دوسروں کے مسیحا، اپنے زخموں کے علاج کے منتظر

ارے، فرحت آج کل تم نظر نہیں آ رہیں، کہاں ہو بھئی؟ گھر فون کرو تو انکل یا آنٹی بتاتے ہیں کہ تم کام پر گئی ہو اور اسپتال فون کرو تو پتہ چلتا ہے کہ آپ موجود نہیں ہو؟ یہ کیا مصروفیات پال بیٹھی ہو؟جو تمہیں گھر اور دوستوںسے بیگانہ کر رہی ہیں؟ایک ہی سانس میں ڈھیروں سوال کرتی روحانہ کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں یہ بتا رہی تھیں کہ وہ جواب میں کوئی ”ایسی ویسی“ بات سننے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ دونوں بچپن سے ایک دوسری کی پڑوسی، کلاس فیلو رہیں اسکول و کالج کی تعلیم بھی اکٹھے ہی حاصل کی لیکن اسکے بعد فرحت نے نرسنگ کا شعبہ جوائن کر لیا جب کہ روحانہ بی اے کرنے کے بعد شادی کر کے اپنے گھر منتقل ہو گئی جہاں وہ آج کل گھر پر ہی اڑوس پڑوس کی خواتین کو شخصی ارتقاء کے ساتھ ساتھ کردار سازی کے حوالے سے ٹائم مینیجمنٹ، کریٹیو رائٹنگ، لیڈر شپ اسکلز، خود کو جانیں، پازیٹو تھنکنگ جیسے موضوعات پر کورسز کروا رہی تھی۔ اس قریبی تعلق ہی کی وجہ سے روحانہ اتنی فکر مند تھی، پریشانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ گزشتہ چھ ماہ سے ان دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

فرحت نے مسکراتے ہوئے اپنی پیاری سہیلی روحانہ کو دیکھا اور گویا ہوئی”میں سمجھ رہی تھی شادی کے بعد تمہاری عادت بدل گئی ہوگی لیکن لگتا ہے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ گھر میں نہ ٹکنا تو مجبوری ہے اگر ملازمت اختیار کر کے گھر میں بیٹھی رہو تو ذیادہ سے ذیادہ تیسرے دن جواب دے دیا جائے گا۔ جہاں تک اسپتال کا معاملہ ہے تو نجی اسپتالوں کی روایات سے تم واقف نہیں ورنہ شاید یہ نہ کہتی۔ صبح کی نکلی شام ڈھلے تک ایک سے دوسرے وارڈ میں چکرانا اگر ذرا بھی معطل کر دیا جائے تو فوراً جواب طلبی کا نوٹس آجاتا ہے۔ نرسنگ اسٹاف کو ذرا دیر کے لئے بھی فراغت سے محروم رکھنے کو اسپتال انتظامیہ نے ٹیلیفون آپریٹر کو یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ نرسنگ اسٹاف کے لئے آنے والی کسی بھی کال کے جواب میں ان کی غیر موجودگی کا بتا دیا کرے، لیکن بات نہ کروائی جائے۔ ملازمت کی نوعیت کی وجہ سے موبائل ہم ویسے ہی اپنے پاس نہیں رکھ سکتیں۔ تم سناﺅ کیا کر رہی ہو؟ اپنی بات ختم کر کے فرحت نے روحانہ کی جانب جوابی سوال منتقل کرتے ہوئے کہا ۔۔۔”کرنا کیا ہے، کراچی ہی میں واقع ایمز انسٹیٹیوٹ آف ہیومن ڈویلپمنٹ نامی ایک ادارے سے شخصی ارتقاء اور کردار سازی کے مختلف کورسز کئے تھے، وہاں کے ٹیچرز نے بغیر فیس کے کروائے گئے ان کورسز کے بعد وعدہ لیا تھا کہ جو کچھ سیکھ رہے ہیں دوسروں کو بھی منتقل کروں گی سو اپنے گھر پر خواتین کو ہفتہ وار کلاسز میں وہ لیکچر دیتی ہوں“روحانہ نے جواب دے کر ذہن میں موجود اگلا سوال فرحت کی جانب منتقل کر ہی دیا ”لیکن فرحت تم ایک نجی اسپتال میں کام کرتی ہو جہاں اس کام کے بدلے تنخواہ تو اچھی ملتی ہو گی؟“

روحانہ کی جانب سے اٹھائے گئے اس سوال کا جواب بھی کوئی ایسا خوش کن نہیں کہ جسے سننے کے لئے اس محفل میں مزید موجود رہا جاتا لہٰذا ہم خیالی رو منقطع کر کے حقیقت میں آگئے جہاں نرسنگ کے پیشے کو لاحق پریشانیاں، مشکلات اور حکومتی و انتظامی کردار کا موضوع منہ پھاڑے ہمارا منتظر کھڑا تھا۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پانچ مریضوں کے لئے دو نرسز کی موجودگی کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ اس پیشے سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کی متعدد ذمہ داریاں ہیں جن میں ہیلتھ انڈ نرسنگ کئیر، کونسلنگ، ایڈووکیسی، ہیلتھ ایجوکیشن، گروتھ مانیٹرنگ، رابطہ/سہولت کار سمیت انتظامی امور جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔ کسی بھی شعبے کی ذمہ داریاں جتنی اہم ہوں انہیں اتنا ہی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں کے اصول سے قطع نظر نجی یا سرکاری شعبے کے وفاقی طبی مراکز میں کام کرنے والے سولہویں گریڈ کے نرسنگ ملازمین کی صورت حال کچھ اور ہی داستان سنا رہی ہوتی ہے۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر المعرو ف جناح اسپتال اور قومی ادارہ برائے صحت اطفال کراچی میں وفاقی محکمہ صحت کے چلنے والے شہر کے دو بڑے طبی مراکز ہیں۔ جہاں مجموعی طو ر پر 670 میل اور فی میل اسٹاف نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ رہ کر مریضوں کو خدمات فراہم کر رہا ہے۔

نرسنگ اسٹاف کو گریڈ16سے بھرتی کئے جانے کا اعلان کرنے کے باوجود تاحال آفیسر اسٹیٹس دینے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جا سکا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ آج بھی چارج نرس، ایڈ نرس جیسی اصطلاحات سے پکارے جاتے ہیں۔ مقررہ معیارات سے قطع نظر کام کے دورانیہ کی طوالت اور ایک ایک وارڈ میں پچاس سے زائد مریضوں پر دو نرسوں کی موجودگی کی وجہ سے کام کے بے تحاشا دباﺅ نے جہاں ایک جانب اکثریت کو ڈپریشن اور اسٹریس کا شکار کر رکھا ہے وہیں اس کام کے بدلے ملنے والے معاوضے کے بارے میں بھی اسٹاف کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی کم ہوتا ہے۔ ملازمت کے آغاز پر ایک نرس کو سات ہزار روپے بنیادی تنخواہ کے طور پر دئے جاتے ہیں جو قبال ذکر اماﺅنٹ تو ہے لیکن مہیا کی جانے والی خدمات سے اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ واقعی کم لگتا ہے۔ واضح رہے کہ محشر کی جانب سے کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق ملازمت کے ماحول کی پیدا کردہ مشکلات کی وجہ سے نرسنگ کے شعبے سے وابستہ70فیصد افراد ذہنی تناﺅ اور تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں۔ جو ان کی عمر کو مختصر کرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی افعال کو بھی متاثر کرتا ہے۔ سروے کے مطابق خواتین اسٹاف اپنی جسمانی واعصابی ہئیت کی فطری کمزوری کے سبب ان امراض کا ذیادہ شکار رہتا ہے جس کی ایک وجہ انہیں ہراساں کئے جانے کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ میل اسٹاف میں ذہنی دباﺅ اور تھکاوٹ کے اثرات04 فیصد جب کہ خواتین میں60فیصد سے زائد موجود پائے گئے۔

وفاقی طبی مراکز میں موجود نرسنگ اسٹاف کا ایک اور بڑا مسئلہ اسپتالوں میں چینجنگ روم، وارڈز میں دفاتر، یا علیحدہ واش رومز کا نہ ہونا بھی ہے۔ جناح اسپتال کے نرسنگ اسٹاف نے بتایا کہ چند ماہ قبل بھی ایک وارڈ میں نرسنگ کی طالبہ پر دست درازی کا مزموم واقع ہوا تھا جس کا سبب علیحدہ چینجنگ روم اور واش رومز نہ ہونا ہی بنے تھے۔ بارہا انتظامیہ اور حکومتوں کو اس بارے میں اطلاع بھی دی گئی ہے لیکن تاحال کوئی عملی اقدامت نہیں اٹھائے گئے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی وانتظامی عہدوں پر فائز شخصیات کے لئے عزت اور عفت کا تحفظ یا تو مسئلہ نہیں یا وہ اس کی قدر اور اہمیت سے عاری ہیں۔

کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے عملہ کے لئے اس کی اپنی مصنوعات بلامعاوضہ یا رعایتی نرخوں پر فراہم کرنے کے اصول سے انحراف کرتے ہوئے حکومتی طبی مراکز میں کام کرنے والے اسٹاف کو بلامعاوضہ طبی خدمات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ جب کہ قانون کے مطابق اول تو اسٹاف کو ادویات لوکل پرچیز کی مد سے فراہم کی جاتی ہیں اور اگر کسی ادارے میں مطلوب سہولیات مہیا نہ ہوں تو ڈاکٹر اسے کسی اور مرکز میں ریفر کر دیتے ہیں جہاں علاج پر آنے والے خرچ کا بل اپنے ادارے میں جمع کروا کے خرچ شدہ رقم وصول کی جا سکتی ہے تاہم حیرت انگیز طور پر گزشتہ کئی مہینوں سے ایسے کسی بھی موقع پر نرسنگ اسٹاف کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ لوکل پرچیز یا ایمبرسمنٹ کا کوئی بجٹ موجود نہیں ہے جب کہ نرسنگ اسٹاف کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز حتیٰ کہ سینئرز پروفیسرز بھی ایل پی سے مستفید ہوتے ہیں ان کے لئے بجٹ ہوتا اہے تو ہماری باری میں ختم کیوں ہو جاتا ہے؟

طبی مراکز میں کام کرنے والے نرسنگ اسٹاف کی شناخت ان کا سفید یونیفارم ہوا کرتا ہے جو مریضوں کو بروقت امداد کے حصول میں آسانی مہیا کرتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اکثر آیا اور ماسی کی پوسٹ پر کام کرنے والے عملے نے بھی یہی یونیفارم پہن رکھا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ناصرف مریضوں کو درست فرد تک پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے بلکہ نرسنگ اسٹاف کے مطابق آیا /ماسی وغیرہ گائنی یا دیگر وارڈوں میں داخل مریضوں سے مختلف ناموں پر رقوم وصول کرتی یا ان کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان غیراخلاقی حرکات سے عام آمدی کی نظر میں سفید یونیفارم پہنے ملازمین کے بارے میں منفی احساست پیدا ہوتے ہیں جن کا خمیازہ ہمیں بھگتا پڑتا ہے۔ حکومت کو بارہا اس مسئلے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے لیکن ابھی تک اس کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاسکی ہے۔

جناح اور این آئی سی ایچ میں کام کرنے والے نرسنگ اسٹاف نے بتایا کہ 2006ء میں ان کی تنخواہوں میں ہونے والا سالانہ اضافہ ابھی تک معاوضے میں شامل نہیں کیا گیا جب کہ وفاقی محکمہ صحت کے ماتحت پولی کلینک اسلام آباد اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز)اسلام آباد میں کام کرنے والے نرسنگ عملہ کو یہ اضافہ تاخیر سے سہی لیکن جاری کر دیا گیا ہے۔

مختلف طبی مراکز میں کام کے بوجھ کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا کہ خالی آسامیوں پر گزشتہ12برسوں سے تقرریاں نہ کئے جانے کی وجہ سے متعدد انتظامی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلے حکومت کو یہ شکایت ہوتی تھی کہ تربیت یافتہ افرادی قوت موجود نہیں اب جب کہ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے اور بہترین تربیت یافتہ افرادی قوت دستیاب ہے تو بھی خالی آسامیاں حکومتی عدم دلچسپی کا ثبوت مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔ جناح اسپتال میں اب بھی 20گریڈ کی چیف نرسنگ سپریٹنڈنٹ کی آسامی خالی ہے جب کہ اسے ایک اٹھارہویں گریڈ کی ڈاکٹر کے ماتحت کر رکھا گیا ہے۔ جناح اسکول آف نرسنگ میں پرنسپل کی نشست ایک عرصے سے خالی ہے۔ یہ تمام معاملات باہم مل کر اس شعبے سے وابستہ افراد میں احساس محرومی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ گزرتے وقت کے ساتھ کام سے عدم دلچسپی کی صورت اختیار کر کے مریضوں کے لئے دشواریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

نرسنگ کے تعلیمی پہلو سے برتی جانے والی حکومتی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان نرسنگ کونسل کی صدارتی نشست پر صدر مملکت کے قریبی دوست کی موجودگی میں جناح اسکول آف نرسنگ میں 300طالبات کے لئے منظور شدہ28اساتذہ کے بجائے محض 8ٹیچر موجود ہیں۔ جن میں سے چار ڈیپوٹیشن پر خود پڑھائی کے لئے گئے ہونے کی وجہ سے صرف چار اساتذہ طالبات کو پڑھاتے ہیں۔ پاکستان نرسنگ کونسل(پی این سی)کا یہ قانون موجود ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں 75فیصد فیکلٹیز مستقل ہونی چاہئیں25فیصد غیر مستقل بنیادوں پر ہائر کی جا سکتی ہیں لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے ۔

کچھ ایسی ہی صورتحال جناح کالج آف نرسنگ کی بھی ہے جہاں 8اساتذہ میں سے5خود نرسنگ میں ماسٹر کر ہی ہیں اور وہیں تدریس کا فریضہ بھی سرانجام دے رہی ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے اکثر کالج میں تناﺅ کی سی کیفیت برقرار رہتی ہے۔250سے زائد طلباء و طالبات کے لئے ماسٹر، بیچلر، ڈپلومہ برائے وارڈ ایڈمنسٹریشن، ڈپلومہ برائے ٹیچنگ ایڈمنسٹریشن، کیمونٹی ہیلتھ نرسنگ، سائیکاٹرک نرسنگ، ایڈاوانس مڈاوائفری سمیت7شعبہ جات میں زیر تعلیم طلباء کے لئے درکار اساتذہ کی عدم موجودگی کا سب سے بڑا اثر تعلیمی معیار پر پڑ رہا ہے جس سے قصداً غفلت برت کر مستقبل کی خرابی میں ہر ایک بقدر جثہ اپنا حصہ ڈالنے میں مصروف ہے۔

نرسنگ کی تعلیم دینے والے اداروں کی مشکلات میں ایک بڑی وجہ انہیں اختیارات کی عدم منتقلی بھی ہے۔ اگرچہ تعلیمی اداروں کا بجٹ الگ موجود ہے لیکن اسے خرچ کرنے کے لئے اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ پانی کا واٹر کولر خراب ہونے کی صورت میں انتطامیہ اس کی مرمت بھی نہیں کروا سکتی چہ جائیکہ تخلیقی نوعیت کی ایسی سہولیات کا اضافہ کیا جائے جو تعلیمی معیار اور نظام کو بہتر بنانے کا سبب بنیں۔ نرسنگ کے شعبہ کی بہتری کے لئے انتظامی اور حکومتی دونوں ہی سطحوں پر برتی جانے والی غفلت مستقبل کا ایک ایسا منظر نامہ تشکیل دینے جا رہی ہے جس میں مہارتوں سے محروم لوگ انسانی جانوں کے امین ہوں گے۔ کیا اس صورتحال کی زمہ داری ان لوگوں پر عائد ہو گی جن کے ہاتھوں انسانی زندگیوں کے چراغ گل ہوا کریں گے یا پھر ان افراد پر جو آج اس نقشے کی تخلیق کر رہے ہیں۔ آفیسر تسلیم کر لئے جانے کے باوجود اعلان نہ ہونے سے بدستور مزدور کی سی زندگی گزارتے یہ اہم طبی ارکان بجا مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں درپیش مشکلات کے حل کے لئے مؤثر منصوبہ بند ی کر کے اس پر بلا امتیاز اور مسلسل عمل کیا جائے۔ شاید ایسا کرنے سے بہت ساری فرحتوں کے مسائل بھی حل ہوں، انہیں کام کرنے کا بہتر ماحول بھی میسر آئے جس کے نتیجے میں روحانہ جیسی دوستوں اور نرسنگ اسٹاف کے اہل خانہ بھی سکون اور اطمینان کا سانس لے سکیں۔ محشر کے اسی صفحہ پر ہم آئندہ وفاقی، صوبائی و شہری محکمہ ہائے صحت کے تحت کام کرنے والے نرسنگ اور پیرا میڈیکل عملے کو لاحق مشکلات کا جائزہ بھی پیش کریں گے۔

شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 29156 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More