قیدیوں کے حقوق

پشاور کے غیر اسلامی،غیر انسانی ،ہولناک اور نہایت سفاک دہشت گردانہ واقعے کے بعدآج کل ہمارے یہاں جمہوری قوتیں بھی فوجی عدالتوں کے حق میں ایک دوسرے پر سبقت کر نے میں جُت گئی ہیں،قیدیوں کے احوال ہمارے ملک میں پہلے ہی قابل ِ رشک نہیں ہیں،اگر ہم دہشت گردی کا جواب نا انصافی اور زیادتی سے دیں گے،تو کل ہمیں انسانی حقوق اور سول سوسائٹیز کی تنظیمیں آڑے ہاتھوں لیں گی،سیکورٹی فورسز، حکومت اور عدالتیں شدید تنقید کے نشانے پر ہوں گی،ناسمجھ اور کسی حد تک محروم طبقے اغیار اور دشمنوں کے ورغلانے کے آسان شکار بن جانے کے خطرات کامزید خانہ جنگی کی صورت میں اضافہ ہوگا،نیز جنیوا کنونشن کی بعض شقوں اور دفعات کی خلاف ورزی بھی ہوگی ۔

پھرکچھ مسلم ممالک کے حالات آپ کے سامنے ہیں، جہاں خون کے سیلاب اور ظلم و ستم کی کتنی آندھیاں چل رہی ہیں، ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ کتنی عورتوں کی بے حرمتیاں کی گئیں؟ کتنے معصوم بچوں اور ضعیف بوڑھوں پرظلم کے پہاڑ توڑے گئے؟ اور کتنے مردوں اور پردہ نشین عورتوں کے حقوق کو برباد کیا گیا ، جن کا کسی بھی قسم کے جرم سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا؟

بوسنیا میں جو وحشت و بربریت کا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیاتھا، مسلمانوں پر مختلف انواع کے مظالم ڈھائے گئے تھے، باپردہ مسلمان خواتین کی جو عزتیں لوٹی گئیں تھیں، اس پر مستزاد یہ کہ مظلوم مسلمانوں سے نفرت اور ظالم عیسائیوں کے ساتھ مل کر یو این او کی افواج نے جو نہایت جانب دارانہ رویہ اختیار کیاتھا، اسے تاریخ کی آنکھ نے لمحہ بہ لمحہ محفوظ کرلیا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ ماضی میں جن ممالک نے خانہ جنگیوں کواپنی بصیرتوں اور حکمتوں کے بجائے اندھا دھند طاقت سے دبانے کی کوششیں کیں،وہ ناکام ہوئیں،وہاں مسائل کا حقیقی حل تب نکلا جب عقلمندی اور دور اندیشی کو کام میں لایا گیا۔

یہاں ہم جنیوا معاہدے کی چند دفعات کا ذکر کرتے ہیں جو حربی قیدیوں کے متعلق ہیں :
دفعہ نمبر۴: دوران جنگ یا بعد تک حربی قوتوں کے شکنجے میں قید کوئی شخص جنگی قیدی کہلائے گا۔ محدود معنوں میں: وہ شخص جو منظم طور پر فوج سے تعلق رکھتا ہو، وسیع معنوں میں: وہ گوریلے اور عام شہری جو مسلح انداز میں برسرپیکار ہوں، جنگی قیدی کے زمرے میں آتے ہیں۔
دفعہ نمبر۱۲: جنگی قیدی کو تحویل میں رکھنے والی قوت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھے۔
دفعہ نمبر۱۳: جنگی قیدی کے ساتھ نرمی اور شائستگی کا رویہ رکھا جانا چاہیے۔
دفعہ نمبر۱۵: اگر جنگی قیدی بیمار یا زخمی ہو تو تحویل میں رکھنے والی قوت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اخراجات پر اس کا علاج کرائے۔
دفعہ نمبر۱۶: علاج اور دیگر امور کے حوالے سے ناروا سلوک نہ رکھا جائے بلکہ اسی نوعیت کی تکنیکی اور طبی سہولتیں فراہم کرنی ناگزیر ہوں گی جو تحویل میں رکھنے والی قوت اپنے فوجیوں کو فراہم کرتی ہے۔
دفعہ نمبر۲۲: قیدیوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے رہنے کے لئے صاف اور کشادہ جگہ فراہم کی جانی چاہیے اور انہیں کوٹھڑیوں میں ہرگز نہیں رکھنا چاہیے۔
دفعہ نمبر۲۵: اگر ہوسکے تو ان کو رہائش کے باقاعدہ کوارٹر مہیا کئے جائیں۔
دفعہ نمبر۲۶: جنگی قیدیوں کو مناسب مقدار میں غذا دی جانی چاہیے، اور تمباکونوشی کے عادی قیدیوں کو اس کی اجازت دی جانی چاہیے ۔
دفعہ نمبر۲۷: دیگر بنیادی ضرورتوں میں جنگی قیدیوں کے کپڑوں، جوتوں اور زیرجامہ کا خیال رکھنا چاہیے۔
دفعہ نمبر۲۸: جنگی قیدیوں کے ہر کیمپ میں کینٹین کی سہولت مہیا ہونی چاہیے۔
دفعہ نمبر۴۱: ہر قیدی کیمپ میں جنیوا کنونشن کا متن، ضمیمے اور کوئی دوسرا معاہدہ جو قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے ہو،قیدیوں کو سمجھ میں آنے والی زبان میں موجود ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنے لئے بنائے گئے بین الاقوامی قوانین کا مطالعہ کرسکیں۔
دفعہ نمبر۷۷: جنگی قیدیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقدمات کے سلسلے میں وکلاء سے بالمشافہ ملاقات کریں اور تحویل میں رکھنے والی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے، کہ قیدیوں کو یہ سہولت فراہم کرے۔

مذکورہ بالا تمام دفعات جنیواکنونشن کا حصہ ہیں، جو اقوام متحدہ کے دستور میں شامل ہے۔ امریکہ اور اس کے تمام حلیف ہمیشہ اس تنظیم کے قوانین، معاہدوں اور فیصلوں کو رکن ممالک میں نافذ کرنے کے لئے ڈھنڈورے پیٹتے رہتے ہیں، اگر چہ خود عمل کے لحاظ سے صرف صفر ہی نہیں، بلکہ انہیں روند ڈالنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھتے، نیٹ میں کیوبا اور ابو غُریب کے قیدیوں پر گذرنے والے احوال کا مطالعہ و مشاہدہ فرمائیے، اندازہ ہوجائے گا کہ ان استعماری قوتوں کے قول وعمل میں کتنا بڑا زمین وآسمان کا تفاوت ہے۔

بہرحال9/11 کے بعد ذرہ بنظرِغائر واقعات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ امریکہ پر اپنے تکبر اور غرور کے زعم میں ایک جنون سوار ہوچکا ہے۔ اس نے افغانستان جیسے پسماندہ، مصیبت زدہ اور زخموں سے چور چور ملک پر بغیر کسی دلیل کے حملہ کیا اور ہر قسم کے ہتھیار چاہے وہ کیمیاوی ہوں یا غیر کیمیاوی، استعمال کئے اور دورانِ جنگ بنی نوعِ انسان میں کوئی بھی تمیز کی نہ ہی عسکری مقامات اور مساجد اور اسپتالوں میں کوئی فرق ملحوظ خاطر رکھا بلکہ اندھا دھند بمباری جاری رکھی۔ دورانِ جنگ تسلیم ہونے والے افراد کو جنگی قیدی بنایا اور تین سو کے لگ بھگ قیدیوں کو انتہائی بدتر حالت میں گوانٹانا مو جزیرے میں منتقل کردیا۔ امریکیوں نے ان قیدیوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈالیں ان کی ڈاڑھیوں کو مونڈھا اور ان کے ہاتھوں کو پشت کی طرف سے باندھ دیا، ان کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ کر ان پر کالی عینکیں چڑھا دیں ان کے کانوں کو روئی سے بھردیا اور پھر ان کو ایسے پنجروں میں رکھا جو طول وعرض میں بھی ان سے چھوٹے اور ناکافی تھے۔نتیجتاً امریکہ کو پھر بھی شکست وہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔

بات یہ ہے کہ جب غصہ جنون میں تبدیل ہو جائے، وہاں عقل کی کوئی قیمت نہیں رہتی، پاگل پنے کی دہلیز پر تمام قاعدے کلیے اخلاقی اقدار بین الاقوامی قوانین، معاہدے اور دساتیر ذبح کردئیے جا تے ہیں ،یوں ان تمام معاہدوں کی دفعات اور شقیں کسی بھی معنی اور مقصد سے کھوکھلی ہوکر رہ جاتی ہیں۔

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’تمہیں کسی قوم سے بغض وعداوت بے انصافی پر مجبور نہ کریں،انصاف کرو،وہی تقویٰ کے قریب تر ہے‘‘۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 817550 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More