ہمیں دیمک نے چاٹاہے شجرکاری کے موسم میں

دل دردسے پھٹتاجارہاہے بلکہ دردجیسالفظ بھی ماتم کررہاہے، ایک ایسازخم ہے جس کامداواہوتانظرنہیں آتا،جسم تھرتھرا رہا ہے،ہاتھوں کی لرزش اورکپکپاہٹ نے دماغ کو ماؤف کردیاہے ،کئی مرتبہ ٹی وی کوبندکرکے خودسے راہِ فراراختیارکرتاہوں لیکن پھراس امیدپرٹی وی آن کردیتاہوں کہ مبادادل کی تسکین کیلئے کوئی خبرسننے کومل جائے لیکن ہرمرتبہ قیامت خیز مناظر،ماؤں کی چیخ وپکار،اسکول کی دیواروں کے باہرکسی اچھی خبرکے منتظراوربے چین باپ دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا کروں میرابراحال ہوگیاہے،سانس لینامشکل ہوتاجارہا ہے۔ سوچتاہوں ہزاروں میل دوربیٹھے مجھ جیسے لوگوں کایہ حال ہے توان کادردکیاہوگاجن کے گھروں کے یہ معصوم چراغ اس بیدردی سے بجھادیئے گئے۔ٹی وی کودوبارہ بندکرنے کا سوچ رہا تھاکہ ٹیلیفون چیخ اٹھا،''کیاکہہ رہے ہو،تم ہوش میں توہو؟؟'' ''خودکوسنبھالیں اوراس بات کایقین کرلیں کہ سکندربھائی کے دونوں نوجوان بیٹے (انیس اورسترہ سال) بھی فلاح پاگئے۔باپ انہی درندوں کے خلاف جنگ میں مصروف،شہادت کامتمنی لیکن بیٹے بازی لے گئے ۔میرے بھائی کی کل یہی متاع تھی! میں تواسے پرسہ دینے کی بھی ہمت نہیں پارہاتھا لیکن اس کے پرعزم الفاظ کے سامنے میں ہارگیا''میں توپچھلی دودہائیوں سے شہادت کامتلاشی ہوں اوراب بھی میراسفرجاری ہے لیکن رب العزت کاشکرگزار ہوں کہ ''مالک الیوم الدین''کے سامنے میں دوشہیدبچوں کے باپ سے بلایاجاؤں گا
یہ قدم قدم قیامتیں بہ سوادِ کوئے جاناں
جنہیں زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائیں

سوچتاہوں کہ دم تو ڑتا انسان بھی امیدپرزندہ رہتا ہے،چاہے چند لمحات ہی کیوں نہ ہوں۔امید ایک چراغ روشن ہے،امید نشان راہ ہے،آس ہے، لاکھ بلائیں راہ روکے کھڑی ہوں،امید سہارا بن کر ساتھ کھڑی رہتی ہے۔آگے بڑھنے پراکساتی ہے امید،محبت، فاتح عالم ہے ۔دلوں کوتسخیر کرتی ہے محبت۔انسان ہارکربھی خوش رہتاہے ۔ ایثارسکھاتی ہے محبت۔قیام کرنا،ڈٹے رہنا سکھاتی ہے محبت،جوامیدومحبت کاپیکر ہوں،انہیں کون تسخیر کرسکتا ہے!وہ زیرہوکربھی سربلند رہتے ہیں،سر خرو ٹھہرتے ہیں،زندگی کاپیغام لاتے ہیں،زندگی پراکساتے ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ اب امیدبھی خشک ریت کی طرح مٹھی سے نکلتی محسوس ہو رہی ہے۔

ایوان رڈلے کو ہدائت اللہ رب العزت نے نصیب فرمائی لیکن وجہ طالبان کا حسن سلوک اورخواتین کی عزت ٹھہری تھی لیکن آج سواتی طالبان کے بھیس میں اسلام اور شریعت کوبدنام کرنے والوں کے بارے میں بجا طورپرجس یقین کامیں شروع دن سے اظہارکرتاچلاآرہاہوں کہ ٹرائیکا(سی آئی اے،موساد اور را)کی مکمل پشت پناہی سے یہ تکفیری گروہ کونہ صرف دین اسلام بلکہ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کے وجودکے خلاف اپنے مخصوص مفادکیلئے میدان میں اتاراگیا۔تحقیق کے بعدیہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ وہ ان مدرسوں اور لٹریچر کی پیداوار نہیں،جس نے ملا عمر تخلیق کئے۔ان طالبان علم نے جب افغانستان کی بگڑتی صورتحال کو دیکھاتو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر بندوق اٹھائی اور وہاں اسلامی شریعت نافذ کر دی۔آج سے آٹھ دس سال قبل میڈیااس قدر فعال نہیں تھااب تو میڈیا پھیلنے کے ساتھ ساتھ غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کوجن میں اکثر صحافی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے،اپنے اندر سمیٹ چکا ہے اور بڑی تعداد میں ایسی خبریں فراہم کر رہا ہے جن سے دین کے علمبرداروںکو تعلیم دشمن،امن مخالف اور خواتین دشمن قرار دینے میں انہیں دقت اٹھانا نہیں پڑتی ۔لیکن آج سے ایک دہائی قبل مغرب کے صحافیوں کو انٹیلی جنس اہلکار کی دہری ذمہ داری ادا کرنی پڑتی تھی۔

افغانستان کی امارات اسلامی کوچلانے والے طالبان کی خامیوں کی متلاشی ایوان رڈلے جب افغانستان پہنچی تواس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگاکہ ان کومقید کرنے والے''وحشی'' طالبان کچھ اورطرح کی مخلوق ہوں گے۔ایوان رڈلے نے خواتین کے حقوق کے'' علمبرداروں'' سے بہت کچھ سن رکھا تھا۔اس کو یقین تھاکہ اگروہ کہیں ان ''جنگلی درندوں''کے ہتھے چڑھ گئی تو وہ اسے نوچ ڈالیں گے اور ہلاک کریں گے تو وہ بھی کوڑے برسابرساکراوراذیت دے دے کر۔افغانستان کے طالبان، طالبان علم رہ چکے تھے،وہ علوم جو دینی تعلیمی اداروں کی برکت سے نبی مہربان ۖ سے ہوتے ہوئے ان تک پہنچا تھا۔وہ علم جس کے تحت دوران جنگ خواتین اور بچے تو درکنار،درختوں کو کاٹنا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔یہ طالبان نہ توایوان رڈلے کی باتوں سے طیش میں آئے اورنہ ہی ان کو اس کا رویہ ناگوارگزرابلکہ وہ اسی طرح برتاؤ کرتے رہے جس طرح ان کے دین نے ہدائت کی تھی۔

ایوان رڈلے طالبان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکرمسلمان ہوئیں اورآج وہ ظلم کے خلاف مضبوط آوازبن چکی ہیں۔آج امریکہ،برطانیہ اوران کے تمام حواریوں کے ظلم کے خلاف شمشیربرہنہ بن کراپنے قلمی جہاد میں پیش پیش ہیں۔افغانستان کے ریگزاروں سے اٹھنے والی ایک بیٹی کی آوازکسی مسلمان مرد نے تونہیں سنی کہ اب محمد بن قاسم نہیں رہے مگریہ آواز برطانیہ کی اس بہادراورباغیرت نومسلمہ ایوان رڈلے نے سنی۔ جی ہاں!پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کی آواز،جس کو ہمارے کمانڈو صدر نے ڈالروں کے عوض بیچ ڈالا تھا۔ میرے کانوں میں ایوان رڈلے کی رقت بھری آواز آج بھی گونج رہی ہے جب اس نے عافیہ صدیقی کے بارے میں مغربی دنیا میں قصر سفید کے مظالم کا پردہ چاک کرتے ہوئے ایک طوفان برپا کر دیاتھا اوریقینا ایوان رڈلے کے اس انکشاف کے بعدپاکستانی صحافیوں کو بھی خیال آیا کہ ان کی ایک مظلوم بہن پر کیا بیت رہی ہے لیکن آج وہ خودپشاورکے اس بہیمانہ واقعے پربلک بلک کررورہی تھی ۔

یہ طالبان وہ طالبان تو یقیناً نہیں جن سے ایوان رڈلے متاثر ہوئی اورجن کی مزاحمت نے امریکااوراس کے صہیونی لشکر کو افغانستان کے کوہساروں میں ناکوں چنے چبوائے۔میراماتھا تواسی وقت ٹھنکاجب ٹی وی چینلز پر''سوات کے طالبان''کی طرف سے لڑکیوں کے اسکولوں پر پابندی،اسکول تباہ کرنے کی خبریں باربارچلائی جارہی تھیں تومیں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کون لوگ

ہیں جوجہادکے مقدس نام کوبدنام کرنے کیلئے ایسے قبیح افعال کرتے ہوئے ذرہ بھرنہیں شرماتے تاکہ وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف قوتوں کو پروپیگنڈے کیلئے مواد فراہم کرتے رہیں؟؟کیا یہ اس جہادکو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو مرزا غلام محمد قادیانی الگ مذہب بنا کر ختم نہیں کرسکا؟ جہاد جاری رہے گااورتا قیامت جاری رہے گا،یہ ہمارا ایمان ہے لیکن کیا تباہی پھیلانے والوں اوران کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ضروری نہیں کہ آج دنیا سب کو جہاد ی کہہ رہی ہے چاہے وہ فلسطین میں غاصب صہیونیوں کے خلاف ہویابھارتی کشمیرپرقابض مکار ہندوؤں کے خلا ف ،افغانستان اورعراق پرجارحیت کرنے والے عالمی دہشت گرد امریکہ کے خلاف ہویا چاہے وہ ''جہاد''جو لڑکیوں کے اسکول جلا کرسوات میں شروع ہوااورآج وہ بدبخت اورشیطان صفت پشاورجیسے بہیمانہ واقعہ کوبھی جہادسے تشبیہ دے رہے ہیں ۔

ان ناہنجارظالمان کے افعال کونقل کرکے کیاافغانستان میں جاری جہادکومطعون کیاجاسکتاہے؟مجھے یادہے کہ آج سے چھ سال پہلے بڑے ہی جیدعالم دین نے فرمایاتھاکہ قوم کوجہاد کا نام لیتے ہوئے شرمانا نہیں چاہئے۔میں نے اس وقت بھی ان سے مخلصانہ گزارش کی تھی کہ وہ خودبغیر شرمائے سوات کے طالبان کے جہادکی تشریح ضرورفرمائیں جواب تک ساڑھے چار سو سے زائد بچیوں کے اسکول خاکستر کر چکے ہیں اورحکم عدولی پرسوات کے باسیوں کی گردنیں تن سے جدا کرکے شقاوت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔قبروں سے لاشیں نکال کرکھلے چوک میں لٹکا کر کس جہاد کا پرچار کررہے ہیں؟آج وہ خودہی ان کوظالمان سے تشبیہ دے رہے ہیں لیکن کیاہی بہترہوتااگراس وقت ان کایہ ردّعمل ہوتاتوآج یہ شرمندگی نہ ہوتی۔آج اس واقعے پرافسوس توکیاجارہاہے،ہر چینل پراس سانحے پربڑی ڈھٹائی سے تبصرے تو ہورہے ہیں لیکن ٹی ٹی پی کانام لیتے ہوئے ان پرمنافقت طاری ہوجاتی ہے۔

ہمارے علماء اہل علم دانش کا فریضہ ہے کہ وہ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو جہاد کے بارے میں بتائیں اور جہاد کو بدنام کرنے والوں کو بھی بے نقاب کریں۔ اگرہمارے علماء اہل علم دانش اپنے اس عظیم فرض سے کوتاہی برتیں گے اورآگے بڑھ کر اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے ارض پاکستان کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو اللہ اپنی سنت پوری کرتے ہوئے ہمارے علماء اہل علم دانش کو اس منصب سے نہ صرف ہٹا دے گا بلکہ تاریخ کی کتابوں میں ان کا نام بطورعبرت محفوظ کر دیا جائے گا۔

میں نے پچھلے دنوں ہی ایک واقعہ پڑھا تھا ۔کیا بات تھی اس میں،مجھے نہیں معلوم!حضرت شیخ عثمان خیر آبادی غزنی میں رہتے تھے۔ سبزی پکاتے اور بیچتے تھے۔اگر کوئی شخص آپ کے پاس آتا اور کھوٹا درہم دے کرجوکچھ آپ نے پکایا ہوتا خریدنا چاہتا تو وہ کھوٹا درہم لے لیتے اگرچہ انہیں معلوم ہوتا کہ یہ درہم کھوٹا ہے لیکن وہ خریدار کے منہ پر کچھ نہ کہتے اور جو کھرا درہم لاتااس کو بھی پورا سالن یا ترکاری دیتے تھے۔لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ شیخ عثمان کھوٹے اور کھرے میں امتیاز ہی نہیں کر سکتے۔چنانچہ بہت سے لوگ آتے اور انہیں کھوٹے درہم دے کر چلے جاتے اور یہ ان کو کھرا سمجھ کر واپس نہ لوٹاتے اور خریدار کو شرمندہ نہ کرتے۔اس طرح کھوٹے سکوں کے کئی ٹوکرے جمع ہو گئے اور آہستہ آہستہ ان کھوٹے سکوں کی وجہ سے خسارے نے ان کا سارا کاروبار ٹھپ کر دیا۔جب ان کے انتقال کا وقت آیا تو ان کے چند جاننے والے دوست ان کے پاس عیادت کیلئے آئے ہوئے ۔ شیخ عثمان نے اپنے ایک قریبی دوست کوان تمام ٹوکروں کو چارپائی کے نیچے سے نکالنے کی درخواست کی۔دوست کو بڑا گراں گزرا کہ شیخ عثمان اب نزع کی حالت میں اپنی خفیہ دولت کو دیکھنے کا متمنی ہے۔دوست نے حکم کی تعمیل کی ۔ شیخ عثمان نے ان تمام ٹوکروں کے کھوٹے سکوں کو دیکھ کر ایک لمبی آہ بھری اور آسمان کی طرف منہ کرکے فرمایا''اے بار الہٰ اور ستارالعیوب!تو دوسروں سے زیادہ آگاہ ہے کہ لوگ مجھے کھوٹا درہم دیتے تھے اور میں انہیں شرمندگی سے بچاتے ہوئے کھرا سمجھ کررکھ لیتا تھااور ان کو رد نہیں کرتا تھا ۔اب میں تیرے پاس اپنی کھوٹی عبادت لے کر حاضر ہو رہا ہوں تو اسے اپنی عنایت سے قبول فرما لینا، اس کو رد نہ کرنا، تو بڑا کریم اور غفور الرحیم ہے۔

ہمیں رب نے بڑا کھرا اور پیارا ملک دیا ہے اور ہم تمام کھوٹے سکے ہیں جو ابھی تک اللہ کی بارگاہ میں رد نہیں کئے جارہے لیکن کب تک؟ہمارے پیارے نبی ۖ نے تو جنگی قیدیوں کیلئے یہ شرط رکھی تھی کہ تم ہمارے بچوں کو لکھنا پڑنا سکھاؤ اور اس کے بدلے میں تم کو رہائی ملے گی ۔ یہ سواتی طالبان کس شریعت کامطالبہ کر رہے ہیں؟جس کورا،سی آئی اے اور موساد نے ترتیب دیا ہے!!!

ایوان رڈلے اب بھی بڑی پر امید ہیں۔وہ جب بھی کسی کانفرنس یا کسی ایسے پروگرام میں شرکت کرتی ہیں ،ہمیشہ وہ لباس پہن کر آتی ہیں جوطالبان نے ان کواسلام قبول کرتے وقت تحفہ میں دیا تھا۔اس کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھ کر زادِراہ کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہیں لیکن نجانے کیوں آج مجھے اس سے آنکھیں ملاتے ہوئے ندامت محسوس ہورہی تھی جبکہ اس نے تومجھے چھ سال قبل سوات کے طالبان کی حقیقت سے آگاہ کیاتھا۔اس نے آج بھی بڑے یقین اور عزم کے ساتھ کہا کہ'' پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ یہ صہیونی طاقتیں کیوں پاکستان کے درپے ہیں؟ کیونکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی امیدوں کامرکز پاکستانی افواج ہے اور میں ان امیدوں کے چراغوں کی ایمانی روشنی سے ان صہیونی طاقتوں کی ظلمت کوختم ہوتا ہوادیکھ رہی ہوں لیکن یہ ایک بڑی گہری سازش کے تحت پاکستانی افواج کو افغان طالبان کے ساتھ جنگ کرانے کی کوشش کررہے ہیں ،اللہ ان کی سازشوں سے محفوظ رکھے،آمین ''۔

ایوان رڈلے!آپ کھوٹے سکے لیکر کھرے کام کررہیں ہیں۔ مجھے آپ سے یہی امید ہے۔اللہ ہمارے ان معصوموں اور ضربِ عضب کے شہداء کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے کہ ہمیں ان پر ناز ہے۔مجھے آپ سے پورا اتفاق ہے کہ محبت اور امید کا ہتھیار سب سے بڑا ہے،محبت فاتح عالم ہے،پاکستان کو ختم کرنے کاخواب دیکھنے والے خود نیست ونابودہوجائیں گے۔انشاء اللہ!

لیکن کیاکروں جب یہ تصورکرتاہوں توخوپرقابونہیں رہتاکہ جن ہاتھوں نے ان کواسکول کی یونیفارم پہناکر،ماتھاچوم کر خدا حافظ کہاتھا،کیاان کومعلوم تھاکہ اب قیامت تک ملاقات نہ ہوگی اورجو ہاتھ اس امیدپراسکول چھوڑکرگئے تھے ،کیاان کومعلوم تھاکہ اب انہیں ہاتھوں سے اپنے ان پھولوں کوسردقبرمیں اتارنا پڑے گا!خداجانے عباس تابش یہ شعر کہہ کرخودکتنارویاہوگا!
ہمارے کھلنے اورجھڑنے کے دن اک ساتھ آئے ہیں
ہمیں دیمک نے چاٹاہے شجرکاری کے موسم میں
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.