جامعہ نصرة الاسلام گلگت، ایک جھلک

جامعہ نصرة الاسلام گلگت بلتستان کا اولین دینی ادارہ ہے۔گلگت بلتستان پاکستان کے انتہائی شمال میں ایک بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے۔ یہاں طائفہ منصورہ کے ساتھ طوائف ضال کی کثرت ہے۔گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ مواصلاتی تعلق بہت کمزور ہے جس کے وجہ سے پاکستان کی بڑی شہر و ں سے اس علاقے کا رشتہ تقریباً کٹا ہوا ہے۔ اس دورافتادہ علاقے میں جامعہ نصرة الاسلام کے نام سے ایک ادارہ گزشتہ ساٹھ سالوں سے دینی و ملی خدمات انجام دے رہا ہے ۔جامعہ نصرة الاسلام بھی پاکستان بھر کے دینی اداروں کی طرح، دینی درس گاہوں کے اس مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو خطہء برصغیر میں اللہ کے کچھ برگزیدہ بندوں نے انگریزی استعمار کے ظلم و ستم اور تاریک رات میں دین کی شمعیں روشن رکھنے کے لئے قائم کیا تھا۔ اس سلسلة الذہب کا اولین ادارہ ''دارالعلوم دیوبند ہندوستان'' ہے جس کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحم اللہ علیہما اور ان کے رفقائِ کار ہیں ۔ انہوں نے برصغیر کی آزادی کے لیے بدیسی استعمار کے خلاف جہاد میں بنفس نفیس حصہ لیا تھا۔جامعہ نصرة الاسلام بھی دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم سہارنپور، جامعہ امینیہ دہلی،دارالعلوم ندوة العلمائ، مدرسہ رحیمہ، الجامعة العلوم الاسلامیة بنوری ٹاؤں، جامعہ دارالعلوم کراچی، جامعہ فاروقیہ کراچی، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی طرح ایک خالص دینی و علمی ادارہ ہے جو اکابرعلمائے کرام کی منہج و فکر کو لے کر چل رہا ہے۔

دارالعلوم دیوبند اور اس کے ہم مزاج و ہم مسلک و مشرب مدارس کا ایک ہی موٹو ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ۖ کا لایاہوا دین اپنی صحیح شکل و صورت میں محفوظ مل جائے۔اس کے لیے یہ دینی مدارس قائم ہوئے اور جامعہ نصرة الاسلام بھی انہی میں ایک ہے۔ اس طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحم اللہ علیہ کا لگایا ہوا چمن ہمیشہ باغ و بہاراں اور سرسبز و شاداب رہے ۔دارالعلوم دیوبند سے علم و فضل، علمی تبحر، اتباعِ سنت اور زہد و تقوی کے جو آفتاب و ماہتاب نمودار ہوئے ان کے پاکیزہ کردار سے صحابہ و تابعین کی حسین یادیں تازہ ہوجائیں۔

جامعہ نصرة الاسلام کا قیام حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء نے انتہائی بے سروسامانی کے ساتھ 1953میں شہر گلگت کے ایک صحراء ''کنواداس'' میں رکھا۔ ابتداء ً انجمن نصرة الاسلام کے نام سے کام شروع کیا گیا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گلگت بلتستان میں تین بڑے فرقے، اسماعیلی، اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت بستے ہیں، اٹھائیس ہزاروں مربع میل پر پھیلے اس علاقے میں ایک اور فرقہ نوربخشی کے نام سے بھی موجود ہے۔ ان کی تعداد بہت کم ہے۔چنانچہ اہل تشیع حضرات نے پاکستان ،ایران اور دیگر خلیجی ممالک میں اپنے ہم مسلک لوگوں، این جی اوز، رفاہی اداروں اور حکومتوں سے روابط پیدا کیے۔ جوا نہیں تعلیمی، سیاسی، مذہبی،اور دیگر امور میں سپورٹ کررہے ہیں۔ اسماعیلیوں کی بھی گلگت بلتستان میں خاطر خواہ تعداد ہے۔ ان کا مذہبی پیشواشاہ کریم آغان خان پیرس میں مقیم ہے۔شاہ کریم آغاخان نے گلگت بلتستان کے اسماعیلیوں کی ہر قسم کی معاونت عرصہ دراز سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے بنوائے ہیں۔جگہ جگہ سکول اور کالجز کا اہتمام کیا ہے۔بہترین صحت کے ادارے بنوائے ہیں۔رفاہی ، ثقافتی اور دیگر طریقوں سے زندگی کے ہر شعبے میں انہیں سپورٹ کی جاتی ہے۔اور گلگت بلتستان کو اسماعیلی ریاست بنانے کی تیاریاں مکمل کی گئی ہیں۔بہت کم عرصے میںدور فاطمی کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ اور چوتھا طبقہ نوربخشی ہے۔ ان کی حالت بھی کوئی سازگار نہیں۔انہی حالات میں فاضلین دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق رحمہ اللہ کی سرپرستی میں جمع ہوئے اور چار سوکنال سے زائد رقبہ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔قاضی عبدالرزاق کے رفقاء کار میں مولا نا گل شیرخان ، مولانا نذیراللہ خان، مولانا حبیب اللہ دامت فیوضہم، مولانا لقمان حکیم حفظہ اللہ اور دیگر علماء تھے۔ تمام ترمالی بے بضاعتی اوربے مایہ گی کے باوجود اس تین سول کنال اراضی پر ابتدائی طور پر دو بلاک پر مشتمل ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی گئی۔ اہل سنت عوام کے لیے ایک بڑا عیدگاہ بھی تعمیر کروایا گیا جو آج تک مرکزی عیدہ گاہ کے طور پر استعمال میں ہے۔ اسی اراضی میں ایک اجتماعی قبرستان بھی بنایا گیا جہاں اہل سنت عوام اپنے مرحومین کو دفناتے ہیں۔ دس کنال اراضی تبلیغی جماعت کو گلگت بلتستان کا مرکز بنانے کو دیا گیا جہاں آج ایک بڑی مسجد اور عمارت تعمیر کے مراحل سے گزرکر تیار ہے۔ اب بھی جامعہ کے پاس جامعہ کی حدود سے لے کر پہاڑی کے آخری سرے تک ہزاروں کنال سے زیادہ کی زمین موجود ہے۔جس میںوسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعمیراتی کام آہستہ آہستہ جاری ہے۔ اس اولین پرانی دو بلاکوں پر مشتمل عمارت میںگلگت بلتستان کے دوردراز دیہاتوں سے گلگت آکر عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل کا انتظام کیا گیا۔ یہ غریب طلبہ دن کو سکول وکالج جاتے اور باقی سارا وقت جامعہ کے ہاسٹل میں رہ کر تعلیم و تربیت سے اراستہ ہوجاتے۔ قاضی عبدالرزاق رحمہ اللہ کے ہونہار شاگر مولانا حبیب اللہ حفظہ اللہ(فاضل دارالعلوم دیوبند) اس ہاسٹل کے اولین ناظم مقرر ہوئے۔ یہ سلسلہ 1984ء تک چلتا رہا۔

جامعہ نصرة الاسلام میں درس نظامی کا آغاز
1984ء کو قاضی عبدالرزاق نے اپنے رفقاء ایک ایمرجنسی میں میٹنگ بلوائی اورایک طویل مشاورت کے بعد توکل علی اللہ کرکے اس پرانی عمارت میں ایک استاد اور کچھ طلبہ کے ساتھ باقاعدہ درس نظامی کا آغاز کیا گیا اور مولانا نذیراللہ خان کو مہتمم اول مقرر کیا اورمولانا گل شیر خان نائب مہتمم اور مولانا لقمان حکیم کو ناظم تعلیمات مقرر کیا ۔

جامعہ نصرة الاسلام ،صدیقی ٹرسٹ کے تعاون خصوصی اور مخیر حضرات کی صدقات، فطرات سے باقی ماندہ زمین پر کچھ اساتذہ کے مکانات اور جامعہ نصرة الاسلام کے طلبہ ونگ کے لیے ایک ہاسٹل 32کمروں پر تعمیر کیا گیا جو کچی تعمیرات پر مشتمل ہیں۔ شکراللہ سعیہ و جزاہ فی الدارین خیر الجزائ۔ اللہ تعالی ان کو دارین کی جزائے خیر عطا فرمائے۔

جامعہ نصرة الاسلام گلگت، گلگت بلتستان کا سب سے بڑا اور قدیم دینی ادارہ ہے۔ یہی وہ مدرسہ ہے جس نے گلگت بلتستان کے غریب طلبہ کو اپنے دامن میں جگہ دی اور تعلیم و تربیت سے آراستہ کی۔الحمد اللہ پورے گلگت بلتستان کے عوام نے اس جامعہ سے استفادہ کیا اور اس جامعہ میں تعلیم و تربیت پانے والے سینکڑو ںعلمائ، فضلا، محدث ،مفسر، فقیہ و ادیب، قاضی و مفتی، حفاظ و قراء ،زہاد واتقیائ، امام و مؤذن،سرفروش مجاہدین اور مبلغین اسلام تیار ہوکر پورے علاقے میں ہر لمحہ دین کی حفاظت و اشاعت میں نمایاں حصہ لے رہے ہیں، یہ مرکزِ علم و حکمت اور فکر و دانش ، اس الحادی و مادی علاقے میں ایک روشن مینار ہے جس کی شعاعیں پورے گلگت بلتستان م میں پھیل رہی ہیں۔ اور یہاں کے تربیت یافتہ پاکستان کے مختلف علاقوں اور عرب ممالک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مہتمم اول مولانا نذیراللہ خان کے انتقال کے بعد ان دونوں جامعات کا تمام تر نظم و نسق اور اہتمام قاضی عبدالرزاق کے فرزند ارجمند قاضی نثاراحمد حفظہ اللہ ورعاہ سنبھالے ہوئے ہیں۔اور ہم جیسے کم علم و کوتاہ عمل بھی دامے درمے قدمے سخنے اس جامعہ کی آبیاری میں اپنا حصہ بقدر جثہ شامل کررہے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ یہ جامعہ پھلے پھولے اور چہار سو یہاں سے دین، دنیا اور محبت و مودت کے چشمے پھوٹے اور نور کی شمعیں روشن ہوں۔

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 385742 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More