انڈیا،نام بڑے اور درشن چھوٹے

بھارتی وزیر اعظم سرینگر پدھارے اور صرف پدھارے ہی نہیں بلکہ بی جے پی کی انتخابی مہم کے حوالے سے منعقدہ جلسے میں منافقت کے ساتھ ساتھ جسم پر کشمیری لباس فیرن بھی چڑہا لیا۔بھارتی وزیر اعظم بہت بڑے ہیں ،ہندی میں’’ مہان‘‘ ،یعنی بھارت چین کو چھوڑ کر باقی اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے بہت بڑا ملک ہے،ووٹروں کی تعداد کی لحاظ سے بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے،بڑے کاروبار ہیں،بڑی صنعتیں ہیں،بہت بڑی فوج ہے،مضبوط اداروں کا چرچا ہے،وزیر اعظم مودی بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ ہیں جو بھارت کے اکثریتی ہندوؤں کی نمائندہ پارٹی ہے،نریندر مودی بھارت کی اقتصادی ترقی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے،وزیر اعظم مودی کی طرف سے یہ تاثر واضح ہے کہ وہ بھارت کی اقتصادی ترقی کو بھی بی جے پی کی روائتی تعصب کی عینک سے دیکھ رہے ہیں،اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کی مودی حکومت نے چین کے ساتھ معاشی تعلقات میں اضافہ کیا،امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کیا لیکن اپنے اہم ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لئے تو نہیں البتہ مزید خراب کرنے کے اقدامات ضرور کئے ہیں۔بھارت پاکستان سے ’’مقدار‘‘ میں بہت بڑاملک ہے لیکن پاکستان کے معاملے میں بھارت کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور روائتی مسلم بیزاری پر مبنی پاکستان دشمنی کے دیرینہ مرض میں مبتلا نظر آتاہے۔لیکن بھارت کا یہ بڑا پن،بھاری بھرکم وجود کس کام کا کہ وہ اپنی فوجی،سیاسی،اقتصادی و دیگر تمام قوت کے استعمال کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام اور نامراد چلا آ رہا ہے۔اس کا احساس بھارت کے کرتا دھرتا طبقے کو ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر،پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کی وجہ سے تمام جنوبی ایشیاء میں امن و ترقی کی راہیں محدود ہیں اور اس میں کاوٹیں حائل ہیں۔کسی یورپی شخصیت نے کہا تھا کہ بھارتی جمہوریت بانہال سے آگے جاکر کشمیر داخل نہیں ہو پاتی،اسی طرح کشمیر کے معاملے میں بھارت حواس کھو بیٹھتا ہے اورشدید نفرت پر مبنی مسلح طاقت کے استعمال کو ناگزیر پالیسی بنا لیتا ہے۔انسانی تذلیل میں بھی بھارت بہت بڑا ملک ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نے سرینگر کے کر کٹ سٹیڈیم میں بی جے پی کی الیکشن مہم کے جلسے میں کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے جو شروعات کی تھی ،اسے آگے بڑہایا جائے اور کشمیر میں اچھے دن لائے جائیں۔مودی نے کہا کہ مجھے کرپشن ختم کرنے کے لئے موقع دیا جائے۔بھارتی وزیر اعظم نے واجپائی کا جملہ دہراتے ہوئے کہا کہ تنازعہ کشمیر کا حل انسانیت،کشمیریت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔کشمیری لباس فیرن میں ملبوس مودی کے سٹیج پہ کشمیر کے نقشے پہ بڑے حروف میں’’ مشن+44 ‘‘تحریر تھا۔مودی نے نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی پر سخت تنقید کی اور ان دونوں پارٹیوں کو ’’ باپ بیٹے‘‘ اور ’’ باپ بیٹی‘‘ کی پارٹیاں قرار دیا۔بھارتی وزیر اعظم نے اٹل بہاری واجپائی کا مسئلہ کشمیر سے متعلق جملہ تو دہرا دیا لیکن اس سلسلے میں مودی حکومت کی پالیسی واجپائی حکومت کی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔واجپائی نے لاہور کا دورہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پاکستان کے ساتھ مزاکرات سے پرامن طور پر حل کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کی طرف سے یکطرفہ خیر سگالی کے جواب میں پاکستان کے ساتھ مزاکرات منقطع کر دیئے اور پاکستان کے خلاف سیز فائر لائین(کنٹرول لائین)پر جارحانہ فائرنگ شروع کی۔مودی حکومت کے اقدامات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ اپنے حق میں ختم کرنے کے لئے انتہا پسند ہندو تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ کے منصوبے کے مطابق وادی کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلی کی پلاننگ میں مصروف ہیں۔اس طرح بھارتی وزیر اعظم ایک طرف امن،اقتصادی ترقی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق ہٹ دھرمی پر مبنی روئیہ اپنائے ہوئے ہیں ۔نریندرمودی بڑے لیڈر نہیں ہو سکتے ،کیونکہ وہ بھارت کو مسائل،مشکلات ،غربت و افلاس سے نکالنے کے لئے بھارت کی حقیقی قیادت کرنے کے بجائے سر جھکائے انڈین اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے چل رہے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم سرینگر بادامی باغ فوجی چھاؤنی گئے اور اوڑی میں گزشتہ دنوں مارے گئے بھارتی فوجیوں کی یادگار پر پھول چڑہائے۔دنیا میں جب سے جنگ و جدل شروع ہوئی ، عسکریوں ،لڑائی لڑنے والوں کی دو اقسام سامنے آئیں ،یعنی باقاعدہ فوج اور بے قاعدہ فوج،افغانستان میں روس کے خلاف لڑی جانے والی طویل لڑائی کے وقت سے لڑنے والوں کی ایک نئی قسم بھی سامنے آ گئی یعنی بے قاعدہ،باقاعدہ اور القاعدہ۔اب ملک اپنی اصل فوجی طاقت کو محفوظ رکھنے کے لئے ایسے عسکری گروپوں کی موجودگی ضروری تصور کرتے ہیں اور یہ گروپ ملکوں کو کئی قباحتوں سے بچا کر ان کے اہداف کی تکمیل کرتے ہیں۔بے قاعدہ فوج رکھنے کایہ انداز چند ملکوں تک محدود نہیں البتہ اس کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔

یہ سراسر بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ ڈوگرہ مہاراجہ کے بھارت سے الحاق اور اور مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی توثیق کی بنیاد پر کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتا ہے،مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرنے اور اس کے حل سے مسلسل گریزاں ہے۔اگر مقبوضہ ریاست کا بھارت سے الحاق ہو چکا ہے تو چین کے زیر انتظام علاقے اقصائے چن کا کیا؟ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا کیا،جس کو پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی پاسداری میں بھارت کی طرح خود میں ضم کرنے کے بجائے، ان کی علیحدہ حیثیت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت اٹو ٹ انگ کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا دعوی بھی کرتا تھا لیکن اب سالہا سال سے بھارت کی طرف سے اس طرح کا دعوی نہیں کیا گیا۔یعنی بات وہی کہ بھارت کشمیر کو موجودہ تقسیم کی بنیاد پر ہی حل کرنا چاہتا ہے ۔لیکن چاہتا بھی کہاں ہے ،مسئلہ کشمیر اور مسئلہ کشمیر کے حل کی بات سن کر ہی بھارت کی سانس اٹک جاتی ہے کہ کہیں تمام تر مکاری اور ہٹ دھرمی کے باوجود بھارت کے ساتھ’’ ہاتھ نہ ہو جائے‘‘۔’’ہاتھ ہو جانے‘‘ کا وہی خوف ہے جو بھارت کو مہذب ہونے کی کوشش میں ہیجان خیزی اور سختی کا روئیہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔مسئلہ کشمیر کا پرامن اور منصفانہ حل ہی وہ بڑا امتحان ہے جس میں سرخرو ہونے کے بعد ہی بھارتی نیتا خود کو عوامی مفاد میں ملک چلانے کا اہل ثابت کر سکتے ہیں۔بھارتی حکومت کو کانگریس کی طرح کے چانکیائی انداز اپنانے کے بجائے سابق بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی طرح پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تا کہ جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کے نئے دور کا آغاز ممکن ہو سکے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 618363 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More