مدارس اسلامیہ کی کم ہوتی اہمیت اور طالبان علوم نبویہ کا گرتا تعلیمی گراف :اسباب و علل ایک جائزہ

 اﷲ رب ا لعزت کے پیارے حبیب ﷺ کے شیدائی اور ان کے نام لیوامسلمانوں کی عظیم طاقت و قوت کا سر چشمہ مداراس اسلامیہ بڑی عظمتوں کے حامل ہیں۔ن مدارس کی دینی ، ملی ،مذہبی اور قومی تہذیب و ثقافت سے وابستگی مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہاہے ۔اسے یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کا رشتہ ء حیات بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے تربیت یافتہ’’ اصحاب صفہ‘‘ سے جاکر ملتا ہے جہاں سے رسول اعظم ﷺ کی قیادت و سربراہی میں علم وحکمت کی درخشندگی و تابندگی عرب دنیا سمیت قرون اولٰی میں ہی تمام اسلامی ملکو ں میں پھیلتی گئی اور رفتہ رفتہ چہار دانگ عالم میں مسلمانوں کی علمی ،ادبی اور ملی خدمات کی دھمک محسوس کی جانے لگی ، کائنات عالم کی بوقلمونیوں میں مسلمانوں کے علمی ،فکری کارناموں سے دلچسپی کی قصیدہ خوانی زبان زد خاص و عام ہوگئی ، اس کی تہذیب و ثقافت کی شائستگی و شیفتگی کے حضور دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں ماند پڑگئی اور اس کی عظمت و رفعت کے سامنے قیصر وکسریٰ جیسی عظیم طاقتیں سر نگوں ہوگئیں اور ہماری عظمت و کبریائی کا یہ حال تھا کہ اغیار بھی ہماری ہی تہذیب و ثقافت کو اپنا نے اور ہماری بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہ کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔( ماخوذ : ضیاء ا لنبی ج 7 /علامہ پیر کرم شاہ ازہری پاکستان)

کیوں کہ تاریخ عالم اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتی کہ جس وقت مدارس اسلامیہ کے پروردہ مسلمان تہذیب و تمدن کے خوشنما جلووئں سے آراستہ و پیراستہ تھے اس وقت اہل یورپ سر تاپاجہالت و بر بریت کے قعر عمیق میں گرے ہوئے تھے ان کے یہاں علم و تہذیب سے آراستہ ہونا ناقابل معافی جرم گردانا جاتاتھا لیکن دنیانے اپنے ماتھے کی نگاہوں سے مشاہدہ کیا کہ جب شام، اندلس ،طلیطہ،بلرمہ اور ہسپانیہ مسلمانوں کے زیر اقتدار آیا تو وہاں علم و حکمت کے شادیانے بجنے لگے جس کی خوشنما آواز نے اہل مغرب کی سماعتوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اور ہزار دشمنی کے با وجود عیسائی دنیا اسلامی علوم و فنون کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہوگئی اور وہ عربی زبان و ادب کے زیور علم سے مزین ہونے کے لئے اسلامی مدارس کا رخ کرنے لگی، علم و نور کی شعاعو ں کو اپنے منھ سے بجھانے والے عیسائیوں کے مذہبی رہنما عربی ناموں ،عربی زبان و ادب اور عربی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ ہوگئے ،عربی علوم و فنون پر مختلف کتابوں کے ترجمے اور تفسیر کرکے اسے اپنے طلبہ اور عیسائی دنیا میں پھیلاتے اس طرح مسلمانوں کی رہنمائی اور ان کی تربیت کے نتیجہ میں اہل یورپ علم و فن اور تہذیب و تمدن کی ایک نئی دنیا سے روسناش ہوئے ۔ (ماخذ سابق)

یہاں یہ عرض کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ مدارس اسلامیہ جو اسلامی اقدار و شرافت کا عظیم محافظ ہے اس کی آغوش علم و فن سے صحابہ کرام کی عظیم جماعت نے نکل کر پوری دنیا سے اپنی عظمت و سطوت کا لوہا منوالیا ، سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی رضی ا ﷲ عنہ نے علم حاصل کرکے دین کی تجدید کی، سیدناخواجہ معین ا لدین چشتی رضی ا ﷲ عنہ نے تربیت حاصل کرکے نوے لاکھ سے زائدغیر مسلموں کو مشرف با اسلام کیا ،امام رازی وغزالی جیسے نابغہء روزگار شخصیتیں معرض وجود میں آئیں ، مولانا روم نے علم حاصل کرکے مثنوی معنوی کے ذریعہ تصوف کی دنیا میں ایک ا نقلاب بپا کردیا،اسی مدر سے کے زیور علم و حکمت سے مزین ہو کر قائد انقلاب 1857ء مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی پیداہوئے اور انگریز کے خلاف سب سے پہلے ’’فتوی جہاد ‘‘دے کربرطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی راہ ہموار کی ،اس کی آغوش سے امام احمد رضا محدث بریلوی نے جنم لے کر ایک ہزار سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون پر تصنیف کرکے مذہب اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دی ، اسی کی خاک سے نشونما حاصل کرکے حافظ ملت علامہ عبد ا لعزیز محدث مرآدابادی نے الجامعۃ ا لاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑہ کی بنیاد رکھ کر ملت اسلامیہ کو ایک عظیم دینی ،علمی اور ملی قلعہ عطا کیا جس کے تعلیم یافتہ دینی درسگاہوں کے سوا عصری دانش گاہوں میں بھی اپنی منفرد شناخت رکھ کر مذہب و ملت کی خدمات میں لگے ہوئے ہیں ۔

وہ مدارس اسلامیہ جس کی آغوش کے تربیت یافتہ علما و صلحاء کی جماعت نے اپنے مؤثر دعوت و تبلیغ کی بدولت لاکھوں گم گشتگان ِ راہ کو ہدایت کا سامان فراہم کیا ، ان کے دلوں میں عشق رسالت مآب ﷺ کی شمع فروزی کی ،لاکھوں غیر مسلموں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے حق کی روشنی میں لاکھڑا کیا جس کی کوکھ سے علم و حکمت کے چشمے بہ کر مسلمانوں کے کشت ایمان کی آبیاری کرتے تھے، جہاں سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہونے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کا منھ توڑ جواب دیا جاتا تھا ،جہاں سے امت مسلمہ کی علمی ،ملی ،سیاسی ،سماجی اور اقتصادی مسائل میں رہنمائی کی جاتی تھی، جہاں اکتساب علم کی غرض سے اپنے اور بیگانے آنے پر مجبور تھے ۔

آج بڑے افسوس کے ساتھ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں دستار فرا غت دینے والے ان ہی مدارس اسلامیہ کی اکثریت اپنا مقصد وجوداور اپنی اہمیت و افادیت کھوتے جارہے ہیں، ماہ خیر و برکت ،رمضان ا لمبارک میں چندہ برائے دھندہ کے حصول کے لئے سال بھراپنی مفلسی کا سرعام پرچار کرتے ہیں اور اپنے عزت وقار کو پامال کرتے ہیں، شعبا ن المعظم کا مہینہ شروع ہوتے ہی پڑھائی لکھائی بر طرف ،’’صرف اور صرف قرآن خونی ہی قرآن خوانی ‘‘گویا کہ ماں باپ نے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے لئے مدرسہ میں نہیں بھیجا بلکہ صرف اور صرف قرآن خوانی ہی کے لئے وقف کیا ۔اور ابھی سے ہی ان میں جلب منفعت (حصول مال و زر )کا شوق پروان چڑھایا جاتا ہے ا س کا منفی اثر ہو ا کہ مدارس کے طلبہ کو تیجا، چالیسواں اور برسی کے موقع سے قرآن خوانی کے لئے یاد کیا جاتا ہے ، اور شعبان ا لمعظم کا مہینہ آتے ہی باقاعدہ پے درپے قرآن خوانی کا نا رکنے والا سلسلہ امڈ پڑتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ سال بھر کی ساری نیکیاں ایک دن میں حاصل کرلی جائیں گی، مدرسہ کی حیثیت نماز جنازہ پڑھانے اور نکاح خوانی کامسکن تصور کئے جانے سے بڑھ کر نہیں، قال ا ﷲ اور قال ا لرسول میں اپنی عمر کا بیشتر تعلیمی وقت صرف کرنے والے طلبہ مدارس سے متعلق عوام کا یہ ذہن بنا ہوا ہے کہ پڑھنے کے بعدان کو بھی رسید لے کر چندہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے وغیر ہ ۔اس سے قطع نظر کہ موجودہ فارغین کی اکثریت کس حد تک تعلیمی و تدریسی صلاحیتوں کی حامل ہے؟ اور قوم ملت کے دینی و ملی تقاضوں سے کس حد تک عہدہ برا ہو سکتی ہے؟ فارغ ہونے والے علما ، حفاظ و قرا کی اکثریت یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ بعد فراغت کسی مسجد کا امام یا کسی مدرسہ کا مدرس ہونا فرض ہے نہ مزید تعلیمی صلاحیتوں کے حصول کے لئے اعلیٰ تعلیمی ادارے کی جانب رخ کرنا ہے اور نہ ہی’’ کسب معاش ‘‘کے لئے دیگر جائز کام کاج یاتجارت وغیرہ کر نے کی سعی کرنی ہے ؟

ارباب مدارس ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ عوام ا لناس کے ساتھ ساتھ طلبہ مدارس کا یہ ذہن و فکرکس نے بنایا؟ کبھی ہم نے سوچا کہ آخر اس پسپائی کے اسباب و علل کیا ہیں ؟اس کے پس پشت وہ کون سے عناصر ہیں جو مدارس اور اس کے فارغین کی اہمیت کو تہ و بالا کررہے ہیں؟ آخر کل تک ہمارے علم و حکمت کے شادیانے بجتے تھے اور آج مسلمان کہلانے والے لوگ ہی مدارس کے طلبہ کو گری ہوئی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں ؟ کیا ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تعلیمی سال کے اخیر میں صرف بڑے بڑے پوسٹر چھپوانے اور ان پوسٹروں میں اپنانمایاں نام شائع کرنے سے مدارس کی اہمیت بڑھ جائے گی ؟ اگر ایسا خیال ہے تو ایں خیال است و محال است و جنوں۔ اس لئے ذیل میں ہم ا رباب مدارس اورقارئین کی خدمت میں مدارس اسلامیہ کی تنزلی کا محاسبہ پیش کرتے ہیں تاکہ ابھی سے ہم اس پر توجہ دیں اور تعلیمی سال کے شروع میں اسے نافذ کریں تو مدارس اور اس کے فارغین کی عظمت و رفعت اور اس کے اغراض و مقاصد ہم عوام کے سامنے دوباربحال کرسکیں گے اور اس کی عظمت رفتہ کی بازیابی ممکن ہوسکے گی ۔ کیوں کہ مقصود ہے اس بزم میں اصلاح مفاسد نشتر جولگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا۔

(1) مدرسہ کی انتظامیہ کو مدرسہ کو خود کفیل بنانے کے لئے خلوص و ﷲیت سے کوشش کرنا چاہئے تاکہ بے روک ٹوک اور بے لاگ دین کا کام کیا جاسکے ۔ (2) درس و تدریس کے دوران اساتذہ و طلبہ کو عشراور چندہ وغیرہ کی وصولی کے خاطر بھیجنے کے بجائے ان کو پورے طور سے تعلیمی امور میں مصروف رکھیں اور مدرسہ کی مالی ضروریات کی تکمیل کے لئے الگ سے شعبہ قائم کیا جائے۔ (3) مدرسہ کے قیام کا مقصد قوم و ملت کی تمام امور میں صحیح رہنمائی کے لئے عظیم داعی اور مبلغ پیدا کرنا نہ کہ سال بھر قرآن خوانی کرکے عید قرباں کے موقع سے چرم قربانی وصول کرنا ۔(4) مدارس کے نام پرقوموں سے چندہ اکٹھا کرکے ذاتی مصارف پر خرچ کرنے کے بجائے بچوں کی تعلیم و تربیت پر پورے طور سے خرچ کیا جائے۔ (5)سرکاری مدارس میں رشوت لے کر ’’نا اہل ‘‘ اساتذہ کا انتخاب کرنے کے بجائے با صلاحیت اساتذہ کی تقرری کی جائے۔ (5) اساتذہ اور طلبہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے وقتاً فوقتاًباہر سے وعظ و نصیحت کے لئے تجربہ کار افراد کو بلایا جائے۔ (6) چندہ وغیرہ حاصل کرنے کے لئے مدارس اسلامیہ کے اساتذہ و طلبہ کے مفلسی کا ماتم کرنے کے بجائے مدرسہ کی تعلیمی اور تعمیری سرگرمیوں نیزعلما اور طلبہ کی قدرو منزلت اور عصر حاضر میں علم دین کی ضرورت و اہمیت عوام کے سامنے رکھی جائی تاکہ لوگ خود مدرسہ کا تعاون کرنے میں فخر محسوس کریں ۔(7) مدرسہ کے طلبہ کو قرآن خوانی کے لئے باہر بھیجنے کے بجائے مدرسہ کے احاطہ میں بعد نماز فجر قرآن خوانی کا اہتمام کرنا چاہئے اور طلبہ کے باہر جانے سے ان کی تعلیم پر پڑنے والے منفی اثرات سے عوام کو آگاہ کیاجائے۔(8) طالبان علوم نبویہ کو یہ باور کرایا جائے کہ ان کا وجود مسعود قوم و ملت کی ررہنمائی کے لئے ہے تیجا ،چالیسواں اور برسی وغیرہ کھانے کے لئے نہیں ہے۔ (9) محنتی اور باصلاحیت اساتذہ کو ان کی حسن کار کردگی اور امتحان میں پہلی پوزیشن والے طالب علم کو سال میں کم از کم ایک مرتبہ انعام سے نواز کر حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔ (10) ماہر اساتذہ کے انتخاب میں اچھی تنخواہوں کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ پوریی دلجمعی کے ساتھ درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے کے اہل ہو سکیں (11) )بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے کر ان کی زندگی کو تابناک بنانے کی کوشش کی جائے اور حسب حال تمام امور میں ان کی مددکرکے انتظامیہ اور اساتذہ کے تئیں ان کا اعتماد بحال رکھا جائے ۔(12) ہر خطہ میں جامعہ (اس سے قطع نظر کہ آج ہر مکتب جامعہ کے نام سے جانا جا تا ہے )کھو ل کر’’دستار فضیلت‘‘ دینے کے بجائے جماعت خامسہ یا سادسہ تک ہی ٹھوس تعلیم دی جائے نیز فضیلت اور تخصص کے لئے ضلعی یاکم از کم ریاستی سطح پر اعلی مدارس کھولیں جائیں تاکہ طلبہ کے اندر نئے علمی ،مسابقتی ماحول میں مزید کچھ کرگزرنے کا جذبہ پیداہو ۔(14) عصری اسلوب تعلیم کی رعایت کرتے ہوئے درس نظامی اور اس میں رائج درسی کتابوں کو از سر نو مرتب کرکے تمام مدارس اپنے مدرسہ میں یکساں نصاب نافذ کریں تاکہ طلبہ ادھر ادھر گشت کرنے کے بجائے ایک ہی مدرسہ میں دلجمعی سے علم حاصل کرسکیں (واضح ہو کہ کل ہند تنظیم ا لمدارس جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے عصری اسلوب میں بڑی حد تک درس نظامی کا نصاب مرتب کیا ہے اور مجلس برکات مبارکپور نے آسان لب و لہجہ میں درسی کتابوں کی اشاعت کی ہے ) (15) زیر درس کتابوں کا بغور مطالعہ کرکے اساتذہ اور طلبہ کو داخل درس ہونا چاہئے اور طلبہ کے معقول اعتراض کی صورت میں ناک بھوں چڑھانے کے بجائے خندہ پیشانی سے جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کریں اور عدم علم کی صورت میں آئندہ جواب دینے کا وعدہ کریں (16) ارباب مدارس کو مدرسہ کے اصول و ضوابط پر پابندی سے عمل کرنا چاہئے اور درمیان سال کسی طالب علم کاداخلہ لینے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ طالب علم مدرسہ کی تعلیم اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھ سکے (17)فارغ طلبہ کو یہ بتایا جائے کہ کسی مسجد یا مدرسے میں رہے بغیر بھی دین و ملت کی خدمات انجام دی جاسکتی ہے اور کسب معاش کے لئے تجارت کرنا سید عالم ﷺ اور آپ کے اصحاب و دیگر بزرگان دین خصوصاً سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ کا طریقہ ہے جنہوں نے دین کا وہ بڑا کارنامہ انجام دیا کہ ان کے متبعین پوری دنیائے اسلام میں موجود ہیں اور اپنے آپ کو سنی ،حنفی کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

بلا شبہ جن ضروری باتوں کی جانب ارباب بست و کشاد کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے اس پر اگر ہم نے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر سنجیدگی سے غور کیا اور اس پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کی تو آج بھی ہمارے مدارس اور اس کے طلبہ کا تنزل پذیرتعلیمی اوار خلاقی معیار ترقی میں بدل جائے گا اور دنیا میں ایک بار پھر ہماری ہی تہذیب و تمدن کا غلغلہ بلند ہوگا اور دنیا اپھ پکار اٹھی گی۔
یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں
Muhammad Arif Hussain
About the Author: Muhammad Arif Hussain Read More Articles by Muhammad Arif Hussain: 32 Articles with 57527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.