انصاف کی موقع پر فراہمی

سمن آباد موڑ سے چوبرجی کی طرف جاتے ہوئے چند قدم کے فاصلے پر نالہ ہے مجھے نالے کے ساتھ والی سڑک کے راستے گلشن راوی کی طرف اپنے ایک عزیز کے ہاں جانا تھا۔ ملتان روڈ سے میں نالے والی سڑک پر مڑا تو عجیب منظر تھا۔ راستہ ہجوم کی وجہ سے بند تھا۔ لوگ ہاتھوں میں اینٹیں اور پتھر اٹھائے نالے کی دیوار کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ بہت سے لوگ دیوار پر چڑھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں بھی پتھر اور اینٹیں تھیں۔ یہ سب لوگ کسی چیز کا نشانہ لے کر نالے میں اینٹیں اور پتھر مار رہے تھے۔ مجھے لگا کہ کوئی جانور یا ایسی کوئی خطرناک چیز نالے میں نظر آ گئی ہے جسے مارنا بہت ضروری تھا اور اسے مارنے کے نیک کام میں پوری قوم جوش و خروش سے شریک ہے۔

آمنے سامنے گاڑیں کھڑی تھیں۔ ہجوم بھی کافی تھا۔ آگے نکلنے یا پیچھے مڑنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے بھی گاڑی ایک دیوار کے ساتھ کھڑی کی اور حالات کا جائزہ لینے گاڑی سے باہر نکل آیا۔ نعرے لگ رہے تھے۔ میرا پتھر ،وہ لگ گیا۔ میری اینٹ ،سر میں لگ گئی۔ وہ پانی میں گھس گیا ہے ،وہ دیکھو اس کا سر نظر آ رہا ہے۔ فوراً دس پندرہ پتھر اور دس پندرہ اینٹوں نے اس کا نشانہ لیا اور پھر نعرے بازی شرو ع ہو گئی۔ اب بھاگ نہیں سکتا۔ زخمی ہے۔۔۔ اب نظر نہیں آ رہا شاید ڈوب گیا ہے۔۔۔ لوگ سوچنے لگے۔ ایک دم کسی نے اونچی آواز میں کہا اوئے لگتا ہے مر گیا۔ اس کے سر پر پتھر اور اینٹیں بہت زیادہ لگ گئی ہیں۔

ہجوم میں چند لمحوں کے لئے خاموشی چھا گئی۔ وہ سبھی لوگ جو چند منٹ پہلے تک دعویٰ دار تھے کہ ان کی اینٹ یا ان کا پتھر نشانے پر لگے ہیں۔ کچھ سہم گئے اور وہاں سے کھسکنا شروع ہو گئے۔ اب سب دوسروں کو الزام دے رہے تھے کہ میں نے تو منع کیا تھا مگر لوگ باز نہیں آئے۔ عینک والے نے پتھر بہت زور سے مارا تھا۔ لال رنگ کی ٹی شرٹ والے تو تین چار اینٹیں تاک کر ماری تھیں۔ فلاں نے یہ کیا اور فلاں نے وہ کیا تھا۔ ہم تو بس سمجھاتے رہ گئے۔ یہ باتیں کرتے لوگ غائب ہو رہے تھے۔

اب وہاں ایک دوسری طرح کا ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا۔ لوگوں میں سفاکی اور بے رحمی کے جذبات مفقود ہو رہے تھے اور ان کی جگہ ہمدردی اور رحم دلی غالب آ رہی تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے زیادتی ہے۔ اینٹیں اور پتھر مارمار کر اس کی جان ہی لے لی ہے۔ کوئی نشانہ بازی کے بارے بتا رہا گیا۔ کوئی بتا رہا تھا کہ کیوں وہ دوبارہ نظر نہیں آیا۔ کوئی بتا رہا تھا کہ یہاں اس جگہ سے اس نے پندرہ فٹ گہرائی میں نالے کے پانی میں چھلانگ لگائی۔ کوئی کچھ اور بتا رہا تھا۔ کچھ لوگ پولیس کو اطلاع دے رہے تھے اور کچھ ریسکیو 1122 کو مدد کے لئے فون کر رہے تھے مگر یہ ساری کوششیں اور ہمدردیاں بے معنی تھیں۔ اب تو صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

نالے میں چھلانگ لگانے اور اینٹوں اور پتھروں کے وار سے مرنے والاکوئی اور نہیں ایک انسان تھا۔ ایک نوجوان تھا جوچور تھا۔ کچھ خواتین ملتان روڈ پر جا رہی تھیں۔ ان کے پاس کچھ زیور تھا۔ نوجوان نے ان سے زیور چھین کر دوڑ لگا دی۔ عورتوں نے شور مچا دیا۔ شورسن کر چند نوجوان چور چور کہتے اس کے پیچھے بھاگے۔ چور کو بھاگتا دیکھ کر اور کچھ لوگوں کو اس کا تعاقب کرتا دیکھتے بہت سے نوجوان چور کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس وقت وہاں ٹریفک بہت آہستہ تھی موٹر سائیکلوں والے بہت سے نوجوانوں نے سڑک پر ہی موٹر سائیکل بند کی اور چور کے پیچھے بھاگنے لگے۔ چند لمحوں میں بہت سے لوگ چور کے پیچھے دائیں اور بائیں اسے پکڑنے کی کوشش میں تھے۔ کوئی راستہ نہ پا کر پکڑے جانے کے خوف سے چور نے نالے کی دیوار پر چھلانگ لگائی اور نیچے گندے پانی میں کود گیا۔ اسے یقین تھا کہ اب کوئی دوسرا شخص نالے میں چھلانگ لگا کر اسے پکڑ نہیں پائے گا۔

ہجوم جب (MOB) کی شکل اختیار کرتا ہے تو ہوش اور خرد کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ چور کو پہنچ سے دور دیکھ کر ہجوم غصے میں آ گیا۔ قریب ہی سڑک اور فٹ پاتھ کی تعمیر جاری تھی جس کی وجہ سے اینٹوں اور پتھروں کی فراوانی تھی۔ لوگوں نے نالے کے اندر تیرتے چور پر نوکیلے پتھروں اور بھاری اینٹوں کی بارش کر دی۔ نوکیلے پتھروں نے اس کا سارا جسم چھلنی کر دیا اور بھاری اینٹوں نے اس کا سر پھوڑ دیا۔ وہ نوجوان چور جو لوگوں کی قید سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا، زندگی کی قید سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو گیا۔

سوچتا ہوں واقعی لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ اس لئے موقع پر خود ہی انصاف کرنے لگے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ پولیس کسی چور کو سزا نہیں دلواتی بلکہ مک مکا کر کے چور کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ عدالتیں کیس کو اس قدر لٹکاتی ہیں اور انصاف میں اسقدر غیر ضروری تاخیر کرتی ہیں کہ انصاف خود چوری ہوجاتا ہے مگر کیا چوری اس قدر سنگین جرم ہے اس کی سزا موت ہے اور کیا لوگوں کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کسی بھی جرم کی سزا موت سنا دیں اور ملزم کو موت کے گھاٹ اتار دیں؟

ان حالات کی اصل مجرم حکومتِ وقت ہے۔ لوگوں کو روزگار نہیں ملتا۔ کھانے کو روٹی نہیں ملتی۔ بھوک اور بیماری انہیں جرم پر مجبور کرتی ہے۔ جرم کرنے کے لئے بھی حوصلے کی ضرورت ہے۔ آدمی کتنا بھی مجبور ہو جرم کرنے سے پہلے کئی دفعہ سوچتا ہے کہ اُسے پکڑے جانے کی صورت میں سزا بھی مل سکتی ہے۔ مگر جب وہ دیکھتا ہے کہ پولیس چوروں اور ڈاکوؤں کی معاون اور مددگار ہے۔ اسے صرف اپنے حصے سے غرض ہے۔ وہ عدالت میں کیس کمزو رکر کے پیش کرتی ہے اور گواہان کو اس قدر خراب کرتی ہے کہ وہ عدالت جانے سے پہلے ہی اپنی جان بچا کر گواہی دینے سے مکر چکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس صورتحال میں چور اور ڈاکو بھی بے دھڑک اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو محنت سے کماتے ہیں اپنی کسی چیز کے چوری یا لٹنے کی صورت میں پاگل پن کی حد تک جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا ور اگر چلتاہے تو وہ چور اور ڈاکو کو خود انصاف کے کٹہرے میں لے آتے ہیں۔ اس دن بھی یہی ہوا۔ چوریوں اور ڈاکوؤں سے تنگ آئے لوگوں کو ایک چور یا ڈاکو نظر آ گیا اور انہوں نے اپنا غبار نکالا جس کے نتیجے میں ڈاکو موقع پر مر گیا۔ حکومت جب تک بیروزگاری اور غربت کی طرف توجہ نہیں دیتی نظم و نسق کی صورتحال کو بہتر نہیں کرتی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے کیونکہ یہ ایک فطری ردِ عمل ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444514 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More