معذوروں کا عالمی دن ۔ نابیناافراد پر تشدد

دنیا ۳ دسمبر کو معذوروں کے عالمی دن پر اُن سے اِظہار یکجہتی کررہی تھی اُن سے ہمدردی اور ان کے مسائل اور مشکلات کو کم سے کم کرنے کی تجاویز پر غور کررہی تھی اور ہم معاشرے کے اس مظلوم طبقے پر جو بینائی سے محروم ہے اپنی پولس کے ہاتھوں تشدد کررہے تھے۔ لمحۂ فکر ہے پوری قوم کے لیے خصوصاً حکمرانوں کے لیے کہ ہم کہاں جارہے ؟ہماری ذہنی ابتری کی کوئی منزل ہے، آخرہم اپنے آپ کو کتنا پستی میں لے جائیں گے۔ پنجاب پولس آخر کس مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ بالکل مادر بدر آزاد، نہ کوئی روکنے والا ، نہ کوئی کہنے والا، نہ کسی کا ڈر ، نہ کسی کا خوف۔ کہتے ہیں کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب دونوں حکمراں ملک سے باہر تھے اس وجہ سے نابینا ؤں پر ظلم ڈھانے والے پولس اہلکاروں کے خلاف کاروائی نہ ہوسکی۔ بہت خوب۔ کیا دلیل ہے۔ گویا جتنا چاہے کسی پر ظلم و زیادتی ہوجائے میاں براداران کوئی قدم اٹھا ئیں گے تو انصاف ہوگا ورنہ وقت انتظار میں ہی گزر جائے گا۔ آخر وزیروں کی فوج ظفر موج کس لیے ہے۔تجزیہ کار حسن نثار نے بہت درست کہا کہ ’ نابیناؤں پر ظلم کے لیے اندھا ہونا ضروری ہے نا درندہ ہونے کی شرط ہے‘۔ پنجاب پولس اندھی تو نہیں البتہ اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ درندہ ضرور ہے۔ اس کے اس عمل سے پاکستان کے ہر ایک فرد کا سرَ شرم سے جھک گیا ہے۔ بیرون دنیا والے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ہم بیہودگی کے گھڑے میں اس قدر گر چکے ہیں کہ کسی سے نظر ملانے کے قابل بھی نہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کس منہ سے مقامی لوگوں کا سامنا کرتے ہوں گے۔ پنجاب پولس کے اس عمل پر اسے جس قدر بھی لعن طعن کیا جائے کم ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ آنکھ والوں نے نابینا افراد پر تشدد نہیں کیا بلکہ نابینا پولس والوں نے بینا افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس لیے کوئی بھی بہ شعور کسی ایسے شخص پر جس کے ہاتھ میں سفید چھڑی ہو ڈنڈا اٹھانا تو دور کی بات ہاتھ اٹھانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا ہم ایسا نہیں کرتے کہ اگر سڑک کے کنارے کوئی سفید چھڑی لیے ہوئے نظر آجائے تو ہم لپک کر اُسے سڑک کراس نہیں کراتے؟، بس میں سفر کے دوران اگر سفید چھڑی بردار نظر آجائے تو ہم فوراً اس کے لیے اپنی سیٹ خالی نہیں کردیتے تو پھر اس پنچاب پولس میں آخر کون سی مخلوق بھرتی کر لی گئی ہے کہ جو آنکھوں سے اندھی، کانوں سے بہری، عقل سے کوری، سمجھ سے عاجز، فہم سے ناپید، شعور سے خالی ، ادراک نہ رکھنے والی ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے ولے نابینا افراد نے جو تعداد میں صرف دو سو کے قریب تھے بدھ ۳ دسمبرکو اپنے جائز مطالبات کے حق میں پہلے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ جا نے کی کوشش کی تاکہ اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچاسکیں۔ مظاہرے کا یہ سلسلہ ڈیوس روڈ تک بڑھ گیا ،مظاہرین مال روڈ پہنچے توکلب چوک پر صدر مملکت جناب ممنون حسین کی سواری وہاں سے گزرنا تھی جس کے لیے وہاں پروٹوکول لگا ہوا تھا ۔ (رات مختلف چینل پر ایوان صدر کے ترجمان کی جانب سے اس کی تردید کی جارہی تھی) اب بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ سربراہ مملکت نے جس راستے سے گزرنا ہو وہاں پر لوگ احتجاج کریں خواہ وہ بینا ہوں یا نابینا۔ پولیس یہ کیسے برداشت کرسکتی تھی۔ چنانچہ ہماری پولس کے فرض شناس جوانوں کو احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں میں سفید چھڑی بھی نظر نہ آئی ۔ کیونکہ اس وقت وہ خود عقل کے اندھے ہوچکے تھے۔ انہوں نے نہتے نابیناافراد پر خوب چھترول کیا کہ انہیں لگ پتا چل گیا کہ پنجاب پولس اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کس قدر چوکس ہے۔ جب وہ اپنا ڈنڈا گماتی ہے تو اسے کچھ نظر نہیں آتا کہ اس کے سامنے کوئی بچہ ہے، خاتون ہے، سفید داڑھی والا کوئی بزرگ ہے یا جوان اس کے سامنے سارے احتجاجی محمود و ایاز ہوجاتے ہیں ۔ بقول مظہر برلاس ’اگر آنکھوں والے اندھے ہوجائیں تو کیا کہا جاسکتا ہے‘۔لگتا ہے کہ اس جگہ پولس کا کوئی بھی ذی شعور افسر ڈیوٹی پر نہیں تھا تمام کے تمام افسران وزیر اعلیٰ کے ساتھ بیرون ملک دورے پر تھے۔ کچھ جسمانی طور پر اور باقی ماندہ ذہنی طور پر خادم اعلیٰ کے ہمراہ ہی ملک سے باہر تھے۔ اگر کوئی ایک بھی معقول افسر اس
جگہ ہوتا تو یقینا یہ واقعہ ہر گز ہر گز پیش نہ آتا۔

خبر یہ ہے کہ نابینا افراد پر تشدد کرنے والے پانچ اہلکاروں کو معطل کردیاگیا ہے ۔ یہ کاروائی ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف نے کی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے باہر بیٹھ کر واقعہ کا سخت نوٹس لیا اور سی سی پی او لاہورسے رپورٹ طلب کرلی اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا حکم دے دیا۔ تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے۔یہ ضابطے کی کاروائی ہے ۔ اس قسم کے واقعہ کے بعد یہی کچھ ہوتا ہے۔بعد میں ٹائیں ٹائیں فش۔ نابیناؤں پر تشدد کی کاروائی تمام ہی ٹی وی چینل نے دکھائی۔ دیکھ کر ہر ایک کا دل خون کے آنسورویا ۔ صدر مملکت نے افسوس کا اظہار دو دن بعد کیا، حالانکہ یہ واقعہ ان کی لاہور موجودگی میں ہی ہوا۔روزنامہ جنگ کے مطابق’ پولس والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر مملکت کو گورنر ہاؤس سے آرام سے نکلنے کا راستہ فراہم کرنے کے لیے ان نا بینا افراد کو روکا جس کے بعد مسلم لیگ ہاؤس کے قریب بلائنڈ ایسو سی ایشن کی جانب سے دھرنا دینے پر معاملات خراب تر ہوگئے‘۔ نابینا مظاہرین کے کیا مطالبات تھے۔ کیا وہ ’گو نواز گو ‘ کے نعرے لگا رہے تھے؟ نہیں ہر گز نہیں ۔ کیا وہ حکومت گرانے کے ارادے سے آئے تھے، نہیں ہر گز نہیں، کیا سفید چھڑی والے یہ دو سو افراد صدر صاحب کے قافلے کے سامنے آنا چاہتے تھے؟ یہ بھی نہیں تو پھر وہ کیا چاہتے تھے۔ سنیے ٔ سفید چھڑی والوں کے مطالبات یہ تھے کہ شوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں ۹۵۰ اسامیاں خالی ہیں انہیں پر کیا جائے۔ ان اسامیوں پر معذورافراد کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے۔نابینا افراد یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں ملازمتوں میں ان کا جائز حق یعنی دو فیصد کے حساب سے ملازمت کو یقینی بنایا جائے جو قانونی طور پر طے شدہ ہے۔ یہ حق معذوراں کو ۱۹۸۱ء میں جاری ہونے والا ایک آرڈیننس دیتا ہے یہ آرڈیننس Disabled Persons (Employment and Rehabilitation) Ordinance 1981 ہے۔ پاکستان میں معذور افراد کل آبدی کا 2.49فیصد ہیں۔ اب جب کہ نادرا نے ۸۲ ہزار معذور افراد کو کارڈ بھی جاری کردیے ہیں ۔ حکومت پر لازم ہے کہ مختلف محکموں میں جو4049 اسامیاں خالی ہیں معذور افراد سے فل کرے۔ تاکہ معاشرے کے اس اہم طبقے کو اس کا جائز حق مل سکے۔۲۰۰۲ء میں حکومت کی جانب سے National Policy for Persons with Disabilitiesبھی جاری کی جاچکی ہے۔ معذوروں کے لیے کیے جانے والے ان اقدامات پر اگر ایمانداری سے عمل درآمد کیاجائے تو معاشرے کا یہ محروم طبقہ دیگر کی مانند خوش حال زندگی گزانے کے قابل ہوجائے گا۔ ایسا کرنا ہمارا اخلاقی اور قانونی فرض ہے۔اس حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ قومی اسمبلی نے اس واقعہ کا فوری ایکشن لیتے ہوئے متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کر لی ۔

ان ۲۰۰ افراد پر جو اپنے ہاتھوں میں مطالبات کے بینر اور اپنی شناخت سفید چھڑی لیے ہوئے تھے تشدد کرنے کے بجائے انہیں پیار و محبت سے کسی مناسب جگہ بُلا کر ان سے گفتگو کی جاتی ، ان کی بات ہمدردی سے سنی جاتی، انہیں تسلی و تشفی دی جاتی اور ان کے جائز مطالبات حکام متعلقہ تک پہچانے کا وعدہ کر لیا جاتا تو وہ معصوم لوگ یقینا خاموشی سے ، خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ یہ کام پنجاب کا کوئی بونے سے بونا وزیر بھی کرسکتا تھا، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی دستیاب نہیں تھا کیونکہ وہ سب آجکل دھرنے والوں کے خوف سے دم بخود ہیں چند بہادر ہیں دن بھر شام کو ٹی وی پر ٹاک شو میں شرکت کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں، ان کا بیشتر وقت بیوٹی پارلر میں گزرتا ہے۔ لیکن وزیر خواہ مرکز کے ہوں یا حکومت پنجاب کے یہ کسی بھی ایسی بات کو جو حکومت کے خلاف جاتی محسوس ہو اسے سرے سے مانتے ہی نہیں۔یہ معاملہ بھی کچھ ایساہی تھا۔ اب پنجاب کے سابق وزیر قانون رعنا ثناء اﷲ محترم کو ہی لے لیں۔ ۱۴ جون ’واقعہ ماڈل ٹاؤن‘ ان کی وزارت ہڑپ کرچکا لیکن وہ اب بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ جیو نیوز کے اینکر پرسن مسعود رضا کے ساتھ پروگرام کرتے ہوئے اس بات پر چراغ پا ہوگئے جب اینکر نے نابیناافراد پر لاٹھی چارج کو شرمناک کہا تو سابق وزیر یک لخت غصے میں لال پیلے ہوگئے فرمایا کے ۔ فرمایا کوئی تشدد نہیں ہوا اورنہ ہی کوئی شرمناک ہے یہ تو دھکم پیل تھی ۔ میڈیا کے لوگ بلاوجہ اسے بڑھا چڑھا کر اور شرم ناک جیسے الفاظ کا نام دے کر بھڑکا رہے ہیں۔ رعناء صاحب کا کیا قصور ۔ بندے کی چھوٹی موٹی نوکری چلی جائے تو وہ مشکل میں آجاتا ہے پنجاب حکومت کی وزارت وہ بھی قانون دانی کی،بڑی چیز ہے ۔ انہوں نے تو ایسا ہی کرنا ہیں۔ چلیں چھوڑ یں وزیرو کو یہ کام تو کسی بھی محکمے کے سیکریٹری سے لیا جاسکتا تھااگر وہ بھی دستیاب نہیں تھا تو سوشل ویلفیئر کا ڈائریکٹر ہی بلا یا جاسکتا تھا ، اگر وہ بھی پولس افسران کی پہنچ میں نہیں تھا تو یہ کام کوئی بھی معقول پولس افسر بہت آسانی سے کرسکتا تھا۔ جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو تو وسائل ہونے کے باوجود وہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ یہی کچھ اس معاملے میں بھی ہوا۔ بات چیت نہیں کرنا تھی ، نہیں کی، لاٹھیاں برسانا تھیں وہ برسادی گئیں۔ اب صدر مملکت، وزیر اعظم ، خادمِ اعلیٰ، وزیر صاحبان لاکھ مذمتی بیانات دیں، افسوس اور دکھ کا اظہار کریں وہ رسمی اور ضابطے کی کاروائی سے کچھ اور زیادہ نہیں ہوگی۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ  اقتدار تیسری بار جھولی میں آن گر اہے اس لیے اپنی قدر کھو چکا ہے۔

اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں دنوں ، ہفتوں ،سالوں اور دس سالوں کا انتخاب کیا جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح کے مسائل اور issues جن میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دلچسپی رکھتے تھے کو اجاگر کرنا تھا۔بسا اوقات یو این کے ذیلی ادروں نے اپنے پروگرام کے مطابق بعض مسائل کو اہمیت د یتے ہوئے مخصوص دنوں کو مقرر کرلیا جیسے عالمی ادارہ صحت WHOنے صحت کا عالمی دن، World No-Tobacco Day، گردوں کا عالمی دن، دل کا عالمی دن،ٹی بی کاعالمی دن وغیرہ کے انعقاد کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح یونیسکو نے بھی بعض موضوعات کو اجاگر کرنے اور عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف دنوں کا انتخاب کیا اور اس دن اس موضوع کی مناسبت سے سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسیزاور نمائش کااہتمام کیا جانے لگا۔ جیسے ’پانی کا عالمی دن‘، عالمی لٹریسی ڈے‘، عالمی ماحولیاتی ڈے‘، ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن،مادری زبان کا عالمی دن ، کتاب کا عالمی دن اوراسی طرح دیگر موضوعات پر دنوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اسی طرح معذور افراد سے اظہار یکجہتی اور ان کے مسائل و معاملات کو اجاگر کرنے کے لیے ۱۹۹۲ء میں اقوام متحدہ نے ۳ دسمبر کو ’معذوروں کا عالمی دن‘ قرار دیا ۔ اس دن دنیا بھر میں معذوروں کے حوالے سے مختلف پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں۔ہر سال کا موضوع مختلف ہوتا ہے۔ ۲۰۱۴ء کا موضوع Sustainable development: the promise of technologyتھا۔اس موضوع کے حوالے سے سیمینارز، کانفرنسیزاور لیکچر اور دیگر پروگراموں کا انعقاد ہوا۔ پاکستان میں بھی معذوروں کی فلا ح و بہبود سے متعلق فلاحی تنظیموں نے معذوروں کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دئے۔ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حکومتِ وقت کو نابینا افراد کے جائز مطالبات سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن پنجاب پولس میں شامل بعض اہلکاروں کی لاپروئی اور تساہلی سے معاملہ خراب سے خراب تر ہوگیا اور نوبت نابیناؤں پر لاٹھی چارج تک پہنچ گیا جن کو یہ تک معلوم نہیں کہ انہیں کون مار رہا ہے، کیا چیز ان کے سر پر ماری جاری ہے، لاٹھی چارج کے نتیجے میں وہ اگر گر رہے ہیں تو کس جگہ گر رہے ہیں۔ آنکھوں والا تو اپنے آپ کو کسی حد تک بچا نے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ بیچارے تو اس سے بھی محروم ہیں۔ ان پر ظلم و زیادتی کسی بھی طور قابل معافی نہیں۔ اظہار ہمدردی کے بیانات اس کے لیے کافی نہیں، زیادتی کرنے والوں کو ہر صورت سزا ملنی چاہیے۔

نابینا اور دیگر معذور افراد کے تمام مسائل کو اولین فرصت میں اور ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ (۸ دسمبر ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286044 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More