نیا جو سال آیا ہے

آج جب میں یہ کالم سپردِقرطاس کر رہی ہوں تو میرے سامنے رواں سال کا آخری سورج ڈوب رہا ہے، چند گھنٹوں کے بعد ہم ۲۰۱۵ میں داخل ہو جائیں گے ۔وقت کس رفتار سے گزرتا ہے اس کا اندازہ آج غروب آفتاب کو دیکھ کر ہوا جوکہ۲۰۱۴ کاآخری منظر تھا۔اب پھراس کے بعدایک نئے سال کا سورج طلوع ہو گا ،اک نئی امید ،اک نئی زندگی اور اک نئی امنگ کے ساتھ ۔رات اور دن کا پھیر زندگی کے غم و خوشی کو ظاہر کرتا ہے اورسپیدۂ سحر کا نمودار ہونا ایک نئی زندگی کے ظہور کا اعلامیہ ہے، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ ہر سنگین رات کا اختتام ایک روشن صبح پر ہوتا ہے ،رات جس قدر ابرآلود اور سیاہ ہوتی ہے صبح اسی قدر حسین ہوتی ہے اور رات جتنی بھی سنگین ہوتی ہے بسا اوقات اس کی صبح اتنی ہی رنگین ہوتی ہے ، اس لیے پر امید رہنا چاہیئے کیونکہ خدا کو پر امید لوگ بہت پسند ہیں ،اور بحثیت مسلمان ہمارا اعتقاد ہے کہ جو بھی ہوتا ہے ہمارے فائدے کے لیے ہوتا ہے اور اس رب ذوالجلال کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا ۔یہ یقین کم و بیش تمام مذاہب میں موجود ہے ۔کہ اس کائنات کے نظام کو چلانے والا کوئی نہ کوئی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں کوئی نہ کوئی شے ہے اور اس کا یقین آسمانی تعلیمات سے حق الیقین کے درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔مگر آج ہماری آس کا دیایاس کی آندھیوں میں تھرتھرا رہا ہے ۔

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ آج ہمارے وطن عزیز کی ملکی و قومی سالمیت داؤ پر لگ چکی ہے ، اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے ہم ان دیکھے دشمنوں میں گھر چکے ہیں ،قیافے لگانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے مگر در حقیقت ہم مصلحت کے لبادھے میں اپنے مفادات کا بیوپار کرتے ہیں ۔گزشتہ سال کیا کھویا کیا پایا ۔۔بظاہر یہ عام سا سوال لگتا ہے مگر آج یہ سوال کسی کو بھی درد میں مبتلا کر سکتا ہے اور کسی کو بھی جوش و غصہ دلانے کو کافی ہے ۔کیونکہ ہم نے صرف کھویا ہی کھویا ہے ،سیاسی جنگ ،مبہم اور ناکام حکمت عملیوں نے پورے سال کو عوام کے لیے سزا بنا دیا ۔مگر مقام افسوس تو یہ ہے کہ آج کوئی بھی پشیمان نہیں ہے ۔لیکن دیکھا جائے تو سبھی پریشان ہیں۔ان گنت سوالات ہماری آنکھوں میں ہیں مگر لب آزاد نہیں ہم آج بھی ان دیکھی ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔لیکن یہ سوالات چند افراد کے نہیں یہ اس ملک میں مقیم ہرفرد کے لب پر ہیں کہ سیاسی قائدین نے اس سال جو جو پالیسیاں بنائیں ان سے عوام کو کیا مفادات حاصل ہوئے ،جو مہ و مہر پر کمندیں ڈالنے کے دبنگ بانگ وعدے کئے گئے ان سے کتنے غریبوں کے گھروں میں دیپ جلے ،جو وعدے اقتدار سنبھالتے وقت کئے گئے تھے ان میں سے کیا کوئی ایک بھی پائیہ تکمیل تک پہنچ سکا ،سیاسی انتشار سے عوام کو کیا فائد حاصل ہوا ،ہم نے کس میدان میں ترقی کی ،عوام کے بنیادی مسائل میں سے کس کا حل نکالا گیا ،بنیادی سہولیات زندگی میں سے کونسی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنائے گیا ۔درد و کرب اور دہشت و خوف کا شکار متاثرین کے لیے اب تک کیا کیا گیا ہے ،آئی ڈی پیز کے لیے کونسے نتیجہ خیز اور معقول انتظامات کئے گئے ہیں جن کی موجودگی میں وہ دوبارہ اپنی زندگیوں کو وہیں سے شروع کر سکتے ہیں جہاں سے تان ٹوٹی تھی ۔سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کیا کیا گیا ہے ۔غربت کے خاتمے کے لیے جو اہداف مقرر کئے گئے تھے وہ کہاں تک حاصل ہو سکے ہیں ۔عدالتی اور قانونی نظام کو کس حد تک مؤثر اور در پردہ مفادات کے حصول سے پاک کر دیا گیا ہے ۔اور سب سے اہم اور ضروری سوال حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے تحفظ عامہ کے لیے مل بیٹھ کر جو اقدامات کئے ہیں اور جوحکمت عملیاں وضع کیں ہیں ان کی فراہمی کو کہاں تک یقینی بنایا گیا ہے ۔اس بارے کوئی بھی سربراہ یا سیاسی لیڈر بات کرتا نظر کیوں نہیں آتا کیا ہم کسی اور سانحے کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ دہشت گردی کے بادل ہمارے سروں پر منڈھلا رہے ہیں ، ہمارے تحفظ کا ضامن کون ہوگا ؟؟؟اس میں کوئی شک نہیں آج خطۂ پاک میں ہر طرف غمناکی کے بادل چھائے ہیں اور ہر گھڑی ہر دن باہر نکلتے وقت یہ ہی لگتا ہے کہ
ہر طرف دیوانگی ہاتھوں میں ہے پتھر لیے
اس فضا میں جو بھی نکلے گا مارا جائے گا

مگر اس کے باوجود ایک عالمگیر پیغام کہ اگر ہم ان پریشانیوں کی وجہ سے اور اپنی بے شمار بے ہمتیوں کے سبب مایوس ہو کر یہ ترکیب اور تدبیر چھوڑ بیٹھے تو پھر شایداب کے مؤرخ ہمارا شمار ان اقوام میں کرے جو اپنے اسلاف کے پیغام اور روشن ابواب ِ زیست کو بھول کر تاریکیوں میں ڈوب گئی ۔۲۰۱۳ کا ڈوبتا ہوا سورج اپنے بیتے ہوئے سال کو للکار رہا ہے ۔کہ اس کے بعد ایک نیا سال شروع ہوگا ،اور کہتے ہیں کہ’’ گھر کا شجرہ یہ بتاتا ہے کہ یہ گھر کبھی اجڑا نہیں ‘‘ایک جائے گا کوئی دوسرا آجائے گا ۔پاکستان زندہ قوم کے افراد کا مسکن ہے ،یہ وہی زندہ قوم ہے ،جہاں بے شمار محب وطن اور خدمت ِخلق سے سرشار لوگوں نے اس وطن کے حصول کے لیے اپنے جان و مال اور تن بدن لوٹا دئیے اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس کا وجود ممکن بنایا اس کے لئے قربان ہونے والوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ ذکر کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کسی ایسے خاموش سپاہی کا تزکرہ نہ رہ جائے کہ جس نے اس انداز میں جاں دی کہ جان دیتے وقت اس کے لبوں پر یہ کلمات تھے
کہ جان دی کہ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

تاریخِ عالم اور چشمِ فلک گواہ ہے کہ ۱۹۶۵ ء کی جنگ میں پاک افواج کے جوانوں اور سول سوسائٹی نے اس وطن کے ایک ایک انچ کے لیے اپنے جسموں کو ڈھال بنا کے اپنے خون سے اس کا تحفظ کیا ،اور پھر کسی بھی دشمن کو اپنی ناپاک نظریں اٹھانے کی جرات نہ ہوئی ،اورتب سے لیکر ابتک جہاں جہاں بھی ہمارے راہنماؤں سے غلطیاں ہوئیں با وجودیکہ ان کے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں مگر ہماری پاکستانی قوم کے جذبات ہر حادثے کے بعد کچھ یوں ہوئے جیسے کہتے ہوں’’زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ،زندگی کی طرف اک دریچہ کھلا ‘‘کہ اس وطن کے باسیوں نے امید کی ڈور کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا شکست خوردہ قوم کی طرح انتہائی مایوس نہیں ہوئے ،ان کا ہر آنے والا دن نئے جذبوں اور جوان امنگوں کے ساتھ طلوع ہوا ۔اور مسلسل اس وطن کی شان کو ہر لحظہ بلند کیا ۔آج جب ہم بیتے ہوئے سال میں واقع ہونے والے حادثات کا ذکر کر تے ہیں تو مایوسی کی بجائے ہمیں پھر یہ یقین رکھنا ہوگا کہ سالِ نو کی صبح ،بیداری کی صبح کہلائے گی اور اب قوم کے ہر فرد کی طرح ،ملک کے کرتا دھرتا لوگوں بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اب ’’بس ‘‘ کر دیں نئے سال کو اس ملک کی بقا ،سلامتی ،امنِ عامہ اور ترقی کے لیے مخصوص کر دیں ،اپنی اپنی ذات اور پارٹی کی سیاست کو وقتی طور پر محدود کر دیں ،تاکہ اس ملک میں مختلف قسم کی تقسیم اور درجہ بندیاں ،ہر طرح کی فرقہ واریت ،تمام تعصبات اور وائٹ کالر کرائمز تھم جائیں ۔تمام وہ لوگ جو کسی نہ کسی بہانے اپنے مضموم عزائم کی بنیاد پر ،سیاست میں فرقہ واریت اور گروہ بندیوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ،وہ بھی ایسی تمام حرکات سے باز آجائیں ،اب ہر کسی کا فرض ہے کہ جہاں پر جرائم اور دہشت گردیاں کرنے والوں پر نگاہ رکھنا ہے وہاں پر انتہائی ایمانداری کے ساتھ ایسی سیاسی پارٹیوں کو بھی چھوڑ دیں جن کے طریقہ ہائے کار سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہ اپنے تمام کام پارٹی اسکورنگ کے لیے کرتے رہتے ہیں ۔اب ہم سب کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ ہم جو بھی قدم اٹھائیں، جس کسی کا بھی ساتھ دیں یا یہ کہ ہمارے قلم کار جب بھی کچھ لکھیں یا تھنک ٹینک جو بھی کچھ کہیں ،سب کچھ سچائی اور دیانتداری پر مبنی ہونا چاہیئے ۔اب ہمیں معمولی مفادات کی خاطر ہر طرح کی غیر معیاری اور غیر ذمہ دارانہ حرکات ترک کر دینی چاہیئے ۔کہ مایوسی ایک واضح کفر ہے مگر یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ کہ اگر ہم اپنے وطیرے نہیں بدلیں گے تو پھر خطرہ ہے کہ یہ نئے سال کی صبح کے پر امید اور پر افزا پیغام سے ہم بہرہ ور نہ ہو پائیں گے ۔اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حالات کس چیز کے متقاضی ہیں ،غفلتوں اور مدہوشیوں کا وقت گزر چکا اب بیدار ہونے کا وقت ہے ۔اسی امید ویقین اور عزم وہمت کو میں نے اک نظم میں پرونے کی کوشش کی ہے جو پیش نگاہ ہے ۔
نیا جو سال آیا ہے
قوی امکان ہے مجھ کو
نویدِصبح کا تارہ
غموں سے دور کر دے گا
نئی خواہش نئے جزبے
نئی منزل نئے رستے
ہمیں ہر سو پکاریں گے
جو ہم بھٹکے تھے رستے سے
اسی رستے پہ چل کر ہم
فلک تک جائیں گے اک دن
خوشی سے جھوم جائیں گے
ذرا سا گنگنائیں گے
قوی امکان ہے مجھ کو
غموں سے زیست کا رشتہ
یقینا ٹوٹ جائے گا
خوشی کا دور آئے گا
نیا سورج نیا یہ دن
نیا پیغام لائے گا
نہ آنسو اب بہاؤ تم
چلو اب مسکراؤ تم
خوشی کے گیت گاؤ تم
خدا نے دن دکھایا ہے
نیا جو سال آیا ہے
Ruqqaya Ghazal
About the Author: Ruqqaya Ghazal Read More Articles by Ruqqaya Ghazal: 50 Articles with 34091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.