زید حامد اور تحریک تکمیل پاکستان

زیدحامدکے زمانہ طالب علمی کے اورشروع کے دوستوں کاکہناہے کہ زیدحامد کااصل نام’’ زیدزمان ‘‘ہے،اس کاشناختی کارڈ نمبر’’37405-1071347-7‘‘ہے ،اس کاباپ فوج کاایک ریٹائرڈکرنل تھا،اس کانام ’’زمان حامد‘‘تھا،بلاک B-13،پی۔ ا ی۔ سی ۔ایچ ۔ایس سوسائٹی کراچی کے علاقے نرسری میں چنیسرہالٹ اورشاہراہ فیصل کے بیچ میں واقع KFCوالی گلی میں پیچھے اس کی رہائش تھی۔1980ء میں حبیب پبلک اسکول سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعداس نے کالج میں داخلہ لیا۔پھر 1983ء میں’’ NED‘‘یونیورسٹی میں داخلہ لیا،NEDیونیورسٹی سے اس نے’’ بی اے‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔(اس کے علاوہ اس نے پوسٹ گریجویشن،ایم ،ایس اورپی ایچ ڈی وغیرہ نہیں کی اورنہ ہی کبھی وہ درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہاہے،لہٰذااسے ڈاکٹریاپروفیسروغیرہ لکھنایاکہناغلط ہے، ناقل)جس زمانے میں وہ NEDیونیورسٹی میں داخل ہواتووہ ایک ماڈرن نوجوان تھا،لیکن بہت جلدہی اس کااسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ تعلق ہوگیااوران کے سرگرم کارکنان میں اس کا شمارہونے لگا۔زیدحامدجمعیت کے دوسرے کارکنوں کے مقابلے میں نسبتاًلمبی ڈاڑھی،سرپرپکول پہنے،سبزافغان جیکٹ اورکلاشن کوف زیب تن کیے رہتا تھا۔ زیدحا مدشروع سے ہی غیرمعمولی ذکی وذہین تھا،ان دنوں چونکہ جہادافغانستان کادورتھا،اس لیے تحریکی ذہن کایہ نوجوان بھی عملی طورپرجہاد افغانستان کے ساتھ منسلک ہوگیااوربڑھتے بڑھتے اس کاجہادافغانستان کے بڑے لوگوں’’ جلال الدین حقانی ،گلبدین حکمت یاراوراحمدشاہ مسعود‘‘کے ساتھ تعلق ہوگیااورعملی جہاداورگوریلاجنگ کے تجربات کاحامل قرارپایا۔اردواس کی مادری اورانگریزی اس کی تعلیمی زبان تھی،جبکہ پشتواورفارسی اس نے افغانستان میں رہ کرسیکھی تھی،اس لیے وہ اردو،انگریزی،پشتواورفارسی زبانیں روانی سے بولنے لگا۔اسی دوران اس کو جلال الدین حقانی ،گل بدین حکمت یاراوراحمدشاہ مسعودسے نہ صرف تقرب حاصل ہوگیا،بلکہ گل بدین حکمت یار اوربرہان الدین ربانی کے پاکستانی دوروں کے موقع پروہ ان کی ترجمانی کے فرائض بھی انجام دینے لگا۔اسی طرح دوسرے جہادی اورتحریکی را ہنماؤں سے بھی اس کے قریبی مراسم ہوگئے۔تعلیم سے فراغت کے بعدوہ ’’برنکس‘‘نامی ایک سیکیورٹی کمپنی کامنیجرربن کرکراچی سے راولپنڈی منتقل ہوگیا۔پھرکچھ عرصہ بعداس نے برنکس کمپنی چھوڑ کر’’براس ٹیکس ‘‘کے نام سے اپنی کمپنی بنائی اوراسی کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی ترتیب دی(براس ٹیکس کی حقیقت ہم آگے صفحات میں بیان کریں گے)ہماری معلومات کے مطابق اس وقت سے لے کراب تک زیدحامدراولپنڈی ہی میں رہائش پذیرہے۔

سعدموٹن بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم کارکن تھے،ان کاکہناہے کہ زیدزمان سے میراتعارف یوسف علی کے خاص مقرب رضوان طیب نے کرایا،یہ اس زمانے کی بات ہے جب افغان جہادکے آخری مراحل چل رہے تھے اورطالبان کابل کوفتح کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے۔کراچی کے کچھ لوگ تیارہوکرافغان جہادمیں حصہ لینے کی غرض سے جارہے تھے،جب طالبان حکومت بنی توکچھ لوگوں نے سوچاکہ کیوں نہ پاکستان میں بھی طالبان طرزکی حکومت قائم کی جائے۔مذہبی سوچ رکھنے والوں کواپنی طرف راغب کرنے کے لیے انہیں خلافت کانعرہ دیاگیا،یہی کافی تھا۔رضوان طیب کے اسلامک سینٹرکے پلیٹ فارم پرزیدحامدسے ملاقات ہوئی،پھریہ دونوں ’’مسلم ایڈ‘‘کے لیے کام کرنے لگے اورمیں بھی ان کے ساتھ کام کرنے لگا۔مسلم ایڈکاکارڈآج بھی میرے پاس موجودہے۔میں ان کے ساتھ مل کرفنڈاکٹھاکرتاتھا،ہم نے افغان جہادکے حوالے سے ایک مووی ’’قصص الجہاد‘‘کے نام سے بنائی تھی،زیدزمان اس کاڈائریکٹرتھا،جبکہ اس کی سیل اورفروخت کی ذمہ داری میری تھی۔اس کے بعدزیدزمان کی ملاقات یوسف علی (کذاب، مدعی نبوت)سے ہوئی اوروہ اسے کراچی لے آیا۔رضوان طیب،سہیل احمداورعبدالواحدکراچی میں ان کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ان لوگوں نے خلافت کانام لے کرکراچی سے ایک تحریک کاآغازکیااوراسلامی جمعیت طلبہ اورجماعت اسلامی کے لوگوں کوٹارگٹ بنایا،اگرکوئی جہادسے متاثرتھاتواس کے حوالے سے اوراگرکوئی تصوف یاکسی دوسری فکرسے وابستہ تھاتواس لائن سے اس کوقریب لانے کے لیے اس فکرکے قصیدے پڑھے گئے،یوں کل کامجاہدزیدزمان ایک صوفی اورذکرکی لائن کاآدمی بن کرابھرااوراسے یوسف علی(کذاب )کااتناقرب حاصل ہواکہ (نعوذباﷲ )یہ اس کاصحابی اورخلیفہ قرارپایا۔
زیدزمان سے زیدحامداورپھرسیدزیدزمان حامدتک:

زیدحامدکے شناختی کارڈمیں اس کانام’’ زیدزمان‘‘ ہے۔ NEDیونیورسٹی سے افغانستان تک اورپھریوسف کذاب کے بیت الرضاء سے سیشن کورٹ تک یہ زیدزمان کے نام سے پکاراجاتاتھا۔NED یونیورسٹی میں زیدزمان نے افغان کمانڈروں کومدعوکرکے ان کے بیانات کروائے اوران تقریروں کاترجمان زیدزمان خودتھا۔یونیورسٹی کے وہ ساتھی جنہوں نے اسلحہ کے زورپرزیدزمان کایہ پروگرام کروایاتھا،آج بھی زیدزمان کے جھوٹ کاپردہ چاک کرنے کے لیے تیارہیں کہ زیدزمان ہی زیدحامدہے۔یوسف کذاب کے انجام کوپہنچنے کے بعدزیدزمان نے بدنامی اوررسوائی سے بچنے کے لیے اپنانام ’’زیدزمان‘‘ سے ’’زیدحامد‘‘رکھ لیا۔زیدحامد،یوسف کذاب کی موت کے فوراً بعداگریہ اقدام نہ کرتاتواسے ڈرتھاکہ کہیں کوئی مسلمان اسے بھی عبرت ناک انجام سے دوچارنہ کردے۔قصہ مختصرزیدزمان نے یوسف کذاب سے اپنے تمام تعلق کو نام کی تبدیلی کے ذریعے اس ہوشیاری سے چھپایاکہ کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ آسکی کہ یہ وہی شخص ہے جس کویوسف کذاب اپناصحابی اورخلیفہ قراردیاکرتاتھا۔زیدزمان نے دوسری کروٹ یہ بھی لی کہ اب وہ اس نئے نام سے مختلف ٹی وی پروگراموں،کالجزاوریونیورسٹیزمیں نظرآنے لگا۔مارچ 2010ء میں زیدحامدکی طرف سے ایک پریس ریلیزجاری کی گئی جس میں اس نے اپنے نام میں ترمیم کرلی اورنیانام ’’سیدزیدزمان حامد‘‘رکھ لیا۔تاحال اس کایہی نام چل رہاہے۔

ملحوظہ:حیرت کی بات تویہ ہے کہ زیدحامداس مشغلے میں بھی اپنے گرویوسف کذاب کے نقش قدم پرنکلا،کیوں کہ اس کاگرویوسف کذاب بھی اپنانام تبدیل کرتارہتاتھا۔یوسف کذاب نے خودعدالت میں اپنایہ بیان ریکارڈکروایاتھاکہ اس کاپیدائشی نام’’ محمد‘‘تھا،لیکن بعد میں اس کے والدین نے اس کانام اسکول کے داخلہ فارم میں ’’یوسف علی‘‘ لکھوادیااورکالج میں یہی نام رہا،نویں جماعت میں اس کانام ’’یوسف علی ندیم‘‘ لکھاگیا،تعلیمی اسنادمیں تبدیلی آنے کی وجہ سے اس نام کوتبدیل کرنامشکل تھا،لہٰذایہ نام اس کے سروس کارڈمیں بھی لکھاگیا،جیسے ہی اس نے ملازمت کوخیربادکہا،اس نے اپنانام’’ محمدیوسف علی ‘‘کردیا،بعدمیں اس نام میں’’ ابوالحسنین‘‘ کاسابقہ بھی لگادیا۔یوسف کذاب نے انگریزی میں ایک جھوٹاسر ٹیفکیٹ بنایاجس کونبی اکرم ﷺ سے منسوب کیاکہ آپ ﷺ نے مجھے اپنی خلافت عظمیٰ دے کریہ سر ٹیفکیٹ جاری فرمایاہے(نعوذباﷲ)، اس جھوٹے سر ٹیفکیٹ میں یوسف کذاب نے اپنانام اے ایچ محمدیوسف علی رکھا،آخری باراس کانام سیشن جج میاں محمدجہانگیرعلی نے تبدیل کیا،جج صاحب لکھتے ہیں:اس فیصلے میں ملزم کومحمداورعلی کے بجائے محض ’’یوسف کذاب ‘‘کہاجائے گا۔

زیدحامدبحیثیتِ تجزیہ نگار:
ہم پیچھے ذکرکرآئے ہیں کہ زیدحامداردو،انگریزی،پشتواورفارسی زبانیں روانی سے بولتاہے ۔باتوں میں چاشنی،الفاظ میں روانی،جملوں کابرمحل استعمال،شروع میں اندازقدرے دھیما اورپھرآہستہ آہستہ جوشیلاہوجانا اس کاخاص فن ہے۔ایک عام محب وطن شہری اوردین سے لگاؤرکھنے والاطالب علم اسے سنتاہے تو اس کی باتوں سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔زیدحامداپنے پروگراموں میں صرف ملکی ہی نہیں بلکہ دیگرممالک کے مسائل پربھی اپنا تجزیہ پیش کرتاہے۔وہ ملک کودرپیش مسائل کاذکرکرکے انہیں حل کرنے پرزوردیتاہے۔زیدحامد امریکا،اسرائیل اوربھارت کی زورداراندازمیں مخالفت کرتا اوراپنے سامعین وناظرین کوخطے میں پاکستان کی گراں قدرخدمات اورکردارسے روشناس کراتے ہوئے روشن مستقبل کی نویدبھی دیتاہے۔وہ اپنے ہم وطنوں کواس بات کااحساس دلانے کی کوشش کرتاہے کہ وہ کمزوراوربے بس نہیں بلکہ ان میں بہت کچھ کرنے اورکردکھانے کی صلاحیت موجودہے۔وہ نئی نسل کو لہوولعب اورکھیل کودمیں مشغول کرنے کویہودی سازش قراردیتاہے کہ اس طرح دشمن ہمیں مصروف کرکے اپناکام نکالناچاہتاہے۔خو ب صو رت انگریزی،خوش لباسی،کچھ کردکھانے کاعزم،ملک دشمنوں کوصفحہ ہستی سے مٹانے کاجوش،ملک کے شمالی علاقوں کے حالات پرگہری نظر،بھارت کے دفاعی تجزیہ کاروں سے دوبدولڑائی،انٹرنیٹ کی دنیامیں غیرمعمولی سرگرمی،مؤثرنیٹ ورک ،غیرمعمولی روبط اورعزائم کے ذریعے نسل نوکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانااس کی بنیادی خصوصیات کہی جاسکتی ہیں۔وہ اپنی تقاریرمیں شاعرمشرق علامہ محمداقبال کے اشعارکچھ اس اندازسے سناتاہے کہ مجمعہ مسحورومبہوت ہوکررہ جاتاہے، انھی خوبیوں کی وجہ سے عام طورپروہ امریکااوریہودیت کے خلاف دلائل کے انبارلگانے والے، ہندولابی کے زبردست نقاداوراسلام کادردرکھنے والے تجزیہ نگارسمجھا جاتاہے۔ اس کاہدف کالجزاوریونیورسٹیزمیں زیرتعلیم جواں سال ،جواں ہمت اورامنگوں سے بھرپورنوجوان ہے ،اسی طرح وہ محب وطن شہری بھی اس کاہدف ہے جوملک کی موجودہ صورت حال سے متفکراوردستورمے خانہ کی تبدیلی کے خواہاں ہے۔

اس کامقصدومشن ’’تحریک تکمیل پاکستان ‘‘ہے،اسی سلسلے میں موصوف نے ملک میں خلافت راشدہ کانظام قائم کرنے اورمعاشی صورت حال کوبہتربنانے کے لیے سودجیسی لعنت کے خاتمے کے لیے اپنی جدوجہدشروع کررکھی ہے۔اس کاکہناہے کہ معاشی بحران کے خاتمے کے لیے ملک سے جرائم اوردہشت گردی کاخاتمہ ضروری ہے اوراس کی روک تھام کے لیے حکومت کواپنے اقدامات مستقل بنیادوں پرجاری رکھنے چاہییں،اورپاکستان کوقائداعظم اورعلامہ اقبال کے خواب کی تعبیربنانے میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔اس کانعرہ خلفائے راشدین کانظام،خلافت کاقیام اوراقبال کاتصورخودی ہے۔اس نے ملک کی مقتدرقوتوں کی توجہ ’’ملی غیرت‘‘کے نعرے کے ذریعے بھی حاصل کی۔یہ حقیقت ہے کہ زیدحامدنے ایک متاثرکن اورسحرانگیزمہم چلائی ہے جس نے ملک کے ا ہل دل،اہل درداورکچھ کردکھانے کے خواہش مندطبقات،جن میں نوجوان اوراسٹوڈنٹس سرفہرست ہیں،کی توجہ سمیٹی ہے،لیکن یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ موصوف کی ان کاوشوں کے پس پردہ کیاعزائم ہیں؟کہیں وہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملکی وقارکوبگاڑنے کے مشن پرتوعمل پیرانہیں؟کہیں ان کی یہ کوششیں مسلمانوں میں مزیدتفرقے اورانتشارکاسبب تونہیں بن رہیں؟یہ وہ عقدے ہیں جن کی تاحال مکمل گرہ کشائی نہیں کی جاسکی ہے۔

زیدحامدبحیثیتِ مصنّف:
یوں توزیدحامدنے انگریزی میں بھی کافی کتابیں لکھی ہیں اورمختلف موضوعات پراپنے تجزیے بھی رقم کیے ہیں ،تاہم ہماراموضوع ان کی وہ اردوتصنیفات ہیں جوان کے مشن کوکافی حدتک نمایاں کرتی ہیں۔ان کتابوں کے سرسری جائزے سے ہم اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ مصنف خودکومسلمانوں کی قیادت کے منصب پرفائزسمجھتے ہیں،البتہ گہرائی میں جانے سے تمام اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اورواضح ہوجاتاہے کہ لوہے،پیتل پرسونے کاپانی چڑھاکراسے اصلی سوناثابت کرنے پرسارازورصرف کیاجارہاہے،گویاوہ اس مصرعے کامصداق نظرآتے ہیں۔ ؂
ہیں کواکب ہیں کچھ نظر آتے ہیں کچھ

ہم ان کی کتب پرتبصرہ کرنے کے بجائے صرف ان کے نام ذکرکرناکافی سمجھتے ہیں:۔
(1)……خلافت راشدہ
(2)……دہشت گردی کے خلاف امریکی عزائم
(3)……موجودہ پاک افغان تعلقات۔ایک تاریخی المیہ
(4)……پاکستان۔ایک عشق، ایک جنون
(5)……نعمت اﷲ شاہ ولی۔پیشین گوئیاں
(6)……اقبال پراسرار
(7)……یہودی اورعیسائی صہیونیت
(8)……معاشی دہشت گردی
(9)……دریائے سندھ سے دریائے آموتک
(10)……اسلام کاسیاسی تصور(پاکستان میں مذہبی فرقہ وارانہ تشدد)
Muhammad Waqar
About the Author: Muhammad Waqar Read More Articles by Muhammad Waqar: 2 Articles with 4336 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.