وقت ایک سا نہیں رہتا

وہ اپنے دور میں اتنا با اختیار اور با اثر تھا کہ اس کی بات سے دوسری بات کوئی نہیں کر سکتا تھا،وہ کسی سیاسی عہدے ،یا بڑے منصب پر نہیں تھا مگر اس کی چوہدراہٹ پورے گاؤں میں مانی جاتی تھی ،گاؤں ،برادری، اور محلے میں کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا ،کوئی جرگہ ہوتا تو وہ جس گروپ کی طرف ہوتاسب یہی کہتے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا، کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس کے سامنے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکے اتنا با اثر اور با اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ بد قسمتی سے وہ ہمیشہ ظالم،طاقت ور،اورجھوٹ کا ساتھ دیتا، اس کی زبان ہمیشہ اپنے مفاد کی خاطر بولتی، اس کے ہاتھ پاوں،اور سوچ اپنی ہی ذات کے گرد گھومتے،کوئی مجبور، بے بس، اور ضرورت مند اس کے پاس کوئی سوال لے کر آتا تو وہ بجائے اس کی مدد کرنے کے اس کو بلیک میل کرتا یا اس پر اپنے اثر و رسوخ کا دباو ڈال کر خاموش رہنے کی بات کرتا،وہ زاتی دشمنی اور انتقام کی بنیاد پر فیصلہ کرتا اپنی پسند اور نا پسند کے نظریے پر چلتا،برادری قبیلہ کو سامنے رکھ کر اپنے خیالات اور دلائل دیتا جس کی وجہ سے مظلوم کو اس کے اختیارات اور اثر و رسوخ سے کوئی فائدہ نہ ہوتا، وہ اپنے سے کمزور کے حق میں بات کرنا یا اپنی اوقات سے کم والے سے بات کرنا اس کی حمایت کرنا اپنی توہین سمجھتا اس کا کہنا ہوتا کہ میں اپنے سے برابر والے کی حمایت کرتا ہوں اور بات کرتا ہوں جب کہ اس کی اصل ضرورت کمزور اورمجبور کو ہوتی مگر وہ اپنی طاقت کی اکڑ میں رہتا۔اکثر لوگ جو اس کے سامنے بات کرنے کی اہمت رکھتے یا کوئی سچ بولنے کی جرت رکھتے وہ اسے یہ کہتے کہ تم سے تمہارے اختیارات کا سوال پوچھا جائے گا، تم غریبوں اور مجبوری کی مدد کیا کرو یہ ظالم اور طاقت والے لوگ تم کو اﷲ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے جب کہ ان مجبور اور غریبوں کی دعائیں ،ان کے اٹھے ہاتھ تم کو بہت سے عذاب سے بچا سکتے ہیں مگر طاقت اور غرور کے نشے میں اس کو یہ سب کچھ بولا ہوا تھا، اس کو اپنی اس طاقت اور اختیارات میں کسی اور طاقت کا خیال تک نہیں تھا اس کی سوچ بس اپنے آپ تک تھی اس کو ہر وہ بات جو اسے اﷲ کے امتحان سے ڈرائے، جو اسے غریبوں کی بدعاوں سے ڈرائے، جو اسے اﷲ کی رسی ڈھیلی ہونے سے ڈرائیں ،وہ باتیں اور نصعتیں جو اس کو کسی بھی سوال پوچھنے کی عندیا دیں وہ اس کو کسی لطیفے سے کم نہ لگتی وہ ان تمام باتوں کو وقتی ،بے سود،اور ڈرانے کی حد تک کہہ کر ٹال دیتا اس کا کہنا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے، اس کے سامنے نمرود، شدات،فراعون اور مچھر،ہٹلر،اور اس طرح دنیا میں بادشہات کا دعویٰ کرنے والے ان تمام لوگوں کی حقیقت ایک کہانی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔وہ معاشرے میں مجبورانسان، یتیم، کمزور، بے بس، ضرورت مند، معزرو،غریب،بیوہ، اور کسی بھی وجہ سے بے بس انسان کو اس معاشرے،طاقت اور انسان، بااختیار،با اثر کی ازمائش سمجھنے کے بجائے ان پر اﷲ کی ناراضگی، اور اپنی غلطی، اپنے کئے کی سزا کہہ کر یہ سمجھتا کہ اﷲ نے ان کو اگر اس حال میں رکھا ہے تو ان کی اپنی غلطیاں ہیں، اور اگر میں کسی مقام پر یا طاقت میں ہوں تو یہ میری محنت ، قابلیت، قسمت اوریہ اﷲ نے مجھے دیا اس میں کسی کا کیا کمال ہے،اکثر دوست اس کو یہ سمجھاتے کہ معاشرے میں ہر مجبور انسان اصل میں اس دنیا میں طاقت اور انسانوں کے لئے امتحان ہوتے ہیں اﷲ چاہے تو ان کی تمام پریشانیاں ایک منٹ میں ختم کر دیں مگر پھر انسان کی امامت کا جواب کون دے گا۔وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتانہ عروج نہ زوال وقت نے کروٹ بدلی اور اس شخص کو معمولی سا بخار ہوا اس نے اس کو نارمل لیا،بخار بڑھتا گیا اس نے علاج شروع کر وا دیا کبھی آرام ہوتا کبھی پھر اس کی زد میں آجاتا وہ بخار بگڑ کر ٹائیفائیڈ بن گیا،اس بخا ر کے ساتھ ساتھ اس کو شوگر،ہپاٹائٹس، اور کچھ اور بیماریاں بھی سامنے آگئیں،وہ اپنا علاج کرواتا رہا مگر سوائے دولت کے ضیاء کے اسے کچھ بھی حاصل نہ ہوتا،مختصر یہ کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ جسمانی کمزور ہوتا گیااس نے اپنی ساری دولت بھی اپنی بیماری پر لگا دی،ایک وقت ایسا ایا کہ وہ بستر مرگ پر پڑا علاج سے نا امید لوگوں کی دعاوں کا محتاج ہو گیا جو بھی اس کو دیکھنے آتا اس کو وہ اپنی صحت کے لئے دعا کی درخواست کرتا،وہ لوگ جن کے لئے اس نے ساری زندگی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا آج اسے دیکھنے بھی نہیں آتے وہی لوگ جن کو وہ اپنے برابر نہیں سمجھتا تھا وہ لوگ جن کو دیکھ کر وہ منہ پھیر لیتا تھا آج وہی اس کی تیمار داری کرنے آتے ہیں کوئی دعا دیتے ہیں تو کوئی اسے اپنی بد عاوں کا صلہ کہتے حقیقت جو بھی ہو مگر ایک بات سچ تھی کہ آج وہ اتنا بے بس تھا کہ موت مانگے بھی اسے نہیں ملتی تھی اور ایک ایک لمحہ اسے یہ احساس ہوتا کہ یہ دنیا،یہ طاقت،یہ شان و شوکت سب کچھ جھوٹا ہے اگر کوئی چیز یہاں پر سچ ہے تو وہ انسانیت کی خدمت ،غیریبوں کی دعائیں، اور حق سچ کا ساتھ دینا ہے ۔مگر اس کا یہ احساس اب صرف ایک احساس ہی ہے وہ اب صرف سوچ سکتا ہے پیچھتا سکتا ہے یہ اﷲ پر ہے اور اس کے بندوں پر کہ وہ اسے معاف کرتے ہیں کہ نہیں مگر اب اس کی طاقت کسی کام کی نہیں وہ جو مرضی ہوتا جتنا بڑا طاقت والا ہوتا آج وہ ایک کمزور سے کمزور انسان کو بھی اپنے دباو سے کچھ معاف نہیں کرو اسکتا،اس کی طاقت کا وقت ختم اور اب اﷲ کا وہ امتحان شروع ہو چکا ہے ، جس کا سن کر وہ ہنسا کرتا تھا،یہ کوئی کہانی نہیں اور نہ ہی کسی پر کوئی طنزیہ اس معاشرے کی حقیقت ہے میرے اور آپ کے گرد ایسی ہزاروں سچی حقیقتیں موجود ہیں،ہمیں ایک لمحے کے لئے خود کو بھی سوچنا چاہئے اپنے آپ پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم تو کل کسی پکڑ میں نہیں آنے والے اس سے پہلے کہ اس شخص کی طرح ہمارا بھی توبہ کا دروازہ بند ہو جائے ہمیں اپنا قبلہ درست کر دینا چاہیے۔میں نے کسی کا نام صرف اس لئے نہیں لکھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود تھیں اور ہیں ہمیں بس غور کرنا ہے ۔اﷲ کی گرفت بلا فتریق،بلا امتیاز ہے،کوئی آپ کے پاس اگر کوئی سوال ،فریاد،التجا،لے کر آتا ہے ، یا آپ کسی منصب پر فائز ہیں،اﷲ نے آپ کو کچھ زمہ داریاں دے رکھیں ہیں تو سوچئے گا۔آپ اس امتحان سے پاس ہوتے ہیں یا فیل یہ آپ تک ہے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69172 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.