اظہار ہمدردی یا معاشرتی بے حسی کا پرچار

خدانخواستہ اگر آپ کسی حادثے میں زخمی ہو جائیں یا آپ کا کوئی قریبی شخص حادثاتی موت کا شکار ہو جائے تو آپ کی کوشش ہوگی کہ لگنے والا زخم جلدی ٹھیک ہو جائے یا جو شخص انتقال ہوا ہے اس کے غم کو بھلا دیا جائے- لیکن اگر کوئی شخص روزانہ آپ کے پاس آکر بیٹھ جائے ہو اور گپ شپ میں آپکے زخم پر نمک مرچ ڈالتا ہو یا پھر نئے سرے سے زخم کو تازہ کرتا ہو اور جاں بحق ہونیوالے شخص کی اچھی یا بری باتیں روزانہ آپ کو یاد دلاتا ہو تو آپ کیا سوچیں گے- یہی کہ یہ شخص پاگل ہے جو میرے ذہن کو تازہ کرتا ہے بلکہ مجھے مزید اذیت میں بھی مبتلا کرتا ہے-ان حالات میں آپ کی کوشش ہوگی کہ ایسے شخص سے دور رہا جائے جو آپ کے زخموں کو تازہ کرنے کے چکر میں ہو-کچھ یہی حال ہماری میڈیا اور خصوصا الیکٹرانک میڈیا کا بھی ہے - سولہ دسمبر 2014 ء کو پیش آنیوالے اندوہناک واقعے کی رپورٹنگ کچھ ا س انداز میں کی جارہی ہیں کہ اس واقعے سے متاثر ہونیوالا ہر شخص اپنے زخم بھول نہیں رہااور حال یہ ہے کہ روزانہ کی نیوز بلیٹن/ اخبارات میں نئے نئے کیریکٹر ڈھونڈے جارہے ہیں اوران پر نئی نئی کہانیاں چھپ رہی ہیں جسے پورا ملک پڑھ رہا ہے - اذیت کے اس احساس کورپورٹ کرنا بھی میڈیا کی ذمہ داری ہے لیکن آج کل میڈیا کچھ حد سے زیادہ ہی یہ ذمہ داری پوری کررہا ہے اس کے ذمہ دار کیا فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی ہیں یا میڈیا دفاتر میں بیٹھے ہوئے چند افراد یا پھر اس ملک کے بیشتر شہری-

پشاور میں پیش آنیوالے سولہ بارہ چودہ کے افسوسناک واقعے کے بعدہر ایک اخبار/ ٹی وی چینل نئے انداز سے رپورٹنگ کررہا ہے - روزانہ کے بلیٹن / چھپنی والی خبروں میں میں موم بتیوں کے جلانے کا ذکر ٗ مرنے والے بچوں کی ماؤں کی آہ و بکا ریکارڈ / شائع کرکے کیا صحافی اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں- یقیناًنہیں اس واقعے کو دو ہفتے گزرجانے کے باوجود آج بھی اس سکول میں آنے جانیوالوں کا تانتا لگا ہوا ہے-آنے جانیوالے والوں میں زیادہ تر معصوم بچے اور خواتین شامل ہیں-میں نے ذاتی طور پر ایسی خواتین بھی دیکھی ہیں جو کہ حاملہ تھی اور اس حالت میں شوہر کے ہمراہ اس مقام کو دیکھنے کیلئے آئی تھی-ایسے خاندانوں کے گروپ بھی دیکھے جو گاڑیوں میں بھر کرآئے جیسے یہ سکول کسی ٹرپ کی جگہ ہو-ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو موبائل فون کسی شخص کو دیکر کہتے ہیں کہ فیس بک کیلئے میری تصویر اس جگہ پر بناؤ- شائد سکول میں آنا ان کیلئے بڑے اعزاز کی بات تھی-

گذشتہ روز ایک سرکاری صحافی سے سال میں دوسری مرتبہ ملاقات ہوئی جو پریس کلب کے انتخابات کے سلسلے میں ووٹ مانگنے کیلئے آئے - موصوف نے زور سے گلے ملتے ہوئے کہا کہ جناب آپ کی وہ ویڈیو مجھے بہت پسند ہے جس میں آپ آرمی پبلک سکول میں رپورٹنگ کرتے ہوئے رو پڑے ہیں برائے مہربانی آپ اس ویڈیو کو فیس بک پر شیئر کیجئے- بڑی مزیدار ویڈیو ہے- اس بے حسی کے مظاہرے پرمیں اسے دیکھتا رہ گیا کہ اسے کیا جواب دوں ٗ لوگوں کو وروتے ہوئے دیکھنا شائد ہماری فطرت بن گئی ہے ہم ہنستے ہوئے چہرے نہیں دیکھ سکتے یا پھر ہنستے ہوئے چہرے دیکھنا نہیں چاہتے ہاں روتا ہو ا ہر چہرہ ہمیں اچھا لگتا ہے-کیا یہ عمل اذیت پسندی نہیں- وہ معصوم بچے جو اس واقعہ سے متاثر ہوئے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے صرف شمعیں جلانا ٗ اس سکول پر آنا کافی ہے اورمعصوم بچوں کو اس مقام پر لانا جہاں دہشت گردوں نے خونی کھیل کھیلا بچوں کیساتھ کھیلا ان کے ذہنوں پر کیا اثر ڈالے گا-یہ وہ سوال ہے جواس سکول میں آنیوالے ہر شخص کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے خواہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو یا پھرعام شخص ہو یا خواتین ہو جو بچوں کو سیر کی جگہ سمجھے ہوئے بچوں کو اس سکول میں لاتی ہیں-

کیا اس ملک/ شہر کے بیشتر مسائل حل ہوچکے ہیں-تعلیم کے شعبے سے لیکر ٗ زراعت ٗ بڑھتی آبادی ٗ کم عمری میں بچوں کی شادی ٗ صفائی ٗ غیرت کے نام پر قتل ٗ لڑکیوں کی تعلیم ٗ سرکاری اداروں کی کرپشن ٗ انصاف تک رسائی میں مسائل ٗ سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال ٗ سیاسی پارٹیوں میں وراثتی کردار ٗ بجلی گیس بلوں میں اضافہ ٗ کرایوں میں اضافہ ٗ جہیز جیسی لعنت ٗ تھر میں بھوک سے ہونیوالی اموات سمیت ماحول کی بربادی سے لیکر آبی وسائل کا بے دریغ استعمال جیسے مسائل ختم ہوگئے ہیں اور راوی چین کی نیند سو رہا ہے جو ہم گذشتہ دو ہفتوں سے آرمی پبلک سکو ل میں پیش آنیوالے بچوں ٗ ان کے خاندانوں کے رونے دھونے اور مایوسی کی باتیں میڈیا پر دیکرپورے ملک کو ذہنی تناؤ کا شکار کررہے ہیں-

اس واقعے کے بعد مختلف اداروں نے متعلقہ سکول میں پڑھنے والے بچوں کی ذہنی تناؤ کو کم کرنے اور انہیں دوبارہ معمولات زندگی میں لانے کیلئے سائیکالوجیکل علاج بھی شروع کردیا ہے لیکن موجودہ حالات میں اس ملک کے بیشتر لوگوں کا ذہنی علاج کرنے کی ضرورت ہے بشمول صحافتی اداروں سے وابستہ افراد کیلئے جوتنازعات کی رپورٹنگ بھی کررہے ہیں اور اپنی رپورٹنگ کے ذریعے لوگوں میں ذہنی تناؤ بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں -کجا اس کے کہ اس ملک کے لوگوں میں جینے کی امنگ اور امید و مثبت سوچ پیدا کریں ٗ ویسے بھی بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئیے کہ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا ویسے بھی موت ہر ایک کو آنی ہے - اور شہادت کی موت خوش نصیب افراد کو نصیب ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان کے والدین کی بھی بخشش ہوگی-دہشت گردی سے زخم خورد حوصلے دکھانے اور اذیت پسندی اور بے حسی کے مظاہرے کی بجائے ہمیں دہشت گردی کا راستہ روکنے کیلئے آواز اٹھانی چاہئیے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422005 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More