نئے سال کا جشن اور مسلم معاشرہ

شمسی کیلنڈر کے لحاظ سے ماہ جنوری کی شروعات ہونے کو ہے، یعنی ۲۰۱۵کے شروع ہونے میں کچھ ہی دن باقی ہے۔ اس موقع پر نوجوان طبقہ کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آتا ہے۔ کہیں کارڈوں کے تبادلے کئے جاتے ہیں، کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں ، کہیں نئے سال کے موقع پر پر تکلف جشن منایا جاتا ہے۔فی الحال غیر مسلم بڑے زور و شور سے اس کو منانے کی تیاری کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے کے اکثر نوجوان ان غیر مسلموں سے پیچھے نہیں ہے۔ ۔ اب سوچیں ذہن کو نوچ رہی ہیں کہ غیر مسلموں اورمسلمانوں میں کیا فرق ہے جو یہ نیا سال منانے کے لیے مسلمان ہونے کے تقاضے بھی بھول گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار اس جوش و جذبہ سے مناتے دیکھا گیا ہے؟نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہرکوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے۔ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو اپنے اپنے انداز سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔۔ مہینے بھر کی کمائی کو دوسرے شہروں میں جا کر اڑانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔۔ پھر دعوتیں اڑائی جاتی ہیں، رقص و سرود کی محفلیں سجتی ہیں جہاں شراب شباب کباب جمع کیے جاتے ہیں ، مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے، کہیں دید کے متلاشی من کی مراد پاتے ہیں تو کہیں ایس ایم ایس سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے۔ اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوگی۔اگر ان فضول اخراجات کوجوڑا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ امت کا جان مال وقت بڑی مقدار میں کہاں صرف ہورہا ہے۔۔!!اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر انہیں یہ کیوں معلوم نہیں کہ مسلمانوں کا دن تو سورج غروب اور رات کے آغاز سے شروع ہوتا ہے…… یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہلال کی رویت ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اسی حساب کتاب سے رمضان المبارک، عیدالفطر، عید الاضحیٰ نہیں مناتے؟ جی ہاں مناتے ہیں تو پھر انہیں آج یہ کیا ہو گیا ہے کہ یہ شراب کی بوتلیں اٹھائے، چرس کے سگریٹ سلگائے رقص کی مستی میں ہاتھ اٹھائے، جھومتے گاتے نظر آ رہے ہیں۔ انہیں کس بات کی خوشی ہے؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان کے حساب سے سہی لیکن آج تو ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے اور ان کے قدم قبر کے مزید نزدیک ہو گئے ہیں۔ کیا یہ اس سے بے خبر ہیں؟ جواب ملے گا ہر گز نہیں۔ ہر گز نہیں…… یہ سب جانتے ہیں…… لیکن ان کی آنکھوں پر عیش و مستی کی وہ پٹی بندھ چکی ہے کہ جو انہیں کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی……

سال۲۰۱۴رخصت ہونے والا ہے چونکہ دن رات کے بدلنے کی نشانیاں عقل مندوں کے لئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آنے والے سال خواہ وہ عیسوی یا قمری ان کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر سوچ لیا جائے کیونکہ انسان ابھی حالات سے مایوس نہیں ہوا۔ ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے۔سال شروع ہوتے ہی نجومی بھی ستاروں کی بساط بچھا کر آنے والے سال کے حالات بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں بہتر طریقے سے کام کیا جائے۔۔ ان کو یہ تو معلوم ہے کہ ۲۰۱۵ شروع ہورہا ہے اور۲۰۱۴ختم ہونے والا ہے مگر ایسے مسلمانوں سے پوچھاجائے کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ کونسا ہجری سال ہے تو اکثر لوگوں کا جواب معذرت ہی ہوگا۔


یہ تو ایک مختصر سی کتھا تھی اس دیس میں سال ِنو کے استقبال اور اظہار مسرت کی۔خوشی منانے کے معتدل، سنجیدہ اور مہذب طریقے پر بات کرنے سے قبل خود اس بات پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ آیا یہ اس قدر خوشی منانے کا موقع ہے بھی یا نہیں؟ آخر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ رات 11:59 PM سے 12:00 AM کے درمیان صرف ایک سیکنڈ کا فاصلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ایک ساعت میں دنیا میں کون سی ایسی عجیب تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور عجیب و غریب غیر سنجیدہ حرکات پر اتر آتے ہیں۔۔۔۔؟ چلئے ہم کچھ دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ نئے سال کی آمد ایک خوشی کا موقع ہے۔ اس کے باوجود ذہن میں ایک اور سوال انگڑائی لیتا ہے کہ آیا ہماری مذہبی تعلیمات، پاکیزہ روایات اور صاف ستھرا تمدن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم نئے سال کا اس انداز میں استقبال کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ یہ طرز عمل ہماری تعلیمات اور روایات سے ذرا برابر میل نہیں کھاتا۔ہماری دینی تعلیمات اور اسلاف کی زندگیاں تو یہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی کام کے آغاز میں اپنے خالق حقیقی کو یاد کرنا چاہئے۔ بحیثیت انسان اپنے معاشرتی، اخلاقی اور دینی فرائض کی تن دہی اور دیانت داری سے ادائیگی کا مخلصانہ عزم کرنا چاہئے۔ سال نو کی ابتداء میں مالکِ حقیقی کے سامنے سر بسجود شب گزاری، انسانوں کی بھلائی اور فلاح کی جانب ہماری توجہ کیوں نہیں جاتی؟ ہم یہاں یہ نیک فال کیوں نہیں لیتے کہ "چلو سال کا پہلا دن ہے کوئی اچھا عمل کر لیتے ہیں تاکہ سال بھر اس کی توفیق ملتی رہے"۔ایک یہ بھی اصول ہے جو ہر وقت ملحوظِ نظر رہنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے تمدن اور تہذیبی اقدار کو تعلیمات اسلام کی چھلنی سے چھان کر اپنائیں۔ جب ہماری ثقافت ہمارے دین کی ارفع تعلیمات و ہدایات سے متصادم نہ ہو تو اس کے اپنانے میں بظاہر کوئی مانع نہ ہونا چاہئے۔ رہا مسئلہ مغربی تمدن اور اجنبی ثقافت کی اندھی تقلید کا، یہ افسوسناک ہے۔ اس کا بڑا اور بنیادی سبب ہمارے اند رپایا جانے والا احساس کمتری ہے۔ انگریز برصغیر پر ایک طویل عرصہ حکمرانی کے بعد واپس انگلستان سدھار گیا ،مگر یہاں کے باشندوں پر اس کا فکری رعب تاحال قائم ہے۔ اپنے خالص اور صاف ستھرے تمدن کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اور مغربی انداز ِزیست کو قابل فخر سمجھنا دراصل اسی فکری بیماری کا نتیجہ ہے ،جسے اہل دردِ نے "خوئے غلامی" کہا ہے۔ مغربی کلچر کی بالادستی اور اس کے رجحان میں تیز رفتار اضافے کا ایک اور بڑا سبب ہمارا میڈیا ہے۔ میڈیا بالخصوص اس مہم میں سرگرم ہے۔ اور ہم سادہ لوح عوام ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے سرپٹ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔


مختلف تہذیبوں اور تقافتوں کے اثرات اور ان کا باہم تصادم یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ جہاں تک سال نو کی تقریبات کا تعلق ہے تو اس بابت ہمارا طرزعمل نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ نیا سال خواہ وہ قمری ہو یا شمسی ہو اس کی ابتداء ذاتی محاسبے سے کرنا چاہئے۔ ہم میں سے ہر شخص مختلف قسم کی گھریلو، خاندانی، معاشرتی، سماجی اور مذہبی ذمہ داریوں کا حامل ہے۔ ہر شخص کی ذات سے دوسرے بہت سے افراد کے حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ سال بیت جانے پر اور نئے سال کے شروع میں ہمیں مذکورہ بالا ہلڑبازی کے مظاہرے کرنے کی بجائے اپنے آپ کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے سال بھر کی کاکردگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ کسی بھی کام کی ابتداء اچھی ہو تو پورا کام بہتر انداز میں انجام پذیر ہوجاتا ہے۔ ہم زندگی کے جس شعبے سے بھی وابستہ ہوں ،ہمیں چاہئے کہ نئے سال کی ابتداء ایک ولولے اور جوش کے ساتھ کریں۔ اپنی جانب تفویض کردہ ذمہ داریوں کو حد درجہ دیانت داری سے انجام دیں۔ سال بھر سستی اور کاہلی سے بچنے کا عزمِ صمیم کریں۔ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد (جو کسی بھی نسبت سے ہم سے متعلق ہو) کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اس انداز میں ہم اپنے سال کی ابتداء کر کے مثبت اور تعمیری نتائج کی امید رکھ سکتے ہیں۔بہرکیف یہ جو کئی سالوں سے ہمارے ملک میں نئے سال کی آمد کوجشن کی صورت میں منانے کی روش زور پکڑ رہی ہے، اس کے منفی پہلوؤں کی جانب توجہ دینا از حد اہم ہے ورنہ ہمیں اپنی روایات اور شناختیں بسر جانے میں کچھ زیادہ وقت نہ لگے گا۔


۔ آئیے ہم عزم کریں کہ اب کی بار سال ِنو کی ابتداء نیکی، بھلائی اور فلاح کے کاموں سے کریں گے۔ مغرب کیطرز زندگی اور ان کی تہذیب کا مکمل بائیکاٹ کر کے ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان اور اپنی دینی اور قومی روایات سے محبت کرنے والے مسلمان کی طرح نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تلافی کا پختہ ارادہ بھی کریں گے۔

Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 225 Articles with 250685 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More