اسلام کا پاکیزہ خاندانی نظام

 بِسْمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ الحمد ﷲ رب العا لمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ نینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔ اما بعد، اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم، بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔ قال اﷲ تعالیٰ
﴿واذ قال ربک للملآئکۃ انّی جاعل فی الارض خلیفۃ، قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدمآء ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک، قال انّیٓ اعلم ما لا تعلمون۔﴾
() البقرۃ، ۳۰/۲
’’پھر ذرا اُس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے نظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدو ثنا کے ساتھ تسبیح اور تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔فرمایا میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔‘‘
اﷲ رب العالمین نے اِنسان کو اپنا زمین میں اپنا نائب (خلیفۃ الارض) بنا کر دنیا میں بھیجا تا کہ اﷲ کی زمین پر اُس کا قانون نافذ کرے۔ اِنسان کی تخلیق تو اصلاً اﷲ تعالیٰ کی خوبصورت کاری گری تھی جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے شیطان کو آدمؑ کے سامنے سجدہ نہ کر نے پر فرمایا کہ تو نے ایک ایسے شخص کے سامنے میرے حکم پر سجدہ کیوں نہیں کیا جس کو (خلقت بیدیّ) میں نے اپنے دو نو ں ہا تھو ں سے بنایا؟ گو یا اِنسانِ اول تو اﷲ تعالیٰ کے دستِ قدرت سے بنا اور دوسرا اِنسان حضرت آدم علیہ السلام کی رفاقت اورافزائش نسلِ اِنسانی کے لیے ایک خاتون حضرت حوا علیھاالسلام کی صورت میں اُنہی کی جان سے اﷲ تعالیٰ نے اپنی چاہت کے مطا بق پیدا فرمایا اور پھر اُن دونوں کو عقدِ نکاح میں جوڑ دیا گیا۔ اس طرح افزائشِ نسلِ اِنسانی کے لیے ایک خوبصورت، پاکیزہ اور محبت سے بھرپور خاندانی نظام کی بنیاد رکھ دی۔ کچھ عرصہ دونوں جنت میں رہے اور بعض پابندیوں پر عمل پیرا نہ رہنے کی وجہ سے مشیئتِ ایزدی کے مطابق انہیں زمین پر منتقل کر دیا گیا۔ چونکہ جنت میں رہائش پذیری کے دوران اِنسان کے از لی دشمن شیطان سے متعارف کرا دیا گیا تھا، اِس لیے یہ حکم فر ما یا کہ:
﴿فامایاتینکم منی ہدی فمن تبع ہدٰی فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون۔﴾
() البقرۃ، ۲/ ۳۸
’’پس میری طرف سے جب بھی ہدا یت آئے اور میری ہدایت کے مطابق جو بھی عمل کرے پس ان کے لیے کوئی خوف اور غم نہیں۔‘‘
خلافت ارض کے لیے اِنسان کو پوری روئے زمین پر پھیلا نا مقصودتھا اِس لیے اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فر مایا:
یا ایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھاوبث منھمارجالا کثیرا ونسآء۔
() النسآء، ۱/۴
’’لوگو ! اﷲ سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اِس کا جوڑا بنایااور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلائے۔‘‘
تخلیقِ آدم ؑو حواؑ کے بعد جو اَفزائشِ نسلِ اِنسانی کا ذریعہ بنایا گیا وہ زوجین قرار پائے۔ اور اﷲ تعالیٰ نے فطرت میں ایک ایسا جذبہ رکھا جس سے نسلِ اِنسانی کے فروغ میں آسانی اور اِس کی حفاظت ونگہبانی کا اہتمام ہو۔ تخلیق اِنسانِ اول کے بعد پیدائش اِنسانی کا جو خاندانی نظام بنایا گیا ہے وہ کسی طاقت ورعب کے زیر اثر نہیں بلکہ جذباتِ محبت اور سکون قلب کے ساتھ جوڑکر پر کشش بنایا گیا تاکہ میاں بیوی، بچے کی پیدائش کے بعد اُس کی پرورش فطری محبت کے ساتھ کریں۔ اِس طرح قیا مت تک نسل اِنسانی کی فرا وانی بڑی اِحتیاط کے ساتھ ہو تی چلی جائے اور نسلاً بعد نسلٍ پہلے کی جگہ دوسرا لے اور مقصدِ زندگی کو فروغ ملیــ۔
زوجین میں اﷲ تعالیٰ نے بچے کی پید ا ئش کی ایک ایسی صلاحیت رکھی ہے جس کو مادۂ تولید یا پانی کا وہ قطرہ جو مرد کی پشت اور عورت کے سینے کی ہڈیوں سے نکلتا ہے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ار شادہے:
فلینظرالانسان مم خلقo خلق من مآءٍ دافقٍo یخرج من بین الصلب والترائبo
() الطارق، ۷-۵/۸۶
’’ذرا اِنسان یہی دیکھ لے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیاہے․و ہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
مزید ارشاد فر مایا گیا:
وہوالذی خلق من المآءِ بشراً فجعلہ نسباًوّ صھراً، وکان ربک قدیراًo
() الفرقان ۵۴/۲۵
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ الگ سلسلے چلائے تیرا رب بڑا قدرت والا ہے۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے تخلیقِ اِنسان ِاوّل کے بعد پیدائش کے سلسلے کو خاندانی نظام میں بدل دیا اور یہ لامتناہی سلسلہ قیا مت تک کے لئے رائج کر دیا گیا اور زوجین کوخاندانی نظام کی اِکائی بنایا اور مادۂ تولید کو بطور امانت مرد اور عورت کے سپرد کیا اوراس کی حفاظت کا پورا نظام ترتیب دیا تاکہ اِنسان دنیا میں وہ مقاصد با ہم پہنچا ئے جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی۔
جوہرِ خاص کی حفاظت کے اقدامات
یہ بات تو بڑی عجیب لگے گی کہ ہم نے مادۂ تو لید کو امانت سے کیوں تعبیر کیا؟ در اصل اس کے چند اہم پہلو ہیں جس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ چونکہ مقصد تخلیق آدمؑ ’’خلیفۃاﷲ فی لارض‘‘ تھا اور قیامت تک اِنسان مرد وخواتین کا پھیلاؤ ایک نظام کے تحت کیا جانا تھا، اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے پہلے ہی خاندانی جوڑے کی تر تیب اِس انداز سے کی کہ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر نے کے بعد اُنہی کی جان سے ایک عورت حضرتِ حوّا علیھاالسلام کو پیدا کر کے آئندہ نسلِ اِنسانی کا پھیلاؤ آسان، پرکشش اور جذبات محبت سے لبریز بنا دیا گیا۔ اور اِس جوہرِ خاص کی حفاظت کے لئے کئی حصار تر تیب دیئے گئے۔
۱۔ پہلا حصار
اِس کا پہلا اور اِنتہائی محفوظ مقام مرد کی پشت اور عورت کے سینے کی ہڈیوں کے در میان بنایا گیا جو زوجین کے کردار کے بغیر اِدھر ادھر نہیں ہو سکتا۔ زوجین کے کر دار کو اِنتہا ئی پاکیزہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے اِس قیمتی جوہر کی مر حلہ وار حفا ظت کریں اور مرد اِسے اپنی بیوی کے سوا کسی اور جگہ معروف طریقے سے ہٹ کر منتقل نہ کرے جس کو اِسلام نے ناجائز قرار دیا ہو۔ اور بیوی اپنے شوہر کے علاوہ اِس جوہر خاص کو کسی اور سے وصول نہ کرے جس کو اِسلام نے حرام قرار دیا ہو۔
۲۔ دوسرا حصار
دوسرا محفوظ ترین مقام رحم یعنیی بطنِ مادر، قرار پا یا۔ چنانچہ اﷲ رب العالمین کا ارشاد ہے:
ولقد خلقناالانسان من سلٰلۃ من طین ثم جعلنٰہ نطفۃ فی قرارٍٍٍ مکین۔
() المؤمنون، ۱۲/۲۳، ۱۳
’’ ہم نے اِنسان کو مٹی کے ست سے بنا یا پھر اسے محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ ‘‘
اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس عورت کے سپرد کی گئی جس کے پاس یہ امانت منتقل ہو چکی۔ اﷲ تعالیٰ نے اِس جوہر خاص سے جس ہستی کو پیدا کر نا ہے اُس کی خوبصورت تصویر سے متعلق فرمایا:
ہوالذی یصوّرکم فی الارحام کیف یشآء․
() اٰل عمران، ۶/۳
’’وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صور تیں جیسے چاہتا ہے بناتا ہے۔‘‘
اب یہ جوہرــ خاص مرحلہ واراپنی منازل طے کر نے کے لئے محفوظ ہو چکا اور اِس کے ہر مرحلے کا تذکرہ اﷲ تعالیٰ یوں بیان فر ما تا ہے کہ:
ثم خلقنا النطفۃ علقۃً، فخلقنا العلقۃ مضغۃً، فخلقنا المضغۃ عظامًا، فکسونا العظٰم لحماً، ثمّ انشا نٰہ خلقاً آخر، فتبٰرک اﷲ احسن الخالقین۔
() المؤمنون، ۱۴/۲۳
’’پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بو ٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھرہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔پس بڑا ہی با بر کت ہے اﷲ، سب کاریگروں سے اچھا کا ریگر۔‘‘
یخلقکم فی بطون امھاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فی ظلمٰت ثلٰثٍ۔
() الز مر، ۳۹/ ۶
’’وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین باریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلاجاتا ہے (یعنی پیٹ، رحم، مشیمہ، وہ جھلی جس کے اندر بچا لپٹا ہو تا ہے)۔‘‘
چونکہ اس کی محفوظ جگہ رحم یعنی بطن مادر، ہے اِس لئے ماں کو اِس کی حفاظت کی ذمہ داری دیتے ہوئے اِسقاطِ حمل کو گناہ قرار دیا گیا۔ اِس سے قبل یہ جوہرِ خاص شوہر اور بیوی کے پاس الگ الگ مقامات پر محفوظ تھا تو دونوں کو اِس کے ضائع کرنے سے منع کیا گیا اور اِسکے ضائع کرنے کے تمام ذرائع حرام قرار دے کر اِس کی حفاظت کی گئی۔ اگرچہ یہاں مخاطب تو مرد ہے لیکن یہ جوہر خاص ہر دو کے پاس ہے اِس لئے دونوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اِس قیمتی جوہر کو ضا ئع کرنے کے لئے کوئی بھی ناجائز ذریعہ اِستعمال نہ کریں۔
حفاظتِ جوہر خاص کے تناظر میں ممنوعہ اُمور
اِس جوہرِ خاص کو ضائع کرنے کے چند ذرائع کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی کریم ﷺنے انہیں ناجائز قرار دیا اورایسے اعمال کرنے والوں کوسخت وعید سنا ئی۔ مثلاً:
۱۔ ’’استمنابالید ‘‘ یعنی اپنے یا دوسرے کے ہاتھ سے شہوت رانی کر نا۔ مثلا فرمایا: (۱) ناکح الیدملعون۔ ’’ہاتھ سے نکاح کر نے والا لعنتی ہے۔‘‘ (۲) عذّب اﷲ تعالیٰ امۃ کانوا یعبثون بمذاکیرھم۔’’اﷲ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو عذاب دیا ہے جو اپنے اعضائے جنسی سے کھیلتے ہیں۔‘‘
() آلوسی، روح المعانی (بحوالہ رسائل و مسائل حصہ دوم از سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ )
اِس طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے:
سبعۃ لا ینظراﷲ الیھم یوم القیامۃ ولا یزکیھم ولایجمعھم مع العاملین ویدخلھم النار فی اوّل الداخلین الا ان یتوبوا ومن تاب تاب علیہ، الناکح یدہ، والفاعل والمفعول بہ، ومد من الخمر، والضارب والدیہ حتّٰی یستغیثا، ولموذي جیرانہ حتّٰی یلعنوہ، والناکح حلیلۃ جارہ۔()
() ابن کثیرحدیث غریب(رسائل و مسائل از سید مودودیؒ)
’’سات آدمی ہیں جن کی طرف اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن نظر بھی نہیں فر مائے گا اورنہ اُنہیں پاک کرے گا الا یہ کہ وہ توبہ کریں توبہ کرنے والے کو اﷲ معاف فر ما تا ہیــ۔ ( ۱) اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا، ( ۲)لواطت کرنے والا، (۳)اور یہ فعل کروانے والا، (۴)عادی شرابی، (۵)اپنے والدین کو مارنے والا یہاں تک کہ وہ فریاد کریں، (۶)ہمسائیوں کو ستانے والا، (۷)ہمسائے کی بیوی سے بد کاری کرنے والا۔‘‘
۳، ۴: اگر چہ اِس حدیث میں چار لوگ دوسرے گناہوں کے مرتکب ذکر کیے گئے ہیں، تا ہم تین لوگ ایک ( ناکح الید)ہاتھ سے شہوت رانی کرنے والا اور دوسرا عمل قوم لوطؑ کرنے اور کرانے والاسخت سزا کامستحق قرار دیا گیا۔ چونکہ اِن کے پاس (جوہر خاص )ایک امانت کے طور مو جو د تھا اور اُنہوں نے اِسے ناجا ئز طریقے سے ضائع کیا۔اِس قبیح عمل کی وجہ سے ایک پوری قوم تباہ وبرباد کردی گئی تھی کیونکہ اِس (جوہر خاص) کی حفاظت اس پوری (بے حیاء) قوم سے زیادہ اہم اورقیمتی ہے۔ اور اِس کو اس اندازمیں ضائع کر نے کی سخت سزا دے کر یہ باور کرایا گیا کہ اِس قیمتی امانت کو کتنا تحفظ حاصل ہے۔
۵۔ وطی بھائم۔ یعنی جانوروں سے تسکین شہوت کو بھی حرام قرار دیا گیاتاکہ اس قیمتی اثاثے کو ضائع ہونے سے بچایا جائیـ؛ یہاں ایک دلچسب پہلو بیان کرنا قرینِ حکمت ہے وہ یہ کہ جانوروں کی جتنی اَقسام دنیا میں موجود ہیں خوا وہ چرندے ہیں، درندے ہیں، یا پرندے؛ اپنی صنف کے علاوہ دوسری صنف کے جانور سے تسکین شہوت حاصل نہیں کرتے۔ اور خود اپنی صنف کے نر جانور، نرجانور سے شہوت رانی نہیں کر تے اور نہ مادہ جانور، مادہ جانور سے شہوت رانی کرتی ہیں۔ حالانکہ اُن کے اندر فطری جذبات تو موجود ہیں لیکن کسی قا نون کے پابند نہیں؟۔لیکن اِنسان جب بگڑتا ہے تو جانوروں سے بد تر ہو جا تا ہے ﴿اولٰئک کلانعام بل ھم اضل﴾
مادۂ تولید، جسے ہم نے جوہرِ خاص کا نام دیا ہے، اِس کی حفاظت کے لئے بنیادی اور ٹھوس اِقدامات کا حکم دیا گیا ہے تاکہ پاکیزہ خاندانی نظام قائم ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنـ پاک میں متعدد مقامات پراِس خاندانی نظام کو پاکیزہ رکھنے کے اَحکا مات اِرشاد فر مائے اور قاعدہ کلیہ بنایا گیا:
﴿الخبیثٰت للخبیثین والخبیثون للخبیثٰت والطیّبٰت للطیّبین والطیّبون للطیّبٰت﴾
() النور، ۲۶/۲۴
’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے، پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اورپاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔‘‘
گویا اﷲ تعالیٰ نے اِس جوہرِ خاص کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کو پاکیزہ قرار دے کر پاکیزہ خاندان کا تعارف کرایا اور بے احتیاط وبے حیاء مردو خوا تین کو خبیث قرار دے کر پاک وخبیث کے در میان تمیز کر دی اور خاندانی پاکیزگی کے لیے عملی اِقدامات کر نے کا حکم دیا اور زوجین کو حیاء کا پیکر بنایا گیا۔
اِسی طرح ارشاد فرمایا:
﴿قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم۔ذٰلک ازکیٰ لھم، اناﷲ خبیر بما یصنعون Oo وقل للمؤمنٰت یغضضن من ابصار ھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا ولیضربن بخمرھنّ علیٰ جیوبھنّّ۔﴾
() النور، ۳۰/۲۶، ۳۱
’’اے نبیؐ مومنوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگا ہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے پاکیزہ طریقہ ہے۔ بے شک اﷲ تعالی باخبر ہے اس سے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اوراے نبیؐ مومن عورتوں سے کہ دیں کہ وہ اپنی نظریں بچا کے رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ ‘‘
بالخصوص خواتین کو زیادہ پا بندکیا گیا ہے کہ اِن کی زیب وزینت کی وجہ سے جنسی جذبات کو تحریک ملتی ہے۔ اس لئے ہی اِسلام مخلوط معاشرتی نظام کو نا پسند کر تا ہے کیونکہ غیر محرم مرد وخواتین کا ایک سا تھ کام کرنے سے اِس بات کا قوّی اِمکان ہو تا ہے کہ خدا نہ خواستہ کوئی مرد اور خاتون غلطی کر گزریں اور وہ امانت جو اُن کے پاس حفاظتی حصار میں موجود ہے اور ناجائز طریقے سے نئی شکل میں دنیا پہ لے آئیں۔ اِس میں کئی طرح کے نقصانات ہیں جو بچہ تولد ہوا اس کا قصور یہ تو نہیں کہ وہ دنیا میں کیوں آیا یہ تو اِس خبیث جوڑے کی نا جائز حرکت ہے جس نے اﷲ تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ بچے کی حق تلفی ہوئی نہ تو وہ ورا ثت کا حقدار قرار پاتا ہے اور نہ منصبِ خلافت کا۔اور ایک ناجائز نسل دُنیا میں چل پڑ تی ہے اِس کے سدِباب کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے زِنا پر پابندی عائد کر تے ہوئے فر ما یا:
ولا تقربواالزنیٰٓ انّہ کان فاحشۃً، وسآء سبیلاً۔
() بنیٓ ا سرآئیل، ۱۷/ ۳۲
’’زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو یہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ عریانی اور مخلوط معاشرے کو نا جائز قرار دیا گیا ہے اور ایسے خبیث جوڑے کو جرم کے ثابت ہونے پر اِسلامی عدالت کے فیصلے کے مطابق رجم)اور بصورت دیگر ۰۰ ۱ کوڑوں کی سزا کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اِس جوہر خاص کو محفوظ رکھا جا سکے۔ زوجین میں سے اﷲ تعالیٰ نے مرد کو مظبوط قویٰ کا مالک بنا کر زیادہ ذمہ داریاں دیں اور پابند کیا کہ جب اُس نے اِس امانت کو جو اس کے صُلب میں مو جود تھی اس کو اس کی اہل، اپنی بیوی کے پاس منتقل کرے اور اِس کے بعدساری توجّہ اپنی بیوی کے نان ونفقہ، مسکن یعنی
ٰ (گھر) کی فرا ہمی، اُس کی صحت کے برقرار رکھنے، پر سکون ماحول فراہم کرنے اور محبت بھرے سلوک پر مرکوز رکھے تاکہ بیوی اِس امانت کو حمل کی صورت میں محفوظ رکھے اور بچے کی پیدائش کے بعد اس کی تربیت محبت اور فطری جذبے سے کرے۔
نبی کریم A نے عورت کو گھر کی حکمران قرار دیتے ہوئے فرمایا:
المرأۃ راعیۃ علیٰ بیت زوجھاوولدہ۔
() بخار ی، الصحیح، بحوا لہ ر حمۃ اللعا لمین صفحہ نمبر ۲۷۱
’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد پر حکمران ہے۔‘‘
ماں بچے کو حمل سے دودھ چھڑانے کی مدت تک بہت محنت کرتی ہے اور درد پہ درد سہتی ہے۔ اِس لئے نبی کریم A نے جنت کو ماں کے قدموں کے ساتھ منسلک قرار دیتے ہوئے فر ما یا: الجنۃ تحت ا قدام امھاتکم ’’جنت تمہاری ماؤں کے قدموں تلے ہے‘‘
اس طرح اولاد کو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے خاص کر جب وہ بڑھا پے کی عمر کو پہنچ کر چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُن کو اُف تک بھی نہ کہنے کا حکم ہے۔ ( بنی ٓ اسرائیل، ۲۳/۱۷، ۲۴) حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ اگر اُف سے کم درجے کی بھی بدتمیزی ہو تی تو اﷲ تعالیٰ اُس کو بھی حرام قرار دے دیتا۔
اِس(جوہرخاص) کے حفاظتی حصار کا پہلا مرحلہ پشت پدر، دوسرا مرحلہ رحم مادر اور تیسرا مرحلہ بچے کے دنیا میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ پھر ماں باپ پر اِس کی حفا ظت کو لازم قرار دیا گیا، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ولا تقتلوٓا اولاد کم خشیۃَ املاقٍ، نحن نرزقھم وایّاکم، اِنَّ قتلھم کان خطاً کبیراً۔
() بنیٓ اسرائیل، ۳۱/۱۷
’’اپنی اولاد افلا س کے اند یشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔‘‘
در حقیقت اِن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ قتلِ اولاد کا اطلاق ضبطِ ولادت سے شروع ہوتا ہے یا کہ اِسقاطِ حمل سے، بہر حال بچے کے پیدا ہونے کے بعد چونکہ نزولِ قرآن سے پہلے تینوں طریقے رائج تھے، ضبطِ ولادت کے لئے ( عزل) کا طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اِس طرح اِسقاط حمل کے اِشارات بھی پائے جاتے ہیں، البتہ جو کھلی کھلی زیادتی تھی کہ اپنی ہی پیدا ہونے والی بچیوں کو قتل کیا جاتا تھا اور بعض غیر شائستہ(جہلا)عرب کے لوگ بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے اِس غلط روش کے بارے میں سخت ترین سزا بیان فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالی نے:
واذا الموؤدۃسئلت o بایّ ذنبٍ قتلتo
() التکویر، ۸۱/ ۸، ۹
’’زندہ دفن ہونے والی لڑ کی سے پوچھا جائے گاکہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘
تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ بچہ پروان چڑھتے ہوئے تعلیم وتربیّت سے آراستہ اور پیار ومحبت لے رہا ہے، ماں، باپ سے لے کر اساتذہ اور مربّیین تک اِس کی حفاظت پر مامور ہیں، اصل نگرانی تو اﷲ تعالیٰ فرما رہا ہے جو کہ رب العالمین ہے۔جب اولاد کی حفاظت کا ذکر ہو رہا ہو تو اولاد میں بچے اور بچیاں دو نوں شامل ہیں جس طرح بچے کی نگہداشت والدین پر لازم ہے اِسی طرح بچی کی نگرانی، پرورش وتربیت بھی والدین پر لازم ہے۔ دینِ اسلام میں بچے اور بچی کی حیثیت اور مر تبے میں کوئی تفریق نہیں بلکہ بچیوں کو زیادہ تحفظ حاصل ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس کو فطری محبت کے ساتھ جوڑ دیا تاکہ والدین ہمہ پہلو،ہمہ جہت، اور ہمہ وقت نگرانی اور تربیت کریں اور بچیوں کو خو شگوار ماحول میں پاکیزہ کردار کا حامل بنا سکیں۔ رسول اﷲ Aبیٹیوں کی پرورش اور تربیت سے متعلق جو ہدایات فرما ئی ہیں ان میں سے چند احادیث یہاں نقل کیئے دیتے ہیں جس سے بیٹیوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے
۱۔ من ابتلی من ہٰذہ البنات بشیءٍ فاحسن الیھن کن لہ ستراًمن النار۔
() بخاری، مسلم
’’جو شخص ان لڑ کیوں کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔‘‘
۲۔ من عال جاریتین حتّیٰ تبلغا جآء یوم القیامۃ انا وہو وضم اصا بعہ۔
() مسلم
’’جس نے دو لڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں، تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرماکر حضور A نے اپنی دو انگلیوں کو جوڑ کر بتایا۔‘‘
۳۔ من عال ثلٰث بناتٍ او مثلھنّ من الاخوات فادّبھن ورحمھن حتّیٰ یغنیھن اﷲ اوجب اﷲ لہ الجنّۃ۔ فقال رجل: یا رسول اﷲ A او اثنتین ؟ حتّیٰ لو قالوا او واحدۃ؟ لقال: واحدۃ۔
() شرح السنّۃ
’’جس شخص نے تین بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کی، اُن کو اچھا ادب سکھایا اور اُن سے شفقت کا برتاؤ کیا، یہاں تک کہ وہ اس کی محتاج نہ رہیں، اﷲ اُس کے لئے جنّت واجب کر دے گا، ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! A اور دو؟ حضور A نے فرما یا : اور دو بھی۔‘‘
حدیث کے راوی حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں بھی پوچھتے تو حضور A اس کے بارے میں بھی یہی فر ماتے۔
۴۔ من کانت لہ اثنیٰ فلم یئدھا ولم یھنھاولم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اﷲ الجنّۃ
() ابودا وود
’’جس کے ہاں بیٹی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کر کے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے، اﷲ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘
۵۔ من کان لہ ثلا ث بنات وصبر علیھنّ وکساھنّ من جدتہِ کن لہ حجاباًمّن النار۔
() بخاری فی الادب المفرد، ابن ماجہ
’’جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے، وہ اِس کے لئے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔‘‘
۶۔ ما من مسلم تد رکہ ابنتان فیحسن صحبتھمھا الاادخلتاہ الجنّۃ۔
() بخاری، ادب المفرد
’’جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اوروہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی۔‘‘
۷۔ انّ النبیّ A قال لسراقۃ بن جعشم الا ادلک علیٰ اعظم الصدقۃ او من اعظم الصدقۃ ؟قال بلیٰ یا رسول اﷲ A، قالؑ ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کاسب غیرک۔
() ابن ماجہ، بخاری فی الادب المفرد
’’نبی A نے سراقہ بن جعشم سے فرما یا: میں تمہیں بتاؤں سب سے بڑا صدقہ یا صدقوں میں سے ایک کیا ہے؟ عرض کیا: ضرور بتائیے گا یا رسول اﷲ A۔ فرمایا: تیری وہ بیٹی جو (طلاق پاکر یا بیوہ ہو کر) تمہاری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لئے کمانے والا نہ ہو۔‘‘
یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑ کیوں کے متعلق لوگوں کا نقطۂ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی اُن تمام قوموں میں بدل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔موجودہ دور کے مغربی پروپگنڈے سے متأثر عاقبت نا اندیش مسلمان اور حکمران عورت کی آزادی کے نام پرعریانی اور فحاشی کا طوفان بپا کیا ہوا ہے ان کے پاس کوئی ایسی مثال موجود ہے جو اسلام سے بڑھ کر عورت کو عزت اور تحفظ سے متعلق ہو کہ بیٹی کی پرورش جنت کی ضمانت؟ ماں کی خدمت جنت کی ضمانت؟ لیکن بے عمل آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے دینی تعلیمات سے ناواقف دنیاوی زندگی کے چکا چوند لذائذ کے دلدادہ لوگ اِسلام کے خوبصورت نظام کو کیا سمجھیں کہ اِسلام نے ہر ایک کو عزت کامقام عطا کیا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ امن وسلامتی کے ساتھ رہنے محبت وہمدردی اور معاشرتی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا درس دیا ہے۔ والدین کی پرورش وتحفظ کے بعد اگلے مرحلے میں بیٹیوں کی شاد یوں کے بعد اُن کی ساری ذمہ دار یاں اُن کے شوہروں کو سونپی جا تی ہیں جو اِصطلاحِ نکاح میں اِجما لاً موجود اور فطری جذبہ محبت کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی بے انتہاء مہربانی ہے کہ اُس نے ہمیں خوبصورت، پاکیزہ اور محبت سے لبریز خاندانی نظام عطاء کیا جو ایک اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ اِس وقت مغربی معاشرہ تباہی کے دھانے پر ہے۔ نہ مرد اپنی اولاد کو پہچانتا ہے اور نہ عورت اولاد کے باپ کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ جنسی خواہشات آزادانہ پوری کی جاتی ہیں اور مقصدِ زندگی سے ناآشنا معاشرہ ناجائز نسل پیدا کر رہا ہے جو نہ وراثتِ ارضی کی اہل ہے اور نہ جنت کی حقدار۔ اﷲ رب العالمین نے اِسلامی نظام زندگی میں خاندان اور قبائل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
یایھا الناس انا خلقناکم من ذکرٍ وانثیٰ وجعلناکم شعوباً وقبآئل لتعارفوا انّ اکرمکم عند اﷲ اتقاکم انّ اﷲ علیم خبیر۔
() الحجرات، ۴۹/ ۱۳
’’اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پید اکیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اﷲ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اﷲ سب کچھ جاننے والا با خبر ہے۔ ‘‘
اِس آیت میں اﷲ تبارک وتعالی نے نوعِ اِنسانی میں موجود ایک عالمگیر فساد کی مؤجب خرابی پر متنبہ کیا ہے۔ وہ خرابی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کی بنا پر تعصب ہے۔ اِس مختصر سی آیت میں اﷲ تبارک وتعالی نے تمام اِنسانوں کو مخاطب کرکے تین نہایت ہی اہم اُصولی حقیقتیں بیان فر مائی ہیں۔ ایک یہ کہ تم سب ایک ہی مرد اور ایک عورت کی اولاد ہو؛ دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے با وجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا مگر اِس فطری فرق وامتیاز کا تقاضا یہ ہر گز نہ تھا کہ اِس کی بنیاد پر اونچ نیچ، شریف وکمین اور برتر وکمتر کے امتیازات قائم کئے جائیں، قبائلی وخاندانی تعارف کی فطری صورت یہی تھی کہ اِن کے در میان باہمی تعاون کا نظام ترتیب پائے۔ تیسرے یہ کہ اِنسان اور اِنسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ اخلاقی برتری ہے جو تقویٰ سے حاصل ہو پاتی ہے۔
تحفظِ اِنسان کا چوتھا مرحلہ
اِنسان کی بلوغت کے بعد حفاظت کا انتظام اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ معاشرے میں اِحترامِ اِنسانیت، شرافت، ہمدردی، محبت، امن، سکون، خوشگوار ماحول میں زندگی گزارنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر وقار کے ساتھ مقصد زندگی کو محفو ظ کرنے کے لئے چند ایسے احکا مات دیئے جن کو اپنا کر معاشرے کے لئے بگاڑکاسبب بننے والے کاموں پر پابندی کی ترغیب دی گئی تاکہ اِنسان اپنی نسل کی بقا کے لئے اﷲ کی دی ہوئی زندگی محفوظ بنا سکے۔
چنانچہ اﷲ رب العالمین کا اِرشاد ہے کہ (۶) چھے کاموں سے اجتناب کرو جو لڑائی جھگڑے اور بد امنی کا باعث ہیں:
یٰٓایھا الذین اٰ منوا لا یسخر قوم من قومٍ عسیٰٓ ان یکونوا خیراً منھم ولانسآء من نسآءٍ عسٰٓی ان یّکنّ خیراً مّنھنّ، ولا تلمزوٓا انفسکم ولا تنابزوا باالقاب، بئس الاسم فسوق بعد الایمان، ومن لم یتب فا ولٰٓئک ھم الظّٰلمونoیایھاالذین اٰمنوا اجتنبوا کثر اًمّّن الظنّ، انَّ بعضَ الظّنّ اثم وّلا تجسّسوا ولا یغتب بعضکم بعضاً، ایحبّ احدکم ان یأ کل لحم اخیہ میتاً فکرہتموہ، واتقوااللّٰہ، انّ اللّٰہَ توّاب الرحیمo
() الحجرات، ۱۱/۴۹، ۱۲
’’(۱)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کامذاق اڑائیں ہوسکتا کہ وہ ا ن سے بہتر ہوں، (۲)آپس میں ایک دوسرے پرطعن نہ کرو، (۳)اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔(۴)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، (۵)تجسّس نہ کرو۔ (۶)اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اﷲ سے ڈرو، اﷲ بڑا توبہ قبول کر نے والا اور رحیم ہے۔‘‘
اِحترامِ آدمیت اور اَخلاقیات کا درس اس سے بڑھ کردنیا کے کسی مذہب اور طریق زندگی میں نہیں۔ اِس وقت مغربی دُنیا اور یورپین اِتحاد نے امن کے قیام کے نام پر پوری دنیا اور بالخصوص مسلم ممالک میں دہشت گردی اور ظلم وزیادتی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اِس قتل وغارت گری کے جواز کے لئے بین الاقوامی ظالمین کا گروہ اقوامِ متحدہ کے نام پر قائم ہے جس سے ہر ظلم کے برپا کرنے کا فتویٰ جو یہودیت اور عیسائیت کے مفاد میں ہو جاری ہوتا ہے۔ اگر مغربی مفکرین اور تھنک ٹینکس، جو اپنے آپ کو مہذب کہتے نہیں تھکتے، ذرا اَخلاقیات کے اِن خوبصورت اور سنہری اسلامی اصولوں کا مطالعہ کریں اور اپنے خود ساختہ مہذب چہرے کو اِسلامی نظام زندگی کے آئینے میں دیکھیں تو اُن کی گھناونا روپ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے کسی بھی اِنسان کے قتل کو حرام قرار دیتے ہوئے ار شاد فر ما یا:
وَ کَتَبناَ علیٰ بَنِیٓ اِسرَآئیلَ انّہ من قتلَ نفساً بغیرِ نفسٍ او فسادٍ فی الارضِ فکانّماَ قتل النّاسَ جمیعاً، ومن احیاھاَ فکانّمآاحیا النّاس جمیعاً۔
() المآئدۃ، ۶/ ۳۲
’’اِسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی اِنسان کے بدلے یا زمین میں فساد کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام اِنسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی، گویا اس نے تمام اِنسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘
ولاتقتلواالنّفسَ الّتِی حرّ مَ اللّٰہ الّا باِ الحقّ، ومن قتِلَ مظلوماً فقد جعلنا لولیّہ سلطا ناً فلا یسرفی القتل، انہ کان منصوراً۔
() بنی اسرائیل، ۳۳/۱۷
’’قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جس کو اﷲ نے حرام کیا ہے۔ مگر حق کے ساتھ، جو مظلومانہ قتل کیا گیا ہے اسکے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے، پس چاہئے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے۔ ‘‘
قصاص ودیت کے مطالبے پر اِسلامی حکومت حصولِ انصاف کے لئے مقتول کے ورثا ء کی مدد کرے اور اولیائے مقتول بھی عدا لت ہی سے انصاف کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اولیائے مقتول کو قصاص ودیت کا پورا پورا حق دینے کے ساتھ یہ ترغیب بھی دی گئی ہے:
فمن عفیَ لہ من اخیہِ شیء فا تّباع بالمعروفِ وادآء الیہ باحسان۔
() البقرۃ، ۲/ ۱۷۸
’’ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کر نے کے لئے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہئے اورقاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خون بہا ادا کرے۔‘‘
اِسلامی قانونِ تعزیرات میں قتل کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے۔ اِسلامی معاشرے کی خوبصورت مثال یہ ہے کہ تحفظِ نسل اِنسانی کا اِنتظام اِس اندازمیں کیا گیا ہے کہ ایک ایسے شخص کے لئے معافی کی تر غیب دی گئی ہے کہ جس نے دوسرے شخص کو قتل کیا، چونکہ اِس مقتول شخص کی نسل اگر وہ بے اولاد تھا دُنیا سے معدوم کر دی گئی ہے، لیکن دوسرا شخص جس سے ورثائے مقتول کو قصاص لینے کا پورا حق ہے کے بارے میں لطیف اندازترغیب دی گئی ہے کہ خون بہا لے کر یا بغیر خو ن بہا لیے معاف کرتے ہوئے اس کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ جو نسلِ اِنسانی اس کے ذریعے سے باقی رہنی ہے اُس کا تحفظ ہو سکے اور ورثائے مقتول کو خون بہا کی ادا ئیگی یا معافی کی صورت میں تسلّی بھی ہو اور دشمنی کی طوالت بھی ختم ہو۔ خون بہا کو ا ﷲ تعالیٰ نے زندگی سے تعبیر فرمایا اور عقل والوں کو اس کا مصداق ٹھہرایا۔ اِسی طرح خود کشی بھی حرام قرار دی گئی ہے تاکہ اِس شخص کی نسل کابھی تحفظ ہو پائے۔
یہ تو وہ مختصر خلاصہ تھا جو ’’جو ہرِخاص‘‘ کی حفا ظت کے حوالے سے قرآن پاک اور سیرت رسول A سے چنا گیا۔ آئندہ ہم اس( جوہرِخاص) کے تحفظ سے متعلق نبی کریم ﷺ کے احکا مات، طرز زندگی اور خاندانی نظام کی تر تیب اور انتخابِ زوجین کے بارے بتائیں گے کہ اس پاکیزہ خاندانی نظام کو موجودہ دور کے غیر اسلامی نظریات مغربی یلغار اور خود مسلمانوں میں اونچ نیچ کے تصورات، فرقہ وارانہ فتاویٰ اور حلال وحرام کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لینا، مخلوط معاشرے کی ترغیبات اور عورت کی آزادی کے نام پرعورت کو بے پردہ بے وقعت اور اشتہاری مہم کا حصّہ بنائے جانے اور اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے پاکیزہ خاندانی نظام کو برباد کرنے کی نا پاک سازشو ں کا سدِ باب کرتے ہوئے اس پاکیزہ خاندانی نظام کی پاکیزہ حیثیت کو متعارف کرایا جائے۔ اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات وطرزِ عمل سے رہنما اُصول مرتب کیئے جائیں تاکہ آئندہ نسل اِنسانی کا فروغ پاکیزہ خاندانی نظام کے ذریعے ہو۔
اسلام میں انتخابِ زوجین کے اُصول وضوابط
اب ہم تاریخِ اِنسانی سے قطع نظر صرف اسلام کی رو سے خاندانی نظام میں زوجین کے چناؤ کے اصول اور احکام کاجائزہ لیں گے۔ سب سے پہلے ہم ان محترم رشتوں کا تعارف کرائیں گے جن سے بحیثیت مومن ان میں سے کسی کو عقد نکاح میں نہیں لایا جا سکتا جن کی قرآن پاک میں تفصیلاً وضاحت کر دی گئی ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے اِس پر عمل فرما کر اُسے قیامت تک کے لئے امر کردیا۔ اِن قوانین کو دنیا کا کوئی نظریہ یا اِنسانوں کا کوئی گروہ چیلنج نہیں کر سکتا۔ ہم یہاں قرآن کریم میں جن رشتوں کو حرام قراردیا گیا ہے اُن کو ترتیب وار بیان کریں گے تاکہ رہنمائی کا طالب مختصر مطالعہ کے بعد علمی اِستعداد بڑھا سکے اور حوالہ جات کی روشنی میں اصل کتابوں سے رجوع کرکے تسلی کے بعد اپنی ضرورت پوری کر سکے۔
۱۔ ازواج النبی ﷺ سے نکاح کی حرمت
۱۔ ماکان لکم ان تؤذوا رسول اﷲِ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہٓ ابداً، انَّ ذٰلکم کان عنداﷲِ عظیماً۔
() الاحزاب، ۵۳/۳۳
’’تمہارے لئے ہر گز جائز نہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺ کو تکلیف دو۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد انکی بیویوں سے نکاح کرو! اﷲ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘
۲۔ النی اولیٰ باالمؤمنین من انفسھم وازواجہٓ امھاتکم۔
() الاحزاب، ۶/۳۳
’’بلا شبہ نبی A تو اہل ایمان کے لئے ان کی اپنی ذات پرمقدم ہے اور نبی ﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘
نبی اکرم Aکا ارشاد ہے:
۳۔ لا یؤمن احد کم حتیّٰ اکون احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والناَّسِ اجمعین۔
() الحدیث
’’تم میں ہر گز مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے والد اپنے بیٹے اورتمام لوگوں سے مجھ سے زیادہ محبت نہ ہو۔ ‘‘
۲۔ قرآن میں بیان کی گئی دیگر محرمات
اب ہم ترتیب سے ان رشتوں کا تذکرہ کریں گے جو اسلام میں حرام ہیں اور قرآن میں تفصیل دی گئی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے:
حرمت علیکم امھاتکم، وبنٰتکم، واخواتکم، وعمٰتکم، وخٰلٰتکم، وبنٰت الاخ وبنٰت الاخت، وامھٰتکم التیٓ ارضعنکم، واخواتکم من الرضاعۃِ، وامھات نسآئکم، وربآئبکم الٰتی فی حجورکم من نسآئکم الّٰتی دخلتم بھنَّ، وحلآئل ابنآئکم الَّذینَ من اصلابکم، وان تجمعوابین الاختین۔
() النسآء، ۲۳/۴
’’تم پر حرام ہیں تمہاری مائیں (سگی، سوتیلی) اور تمہاری بیٹیاں(پوتیاں، نواسیاں) اور تمہاری بہنیں(ماں شریک بھی، باپ شریک بھی)اورتمہاری پھوپیاں(سگی، سوتیلی، ماں شریک بھی اور باپ شریک بھی)، تمہاری خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، دودھ پلانے والی ماں کے وہ تمام رشتے حرام ہیں جو سگی ماں کے ہوتے ہیں۔‘‘
ارشاد نبوی ﷺہے:
یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔
() بحوالہ تفھیم القرآن، جلد اوّل
’’دودھ شریک وہ تمام رشتے حرام ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔‘‘

۳۔ بے توبہ زانی اور زانیہ کی مومنہ اور مومن کے لیے حرمت
الزانی لا ینکح الاَّ زانیۃً او مشرکۃً وزا لزّانیۃ لا ینکحہآ الّا زانٍٍِِ اومشرک وحرّم ذٰلکَ علیَ المؤمنینَ۔
() النّور، ۴۲/ ۲
’’زانی مرد نکاح نہ کرے سوائے زانیہ اور مشرکہ کے اور زانیہ عورت نکاح نہ کرے سوائے زانی اور مشرک کے اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔‘‘
۴۔ شادی شدہ عورت کی حرمت
والمحصنٰت من النسآء الاّ ما ملکت اَیما نکم، کتٰب اﷲِ عَلیکم۔
’’وہ عورتیں بھی تم پر حرام جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں، سوائے ان کے جو(جنگ)میں تمہارے ہاتھ آئی ہوں(اسیر ہو کر)، یہ اﷲ کی طرف سے تم پر لازم ہے۔‘‘
یہ اس لیے کہ دارالحرب میں رہ جانے والے ان کے کافر شوہروں سے دارالاسلام میں آنے والی عورتوں کے نکاح باقی نہیں رہتے اور وہ عورتیں بے شوہر ہو جاتی ہیں اِسلامی حکومت کی طرف سے حصےّ میں دی جانے والی عورت سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۵۔ مشرک اور مشرکہ کی مومنہ اور مومن ک لیے حرمت
ولا تنکحوا المشرکٰت حتّیٰ یؤمنَّ، ولا تنکحوا المشرکینَ حتّٰی یؤمنوا۔
() البقرۃ، ۲/ ۲۱
’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے ہر گز نہ کر نا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘
۶۔ لعان شدہ مرد وعورت کی بعد از تفریق دائمی حرمت
تفریق کے بعد ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے پر حرام ہو جا تے ہیں اور حق نکاح اور حقِ رجوع ختم ہو جا تا ہے۔دار قطنی نے حضرت علیؓ بن ابی طالب اور عبد اﷲ بن مسعودؓ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فر مایا کہ لعان کرنے والے زوجین کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔
() دیکھیے: لنور، ۴/۲۴ ۱۰-
حرام رشتوں سے متعلق مختصر تشر یح
(۱) نبی کریم ﷺکی ازواج مطہرات کو امہات المؤ منین قرار دیکر ان سے نکاح حرام قرار دیا گیا اور قیامت تک عزت واحترام مسلمانوں پرواجب کر دیا گیا۔
(۲) قیامت تک کے لئے جن رشتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ ہر دور میں موجود رہیں گے جن کی فہرست سورۃ النسآء أیت نمبر ۲۳ میں دی گئی ہے اور دو بہنوں کے ایک نکاح میں جمع کرناحرام ہے میں نبی ﷺنے پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی بھی ایک نکا ح میں جمع کرنا حرام قرار دیا گیا اس طرح کل سولہ(۱۶) رشتے ہیں جو ہمیشہ کے لئے حرام قرار پائے۔لعان شدہ مردو خواتین ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتے ہیں حقِ رجوع، حقِ نکا ح ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چند اور رشتے بھی حرام ہیں جن کی حیثیت عارضی ہوتی ہے اور علت ختم ہونے کے بعد حرمت باقی نہیں رہتی۔ ٭ مشرک مردوخواتین کا نکاح مؤمن مردو خواتین کے ساتھ حرام ہے جب تک وہ تو بہ نہ کریں۔ ٭ زانی مردو خواتین مؤمن مردو خواتین سے نکاح حرام ہے جب تک وہ توبہ نہ کریں۔ ٭ وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو دوسرے کے نکاح میں ہوں سوائے مطلقہ، بیوہ اور خلع شدہ کے۔
ان طے شدہ حرام رشتوں کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے تمام رشتوں کو حلال قرار دیتے ہوئے ارشاد فر مایا:
واحل لکم ما ورآء ذا لکم ان تبتغوا با موالکم محصنین غیر مسا فحین۔
() النسآء، ۴/ ۲۴
’’ان کے سوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے بشرطیکہ حصار نکاح میں ان کو محفوظ کرو نہ کے آ زاد شہوت را نی کر نے لگو۔‘‘
اموال کے ذرریعے حاصل کر نا در اصل فریضہء مہر کی اد أیگی قرار دیا گیا۔ ( النسآء، ۴/ ۲۴)
آدم علیہ السلام کی تخلیق بطور (خلیفۃالارض )کے ہوئی اوران ہی کی جان سے حضرت حوا علیھا السلا م کو ان کاجوڑا بنایا اور افزئشِ نسلِ اِنسانی کے لئے پاکیزہ خاندانی نظام کی بنیادرکھی جو قیامت تک جاری رہے گی اور نسلاً بعد نسلٍ فروغ پاتی رہے گی۔ اور اﷲ تعالیٰ کی دی گئی ہدایات کے مطابق اِنسان نظام زندگی کو بروئے کار لا تے ہوئے خلافتِ ارضی کی اہلیت حاصل کرتے رہیں گے اور مقصدِ خلافت کی تکمیل کریں گے۔ اس خوبصورت، پاکیزہ اور جذباتِ محبت سے بھر پور خود کار خاندانی نظام کو تر تیب دیتے ہوئے انتخاب زوجین میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جو خاندانی نظام کی اکائی ہے۔بعض احتیاطوں کو قرآنِ پاک کے احکامات کی روشنی میں بیان کیا جاچکا ہے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں اس مقام پر صرف انتخاب زوجین کے لئے ان اصول وضوابط کاتذکرہ کرنا مقصود ہے جو نبی کریم A کی سیرت مطہرہ کے ذریعے آپؐ کے احکا مات اور عملی اقدامات کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں غیراسلامی نظریات، ذاتی خواہشات اور معاشرتی ناہمواریوں سے بالاتر ہو کر اپنے خاندانی نظام کی ترتیب کے لئے رہنمائی حاصل کر سکیں اور اصل مقصدِ زندگی بغیر کسی رعب، دبدبہ اور دہشت ووحشت کے قائم کرسکیں۔
اِنتخاب زوجین میں کفاء ت کا لحاظ
اِرشادِ رب العالمین ہے:
ومن اٰیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتکونوٓا الیھا وجعل بینکم مودۃً وّرحمۃً، انّ فی ذا لک لاَیاتٍ لقومٍ یّتَفکّرونِ۔
() الروم، ۲۱/۳۰
’’اور اسکی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے در میان محبت ورحمت پیدا کردی یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غورو فکر کرتے ہیں۔‘‘
یٰآیھا الناس اتقوا ربَّکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ وخلق منھا زوجھا۔
() النساء، ۱/۴
’’اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
انتخاب زوجین میں(کفأت کا لحاظ)کی تفصیلات وتعارف اور لفظ(کفو)کی تشریح قرآن وسنّت کی روشنی میں اپنے اپنے مقام اور محل وقوع پر کردی جائے گی تاکہ الجھنیں دور ہوں اور خوشگوار خاندانی نظام ترتیب پائے۔
کفاء ت از روئے قرآن
پہلے تو ہم (اکفاء) سے متعلق احکامات کا تذکرہ کریں گے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺکا طرز عمل بیان کریں گے۔جہاں انتخاب زوجین میں خوشگوار ازدواجی زندگی کو اہمیت حاصل ہے وہاں افزائشِ نسلِ کے مقصد کے ساتھ طرفین کے خاندانوں میں باہمی تعارف بھی ہے جس کو عرف عام میں تعارفِ نسب کہا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وجعلنا کم شعوباً وقبآئل لتعارفوا۔
() الحجرات، ۱۳/۴۹
’’ہم نے آپ کی برادریاں اور قومیں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانوـ‘‘
کفاء ت از روئے حدیث
احادیث مبارکہ میں بھی زو جین کے انتخاب میں کفأت کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمانِ نبوی ﷺہے:
لاتنکحوا النسآء الا الکفآء۔
() دارقطنی، بہقی ( بحوالہ رسائل و مسائل از سید مودودی ؒ )
’’عورتوں کی شادیاں نہ کرو مگر ان لوگوں کے سا تھ جو (کفو)ہوں۔‘‘
یا علیؓ ثلاث لا تؤخرھا، الصلواۃ اذا اٰتت، والجنازۃ اذا حضرت ولایم اذا وجدت کفئًا۔
() (ترمذی، حاکم) (بحوالہ رسائل ومسائل از سید ابو الاعلٰٰی مودودیؒ)
’’اے علیؓ تین کام ہیں جن کو ٹالنا نہیں چاہئے ایک نماز جبکہ اس کا وقت آ جائے، دوسرے جنازہ جبکہ تیار ہو جائے، تیسرے بن بیاہی عورت جبکہ اس کے لئے (کفو) مل جائے۔‘‘
تخیروا لنطفکم وانحکوا الاکفا۔
() (بحوالہ رسائل و مسائل از سید مودودیؒ)
’’اپنی نسل پیدا کرنے کے لئے اچھی عورتیں تلاش کرو اور اپنی عور توں کے نکاح ایسے لوگوں سے کرو جو اُن کے کفو ہوں۔‘‘
یہ حدیث حضرت عائشہؓ، انسؓ، عمرؓ ابن الخطاب سے متعدد طریقوں سے مروی ہے۔امام محمدؒ نے کتاب الآثارمیں حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
لا منعن فروج ذوات الاحساب الا منالاکفا۔
() اِمام محمد، کتاب الآثار (بحوالہ رسائل و مسائل ازسید ابو الاعلیٰ مودودیؒ)
’’میں شریف گھرانوں کی عورتوں کے نکاح کفو کے سوا نہیں کرنے دوں گا۔‘‘
فقہائے اِسلام نے(کفو) کے مسئلے پر بہت تحقیق کی کہ کیسے زوجین کے در میان مودت، محبت، راحت اور ایک دوسرے کے پاس سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ چونکہ بے جوڑ نکاح نہ صرف زوجین اور ان کی اولاد کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ زوجین کے خاندانوں میں بے چینی اور دشمنی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ اِس لئے مماثلت کی کم سے کم جو چیزیں قابل قبول ہو سکتی ہیں اُن کی پوری کوشش کی جانی چاہیے۔ کیونکہ جن دو ہستیوں کو زندگی بھر شرکت ورفاقت کے لئے جوڑا جائے ان میں قدر مشترک چیزوں میں اخلاق، دین، خاندان، معاشرتی طور طریق، معاشرتی عزت وحیثیت، مالی حالات کو مدِ نظر رکھ کر حکمتِ عملی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ جہاں اِنسانوں میں خاص کر مسلمانوں میں خطر ناک حد تک اونچ نیچ اور ذات پات کا غیر اسلامی نظریہ عود کر چکا ہے وہاں انتخابِ زوجین میں شعوب وقبائل کو ملحوظِ خاطر رکھنا خاندانی نظام کے لئے بہت اہم ہے۔چونکہ تعارفِ نسب ہی قانونِ وراثت کا موجب ہے۔ اس وقت پورے یورپ اور مغربی دنیا میں لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جن کی شناخت ہی نہیں اور اولاد اپنے والد کو نہیں جانتی بلکہ ماں اپنی اولاد کو یہ بتا نہیں پاتی کہ آپ میں سے کس کا والد کون ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے خاندانی شناخت کے لئے برادریاں اور قومیں بنائیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں اور معاشرے کے لوگوں کو اس کا علم ہو کہ فلاں آدمی کا فلاں خاندان ہے اور اس کا والد فلاں ہے۔ عدالتیں اور پنچائیتیں، وراثت اورخاندانی مسائل کا فیصلہ کرتے وقت پہچان سکیں کہ فریقین کا تعلق کس برادری یا خاندان سے ہے۔ البتہ تعارف نسب میں تکبّر وبڑائی اور خاندانی تفاخر کو ختم کر کے عزت وتکریم کا معیار تقویٰ کو قرار دیا گیا۔ (الحجرات،۴۹/ ۱۳)
کفو کی بنیاد پر ترجیہی پہلو
اب ہم انتخابِ زوجین میں (کفو)کی بنیاد پر ترجیہی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے تاکہ آسانیاں پیدا کی جا سکیں اور اس پاکیزہ خاندانی نظام کی حفا ظت ہو سکے۔ تر جیہی پہلو (کفو ) کے تنا ظر میں قرآن وسنت کی روشنی میں کم از کم تین ہیں۔ ․
۱۔ زوجین کا ہم جنس یعنی اِنسان ہونا
۲۔ زوجین کا ہم مذھب یعنی مسلمان ہونا
۳۔ زوجین کا ہم نسب یعنی ایک ہی قبیلہ اور برادری، کا ہونا
(۱) ہم جنس ہونا
اﷲ تعالیٰ نے فطری نظام کے تحت افزائش نسل کے لئے نر اور مادہ کو ذریعہ بنایا اوردنیا میں اِنسان سے ہٹ کربھی چرندے، پرندے، درندے اور تمام حشرات الارض وغیرہ کا تولیدی طریقہِ کار ایک جیسا رکھا۔ فطری رہنمائی کا ایسا نظام رکھا کہ ہر جانور اپنے ہی نسل کے جانورسے تعلقات استوار کرتا ہے اور پہچا نتا بھی ہے۔ جہاں تک اِنسان کا تعلق ہے، اِس کی تخلیق کا مقصد ہی زمین پر خلافت کا نظام قائم کرنا ہے۔ اِس لئے ضروری تھا کہ دنیا میں اِنسان کثرت سے پیدا ہوں اِسی لئے زوجین کا ہم جنس ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ جب تک میاں بیوی ہم جنس یعنی اِنسان نہیں ہوں گے تو افزائشِ نسلِ اِنسانی نہیں ہو پا ئے گی۔ مرد کا نکاح عورت سے لازم ہے نہ کہ مرد کا نکاح مرد سے۔ عورت کانکاح مردسے لازم ہے نہ کہ عورت کا نکاح عورت سے۔ چونکہ اس عمل سے شہوت رانی تو ہو سکتی ہے مگر افزائش نسل نہیں۔ اِس عمل کو فطرت کے خلاف بغاوت سمجھا جائے گا جو کہ بہت بڑا گنا ہ بھی ہے اور قطعاً حرام بھی:۔ (العیاذ بااﷲ)۔
(۲) ہم مذہب ہونا
اِسی طر ح زوجین کا ہم مذہب ہونابھی بہت ہی اہم ہے۔ لفظِ نکاح اِسلامی اصطلاح ہے اور یہ مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے درمیان ایجاب وقبول اور فریضہ مہر کی ادا یئگی سے ہوتا ہے۔ اس لئے دونوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے تا کہ آگے چل کر اِن کی اولاد منصبِ خلافت کی اہل ہوسکے۔ اِس سے متعلق کئی مثالیں ہیں، یہاں چند مثالوں پر اکتفا کیا جائے گا۔ مثلاً: کسی بھی شوہر والی عورت جس کا شوہر موجود اور زندہ ہو اُس کا نکاح دوسرے مرد سے نہیں ہو سکتا جب تک وہ طلاق نہ دے دے یا بیوہ نہ ہوجائے یا خلع یافتہ نہ ہو، عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے۔ سوائے ان عورتوں کے جن کے شو ہر کافر اور دارالحرب میں رہ گئے ہوں اور جنگ میں ہاتھ لگی ہوں اور مؤمن ہوں۔ (النساء، ۴/ ۲۴) اِس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے کہ کافر شوہروں کی مؤمن بیویاں دارالحرب میں آنے کے بعد اُن کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں کیونکہ اُن کے ہم مذہب ہونے کا رشتہ باقی نہیں رہتا، اس لئے ان کو حصارِ نکاح میں لانا جائز ہو جا تا ہے۔
اس کی ایک اور مثال بہت ہی اہم ہے وہ یہ کہ نبی کریم A کی صا حبزادی حضرت زینبؓ جو اپنی والدہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے سا تھ ہی داخلِ اِسلام ہو چکی تھیں اور اُن کا نکاح حضرت خدیجہؓ کے بھانجے ابوالعاص کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔نبی کریم A ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو زینبؓ اپنے شوہر کے پاس مکہ ہی میں رہیں تا ہم جب بدر کا معرکہ پیش آیا تو ابو العاص قریش کی طرف سے تھے اور اسیرانِ بدر میں تھے، رہائی کے وقت حضور A نے ابوالعاص سے وعدہ لیا تھا کہ وہ زینبؓ کو ہجرت کی اِجازت کے ساتھ مدینہ بھیج دیں گے۔ چنانچہ سیدہ زینبؓ اپنے والد مکرمؐ کے پاس پہنچ گئیں۔ ابوالعاص ۶ھ ؁میں تجارت کے لئے شام گئے تھے اُس وقت قبیلہ قریش مسلمانوں کا حریف تھا، اس لئے ابو بصیرؓ اور ابو جندل ؓجو قریش کی قید سے فرار ہو کر شام کی سرحد کے پہاڑ پر جا گزیں تھے ابو العاص کا مال ضبط کر لیا ابو العاص سیدھے مدینہ پہنچ گئے۔ صبح کا وقت تھا نبی A اورصحابہ کرام نماز کے لئے نکلے تو اچانک سیّدہ زینبؓ کی یہ آواز سنی (انی قد اجرت ابا العاص بن ربیع)’’میں ابو العاص بن ربیع کو پناہ دیتی ہوں۔‘‘
نبی کریم A بیٹی کے گھر تشریف لائے اور فر مایا:
ای بنییۃ اکرمی مثواہ ولا یخلصنّ الیک فانّک لاتحلین لہٗ․
() (بروایت ام سلیط ؓ صحیح بخاری وصحیح مسلم ) (بحوالہ تفہیم القرآن از سید مودودی ؒ)
’’بیٹی تم ابو العاص کو عزت سے ٹھہراؤ اور تم اس سے الگ رہو اس لئے کہ تم اس کے لیے حلال نہیں۔‘‘
سیدہ زینبؓ کا نکاح دین ابراھیمی کے مطابق ہجرت سے پہلے ہو چکا تھا ابو العاص مکہ میں رہے جبکہ سیدہ زینبؓ ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لے گئیں۔ ۶ھ ؁ کو ابو العاص مدینہ آئے اور سیدہ زینبؓ نے پناہ دی۔ اِس موقع پر نبی ﷺکا بیٹی سے یہ فر مانا کہ ’’تم ابو العاص سے ا لگ رہنا کیونکہ وہ تمہارے لئے حلا ل نہیں رہا‘‘ اِس بات کی دلیل ہے کہ میا ں کے ہم مذ ہب نہ رہنے سے نکاح ٹوٹ چکا تھا۔ ابو العاص پہلے سے ہی اسلام لانے کے لئے یکسو ہو چکے تھے وہ واپس مکہ چلے گئے اور لوگوں کی جو امانتیں ان کے پاس تھیں واپس کر کے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو رسول اﷲ A نے اپنی بیٹی سیدہ زینب ؓ کو چھے سالہ مفارقت اور ابوالعاصؓ کے ایمان لانے کے بعد بروائت بعض سابقہ نکاح ہی میں رخصت فرمایا۔ یہ رسول اﷲ ﷺ کا اِختیار تھا کہ وہ سابقہ نکاح بر قرار رکھتے یا تجدید نکاح کر د یتے (واﷲ اعلم بالصواب)
دوسری مثال ام المؤمنین حضرتِ ام حبیبہؓکی ہے۔ اُم حبیبہؓ رملہ بنتِ ابو سفیانؓ نہایت قدیم الاسلام ہیں۔ اِن کا پہلا نکاح عبید اﷲ بن جحش سے ہوا جو ہجرت کر کے حبشہ چلا گیا۔ وہ دائم الخمر تھا اور عیسائی بن گیا تھا۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلا م پر قائم رہیں۔ اُنہوں نے اِسلام کی خاطر باپ، بھائی اور خویش وقبیلہ کو چھوڑا تھا۔ پردیس میں خاوند کا سہا را تھا وہ بھی اِرتداد کی وجہ سے چھن گیا۔ رسولِ اکرم ﷺکو ان کا حال معلوم ہوا توآپؐ نے ام حبیبہ ؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا جو انہوں نے قبول کر لیا۔ نجاشی نے مجلسِ نکاح منعقد کی جس میں حضرت جعفرؓ اور دیگر جملہ مسلما ن مدعوتھے، نجا شی نے اِس طرح خطبہ نکاح پڑ ھا:
الحمد ﷲ الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر، اشھد ان لآ الٰہَ الا اﷲ واشھد ان ّ محمدً رَّسول اﷲ وانہٗ الذی بشّر بہ عیسیٰ ابن مریم، صلی اﷲ علیہ وسلم، امّا بعد فانّ َ رسول اﷲ A کتب الیّ ازوّجہٗ امّ َ حبیبۃ بنت ابی سفیان فاجبت الیٰ ما دعا الیہ رسول اﷲ A وقد اصدقتھا مائۃ دینار۔
اس کے بعد اس نے قوم کے سامنے دینار رکھ دیئے، پھر خالد بن سعید ؓ نے جو ام حبیبہؓ کے وکیل تھے، خطبہ پڑھا :
الحمد ﷲ احمدہٗ واستعینہٗ واشھد ان لا الٰہ الا اﷲ وانّ محمداً عبدہٗ ورسولہٗ ارسلہٗ بالھدیٰ ودین الحقّ لیظھرہٗ علیَ الدین کلہ ولوکرہ المشرکون۔امّا بعد فقد اجبت الیٰ ما دعا الیہ رسول اﷲ A وزوّجتہٗ ام حبیبۃؓ بنت ابی سفیان فبارک اﷲ رسولہ علیہ السلام۔
اس کے بعد نجاشی کی طرف سے جملہ حاضرین کو کھانا کھلا یا گیا۔ نجاشی نے بیان کیا کہ انبیاء کی سنت ہے کہ تزویج کے بعدکھانا ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شوہر کی موجودگی کے باوجود مذھب کے اختلاف کی بنا پر نکاح ساکت ہو گیا اور وہ خوش قسمتی سے حضور A کے نکاح میں آئیں۔ اِسی نوعیت کے دیگر واقعات بھی ہیں ان کے یہاں بیان کر نے سے طوالت ہوگی، صرف مثالوں سے مسئلے کی نوعیت بیان کرنا مقصود ہے۔
اہل کتاب سے منا کحت
یوں تو کفارومشرکین کے حوالے سے اﷲ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ ان سے مناکحت نہیں ہو سکتی البتہ اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کو جائز اور حلال قرار دیا گیا ہے چنانچہ اﷲ رب العالمین کا ارشاد ہے:
الیوم احل لکم الطیبات، وطعام الذین اوتو ا الکتاب حل لکم، و طعامکم حل لھم، والمحصنات من المؤمناتِ والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم اذآ اٰتیتمو ھنّ اجور ھنّ محصنین غیر مسافحین ولا متّخذیٓ اخدانٍ، ومن یکفر با الایمانفقد حبط عملہٗ وھو با الاٰخرۃ من الخٰسرین۔
() المآئدۃ، ۵/۵
’’آج تمہارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے۔اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں انکے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو : اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔‘‘
٭اہل کتاب کے کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے کہ اگر اﷲ کا نام لے کر ذبح کیا جائے۔ چونکہ اس کھانے کی اجازت کے ساتھ یہ پابندی ہے کہ آج تمہارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگراہل کتاب پاکی اور طہارت کے ان قوانین کی پا بندی نہ کریں جو قانونِ شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں یا انکے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کر نا چاہیئے، عہدِ نبوّت سے پہلے کا ذکر ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل نے نبی کریم A کی دعوت کی دستر خوان پرگوشت بھی آیا، نبی A نے فرمایا:
انی لا اٰکل ممّا تذحبون علٰی انصابکم ولا اَکل الّاما ذکراسم اﷲ علیہ۔
() بخاری عن عبداﷲ کتاب ا لصیدوالدبائح، بحوالہ رحمۃاللعالمین، ۲۵۹/۱ (بحوالہ تفہیم القرآن از سید ابو الیٰ مودودیؒ)
’’میں وہ گوشت نہیں کھاتا جو بتوں یا استھانوں کے نام قر بانی کی گئی ہو میں وہ گوشت کھا یاکر تا ہوں جس پر ذبح کرتے وقت اﷲ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘
اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اِجازت دیتے ہوئے فرمایا: ﴿والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم﴾ اس سے مراد یہود ونصاریٰ کی ایسی عورتیں جو محصنات( محفوظ) ہوں۔ فقہائے اسلام میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، تاہم حضرت عمرؓ، حسن بصریؒ، شعبیؒ، ابراھیم نخعیؒ اور حنفیہؒ محصنات سے مراد پاک دامن عصمت مآب عورتیں لیتے ہیں نہ کہ آزاد منش عورتیں۔ اہلِ کتاب سے مناکحت کی اِجازت کے ساتھ یہ پابندی بھی لگائی گئی ہے کہ ُان کے مہر ادا کرنے کے بعد اُن کو حصار نکاح میں لاؤ اور محافظ بنو نہ کہ آزاد شہوت رانی یا چوری چھپے آشنائیاں کرتے پھرو۔ ہاں جو شخص اِس اجازت سے فائدہ اٹھائے وہ اپنے ایمان واَخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے ایسا نہ ہو کہ اپنی کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہوکر یا اس کے اعمال وعقائد سے متاثر ہوکر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اخلاق ومعاشرت کی ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔
() تفہیم القرآن از سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ صفحہ نمبر۴۴۶ تا ۴۴۸
یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ اہل کتاب کو جو تعلیمات ان کے انبیاء نے دی تھیں اُن کے ماننے والے بھی قرآن کو آخری پیغام اور رسول کریم A کونبیؐ ماننے میں دلی رجحان رکھتے ہوں صرف روایت پرستی اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر مخالفت کر تے ہوں۔ اگر اُن کی عورتیں اپنی آزاد مرضی سے کسی مسلمان کے نکاح کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کریں تو مسلمان افراد کو ان کے حصار نکاح میں لانے کی اِجازت ہے۔
لیکن موجودہ دور میں جتنے تجرِبات ہوئے اور جو خواتین مسلمانوں کے نکاح میں آئیں ایک تو انہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعداپنے اصلی مذہب کی طرف لوٹ گئیں اور مسلمان بچوں کو ساتھ لے جا کر یہودی یا عیسائی تعلیمات سے آراستہ کیا۔ یہ یہود ونصاریٰ کی پرانی روش ہے کہ وہ مسلمانوں کو ورغلانے اور اُن کے ایمان کو متزلزل کرنے اور مسلمان ملکوں کو ختم کر کے اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے بطور حربہ اپنی عورتوں کو استعمال کرتے ہیں اور اکثر دفعہ یہ حربہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس اجازت کو واجب نہ سمجھیں بلکہ اِس کو اجازت ہی رہنے دیں اور جو شرائط قرآن نے بیان کی ہیں اُن کو مدِ نظر رکھیں۔
موجودہ دور کے یہود ونصاریٰ کا نہ تو کوئی مذھب ہے اور نہ پاک دامنی۔ مغربی معاشرہ ہمارے سامنے ہے کہ آزا دانہ ماحول میں عزت کی پائمالی کو ذاتی زندگی میں خود مختاری کا نام دے کراﷲ کی زمین کو کتنا گندا کیا جارہا ہے۔غیرت، عزت، حیاء اور وقار کوکس قدر مجروح کیاجا رحا ہے۔ بے حمیت والد ین اپنی موجود گی میں سر عام فحاشی کو ہو تے دیکھ کر ہنس کر ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے اور آزادی (یعنی مادر پدر آزادی)اُن کا قانونی حق ہے ۔ یہود ونصاریٰ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس خوشنما جال میں مسلمانوں کے ان اہم افراد کوپھانسا جائے جو اپنے اپنے ملکوں میں یا تو شہرت یافتہ ہوں جو عوام کو اپنے ساتھ ملانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور آزاد خیال ہوں یا پھر جن کے پاس اہم ملکی راز ہوں یا ایسے سائنسدان ہوں جو اپنے ملکوں کو دفاعی نقطۂ نظر سے مضبوط بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں خاص کر عیاش اور سرمایہ دار لوگ جو استفادہ کر سکتے ہوں۔ یہ واضح ہے کہ موجودہ دور کے یہود ونصاریٰ ایسے نہیں جو اِس قابل ہوں کہ مسلمان ان کی خواتین سے نکاح کریں۔ اس سے اجتناب کرنا ہی دین وملّت کے لئے فائدہ مند ہے۔
عجیب نکتہ
قرآن پاک میں کہیں بھی عیسائیوں کو بطور قوم ذکر نہیں کیا گیا۔ قرآن تو یہود ونصاریٰ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔ عیسائی نا م بطور طنز یا بدعتی کے معنی میں یہودو نصاریٰ کی تو ہین کے طور پر مشہور ہوا۔ تفصیلات سے ہٹ کر صرف اِتنا کافی ہے کہ موجودہ دور کے اہل کتاب بدعتی اور غیر محتاط ہیں لہذا ان سے مناکحت سے پرہیز زیادہ بہتر ہے۔(ھٰذا ما عندی واﷲ اعلم )
Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 33380 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.