میڈیا وار اور عالم اسلامی کی بے حسی

میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جسطرح کسی بھی ریاست کو صحیح طور پر چلانے کیلئے مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے ٹھیک اسی طریقے سے آج کی جدید رساست کیلئے میڈیا اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہر ایک کی اپنی اہمیت الگ ہے۔آج دنیا میڈیا کی ان دونوں میڈیم میں اتنی ترقی کر گئی ہے کہ انسان انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔ اب وہ وقت نہیں رہا کہ امریکی صدر کے موت کی خبر 2 مہینوں بعد ہندوستان پہنچے۔ بلکہ اب دنیا اتنی up date ہو چکی ہے کہ چند لمحوں میں یہ خبر پوری دنیا میں پھیلتی ہے

ہماری بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ ریاست کے اس چوتھے ستون پر ہم نے سرے سے کوئی توجہ ہی نہیں دی ۔ اور ہم غیروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے لگے۔اس دور کا سب سے بڑا چیلینج میڈیا ہے اور یہ انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ میڈیا کا موثر ترین اور طاقت ور ہتھیار ان لوگوں کے پاس ہے جن کے پاس نہ انسانیت کے غم میں ٹرپنے والا دل ہے اور نہ ان کی بدنصیبی پر آنسو بہانے والی آنکھ اور نہ انسانیت کی بہبودی و تعمیر وترقی کا کوئی منصوبہ ، میڈیا کی یہ طاقت تعمیر کے بجائے تخریب، کردار و اخلاق سنوارنے کے بجائے بے حیائی اور اخلاقی قدورں اور انسانوں کی رہنمائی کے بجائے انہیں راہ حق سے بھٹکانے کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔

ورلڈ اسلامک فورم کے چیرمین مولانا محمد عیسیٰ منصورپوری صاحب (لندن ) نے موجودہ میڈیا اور مسلمانوں کی دگرگوں حالت کا خوبصورت پیرائے میں نقشہ کھینچا ہے۔

’’ روس کی شکست و ریخت کے بعد مغرب سمجھ رہا ہے اب دنیا میں مغرب کی بالادستی کی راہ میں واحد رکاوٹ اسلام ہے ۔اس سے اس بات کا بھی خوف ہے کہ اگر دنیا کے کسی خطے میں اسلام اپنی صحیح ہیئت کے ساتھ نافذ ہو گیا تو کمیونزم کی طرح مغربی نظام حیات بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جائے گا۔ اس خوف سے مغرب دنیا کی اسلام دشمن قوتوں کو ملا کر اسلام کے مقابلے میں صف آرا ہو گیا ہے۔ اس کے نزدیک اسلام پر کاری ضرب لگانے یا اسے ختم کرنے کا تاریخ میں ایسا موقع پہلے کبھی نہیں آیا ہے۔ آج کے دور میں اسلام پر مغرب کا یہ حملہ ایک نئے رخ سے ہے جیسے ہم میڈیا وار کہہ سکتے ہیں۔در حقیقت آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ اس کی طاقت ایٹم بم سے کہی زیادہ ہے۔ یہ میڈیا لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ذھن و دماغ کو جس طرح چاہیے موڑ دیتا ہے۔غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ مغرب محض موٗثر اور طاقتور میڈیا کے ذریعے ہمارے ذھنوں پر حکومت کر رہا ہے۔ وہ میڈیا کے ذریعے ہماری سوچ کو متاثر کرتا ہے اور منصوبے کے تحت اس سے خاص رخ پر ڈالتا ہے۔ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں ذہنی غلامی کا ہے۔ ماضی میں جب ضعیف قوموں کو غلام بنایا جاتا تھا۔ تجارتی مقاصد کیلئے کمزور ملکوں کو نو آبادی اور کالونی بنایا جاتا تھا۔اس وقت مغرب نے ایشائی و افریقی عوام کو غلام بنایا تھا۔ اس دور میں آپ کو کہیں انسانی حقوق کا ذکر نہیں ملے گا کیونکہ انسانی حقوق کا فلسفہ مغربی استعمار کے مفادات کی نفی کرتا تھا۔ جب مغرب کی استعماری قوتوں کو آزادی کی تحریکات کے آگے ہتیھار ڈال کر غلام ممالک سے رخصت ہونا پڑا تو اس کے ساتھ ہی انہیں ڈیموکریسی و جمہوریت اور انسانی حقوق کا خیال آ گیا تاکہ اس راہ سے بھی کم زور اقوام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقع مل سکے۔ اب مغرب نئی نئی تیاریوں اور نئے ہتیھاروں سے مسلح ہو کر سامنے آیا ہے وہ جسم کے بجائے انسانی ذھنوں کو غلام بنانا چاھتاہے ذھنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ بدتر اور خوفناک ہوتی ہے اس وقت سب سے اہم مسئلہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا کی یلغار ہے۔ ادہر چند سالوں سے ہماری کمزوری۔ بے حسی اور غفلت کے سبب میڈیا کے رستے سے بھارت کی دیو مالائی تہذیب بھی حملہ آور ہو گی ہے شرک و بت پرسستی کے تصور سے بھی ایک مسلمان کو کانپ جانا چاھیے تھا اللّہ کے آخری پیغمبر کا ارشاد ہے ’’ اے ابوذر ‘‘ تیرے نزدیک شرک تیرے زندہ جلائے جانے اور جسم کے ٹکڑے کر دیے جانے سے زیادہ اشد اور خوفناک ہے۔ اب ریڈیو، فلموں، ٹی وی پروگراموں اور سیٹ لائٹ کے ذریعے ہماری نسلوں کے ذھن سے شرک و بت پرستی کی شناعت اور نفرت کو کھرچ کھرچ کر ختم کی جا رہی ہے۔یہیں نہیں مرزائی وقادیانی اسلام کے لبادے میں نئی نبوت کی دعوت اور ارتداد کی مہم میں سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ہمیں نہ صرف میڈیا کے اس بے رحم حملے کو روکنا ہیبلکہ میڈیا کے متبادل فراھم کرنا وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس پر بحیثیت مسلمان ہمارے وجود و بقاء کا دار و مدار ہے۔ اگر اب بھی ہم نے غفلت برتی تو تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں ‘‘

آج مسلمانوں کے سامنے سینکڑوں چیلنجز کھڑے ہیں، تعلیمی چیلنجز، معاشی چلینجز، سیاسی و عدل و انصاف کی چیلینجز، سفارتی چیلجز، آزادی و خود مختاری کے چیلینجز۔ مجھ جیسے طالب علم پر بھی یہ بات عیاں ہے کہ آج سب سے بڑا جو چیلنج مسلمانوں کو درپیش ہے وہ میڈیا کا چیلنج ہے۔ جو لوگ امت کے خیر خواہ ہیں آج انہیں اس میدان میں بہت سخت محنت کی ضرورت ہے۔ آج کے ظالم میڈیا کو مسلمان بنانے کی بہت اشد ضرورت ہے۔ آج ریڈیو، ٹی وی اور ورلڈ لیول میں رائج اخبارات و جرائد اور خبررساں ایجنسیاں اور ایڈور ٹا ئزنگ کمپنیوں کو مشرف بہ اسلام کرنے اور اسلام کا مثالی ضابطہ اخلاق انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ آج میڈیا جس ظالم استعمار کے تسلط میں ہے اس کے پہلو میں ایک درد ناک دل نہیں ۔ انسانتے کی فوز و فلاح اور خیر خواہی کیلئے اس کے پاس کوئی پلان نہیں ۔ یہ بات یاد رہے کہ مغرب کے95 فیصد عوام مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے وہ تو بیچارے خود لاکھوں مصیبتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو راہ حق اور صراط مستقیم دکھلائی جائے۔ جو ایک مضبوط اور مسلمان میڈیا کے ذریعے ہی ممکن ہے۔مجھے خدا کی ذات پر کامل یقین ہے کہ اگر نئے اندازوں ،ضرورتوں، اسالیب، طریق کا ر اور خلوص دل کے ساتھ کوشش کریں تو مغرب کے غلیظہ اور متعفن معاشرے سے وقت کے عکرمہ بن ابی جہل اور خالد بن ولید جیسے لوگ پیدا ہو سکتے ہیں۔

آج مغربی میڈیا کا متبادل فراھم کرنا عالم اسلام کے ۵۲ ریاستوں کے ارباب اقتدار کی سب بڑی ذمہ داری ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس اہم شعبے کو مسلسل نظر انداز کر دیا ہے۔ آج تک وہ ایک خبر رساں ایجنسی تک قائم نہ کر سکے اور نہ ہی B.B.C. جیسی کوئی ریڈیا اسٹیشن قائم کر سکے۔

گذشتہ کئی دھائیوں سے مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم او، ائی، سی (O.I.C)اس ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ جدہ میں ایک عالی شان عمارت بھی اس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے مگر اے کاش وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر جگہ مغربی آلہ کار مسلط ہیں۔ اور اسی طرح رابطہ عالم اسلامی میں بھی مستقل جگہ بنانے کیلئے ’’پرو امریکی ‘‘ بننا ضروری ہے۔

آج نچلی سطح پر میڈیا کی درستگی کا کام شروع ہو چکا ہے مگر محدود پیمانوں پر ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اعلی پیمانوں اور وسیع بنیادوں پر سنجیدگی کے ساتھ محنت اور لگن سے کام کیا جائے۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ کشمیر ، افغانستان ، عراق، بوسنیا، یمن، فلسطین برما اور صومالیہ پر ہونی والی بر بر یت کی اصل صورت تو دنیا کے سامنے آسکے۔آپ اپنے خیالات اور احساسات کا ہمارے ساتھ ای میل ([email protected])کے ذریعے شیئر کر سکتے ہیں جو کہنا ہے دل کھول کر کہیے آپ کی آواز ہم قلم کے ذریعے انہیں صفحات پر ارباب حل و عقد اور صاحبان فکر و دانش تک پہنچانے کی سعی کریں گے۔ اللّہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Amir Jan Haqqani
About the Author: Amir Jan Haqqani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.