ (بخاری ۱۰/ ۲۱۷، مسلم ۲۰۸۵)
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (بخاری ۲۱۸/۱۰)
٭ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: لٹکانا تہبند ، قمیص اور عمامہ میں پایا جاتا ہے، جس نے ان میں سے کسی لباس کو بطور تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ (ابو داؤد ۴۰۹۴، نسائی ۲۰۸/۸)
٭ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جو حکم نبی اکرم انے پائجامہ کے متعلق فرمایا وہی حکم قمیص کا بھی ہے۔ (ابو داؤد)
= مذکورہ ویگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام نے اس مسئلہ کی مذکورہ شکلیں اس طرح تحریر فرمائی ہیں:
نصف پنڈلی تک لباس : نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت
ٹخنوں تک لباس : رخصت یعنی اجازت
تکبر کے بغیرٹخنوں سے نیچے لباس : مکروہ
تکبرانہ ٹخنوں سے نیچے لباس : حرام

عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہئے۔
٭ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے سوال کیا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں؟ تو آپ انے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک بالشت نیچے لٹکائیں۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر پھر بھی ان کے قدم کھلے رہیں؟ تو آپ انے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک ذراع (شرعی پیمانہ جو تقریباً ۳۰ سینٹی میٹر کا ہوتا ہے) نیچے لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ (ابو داؤد ۴۱۱۹، ترمذی ۱۷۳۶)

دسواں باب : آپ ﷺ کے لباس میں درمیانہ روی:
رسول اکرم انے اعلیٰ وعمدہ وقیمتی لباس بھی پہنے ہیں مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔
٭ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم انے فرمایا : جس نے دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنا، بروز قیامت اﷲ تعالیٰ اسے ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ (ابوداؤد ۔ باب فی لباس الشہرۃ)
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور موٹا تہبند نکالا پھر فرمایا کہ نبی اکرم اکی روح مبارکہ ان دونوں میں قبض کی گئی۔ (بخاری ج۲ص۸۶۵، مسلم)
٭ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم انے فرمایا: اے عائشہ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو تمہیں دنیا سے اتنا کافی ہو جیسے سوار مسافر کا توشہ اور امیروں کی مجلس سے اپنے آپ کو بچاؤ اور کسی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو حتی کہ اس کو پیوند لگالو۔ (ترمذی ۱۷۸۰) یہ انتہائی قناعت کی تعلیم ہے کہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار نہ ہو۔
٭ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ (ترمذی ۲۸۲۰) (یعنی اگر مال اﷲ تعالیٰ نے دیا ہو تو اچھے کپڑے پہننے چاہئیں۔)
٭ حضرت معاذ بن انس ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اﷲ تعالیٰ کے ڈر سے لباس میں فضول خرچی سے اپنے آپ کو بچایا حالانکہ وہ اس پر قادر تھا تو کل قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے اس کو بلائے گا اور جنت کے زیورات میں سے جو وہ چاہے گا اس کو پہنایا جائے گا۔ (ترمذی ۲۴۸۳)
٭ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم اکی خدمت میں گندے کپڑے پہنے ہوئے حاضر خدمت ہوا۔ آپ انے فرمایا : کیا اس شخص کو کوئی چیز نہیں ملی کہ یہ اپنے کپڑے دھوسکے؟ (نسائی، مسند احمد)
غرضیکہ حسب استطاعت فضول خرچی کے بغیر اچھے وصاف ستھرے لباس پہننے چاہئیں۔

گیارہواں باب : لباس کے متعلق آپ ﷺ کی بعض سنتیں :
دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت ہے:
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم اجب قمیص زیب تن فرماتے تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔ (ترمذی ج۱ص۳۰۲) اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے ۔

نیا لباس پہننے کی دعا:
٭ حضرت ابو سعید الخدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم اجب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے عمامہ یا قمیص یا چادر پھر یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہِ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہُ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ اے میرے اﷲ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ابو داؤد، ترمذی)

پائجامہ پہننے کا طریقہ:
٭ آپ ا کی تعلیمات میں ہے کہ پائجامہ /شلوار بیٹھ کرپہنیں۔ بعض احادیث ضعیفہ میں کھڑے ہوکر پائجامہ وغیرہ پہننے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے مثلاً: جس نے بیٹھ کر عمامہ باندھا یا کھڑے ہوکر سراویل (پائجامہ یا شلوار) پہنی تو اﷲ تعالیٰ اسے ایسی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا جس کی کوئی دواء نہیں۔۔ یہ حدیث شیخ شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒنے اپنی کتاب "کشف الالتباس فی استحباب اللباس" میں ذکر کی ہے۔ ہمارے علماء کرام ہمیشہ احتیاط پر عمل کرتے ہیں ، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنا پائجامہ وغیرہ بیٹھ کر پہنیں اگرچہ کھڑے ہوکر پہننا بھی جائز ہے۔

بالوں کی چادر:
٭ حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم اجب ایک مرتبہ صبح کو مکان سے تشریف لے گئے تو آپ اکے بدن پر سیاہ بالوں کی چادر تھی۔ (شمائل ترمذی )

بارہواں باب : ریشمی لباس کے متعلق آپ ﷺ کے ارشادات :
ریشمی لباس پہننا مردوں کے لئے حرام ہے، البتہ ۲ یا ۳ یا ۴ انگل ریشمی حاشیہ والے کپڑے مردوں کے لئے جائز ہیں۔ نیز خارش اور کھجلی کے علاج کے لئے ریشمی لباس کا استعمال مردوں کے لئے جائز ہے۔
٭ حضرت عمر فاروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: جس مرد نے دنیا میں ریشمی کپڑے پہنے وہ آخرت میں ریشمی کپڑوں سے محروم کردیا جائے گا۔ (بخاری، مسلم)
٭ حضرت عمر فاروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: دنیا میں صرف وہی مرد ریشمی کپڑے پہن سکتا ہے جس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ (بخاری، مسلم)
٭ حضرت ابوموسی اشعری ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: ریشمی کپڑے اور سونے کے زیورات میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔ (ترمذی ۱۷۲۰)
٭ حضرت عمر فاروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ریشم کے پہننے سے منع فرمایا ہے مگر ایک یا دو یا تین یا چار انگلیوں کی مقدار۔ (بخاری/اللباس ۵۸۲۹، مسلم /اللباس والزینہ ۲۰۶۹)
٭ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے حضرت زبیر ؓ اورحضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو خارش کے علاج کے لئے ریشم کے کپڑے پہننے کی اجازت عطا فرمائی۔ (بخاری، مسلم )

تیرہواں باب : لباس میں کفار ومشرکین سے مشابہت :
نبی اکرم انے عمومی طور پر (یعنی لباس اور غیر لباس میں) کفارو مشرکین سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ نبی اکرم اکا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے : جس نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہوجائے گا۔ (ابو داؤد ۴۰۳۱)
لباس میں مشابہت کرنے سے خاص طور پر منع فرمایا گیا ہے:
٭ حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم انے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے اس کو نہ پہنو۔ (مسلم ۲۰۷۷)
٭ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ نے آذربائیجان کے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ عیش پرستی اور مشرکوں کے لباس سے بچو۔ (مسلم ۲۶۰۹)

چودہواں باب : مردوں اور عورتوں کے لباس میں مشابہت :
٭ حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: اﷲ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں سے (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتے ہیں، اسی طرح لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتی ہیں۔ (بخاری)

پندرہواں باب : پینٹ وشرٹ اور کرتا وپائجامہ کا موازنہ :
جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے کہ لباس میں اصل جواز ہے، انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے مطابق چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے، ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ کفار ومشرکین کا لباس نہ ہو۔ پینٹ وشرٹ یقینا مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے لیکن اب یہ لباس عام ہوگیا ہے چنانچہ مسلم اور غیرمسلم سب اس کو استعمال کرتے ہیں۔ لہذا پینٹ وشرٹ مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ استعمال کرنا بلا کراہیت جائز ہے، البتہ پینٹ وشرٹ کے مقابلے میں کرتا وپائجامہ کو چند اسباب کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے۔

۱) کرتا وپائجامہ عموماً سفید یا سفید جیسے رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ پینٹ وشرٹ عموماً رنگین ہوتی ہیں۔ احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ اﷲ جل شانہ کے حبیب نبی اکرم ا سفید پوشاک زیادہ پسند فرماتے تھے، نیز عام طور پر آپ ا کا لباس سفید ہی ہوا کرتا تھا۔
۲) قیامت تک آنے والے انسانوں کے نبی حضور اکرم ا کو قمیص بہت پسند تھی۔ نبی اکرم اکی قمیص کے جو اوصاف احادیث میں ملتے ہیں وہ شرٹ کے بجائے موجودہ زمانے کے کرتے (ثوب /قمیص) میں زیادہ موجود ہیں۔
۳) اگرچہ اس وقت پینٹ وشرٹ کا لباس مسلم وغیرمسلم سب میں رائج ہوچکا ہے لیکن ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پینٹ وشرٹ کی ابتداء مسلم کلچر کی دین نہیں جبکہ کرتہ وپائجامہ کی بنیادیں نبی اکرم اکے زمانے سے ہیں، کرتا یعنی نبی اکرم اکے قمیص کا ذکر کرچکا ہوں، جہاں تک پائجامہ کا تعلق ہے تو نبی اکرم اہمیشہ تہبند کا استعمال فرماتے تھے۔ نبی اکرم اپائجامہ استعمال کیا یا نہیں اس کے متعلق بعض محققین نے اختلاف کیا ہے لیکن تمام محققین ومحدثین وفقہاء وعلماء متفق ہیں کہ آپ انے پائجامہ خریدا تھااور صحابۂ کرام آپ اکی اجازت سے پائجامہ پہنتے تھے۔
۴) کسی بھی زمانہ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں علماء وفقہاء کی جماعت نے پینٹ وشرٹ کو اپنا لباس نہیں بنایا۔

﴿وضاحت﴾:
٭ موجودہ زمانہ کے پائجامہ اور صحابۂ کرام کے زمانے کے پائجامہ میں فرق ممکن ہے مگر دونوں کی بنیاد واساس ایک ہونے کی وجہ سے انشاء اﷲ فضیلت حاصل ہوگی جیساکہ صحابۂ کرام اور موجودہ زمانہ کی مساجد میں ضرور فرق ملے گا مگر بنیاد ومقاصد ایک ہونے کی وجہ سے موجودہ زمانہ کی مساجد کو وہ فضیلت ضرور حاصل ہوگی جس کا تذکرہ نبی اکرم اکی زبان مبارک سے ہوا ہے۔
٭ کسی معین شخص کے تنگ پائجامہ کا کسی معین شخص کی کشادہ پینٹ سے موازنہ کرکے فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ عموماً پینٹ پائجامہ کے مقابلہ میں تنگ ہوتی ہے اور جسم کی ساخت کے حساب سے بنائی جاتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پاک سنتوں کے مطابق لباس پہننے والا بنائے۔
 
Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 25 Articles with 30968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.