حضور کریم صلی الله علیہ وسلم اور تخلیق کائنات

مرشدی قبلہ حضرت سید غلام حضور المعروف بابا جی شکرالله ۔۔۔۔ پ 1907 م1988۔۔۔۔۔ کے ذخیرہ کتب سے' جہاں مختلف موضوعات پر مجھ ناچیز کو کتب میسر آسکی ہیں' وہاں ان میں قلمی نسخے بھی ملے ہیں‘ جو انہیں‘ ان کے والد گرامی‘ یعنی مجھ فانی کے دادا جان‘ حضرت سید علی احمد ۔۔۔۔۔۔ م 1911۔۔۔۔۔۔۔ ولد سید عبدالرحمن اور ننھیال' جو ان کا سسرا بھی تھا' سے ورثہ میں ملے۔

حضرت سید علی احمد نوشہرہ' امرت سر کے رہائشی تھے۔ وہ عربی اور فارسی کے عالم فاضل تھے۔ ان کی دو بیویوں میں' چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں. سیدہ جنت بی بی سے' سید ملک' سید فلک شیر اور سیدہ کرامت بی بی' جب کہ سیدہ گوہر بی بی سے سید غلام غنی' سید غلام حضوراور سیدہ زینب بی بی تھیں۔ سید ملک' سید فلک شیر اور سیدہ کرامت بی بی کا کچھ حال معلوم نہیں۔ مرشدی حضرت سید غلام حضور تادم مرگ' ان کی تلاش میں رہے۔ راقم کو بھی' ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ ان کی آل اولاد سے ملاقات کی خواہش' روز اول کی طرح' آج بھی اپنی پہلی سی شدت رکھتی ہے۔

حضرت سید علی احمد کی وفات کے وقت' زینب بی بی سات برس' سید غلام غنی چھے برس' جب کہ سید غلام حضور چار برس کے تھے. زمین پہانڈے والے تھے۔ محمد اکبر فقیر' جو حضرت سید علی احمد کا خدمت گار تھا' نے دیکھ بھال کے بہانے' مائی گوہر بی بی ' زوجہ حضرت سید علی احمد ولد سید عبدالرحمن کو اعتماد میں لے لیا۔۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں' دہلیز کے اندر' جب کہ محمد اکبر فقیر گھر سے باہر کے امور انجام دینے لگا۔

مائی صاحب کے بچے چھوٹے تھے۔ انہوں نے محمد اکبر فقیر پر اعتماد کیا۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں سے' دو بیٹے' محمد امین اور قائم علی کو بھی' بیٹوں کی طرح سمجھا۔ محمد اکبر فقیر کی موت کے بعد' اس کے بڑے بیٹے محمد امین نے انتظام سمبھال لیا۔ بعد ازاں خود کو' حضرت سید علی احمد ولد سید عبدالرحمن کا وارث قرار دے کر' ہر چیز پر قبضہ جما لیا۔ خوش حال گھرانہ' دنوں میں مفلس ہو گیا۔ یہ ہی نہیں' محمد امین اور قائم علی' بدسلوکی سے کام لینے لگے۔ وہ ہی' جنہیں اولاد کی طرح سمجھا اور گھر داخل ہونے کی اجازت دی' جان کے دشمن بن گیے۔ مائی صاحب کے منہ سے آہیں نکل نکل گئیں۔ محمد امین کے ہاتھوں ایک قتل ہوا۔ جیلوں میں سڑا اور پھر' دماغی توازن کھو بیٹھا۔ سنگلوں سے باندھا گیا اوراسی حالت میں چل بسا۔

محمد امین کے دونوں بیٹے ولایوڑ نکلے' انہوں نے باپ کا ہتھیایا' سب اجاڑ دیا۔ محمد خالق فقیر ہو گیا' جب کہ ووسرے نے' گاؤں میں چھوٹی موٹی پرچون کی دوکان ڈال لی۔

قائم علی کی بیٹی تاج' اپنی ماں رقیاں کے قدموں پر تھی۔ اس کی بدچلنی کے ہاتھوں مجبور ہو کر' اس نے چھت پر سے چھلانگ لگا کر' خودکشی کر لی۔ حرف بہ حرف اسی طرح ہوا' جس طرح سے مائی گوہر بی بی نے دم دیتے وقت کہا تھا۔ زمین کا مال زمین پر ہی رہ گیا۔ محمد امین اور قائم علی دونوں' دنیا سے خالی ہاتھ چلے گیے۔ رقیاں کا عاشق سردار کرتار سنگھ' 1947 کے ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ محمد امین کے باپ کا ہڑپا ضائع ہو گیا' کچھ باقی نہ رہا۔

مرشدی حضرت سید غلام حضور کی شادی' ماموں زاد سیدہ سردار بیگم بنت سید برکت علی سے ہوئی۔ اس لیے دوسروں کی نسبت' ان کی ننھیال سے زیادہ قربت رہی۔ یہ گاؤں نگلی' امرت سر سے تعلق رکھتے تھے۔ سید گوہر علی اور سید برکت علی' دونوں بھائی علم دوست تھے۔ کھاتے پیٹے اور خوش حال لوگ تھے۔ دونوں بھائیوں کی' بتیس کھوہ زمین تھی۔ اولاد میں' دونوں کے پاس' صرف سیدہ سردار بیگم تھی۔ لاڈ پیار سے پلی بڑھی۔ یہ گھرانہ اہل تشیع تھا۔ ان کے ہاں' مجلسیں ہوتی رہتی تھیں۔ کتابوں اور قلمی نسخوں کے' انبار لگے ہوئے تھے۔ مرشدی حضرت سید غلام حضور 1929 یا 1931 میں' سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر' قصور اٹھ آئے۔ محنت مزدوری پیشہ بنایا' بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ لوگ دنیا کی اشیا ساتھ رکھتے ہیں' انہوں نے کتابوں اور کاغذوں کو سامان سفر و حیات بنایا۔

سید غلام غنی کو' کتابوں کاغذوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مرشدی قبلہ حضرت سید غلام حضور کتابوں کے عاشق تھے انہوں نے' ان بوسیدہ کاغذوں کو سینے سے لگا لیا۔ 1988 میں' ان کا انتقال ہوا' تو مائی صاحب سردار بیگم نے' اپنے خاوند حضرت سید غلام حضور کا' یہ اثاثہ سینے سے لگا لیا۔ 1996 میں' وہ بھی چل بسیں۔ ان کا بڑا بیٹا' سید منظور حسین' جو ہمیشہ سے' عورتوں کا شوقین رہا تھا۔ خان دان کی عورت کو طلاق دے کر' ایک نہیں' دو چلتی پھرتی عورتیں لے آیا تھا' مکان اور سامان پر قابض ہو گیا۔ اس سے چھوٹا' سید محبوب حسین اسی کا بگاڑا ہوا تھا' ردی سے دل چسپی نہ رکھتا تھا مکان اور سامان کے لیے بھاگا دوڑا لیکن شیر کے منہ سے' ایک لقمہ بھی نہ نکال سکا۔ پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ چوروں کو پڑے مور کے مصداق سید منظور حسین کے بڑے سے چھوٹے بیٹے' مطلوب حسین نے مکان پر قبضہ کر لیا۔ ذاتی مکان بھی زوجانی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سید منظور حسین کو قضا نے لے لیا اور یہ ضرب المثل' چوروں کو پڑے مور' موروں کو پڑیں قضائیں' منزل مقصود کو پہنچا۔ مکان اب بھی مطلوب حسین کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔

حضرت سید غلام حضور' اپنے سب سے چھوٹے بیٹے مقصود صفدر المعروف مقصود حسنی کو' کچھ چیزیں مرتے وقت دے گیے تھے۔ کچھ قبضے کے غدر کے دوران' دستیاب ہو گیئں' کچھ کوڑا سمجھ کر جلا دی گیئں. صاف اور جاندار کتابیں اور کاغذ ردی چڑھ گیئں۔ اس طرح' بابا جی حضرت سید غلام حضور کا کلام اور ان کی آواز بھرے کیسٹ بھی ضائع ہو گیے۔ حضرت سید غلام حضور کی شاعری پر مشتمل رجسٹر وغیرہ باطور نشانی' ان کی بڑی بیٹی فضال بیگم لے گئی۔ یہ چیزیں ان کے بیٹے شفقث رسول نے' اپنی دکان میں استعمال کر لیں۔ وقتی طور پر ان کے نصیب میں مٹھائی ہوئی اور پھر' سڑکوں پر گر' کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو گئیں

میرے پاس ان کا اپنا کلام رف بکھرے کاغذوں اور تین قصوں کی صورت میں موجود ہے۔ چوتھا قصہ دستیاب نہیں ہو رہا۔ کوشش میں ہوں ضرور کہیں ناکہیں سے مل جائے گا۔ قدیم کاغذات صاف ظاہر ہے 1911 یا اس سے پہلے کے ہیں۔ کچھ پر سن اور تاریخ درج نہیں۔ یہاں تک کہ مصنف کا نام بھی درج نہیں۔ کچھ بہت پرانے ہیں اور بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہ اردو پنجابی میں ہیں۔ ان میں سے ایک نہ اردو ہے اور نہ پنجابی ہے۔ اسے گلابی اردو یا گلابی پنجابی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ کاغذ کی حالت اچھی نہیں تاہم نہیں بآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کی عمر سو سال سے زیادہ ہے۔ مصنف کا کچھ پتا نہیں۔ یہ حضرت سید علی احمد کا ہینڈ راٹنگ بھی نہیں ہے۔

تحریر پر کوئی عنوان درج نہیں۔ مندرجات کے حوالہ سے' اسے۔۔۔۔۔ حضور کریم صلی الله علیہ وسلم اور تخلیق کائنات۔۔۔۔۔ عنوان دیا جا سکتا ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے لیے' مصنف نے گیارہ معروف' مستند اور متفق علیہ کتب مشکوتہ' قسطلانی' احمد' بزار' طبرانی' حاکم' بیہقی' حافظ ابن حجر' ابن حبان رحمہم الرحمان' فتوحات مکیہ' کتاب التشریفات کی ورق گردانی کی ہے' اس سے مصنف کی علمی اہلیت کا' باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مصنف نے' چند پنجابی کے لفظ تحریر میں داخل کرکے' پنجابی میں لکھنے کا غالبا تجربہ کیا ہے اور یہ تجربہ' کامیاب تجربہ نہیں ہے۔ دونوں زبانوں کا نحوی سیٹ اپ الگ تر ہے' لہجہ اور اسلوب مختلف ہیں۔ مصنف بھلے پنجابی رہا ہو گا' لیکن لکھنا اور بولنا قطعی الگ ہنر ہیں۔ تحریر بتاتی ہے' کہ اس کا لکھنے والا' بنیادی طور پر اردو میں لکھنے والا ہے۔

درج ذیل امور' تحریر میں نمایاں ہیں

1- ساری تحریر ایک ہی پیرے میں ہے۔ نئے پیرے کے لیے لفظ اور استعمال میں لایا گیا ہے۔
2- رموز کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نئے پوائنٹ کے لیے اور' جب کہ باقی کے لیے' محض سکتہ کا استعمال کیا گیا ہے۔
3- لفظ ملا کر لکھے گیے ہیں۔ یہ ہی طور مستعمل تھا۔
4- دو چشمی حے کے لیے' حے مقصورہ استعمال میں لائی گئی ہے۔
5- جس لفظ کے لیے' آج حے مقصورہ مستعمل ہے' اس کے لیے' دو چشمی حے استعمال کی گئی ہے۔
6- نون غنہ کی جگہ' نون استعمال میں لائی گئی ہے۔
7- تیار کو طیار لکھا جاتا تھا' اس تحریر میں بھی طیار ہی لکھا گیا ہے
8- ے کی بجائے ی استعمال کی گئی ہے۔ اس عہد میں یہ ہی عمومی چلن تھا۔

ترمیمی متن

اول ما خلق الله نوری۔
مشکوتہ' قسطلانی.' احمد' بزار' طبرانی' حاکم' بیہقی' حافظ ابن حجر' ابن حبان رحمہم الرحمان

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:
انی عندالله مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ و ساخبرکم باول امری دعوتہ ابراھیم وبشارتہ عیسی ورؤیا امی التی راءات حین وضعتنی وقدخرخرج لہا نورافاء لہامنہ قصور الشام
اور حضرت مولانا وسیددنا محی الدین بن عربی اپنی کتاب فتوحات مکیہ کے 6 باب کے خلقت کی پیدائش کے بیان میں لکھتے ہیں:
ہین فاکان مبتدالعالم بائزہ و اول ظاھر فی وجود
یعنی حضرت صلی الله علیہ وسلم تمام جہان کا شروع اور وجود اغی پیدایش میں ظاہر اول ہیں۔

کتاب التشریفات میں حضرت ابوھریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے' جو سرور کائنات صلےالله علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے پوچھا' عمر آپ کی کتنے برسوں کی ہے
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یا حبیب الله صلی الله علیہ وسلم مجھے برسوں کا حال کچھ معلوم نہیں اتنا حال معلوم ہے. جو چوتھی حجاب میں ایک ستارہ ستر ہزار برس سے ظاہر ہوتا ہے اور میں نے وہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔
فقال صلی الله علیہ وسلم یا جبرائیل وعزت ربی انا ذلک النجم۔

اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی اولیت یعنی سب پیدایش سے افضل ہوونا اور اصل اصول سب مخلوقات کا قرار پاونا اور اولویت اعنی سب سے بہتر ہونا اور افضل ہونا بہت احادیث مبارکہ و آثار شریفہ سے ثابت ہے اور حاصل ان سب کا یہ ہی ہے جو الله تبارک و تعالی نے آسمانان۔ زمینان اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر بلکہ تمام مخلوقات کی پیدایش سے پہلے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا پیدا فرمایا اور جہان کے میدان میں الله جل شانہ اس نور مبارک کی تربیت فرما دی۔

کبھی اس کو سجود خشوع آمود سے مامور فرماتے اور کبھی تسبیح و تقدیس میں مشغول رکھتے۔ اور اس پاک نور کی رہایش کے واسطے بہت پردے بنائے۔ ہر پردے میں بہت مدت تک خاص تسبیح کے ساتھ مشغول فرمایا۔

تمام پردوں والی جب مدت گزر گئی تب اس نور مبارک نے باہر رونق افزا ہو کے سانس لینا شروع فرمایا۔ ان متبرک سانسوں سے فرشتے' ارواح انبیا واولیا وصدیقین وسائرمؤمنین کو پیدا فرمایا۔ اور اس جوہر نور سے عرش' کرسی' لوح' قلم' بہشت' دوژخ اور اصول مادی آسمان و زمین اور سورج' چند ستارے' دریا' پہاڑ وغیرہ پیدا فرمائے. پھر زمین اور آسمان کو پھیلا کے سات سات طبقے بنائے اور ہر ایک طبقہ میں اک اک پیدایش کا مقام مقرر فرمایا۔

اور دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے' کہ جب اس نور مبارک الظہور نے سانس لینا شروع کیا۔ ان سانسوں سے' پیغبران علیہم الصحورت والا سلمہ من خالق البریہ اور اولیا' شہیدان' عارفان' عالمان' عابدان' زاھدان۔ اور عام مومنان کی ارواح پیدا ہوئے۔

پھر اس نور طاہر و طہور کو دس حصوں پر تقسیم فرمایا۔ اور دسویں حصہ سے' خدائے تبارک و تعالی نےاک جوہر بنایا' طول اور عرض جس کا اعنی لمبائی چوڑان' چار چار ہزار برس کا رستہ تھا. اس جوہر اعلے گوہر میں' رحمت کی اک نظر فرمائی۔ بسبب حیا' وہ جوہر مبارک کانپا اور ادھا پانی بن گیا اور ادھا اگ ہو گیا۔ اس پانی سے' دریا پیدا ہوئے اور ان دریاوں کی ٹھاٹھیں شروع ہو گئیں اور ان کی حرکت اور ھلنے کے سبب سے' ہوایں چلنا شروع ہو گئیں اور ان ہواو ں خلو اغی جگہیں مقرر ہوئیں اور زمین سے آسمان کی طرف' بارہ کوہان تک' ہوا کا مقام ہے اور اس اوپر زمہریر' دریا وغیرھما اور قریب آسمان کے' اگ کا کرہ موجود ہے اور پھر اگ کو پانی پر' غالب فرمایا اور پانی نے اگ کی گرمی کے سبب' جب جوش کھایا' تو اسی ( سے( جھاگ پیدا ہو گئی اور اس جھاگ سے زمین بنائی گئی' پھر اس جھاگ سے جو بخارات پیدا ہوئے' ان سے اصل مادہ آسمان کا بنا اور موجوں کے سمٹ جانے کے سبب 'پہاڑ پیدا ہوئے۔ زمین از تب لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔

زمین پر پانی کھڑا ہونے کے سبب' ہر وقت ہلتی تھی . الله تبارک وتعالی نے اس کی بےقراری دور کرنے کے واسطے' ان ٹھاٹھوں اور سمٹاو سے' پہاڑ پیدا فرما کے زمین پر قائم فرمائے
اور اک بجلی پہاڑوں میں پہنچی' اسے معادن یعنی کھانا پیدا ہوا اور جب لوہا پتھر سے ٹکرایا' اس سے چنگاڑی پیدا ہو کے' اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے' دوزخ کا مادہ طیارہوا۔

بعد ازاں' زمین کو پھیلایا۔ والارض بعد ذلک دجہہا تا کہ حیوانات' وحشی جانور اور درندے اور چوپائے' اس میں مقام کریں۔ پھر زمین کے سات طبقے بنائے اور ہر طبقے میں' الگ الگ مخلوقات کے مقام ٹھرائے اور اگ کے شعلوں سے' جنوں کو بنایا اور زمین پر ان کو مسلط فرمایا۔

بہشت کو' ستاویں آسمان پر بلندی بخشی اور دوزخ ستاویں زمین کے تلے' قائم فرمائی اور جن کی روشنی کے واسطے سورج' چاند اور ستارے چمکائے۔ فوائد نجوم۔ نور اور ظلمت کے مادوں سے' دن اور رات' پھر تمام پیدایش اور مخلوقات کو اپنے حبیب قریب پر قربان فرمایا۔
وافدیت لکی علیک یا محمد صلے الله علیہ وسلم

ترمیمی الفاظ اور حروف

سانس' کانپا' ساتھ
جب' تب' کبھی
میں' پر' اور
ان' جس' وہ
کا' کے' کی' کو
تھا' گئیں
تے' تی
ئیں' وں' یا' یں
ا' تھ' ں' و' ہ' ے

تحریر کا اصل متن

اول ما خلق الله نوری۔ مشکوتہ. قسطلانی. احمد. بزار۔ طبرانی۔ حاکم۔ بیہقی۔ حافظ ابن حجر۔ ابن حبان رحمہم الرحمان قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم انی عندالله مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ و ساخبرکم باول امری دعوتہ ابراھیم وبشارتہ عیسی ورؤیا امی التی راءات حین وضعتنی وقدخرخرج لہا نورافاء لہامنہ قصور الشام اور حضرت مولانا وسیددنا محی الدین بن عربی اپنی کتاب فتوحات مکیہ دی 6 باب وچ خلقت دی پیدائش دی بیان وچ لکہدے ہین فاکان مبتدالعالم بائزہ و اول ظاھر فی وجود یعنی حضرت صلی الله علیہ وسلم تمام جہان دا شروع اور وجود اغی پیدایش وچ ظاہر اول ہیں۔ کتاب التشریفات وچ حضرت ابوھریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے جو سرور کائنات صلےالله علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے پوچھیا عمر تہاڈی کتنے برسان دی ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیتا یا حبیب الله صلی الله علیہ وسلم مینوں برساندا حال کچھ معلوم نہیں اتنا حال معلوم ہے جو چوتہی حجاب وچ ایک ستارہ ستر ہزار برس توں پچھے ظاہر ہوندا ہے اور مینی اوہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکہیا ہے۔ فقال صلی الله علیہ وسلم یا جبرائیل وعزت ربی انا ذلک النجم۔۔۔۔۔۔۔۔اور آن حضرت صلی الله علیہ وسلم دی اولیت یعنی سب پیدایش سے افضل ہوونا اور اصل اصول سب مخلوقات دا قرار پاونا اتے اولویت اعنی سب سے بہتر ہونا اور افضل ہونا بہت احادیث مبارکہ و آثار شریفہ سے ثابت ہےاور حاصل انہاں سبناندا ایہو ہے جو الله تبارک و تعالی نے آسمانان۔ زمینان اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر بلکہ تمام مخلوقات دی پیدایش سے پہلے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آن حضرت صلی الله علیہ وسلم دا پیدا فرمایا اور جہان دے میدان وچ الله جل شانہ اس نور مبارک دی تربیت فرماندی۔ کدے اس نو سجود خشوع آمود سے مامور فرماندی اور کدے تسبیح و تقدیس وچ مشغول رکھدی۔ اور اس پاک نور دی رہایش دے واسطے بہت پردے بنائے۔ ہر پردے وچ بہت مدت تک خاص تسبیح دے نال مشغول فرمایا۔۔۔تمام پردیان والی جد مدت گزر گئی تد اس نور مبارک نے باہر رونق افزا ہو کے سانہہ لینا شروع فرمایا۔ انہاں متبرک سانہان وچوں فرشتے۔ ارواح انبیا واولیا۔ وصدیقین وسائرمؤمنین نو پیدا فرمایا۔ اور اس جوہر نور سے عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوژخ اور اصول مادی آسمان وزمین اور سورج۔ چند ستارے۔ دریا۔ پہاڑ وغیرہ پیدا فرمائے پھر زمین اور آسمان نو پھیلا کے ست ست طبقے بنائے اور ہر ایک طبقہ وچ اک اک پیدایش دا مقام مقرر فرمایا۔۔۔۔ اور دوسری روایت وچ اس طرح آیا ہے کہ جد اس نور مبارک الظہور نے سانس لینا شروع لینا شروع کیتا۔ انہان سانہان وچوں پیغبران علیہم الصحورت والا سلمہ من خالق البریہ اور اولیا۔ شہیدان عارفان۔ عالمان۔ عابدان۔ زاھدان۔ اور عام مومنان دی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور طاہر و طہور نو دس حصیاں پر تقسیم فرمایا۔ اور دسوین حصہ سے خدائے تبارک و تعالی نےاک جوہر بنا طول اور عرض جسدا اعنی لمبائی چوڑان چار چار ہزار برس دا رستہ سی اس جوھر اعلے گوھر وچ رحمت دی اک نظر فرمائی۔ بسبب حیا اہ جوھر مبارک کمبیا اور ادھا پانی بن گیا اور ادھا اگ ہو گیا۔ اس پانی سے دریا پیدا ہوئے اور انہان دریاوان دیان ٹھاٹھان شروع ہویاں اور انہاں دی حرکت اور ھلنے دے سبب سے ہواوان چلنیا شروع ہویان اور انہاں ہواون خلو اغی جگہان مقرر ہویاں اور زمین سے آسمان دی طرف باران کوہان تک ہوا دا مقام ہے اور اس اوپر زمہریر۔ دریا وغیرھما اور قریب آسمان دے اگ دا کرہ موجود ہے اورپھر اگ نو پانی پر غالب فرمایا اور پانی نے اگ دی گرمی دے سبب جد جوش کھادا تو اسی ( سے( جھگ پیدا ہو گئی اور اس جھگ سے زمین بنائی گئی پھر اس جھگ سے جو بخارات پیدا ہوئے انہان سے اصل مادہ آسمان دا بنیا اور موجان دے سمٹ جاندے سببوں پہاڑ پیدا ہوئے۔ زمین از تب لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پرپانی کھڑا ہوندے سبب ہر وقت ھلدی سی الله تبارک وتعالی نے اسدی بےقراری دور کرن واسطے انہان ٹھاٹھاندی اور سمٹاو سے پہاڑ پیدافرما کے زمین پر قائم فرمائے اور اک بجلی پہاڑان وچ پہنچی اسے معادن یعنی کھانا پیدا ہویان اور جد لوہا پتھر سے ٹکرایا اس سے چنگاڑی پیدا ہو کے اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے دوزخ کا مادہ طیارہوا۔ بعد ازاں زمین نو پھیلایا۔ والارض بعد ذلک دجہہا تا کہ حیوانات۔ وحشی جانور اور درندے اتے چوپائے اس وچ مقام کرن۔ پھر زمین دے ست طبقے بنائےاتے ہرطبقے وچ الگ الگ مخلوقات مقام ٹھرائےاور اگ دے شعلیان سے جنان نو بنایا اور زمین پر اہنان نو مسلط فرمایا۔ بہشت ستوین آسمان تے بلندی بخشی اور دوزخ ستوین زمین دے تلے قائم فرمائی اور جہان دی روشنی دے واسطے سورج۔ چند اور ستارے چمکائے۔ فوائد نجوم۔ نور اور ظلمت دے مادیاں سے دن اور رات پھر تمام پیدایش اتے مخلوقات نو اپنے حبیب قریب پر قربان فرمایا۔ وافدیت لکی علیک یا محمد صلے الله علیہ وسلم

آخری بات

اگر الله نے توفیق عطا فرمائی' تو دیگر قدیم و نایاب تحریریں بھی پیش کروں گا۔ یہ تحریریں بلاشبہ اردو کا سرمایہ ہیں۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 193531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.