مستقبل کے چمکتے ستارے

عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ آج کا بچہ کل جب بڑا ہوگا تو شاید کوئی رہنما یا لیڈر بن سکتا ہے، ملک کا باگ دوڑ سنبھال سکتا ہے، ملک کا ہونہار سپاہی، یا کسی ادارے کا اچھا کارکن ہوگا، کیونکہ بچے ہی مستقبل کے چمکتے ستارے ہوتے ہیں۔بلاشبہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے اور کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر والدین تو خاص توجہ دیتے ہی ہیں حکومت کی بھی خاص توجہ رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ حکومتی دعوے سرد خانے کی نذر ہوجاتے ہیں، کاغذوں میں تو تعلیمی پالیسی اور پلان خوب خوب بیان کیا جاتا ہے مگر اصل میں صورتحال بہت مختلف ہوتی ہے، خیر ہم تو مستقبل کے ستاروں کی بات کرتے ہیں: ہر ماں باپ اپنے بچوں کے کامیاب مستقبل کا خواہاں ہوتے ہیں، ہر باپ کو اپنے بڑھاپے کا سہارا بننے والے بچے انہیں ستارے نظر آتے ہیں۔ معصوم کلی ہر کسی کو پیاری لگتی ہے لیکن معصوم کلی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے کلی کی معصومیت پر فریفتہ ہوکر اس کی دیکھ بھال سے غافل ہوجانا اسے مسل دینے کے مترادف ہے۔آج بدقسمتی سے ہمارے مزاج میں نرینہ اولاد کی تمنا اوّلین خواہش بنتی جا رہی ہے۔ اگر ہم یہ نہ بھولے ہوتے کہ بیٹیوں کے وجود اور ان کی تعلیم و تربیت میں قوم کی احیاء کا راز مضمر ہے نیز ان کے حقوق کی کما حقہ ادائیگی پر سنائی گئی بشارت سے واقف ہوتے تو شاید ایسا مزاج ہرگز پیدا نہ ہوتا۔ غرض بچہ ہو یا بچی اسے صحیح تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس اہم ذمہ داری کو ہم کتنا نبھاتے ہیں اور کتنا بہانہ بنا کر اس سے جی چراتے ہیں یہ ہماری سوچ و فکر کی بالیدگی پر منحصر ہے۔ دن بدن بڑھتی مہنگائی سے پریشان حال عوام جہاں روز مرہ کے اخراجات کے تئیں فکر مند ہیں وہیں اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت سے ، جو مہنگائی سے کئی گنا زیادہ ہوتی جا رہی ہے ، کترانے اور گھبرانے لگے ہیں۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو کاشت کاری کر رہے ہوں یا پھر لگی بندھی تنخواہوں پر گزر بسر کر رہے ہوں ان کے لئے اپنی اولاد کی اعلیٰ تعلیم کے لئے سوچنا دل گردے کی بات ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ اولاد کو تعلیم سے آراستہ کرانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے لازمی طور پر ڈاکٹر یا انجیئنر ہی بنایا جائے۔ مگر کیا ہمارے ملک میں یہ سب حاصل کرنے کے بعد ان بچوں کو روزگار میسر ہے۔ شاید نہیں! شاید کیوں؟ حقیقت میں ہی روزگار میسر نہیں ہوتا اور اگر کسی محکمے میں نوکری ملنے کی امید بھی ہو تو وہاں رشوت طلب کیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ بچے جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان کے دل و دماغ میں کیا اثرات مرتب ہونگے اسے آپ محسوس کر سکتے ہیں۔خاص کر اُن ماں باپ کے دلوں سے پوچھیں جنہوں نے سب کچھ گنوا کر اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا کہ مستقبل میں اُن کا بچہ اچھی روزگار حاصل کر سکے گا ، لیکن اُن کے ہاتھوں میں ڈگری تو ہے مگر ارضِ وطن میں ان کے لئے اچھی نوکری نہیں ہے۔یعنی کہ یہ سب کچھ حاصل کرلینے کے بعد بھی ان کی زندگی میں گھنگھور اندھیرا ہی چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ماں باپ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو نماز، روزہ کی ہدایت، حلال و حرام کی تمیز، حقوق و معاملات اور فرائض و واجبات سے واقف کراتے ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی لاکھوں نوجوان نوکری کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ فی الفور ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرے اور وہ بھی صاف و شفاف طریقۂ کار کے ساتھ تاکہ متوسط طبقے کے بچوں کو بھی روزگار میسر ہو سکے۔امیر تو اپنے بچوں کو سفارش کے ذریعے، حکمران اپنے بل بوتے پر اپنے بچوں کو اچھی پوسٹیں دے دیتے ہیں مگر یہ متوسط طبقہ جو ملک میں سب سے زیادہ ہے وہ کیا کرے؟ نہ ہی ان کے پاس سفارش جیسی لعنت ہے، اور نہ اتنا پیسا کہ وہ اس کے بَل پر نوکری حاصل کر سکیں۔یہ ان نوجوانوں کی بڑی حق تلفی ہے کہ ماں باپ کی انتھک محنت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوکریوں کے لئے بھٹکتے رہیں۔لہٰذا ملک کے ان معصوم کلی کو اپنی خوشبو بکھیرنے دیں اور اسے مرجھانے نہ دیں۔ نیز اپنے مقصد کو پانے اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جہاں سب سے پہلے نیک نیتی کے ساتھ عزم مصمم کا پہاڑ بننا پڑتا ہے وہیں اولاد کی نفسیات کا نباض بن کر اس کی چاہت کا خیال کرتے ہوئے ناپسندیدگی کو اس پر تھوپنے سے بھی احتراز کرنا چاہیئے۔ انہیں محرومیوں سے بچانے کے لئے ملک بھر میں حکمرانوں کو روزگار کا بندوبست کرنا چاہیئے ۔

موجودہ ترقی یافتہ دور میں علم و تحقیق کی روشنی میں الکتاب کے متعلق جتنے بھی نظریات پیش کئے گئے ہیں ان سب کا مقصد یہی ہے کہ علم الکتاب کی حقیقت معلوم کرکے ایسے ذرائع دریافت کئے جائیں جن سے نوجوانوں کے علم میں اضافہ ہو اور انہیں آسانی کے ساتھ نوکری فراہم کیا جاسکے۔ مگر ہمارے ملک میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے نقشِ قدم پر چلنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔جس طرح صحیح تعلیم کے انتخاب کا انحصار والدین اور استاد پر ہوتا ہے اسی طرح حکمرانوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ آج کی نوجوان نسل کو سفارش، رشوت کے بغیر بلا تعطل نوکری فراہم کریں تاکہ ہماری آج کی نسل گمراہی سے بچی رہے۔ جو بچے آج بڑے ہو گئے ہیں اُن پر والدین اور اساتذہ کا قرض نہیں رہا کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے۔ اور اب حکومت کا کام ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری قدم اٹھائے اور اس لازمی مسئلے کا تدارک کرے۔

اگر تعلیم سب کے لئے ہے تونوکری بھی سب کے لئے ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے والدین کی خدمت اور ان کی دیکھ بھال کر سکیں۔ بغیر نوکری کے آج کا نوجوان بے راہ روی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسان نے ایک دم چاند پر قدم نہیں رکھ لیا بلکہ بتدریج ترقی کی۔ اور یہ ترقی کسی ایک سمت میں نہیں ہے بلکہ اس کے کئی پہلو کتابوں میں موجود ہیں۔ انسان نے سماجی حوالے سے ترقی کی اور اپنے لئے قوانین بنائے۔ اس نے معاشی حوالے سے ترقی کی تو سائنسی بنیادوں پر معیشت کا ڈھانچہ تعمیر کر ڈالا۔ اُس نے سیاسی حوالے سے ترقی کی تو حکومتوں اور سیاست کے ڈھانچے کی تشریح کی۔ یہ ساری ترقی انسان کی بے چین فطرت کی غمازی کرتی ہے۔ جو قومیں اپنی ترقی سے مطمئن نہیں ہوتیں وہ کبھی جمود کا شکار نہیں ہوتیں۔ یعنی حرکت میں کامیابی و کامرانی ہے۔ اس اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی عمل کے میدان میں ہم نے بھی حرکت کو ہی زندگی سمجھا ہے۔ تو پھر اسی حرکت کو برکت میں بدلنے کے لئے حکمران روزگار کیوں نہیں مہیا کر سکتی ہے؟ ملک کا خیال کیا جائے اور ملک کے ہونہاروں کے مستقبل کو مدِ نظر رکھا جائے تو اس مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ضرورت ہے تو صرف ایمانداری اور خلوصِ نیت کی۔ آج کسی اخبار میں نوکری کا اشتہار پڑھ لیں تو آپ دم بخود رہ جائیں گے کہ اُس میں تجربہ مانگا جاتا ہے ، والدین اپنے بچوں کو کسمپرسی جیسے حالات میں تعلیم تو دلوا سکتے ہیں مگر نوکری کے لئے تجربہ کہاں سے لائیں؟ تجربہ تو جب ہی ہوگا جب اسے نوکری دی جائے گی۔ کیونکہ تجربہ وقت کے ساتھ ساتھ ہی ملتا ہے۔ کوئی نوجوان ماں کے پیٹ سے تجربہ حاصل نہیں کر سکتا۔ یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے جس پر محنت اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.