پاکستان میں غیر قانونی اسلحے کی بھرمار

پاکستان میں دن بدن دہشتگردی اور قتل و غارت گری بڑھ رہی ہے اور چوری، ڈاکا زنی، لوٹ مار اور دیگر جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان بدامنی و بے سکونی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ عدم برداشت سے بھرپور اس معاشرے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر گولیوں کا چلنا اور بات بات پر قتل ہو جانا ایک معمول بن چکا ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں بدامنی کا راج نہ ہو۔ ملک میں بدامنی کے پھیلاﺅ میں پاکستان میں عوام کے پاس غیر قانونی اسلحے کی بھرمار کو بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے، جب تک ملک کو اسلحے سے پاک نہیں کیا جاتا اس وقت ملک میں بدامنی کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اگرچہ پولیس اور دیگر اداروں کی طرف سے ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں غیر قانونی اسلحے کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ معاصر اخبار کے مطابق ملک بھر میں ممنوعہ اور غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ کی تعداد 6 کروڑ 50 لاکھ سے زاید ہے، جن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 لاکھ ہتھیار لائسنس یافتہ جبکہ 6 کروڑ سے زاید چھوٹے بڑے ہتھیار غیر قانونی ہیں۔ کراچی میں ہتھیاروں کی تعداد پونے دو کروڑ، جبکہ لاہور میں 40 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 1998ءکی مردم شماری کے دوران شہریوں کے پاس 2 کروڑ کے قریب ہتھیار تھے، جن میں سے صرف 20 لاکھ ہتھیار لائسنس یافتہ تھے، باقی ایک کروڑ80 لاکھ ہتھیار بغیر لائسنس کے تھے اور اب 16سال بعد ان کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد ساڑھے چھ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ اس طرح ملک میں ان غیر قانونی ہتھیاروں کی تعداد فوج،پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے پاس موجوداسلحے سے بھی زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق افسروں، اہلکاروں کی ملی بھگت سے بسوں، ٹرکوں، ٹینکروں، ایمبولینسوں کے ذریعے اسلحے کی اسمگلنگ جاری ہے اور ایک لائسنس پر کئی کئی ہتھیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق غیر قانونی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ پشاور کے گرد و نواح اور علاقہ غیر میں بتایا جاتا ہے، جہاں چھوٹے بڑے ہتھیار بنانے کی فیکٹریاں موجود ہیں اور موزر اور پسٹل سے لے کر کلاشنکوف اور دیگر بھاری اسلحہ تیار ہوتا ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی ہتھیاروں کی بھرمار کے حوالے سے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر قانونی ہتھیاروں کی ملک میں آمد کی ابتدا آزادی پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ 1947ءمیں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان بھارت کے مقابلے میں روایتی ہتھیاروں میں کمزور تھا۔ چنانچہ اس وقت یہاں پر ایسی پالیساں بنائی گئیں، جس میں ملک کو سیکورٹی اسٹیٹ بنا دیا، جس میں ہتھیار اور جنگجو کلچر کو فروغ ملا۔ پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ کی آمد کا سب بڑا ذریعہ افغان بارڈر کو بھی بتایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار علاقہ غیر، پشاور، افغانستان کے صوبہ کنٹر سے پاکستان کے قبائلی علاقوں باجوڑ، مہمند ایجنسی سے ہوتے ہوئے پنجاب سمیت ملک بھر میں پہنچتے رہے ہیں، جبکہ ماضی میں افغانستان کے صوبہ ننگر ہار سے خیبر اور کرم ایجنسی کے راستے اسمگل ہو کر آتے رہے۔ اسلحہ کے اسمگلروں نے غیر قانونی اسلحہ اور گولا بارود کی ترسیل کے لیے افغانستان کی 2640 کلو میٹر لمبی سرحد پر کئی خفیہ راستے بنارکھے تھے، اگر چہ اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور لا تعداد پرانے سرحدی ”روٹ“ اب ہتھیاروں کے اسمگلروں کے لیے تقریباً بند ہو کر رہ گئے ہیں، تاہم کئی خفیہ راستوں سے اسلحہ کی اسمگلنگ اب بھی جاری ہے۔ جب بڑی تعداد میں اسلحہ اسمگل کیا جاتا، تب اس مقصد کے لیے ریت، بجری، لکڑی، کوئلہ لانے والے ٹرکوں اور ٹرالوں کے علاوہ آئل ٹینکرز اور ایمولینسوں اور دیگر گاڑیوں کا بھی استعمال کیا جاتا، جبکہ اس کے علاوہ مسافر بسوں اور دیگر گاڑیوں میں سوار افراد خفیہ طریقہ سے اسلحہ یہاں لے آتے۔ اس طرح ملک میں غیر قانونی اسلحے کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی، جو حکومت کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ اس وقت بھی جگہ جگہ غیر قانونی اسلحے کا کاروبار کرنے والے موجود ہیں۔ مقامی طور پر تیار ہونے والا اسلحہ انتہائی کم نرخوں پر دستیاب ہوتا ہے اور ایک عام پستول 500 روپے سے لے کر 2000 روپے تک آسانی سے مل جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسلحے کی اسمگلنگ کی منزل بن چکا ہے، کیونکہ پاکستان میں اسلحے کی بھرمار میں غیر ملکی طاقتیں بھی ملوث ہیں۔ وسطی ایشیا میں مختلف طاقتوں کے مفادات ہیں اور بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہم ہے اور وہ طاقتیں یہاں استحکام نہیں چاہتیں۔ بلوچستان سے آئے روز ہزاروں کلو گرام بارود اور بڑی تعداد میں اسلحے کی برآمدگی بھی غیر ملکی سازشوں کا حصہ ہے۔

ملک میں اسلحے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر ایک عرصے سے ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے حکومت پر زور دیا جاتا رہا ہے، جس پر ماضی میں مختلف حکومتوں کی جانب سے غیرقانونی اسلحہ کے خلاف آپریشن کیے گئے جو نامناسب حکمت عملی کے سبب ناکامی سے دوچار ہوئے۔ غیرقانونی اسلحے کے خلاف پہلاآپریشن 80ءکی دہائی کے وسط میں کیا گیا تھا، مگر یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا۔ اسلحہ کے خلاف دوسراآپریشن بے نظیربھٹوکی دوسری حکومت میں 90ءکی دہائی کے وسط میں شروع کیا گیا۔ غیرقانونی اسلحہ سے صاف کرنے کے لیے تیسر ا آپریشن میاں نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں شروع ہوا، مگر سیاسی دباﺅ کاشکارہوکراس آپریشن کو روکنا پڑا۔ جنرل(ر) پرویزمشرف کے دورمیں حکومت کی جانب سے باقاعدہ طورپرقومی سطح پر”آرمز کنٹرول پروگرام“ شروع کیا گیا، جس کا مقصدشہریوںسے غیرقانونی اسلحہ کی ضبطی کے ذریعے ایک مہم شروع کرنا تھا۔ اس حوالے سے جون 2001ءمیں حکومت کی جانب سے غیرقانونی اسلحہ رکھنے والے افرادکورضاکارانہ طورپراسلحہ جمع کراکرعام معافی کااعلان کرکے دوہفتے کی مہلت دی گئی، مگریہ مہم بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔ موجودہ حکومت سے بھی تمام سیاسی ودینی جماعتوں ، غیرسرکاری تنظیموں اورشہریوں کی جانب سے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کامطالبہ بار بار کیا گیا، جس کے بعد سندھ حکومت نے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم کا آغاز کیا، جو گزشتہ سال 26 ستمبر سے 12 اکتوبر تک پندرہ روز جاری رہی۔ اس مہم پر سندھ حکومت کی جانب سے 30 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، لیکن دو کروڑ آبادی والے شہر کراچی سے 15 روزہ اس مہم کے دوران صرف 16 افراد نے اپنے ہتھیار جمع کرائے۔ اس طرح جمع کرایا گیا اسلحہ فی ہتھیار 18 لاکھ روپے میں پڑا۔ غیرقانونی اسلحے کی برآمدگی کے حوالے سے یہاں قانون موجود ہے، جو سرنڈر آف اللیسیٹ آرمز ایکٹ 1991 کہلاتا ہے، جس قانون کے تحت عوام کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی اسلحہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایک خاص تاریخ تک جمع کرا دیں اور اس تاریخ کے بعد غیرقانونی اسلحہ کی برآمدگی کی صورت میں انہیں گرفتار کرلیا جائے گا اور اس کی سزا عمر قید ہوگی۔ اس قانون کے نفاذ سے غیرقانونی اسلحہ رکھنے والا طویل عرصے جیل سے باہر نہیں آسکتا۔ موجودہ نافذالعمل قانون کے تحت ایک ملزم کو تین سے چودہ سال تک کی سزا ہوسکتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلاو ¿ کے نتیجے میں نہ صرف خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ ان ہتھیاروں کی موجودگی میں قبائلی جھگڑے ایک جنگ کا روپ دھار لیتے ہیں۔ انہی ہتھیاروں کی دہشت گردوں کے پاس موجودگی نے ملک بھر میں کے سیکورٹی کے اداروں کو دیوار سے لگا رکھا ہے اور ملک میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہرسال اکتوبرکے آخری ہفتے کو ہتھیاروں کے خلاف عالمی ہفتہ کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں لوگوںمیںیہ شعورپیداکرناہوتاہے کہ سڑکوںپرہتھیاروں کی موجودگی کے بغیردنیاکتنی پرامن ہوتی ہے۔ 1978ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسلحہ کی تخفیف کے حوالے سے بلائے گئے خصوصی سیشن کی قراردارمیں دواقسام کے ہتھیاروں کی تخفیف کامطالبہ کیا گیا تھا۔ ان میں انسانی تباہی والے ہتھیارجیسے نیوکلیائی، کیمیکل یا بائیولوجیکل ہتھیار اور ایسے چھوٹے ہتھیارجیسے رائفل، پستول اوربندوق وغیرہ، جس سے معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے،لیکن پاکستان میں اس دن کو صرف منایا جاتا ہے، ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کے حوالے سے کوئی موثر اقدام نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا حکومت ملک میں اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے منظم و مضبوط پالیسی وضع کرے، جس کے تحت اسلحے کی پیداوار کو ریگولرائز کیا جائے یا اسے یکسر بند کردیا جائے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 640376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.