مولانا محمدضیاء القاسمی رحمۃ اﷲ علیہ ۔ایک عہدآفرین شخصیت

(یوم وفات 27دسمبر پر خاص مضمون)
مجدّدِ خطابت،خطیب ِاعظم حضرت مولانا محمدضیاء القاسمی رحمۃ اﷲ علیہ ۔ایک عہدآفرین شخصیت

آفتاب خطابت ،مجدّدِ خطابت،مخدوم العلماء،خطیب اسلام حضرت اقدس مولانا محمدضیاء القاسمی نورﷲ مرقدہ ان گنے چنے افراد میں سے ہیں جو دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی آج تک دلوں سے نہ جا سکے اور نہ شاید کبھی جاسکیں۔ آپ ایک عہد آفرین شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

مولانا نے 1937ضلع جالندھر میں بزرگ عالمِ دین مولانا عبد الرحیم کے گھر آنکھ کھولی،جو اپنے علاقہ میں احیاء دین کا کام کرتے تھے،ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا دین کی تعلیم حاصل کرے،انہوں نے اپنے ہونہار فرزند کوگھر میں قرآن مجید اور عربی ،فارسی کی ابتدائی کتب خود پڑھائیں۔ابھی دس سال کے تھے کہ قیام پاکستان اور ہجرت کے ہنگاموں میں والد گرامی جالندھر کیمپ ہی میں وفات پاگئے۔(اناﷲ واناالیہ راجعون)معصوم اور مہاجر بچوں کوکیا علم تھا کہ یتیمی کیا ہوتی ہے۔ والدہ محترمہ ان یتیم بچوں کو لے کربیوگی کے عالم میں پاکستان کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے قریبی گاؤں 474 گ،ب میں اپنے عزیزوں کے پاس پہنچ گئی ۔اور مولانا کو گاؤں کے پرائمری سکول میں داخلہ دلوا دیا،پرائمری پاس کی تو والدہ محترمہ نے مرحوم شوہرکی خواہش کی تکمیل کے لئے ہونہار بیٹے کودینی تعلیم کے لیے مدرسہ اشاعت العلوم فیصل آبادمیں داخل کروادیا۔ذہین و فطین تھے جلد ہی اساتذہ میں معروف ومقبول ہوگئے،دوران تعلیم ہی تقریر کا منفرد انداز تھا ،مدرسہ کے مہتمم مفتی سیاح الدین کاکاخیل ؒبہت پسند فرماتے اور دوران تدریس اکثر تقریر سنتے اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے۔مدرسہ کے اساتذہ حج بیت اﷲ کی سعادت کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو مولانانے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں داخلہ لے لیا،جامعہ میں اپنی تعلیم مکمل کر کے دورہ حدیث کے لیے مدرسہ قاسم العلوم ملتان تشریف لے گیے وہاں محدث ِ جلیل حضرت مولانا عبد الخالق ؒ اور مفتی محمود ؒ جیسے اساتذہ سے دورہ حدیث مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی ۔1956میں دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد وقت کے سب سے بڑے سیاسی ودینی رہنماشیخ العرب والعجم السید حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی زیارت اور بیعت کے لیے دیو بند بھارت کا سفر کیا،دو ہفتہ تک حضرت مدنی ؒ کی خدمت میں سلوک اور طریقت کی منازل طے کرتے رہے۔اس نسبت سے طبعیت سے مداہنت جاتی رہی،جرأت وشجاعت،اورحق وصداقت ساری عمر شعار رہا۔

حضرت قاسمی ؒ نے تحصیل علم کے بعد جب فیصل آباد میں پہلے علاقہ مائی دی جھگی،پھر غلام محمد آبادمیں وعظ وتبلیغ کا آغاز کیا تو اس وقت یہاں دین حق کا تصور بڑی حد تک شرک وبدعت پر مبنی رسوم وروایات میں گم ہو چکا تھا۔مسلم عوام قرآن وحدیث سے کم اور پیروں فقیروں کی کرامات ،’’کچی پکی روٹی‘‘،’’ہیر رانجھا‘‘اور’’ سیف الملوک ‘‘سے زیادہ واقف تھے۔حضرت صاحب نے خوش بیانی سے دلوں کو اور قرآن وحدیث پرمبنی عمدہ استدلال سے ذہنوں کو مسخر کیا۔

اگر مجدّدِیت میں تجزّی مان لی جائے تو میں حضرت اقدس مولانا ضیاء القاسمی ؒ کواس دور کا مجدّدِخطابت کہوں گا۔آپ ؒصرف خطیب ہی نہیں بلکہ خطیب گر تھے،خطابت ہی نہیں،بلکہ فن ِخطابت میں بھی آپ کی ذات ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔حضرت صاحب ؒکی صحبت سے کئی ایک خطیب بنے۔ آپ کی خطابت میں سحر کی سی کیفیت ہوتی تھی ۔ حضرت صاحب ؒ کی تقاریر جہاں عوام کے قلوب واذھان کو جِلابخشتی تھیں ......وہیں خطباء اور مقررین کے لیے اپنے اندر کئی ایک مضامین سموئے ہوتیں تھیں۔ خطباء نے صرف آپ ؒ کے اندازخطابت ہی نہیں، بلکہ لباس، ٹوپی اور عینک تک کو بھی کاپی کیا۔ بقول مولانا عبدالرشید ارشدؒ ’ ’سات آٹھ ایسے خطباء کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔‘‘

حضرت صاحب ؒنے اپنی جرات وغیرت سے بھر پورخطابت کے ذریعہ صرف فیصل آباد ،پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں توحید ورسالت اور مدح صحابہ ؓ کی شمعوں کو روشن کیے رکھا،تحفط ختم نبوت ان کا خاص موضوع ہوا کرتا تھا، حضرت صاحب ؒایک سچے عاشقِ رسول وصحابہ اور کڑی سے کڑی آزمائش میں بھی کھری بات کہنے سے نہ رکنے والے انسان تھے ۔

آپ نے دنیا بھر میں رسول رحمت ﷺکے ’’پرچم امن‘‘اور عظمت صحابہؓ کے جھنڈے کو سر بلند کیے رکھا،برطانیہ،امریکا،کینیڈا،مصر، جرمنی،فرانس،ناروے،بنگلہ دیش،ہندوستان،عراق،سعودی عرب اورعرب امارات میں آپ نے توحید ،پیغمبر اسلام ﷺکے پیغام نبوت اور مدح صحابہؓ کواپنی دلرباء خطیبانہ آواز میں پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔جس سے متاثر ہو کر سینکڑوں غیر مسلم اسلام کی دولت سے مالاما ل ہوئے اور وہ آج بھی دین کی محنتوں میں مصروف ہیں۔

حضرت صاحب ؒ فتنہ فساد کے اس دور میں ،جبکہ امت مسلمہ دینی تنزل اور انحطاط کا شکارہے ،جہاں تعلیم وتدریس اور وعظ وارشادکی نمایاں خدمات سرانجام دے رہے تھے وہاں آپ نے عملی سیاست میں بھی قدم رکھا اور سیاسی آلائشوں سے پا ک رہ کر ایک قابل قدر اور محرک کردار ادا کیا ۔اور مختلف ادوار میں بطور،سیکرٹری جنرل جمعت علماء اسلام پنجاب مفتی محمود صاحب کی قیادت میں، سیکرٹری جنرل سواد اہل سنت پاکستان،سیکرٹری جنرل مجلس ختم نبوت پاکستان،مرکزی نائب صدر انٹرنیشنل ختم نبوت ورلڈ،چیئرمین سپریم کونسل سپاہ صحابہ پاکستان ،کے پلیٹ فارم سے اسلام کی اشاعت کے لیے تاریخ ساز جدو جہد کی ۔اور خصوصاًجب تحریکِ مدح ِصحا بہ ؓ و رَدّ ِ قَدْح ِصحابہؓ پرجب گرم ہوا کا جھونکا آیا توبہت سارے حضرات سنی کنونشوں سے آگے نہ بڑھ سکے ۔کچھ کو تحریک کے طریقہ کارسے اختلاف ،اورکچھ کو تحریک کے پُرجوش کارکنوں کا، بہانہ ہاتھ آگیا ۔ مگر حضرت قاسمی صاحبؒ نے تحریک پرلیہ کی کانفرنس اورامیر عزیمت ؒسے میانوالی جیل میں ملاقات کے وقت سے جومشفقانہ اور مدبرانہ ہاتھ رکھا، توتا حیات اس کو نبھایا۔ اورکوئی بھی ایسا اسلامی شعبہ نہیں جس میں آپ کی تاریخ ساز جدو جہد اور سرپرستی شامل نہ ہو ۔

آپ اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے اگرچہ تصنیف وتالیف کی طرف توجہ نہ دے سکے لیکن پھر بھی اپنے قیمتی اوقات میں سے چند لمحات نکال کر’’خطبات قاسمی چھ جلدیں‘‘ جس کے متعلق حضرت فاروقی شہیدؒ لکھتے ہیں کہ’’قاسمی صاحب نے اپنے جگر کے سارے ٹکڑے اس میں جمع کر دیے ہیں‘‘ ،’’مولاناحق نواز شہید ؒ کی حیات وخدمات‘‘ ،’’میرے شیخ القرآنؒ ‘‘(شیخ القرآ ن حضرت مولانا غلام اﷲ خانؒکی حیات پر مستند رسالہ ہے) اور چند دیگر رسائل آپ کی تصنیفی قابلیت کی منہ بولتی تصویر ہیں۔

حضرت صاحب ؒ کی گوناگوں اور متنوع دینی خدمات کو اﷲ تعالیٰ نے حسن قبول عطا فرمایااور بے شمار بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دی۔وہ ان سے قربت وتعلق ہی نہیں محسوس کرتے بلکہ ان کے شیفتہ اور گرویدہ ہیں۔ان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 29دسمبر2014کو 14سال پورے ہو جائیں گے۔مگرآپ کی روحانی وحقیقی اولادکی تبلیغی کوششیں اورآپ کے جاری کردہ علم وادب کے شیرین چشمے اب بھی انسانیت کی دینی و علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔اور اب حضرت صاحب جانشین حضرت مولانا صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی صاحب (جنرل سیکرٹری ختم نبوت مومنٹ پاکستان وکوآرڈینیٹر I.B.Mوزارت ِاوقاف و مذہبی امور پنجاب )نے ایک قدم آگے بڑھ کر جامعہ قاسمیہ میں شعبہ بنات اور گول جامع مسجدسے متصل پبلک لائبریری اور قاسمیہ ڈگری کالج برائے خواتین قائم کرکے اس کار خیرکو جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ سب سلسلے حضرت صاحب کے لیے ذخیرہ آخرت ثابت ہونگے۔(انشاء اﷲ)۔
Hafiz Ikram Ul Haq
About the Author: Hafiz Ikram Ul Haq Read More Articles by Hafiz Ikram Ul Haq: 4 Articles with 4072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.